Khaatir
اتوار، 10 دسمبر، 2023
مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ
جمعہ، 1 دسمبر، 2023
استاذ الاساتذہ حضرت مولانا محمد سلمان بجنوری نقشبندی: مختصر سوانحی خاکہ
استاذ الاساتذہ مولانا محمد سلمان بجنوری نقشبندی: مختصر سوانحی خاکہ
محمد روح الامین میُوربھنجی
دار العلوم دیوبند کے مایۂ ناز استاذ اور اپنے نور و معرفت سے ایک عالَم کو فیضیاب کرنے والے عالم مولانا محمد سلمان بجنوری نقشبندی مدظلہ العالی سے ہر صاحبِ علم و کمال واقف ہوگا، حضرت مولانا تیس سال سے دار العلوم دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں اور 1440ھ سے درجۂ علیا کے استاذ کی حیثیت سے خدمت انجام دے ہیں۔ اسی طرح ربیع الاول 1438ھ مطابق دسمبر 2016ء سے ماہنامہ دار العلوم دیوبند کے مدیر ہیں اور مئی 2022ء سے جمعیۃ علماء ہند (میم) کے نائب صدر ہیں۔ اب مولانا موصوف کا مختصر سوانحی خاکہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
ابتدائی و تعلیمی زندگی
مولانا موصوف 14 اپریل 1969ء کو قصبۂ سہسپور، ضلع بجنور، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ماجد مولانا سعید احمد قاسمی سہسپوریؒ، امام و خطیب جامع مسجد و عیدگاہ سہسپور و صدر مدرس مدرسہ باب العلوم سہسپور؛ شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کے فیض یافتہ تھے۔
مولانا موصوف کی تعلیم و تربیت میں ان کے والدِ بزرگوار کے علاوہ ان کی والدۂ ماجدہ کا بھی کردار رہا ہے، اسی کا نتیجہ تھا کہ موصوف محض سات سال اور تین ماہ کی کم عمری میں 14 جولائی 1976ء کو حفظِ قرآن کی دولت سے بہرہ ور ہو چکے تھے۔
انھوں نے قاعدۂ بغدادی و نورانی قاعدہ، ناظرہ و حفظِ قرآن سے لے کر سالِ اول و دوم عربی کی تمام نصابی کتابوں کی تعلیم اپنے والد محترم کے پاس حاصل کی۔ اس کے بعد سنہ 1401ھ میں ان کے والد نے ان کا داخلہ جامعہ اشرف العلوم رشیدی، گنگوہ میں کروا دیا، ابھی موصوف عربی ششم ہی میں زیر تعلیم تھے کہ 16 شعبان 1405ھ مطابق 7 مئی 1985ء کو سایۂ پدری سے محروم ہو گئے اور اپنے برادر کبیر مولانا محمد سفیان غانم قاسمی سہسپوری مدظلہ، امام و خطیب جامع مسجد و عیدگاہ سہسپور (جو اُسی سال دار العلوم دیوبند سے دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے تھے) کے زیر سرپرستی آ گئے۔ بہر حال موصوف نے جامعہ اشرف العلوم رشیدی میں سالِ سوم عربی سے دورۂ حدیث تک کی تعلیم حاصل کی اور 1407ھ بہ مطابق 1987ء کو دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے۔ ان کے اساتذۂ اشرف العلوم رشیدی میں مولانا قاری شریف احمد گنگوہیؒ (متوفی: 4 مئی 2005ء) بانی و سابق مہتمم جامعہ اشرف العلوم رشیدی، مولانا رئیس الدین بجنوریؒ (متوفی: 4 مارچ 2011ء)، سابق شیخ الحدیث جامعہ اشرف العلوم رشیدی مولانا وسیم احمد سنسارپوریؒ (متوفی: 11 اپریل 2020ء)، صاحبِ ”الحل المرضی“ مولانا محمد انور گنگوہی مدظلہ موجودہ شیخ الحدیث دار العلوم رشیدیہ گنگوہ اور مولانا محمد سلمان گنگوہی مدظلہ استاذ حدیث جامعہ اشرف العلوم رشیدی و مجازِ فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ شامل تھے۔
گنگوہ کے بعد مولانا موصوف ”نسبت قاسمیہ“ سے منسلک ہونے کے لیے دار العلوم دیوبند تشریف لائے اور وہاں داخلہ لے کر سنہ 1408ھ مطابق 1988ء میں دوبارہ دورۂ حدیث کے اساتذہ سے اکتسابِ فیض کیا اور امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی۔
ان کے دار العلوم دیوبند کے اساتذۂ دورۂ حدیث کے نام مع اسماۓ کتب درج ذیل ہیں:
صحیح بخاری (جلد اول): شیخ الحدیث مولانا نصیر احمد خان بلند شہریؒ
صحیح بخاری (جلد ثانی): مولانا عبد الحق اعظمیؒ
صحیح مسلم (جلد اول)، سنن ابو داؤد (جلد ثانی)، موطأ امام محمد: بحر العلوم مولانا نعمت اللّٰہ اعظمی
صحیح مسلم (جلد ثانی): علامہ قمر الدین احمد گورکھپوری
سنن ابو داؤد (جلد ثانی)، موطأ امام مالک: مولانا محمد حسین بہاریؒ
جامع ترمذی (جلد اول)، شرح معانی الآثار: مفتی سعید احمد پالن پوریؒ
جامع ترمذی (جلد ثانی): مولانا سید ارشد مدنی
سنن ابن ماجہ: مولانا ریاست علی ظفر بجنوریؒ
سنن نسائی: مولانا زبیر احمد دیوبندیؒ
شمائل ترمذی: مولانا عبد الخالق مدراسی
دار العلوم دیوبند سے دورۂ حدیث کے بعد شوال 1408ھ کو دار العلوم ہی کے تکمیلِ ادب عربی کے شعبہ میں داخلہ لیا اور دونوں امتحانات میں اول پوزیشن سے کامیابی حاصل کی۔ ان کے تکمیلِ ادب کے اساتذہ میں مولانا معراج الحق دیوبندیؒ، معلمِ عبقری مولانا وحید الزماں کیرانویؒ، مولانا قاری محمد عثمان منصور پوریؒ اور ادیبِ عصر مولانا نور عالم خلیل امینیؒ شامل تھے۔
مولانا موصوف نے ابتداءً اپنے والد سے، پھر حکیم ننھو میاں سے بہت کچھ سیکھا، پھر دیوبند کے زمانۂ طالب علمی میں حضرت مولانا ریاست علی ظفر بجنوریؒ سے ان کا تقریباً تیس سالہ تعلق رہا، جس درمیان انھوں نے مولانا ریاست علی صاحب سے خوب استفادہ کیا اور ان کے فکر و علم کا اثر مولانا کی شخصیت پر بھی پڑا۔ دیگر وہ شخصیات؛ جن سے مولانا قلبی یا فکری طور پر متاثر ہوئے؛ ان میں فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ، مولانا وحید الزماں کیرانویؒ، فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنیؒ، مولانا محمد منظور نعمانیؒ اور مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ شامل ہیں۔
تدریسی و عملی زندگی
دار العلوم دیوبند سے تکمیل ادب عربی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ذی قعدہ 1409ھ مطابق اواخر جون یا اوائل جولائی 1989ء کو دار العلوم ہی میں معین مدرس مقرر ہوئے اور دو سال معین مدرس رہنے کے بعد شوال 1411ھ تا شعبان 1412ھ (مطابق مئی 1991 تا فروری 1992ء) ایک سال مدرسہ فیضِ ہدایت رحیمی، رائے پور میں مدرس رہے۔ پھر شعبان 1412ھ میں مولانا موصوف کا تقرر جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد میں ہوگیا، جہاں انھوں نے شوال 1412ھ تا شعبان 1414ھ (مطابق جون 1992 تا جنوری 1994ء) دو سال تدریسی فرائض انجام دیے۔ اس وقت مدرسہ شاہی میں بَہ طورِ خاص تکمیلِ ادب عربی کا شعبہ ان سے منسلک رہا، ان کی تحریک پر مدرسہ شاہی میں عربی انجمن ”النادی الادبی“ کا قیام عمل میں آیا اور النادی سے نکلنے والے پندرہ روزہ جداریہ ”البلاغ“ کے نگراں بھی تھے۔
شعبان 1414ھ مطابق فروری 1994ء کو درجۂ علیا کے استاذ کی حیثیت سے دار العلوم دیوبند میں مولانا موصوف کا تقرر عمل میں آیا اور اس وقت سے اب تک تقریباً انتیس سال سے وہاں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں اور فی الحال سنن ابنِ ماجہ، مشکوۃ المصابیح، دیوانِ حماسہ اور سبعہ معلقہ جیسی کتابوں کے اسباق ان سے متعلق ہیں۔
مئی 2022ء کو مولانا موصوف جمعیت علمائے ہند (میم) کے نائب صدر منتخب ہوئے۔
”ماہنامہ دار العلوم“ کی ادارت
ربیع الاول 1438ھ مطابق دسمبر 2016ء سے مولانا موصوف ماہنامہ دار العلوم دیوبند کے مدیر ہیں اور اس وقت سے بحسن و خوبی یہ ذمے داری انجام دے رہے ہیں۔ ان سے پہلے ماہنامہ دار العلوم کے مدیر ابنِ حجر ثانی مولانا حبیب الرحمن قاسمی اعظمیؒ تھے۔
”دار العلوم دیوبند: حالات، خدمات، منصوبے“ کی ترتیب کے علاوہ ذیل میں ان کے زیر ادارت شائع ہونے والے ماہنامہ دار العلوم کے بعض خصوصی نمبر؛ یا ان شماروں کی تفصیلات ہیں، جس میں کسی شخصیت پر ایک سے زائد مضامین موجود ہیں:
• گوشۂ شیخ عبد الحق اعظمی (جلد: 101، شمارہ: 1–2، فروری 2017ء)
• گوشۂ مولانا کفیل احمد علوی (جلد: 101، شمارہ: 4، اپریل 2017ء)
• مولانا ریاست علی ظفر بجنوری نمبر (جلد: 101، شمارہ: 8–9، اگست – ستمبر 2017ء)
• گوشۂ مولانا محمد مصطفیٰ اعظمی (جلد: 102، شمارہ: 2، فروری 2018ء)
• گوشۂ خطیب الاسلام مولانا محمد سالم قاسمی (جلد: 102، شمارہ: 4، اپریل 2018ء)
• مقام و عظمت صحابہ نمبر (جلد: 102، شمارہ: 11–12، نومبر – دسمبر 2018ء)
• گوشۂ شارح ہدایہ مولانا جمیل احمد سکروڈی (جلد: 103، شمارہ: 5–6، مئی – جون 2019ء)
• گوشۂ پیر طریقت مولانا محمد طلحہ کاندھلوی (جلد: 103، شمارہ: 9، ستمبر 2019ء)
• گوشۂ شارح جلالین مولانا محمد جمال میرٹھی (جلد: 103، شمارہ: 10، اکتوبر 2019ء)
• گوشۂ مولانا برہان الدین سنبھلی (جلد: 104، شمارہ: 2 – 3، فروری – مارچ 2020ء)
• گوشۂ مولانا برہان الدین سنبھلی (جلد: 104، شمارہ: 2 – 3، فروری – مارچ 2020ء)
• ذکرِ سعید [مفتی سعید احمد پالن پوری نمبر] (جلد: 104، شمارہ: 6 – 7، جون – جولائی 2020ء)
• ذکرِ سعید [مفتی سعید احمد پالن پوری نمبر] (جلد: 104، شمارہ: 8 – 9، اگست – ستمبر 2020ء)
• مولانا نور عالم خلیل امینی نمبر (جلد: 105، شمارہ: 6 – 7، جون – جولائی 2021ء)
• مولانا حبیب الرحمن ثانی اعظمی نمبر (جلد: 105، شمارہ: 8، اگست 2021ء)
• مولانا حبیب الرحمن ثانی اعظمی نمبر (جلد: 105، شمارہ: 8، اگست 2021ء)
• امیر الہند رابع [قاری محمد عثمان منصور پوری] نمبر (جلد: 105، شمارہ: 9، ستمبر 2021ء)
• گوشہ ہاۓ مولانا عبد الخالق سنبھلی، قاری سید محمد عثمان منصور پوری، مولانا حبیب الرحمن اعظمی، مولانا نور عالم خلیل امینی (جلد: 105، شمارہ: 10، اکتوبر 2021ء)
بیعت و خلافت
گنگوہ کے زمانۂ تعلیم میں مولانا موصوف کو نبیرۂ حضرت گنگوہیؒ مولانا حکیم عبد الرشید محمود گنگوہیؒ (معروف بَہ حکیم ننھو میاں) سے خصوصی تعلق اور ان کا بھرپور اعتماد حاصل رہا تھا۔ نیز حکیم صاحب کی علمی مجالس کے حاضر باش بھی رہا کرتے تھے۔ بعد میں اپریل 2011ء کو جب مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی مدظلہ العالی دیوبند تشریف لائے، تو اس وقت ان کا قلبی رجحان پیر صاحب کی طرف ہوا اور وہ پیر صاحب سے منسوب ہوگئے اور ان سے سلوک کے منازل طے کرتے رہے؛ یہاں تک کہ اواخرِ رمضان 1434ھ مطابق اوائلِ اگست 2013ء کو زامبیا میں اعتکاف کے موقع پر مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی نے مولانا موصوف کو اجازتِ بیعت و خلافت سے نوازا۔ ماشاء اللّٰہ!! اِس وقت ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مولانا موصوف کے منتسبین و اہلِ ارادت موجود ہیں۔
اللّٰہ تعالیٰ مولانا موصوف کی عمر و صحت میں برکت عطا فرمائے اور ہمیں اور امت مسلمہ کو ان سے زیادہ سے زیادہ استفادے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین
جمعہ، 15 ستمبر، 2023
پروفیسر مولانا سید کفیل احمد قاسمی: مختصر سوانحی خاکہ
پروفیسر مولانا سید کفیل احمد قاسمی: مختصر سوانحی خاکہ
بدھ، 16 اگست، 2023
بلبل اڈیشا مناظر اسلام حضرت مولانا سید سراج الساجدین صاحب کٹکی قاسمیؒ (1939–2006ء): مختصر تذکرہ و سوانحی خاکہ
بلبل اڈیشا مناظر اسلام حضرت مولانا سید سراج الساجدین صاحب کٹکی قاسمیؒ (1939–2006ء): مختصر تذکرہ و سوانحی خاکہ
بدھ، 7 جون، 2023
بس کا ایک یادگار اور طویل تاریخی سفر
بس کا ایک یادگار اور طویل تاریخی سفر
📝 محمد روح الامین میوربھنجی
تاریخِ تحریر: 2 شوال المکرم 1441ھ م 2 مئی 2020ء بہ روز سنیچر
نظرِ ثانی: 29 رجب المرجب 1442ھ م 14 مارچ 2021ء بہ روز اتوار
تصحیح: 17 ذی قعدہ 1444ھ بہ مطابق 7 جون 2023ء بہ روز بدھ
(ماخذِ تصویر: دی اکانومک ٹائمز)جب ہندوستان میں بھی پوری دنیا کی طرح یکایک "لاک ڈاؤن" کا اعلان کر دیا گیا تو دوسرے مدارس کی طرح مادرِ علمی دار العلوم دیوبند میں طلبہ کو جلد تعطیل نہیں دی گئی؛ بلکہ انھیں یہ بتلایا گیا کہ "لاک ڈاؤن" کے ختم ہوتے ہوتے ہی بصورتِ تخفیف اُن کا امتحان لے کر انھیں رخصت دے دی جائے گی (اُس وقت ابتداءً چند دنوں کے لیے حکومت کی طرف سے "لاک ڈاؤن" کا اعلان آیا تھا)؛ لیکن جوں جوں دن بڑھتے گئے! حالات؛ نازک سے نازک تر ہوتے گئے؛ یہاں تک کہ حکومت کی دباؤ اور آرڈر کی بنا پر اربابِ دار العلوم نے امتحانِ سالانہ کے بعد عید الفطر مؤخر کیے جانے کا اعلان کیا (بعد میں وہ بھی منسوخ ہوگیا)۔ اب مسئلہ تھا طلبہ کے گھر جانے کا تو بعض اربابِ جمعیت علمائے سہارنپور (میم) کی کاوشوں سے قُرب و جوار کے طلبہ کو ان کے وطنِ عزیز روانہ کیا جانے لگا، اسی طرح سے اتر پردیش و اطراف کے تقریباً تین ہزار (3000) طلبہ اپنے گھروں تک پہنچ گئے، کبھی کوئی بغیر کسی دقت و پریشانی کے گھر پہنچتا تو کسی کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا۔ تقریباً دو ہزار (2000) دُور کے طلبہ جیسے ہندوستان کے مختلف صوبوں، ریاستوں اور بیرون ممالک کے طلبہ اپنے وطن نہ جا سکے اور دار العلوم کے اربابِ انتظام نے تقریباً دو مہینے یعنی رمضان المبارک کے اختتام تک ان کا بہت خیال رکھا (اور طلبۂ دار العلوم دیوبند کے علاوہ دیگر طلبہ کا جمعیت علمائے دیوبند (میم) نے بہت خیال رکھا) بس اتنا تھا کہ "کووِڈ-19" کی احتیاطی تدابیر کے پیشِ نظر؛ احاطۂ دار العلوم میں بھی بہت سی انتظامی و معاشرتی تبدیلیاں نظر آنے لگیں جیسے احاطے سے باہر نہ جانا، بھیڑ اکھٹے نہ کرنا اور دیگر بہت سی پابندیاں بھی طلبہ پر عائد کی گئیں، انھیں پابندیوں کے ساتھ ماہِ رمضان بھی گزرنے لگا، طلبہ اپنے حجروں میں؛ میدانوں میں؛ چھتوں پر کچھ افراد کے ساتھ تراویح میں قرآن سننے سنانے یا تنِ تنہا پڑھنے لگے۔
بندے نے بھی کچھ دن ایک کشمیری ساتھی کے ساتھ پھر اکیلے ہی تراویح میں قرآن ختم کیا۔ بالآخر "لاک ڈاؤن" کے تیسرے دَور میں دُور کے طلبہ کو بھی اپنے گھروں تک جانے کے آثار نظر آنے لگے کہ مختلف صوبوں کے اربابِ حکومت نے یہ اعلان کیا کہ حکومتی اجازت حاصل کرنے کے بعد؛ کوئی بھی اپنے وطن روانہ ہوسکتا ہے؛ البتہ اسے چند ایام (14 یا 21 یا 28 دن حسبِ فرمان) قرنطینے میں (معاشرہ سے الگ تھلگ) گزارنے ہوں گے، تبھی دیگر صوبوں؛ جیسے: تمل ناڈو، کرناٹک، مہاراشٹر، تلنگانہ، آندھرا پردیش، پنجاب، راجستھان، میگھالیہ، آسام اور بہار وغیرہ کی طرح؛ اڈیشا کے طلبہ کا بھی وطن روانہ ہونا طے پایا اور یکے بعد دیگرے دو بسیں؛ الگ الگ لوگوں کی محنتوں اور کاوشوں سے صوبہ اڈیشا کے لیے روانہ ہوئیں، پہلی بس کے انتظام میں پیش پیش مولانا محمد فہیم بنجھار پوری نظر آئے؛ جب کہ دوسری بس کے نظم میں مولانا محمد صدیق جاجپوری و مفتی محمد عباس صاحب آگے آگے نظر آئے۔ پہلی بس 26 رمضان المبارک 1441ء بہ مطابق 20 مئی 2020ء کو روانہ کر 29 رمضان بہ مطابق 23 مئی کو اڈیشا کی دار الحکومت "بھوبنیشور" پہنچی۔
دوسری بس اڈیشا سے پٹنہ، بہار آئی ہوئی تھی، اڈیشا سرکار سے 20 مئی کو 21 مئی کا پرمیشن (اجازت) ملتے ہی وہ بس؛ رات بارہ بجے کے بعد اتر پردیش کی سرحد پار کر گئی اور دن بھر چل کر بنارس ہوتے ہوئے؛ مرادآباد سے دو رفیقوں کو ساتھ لے کر اگلی رات تقریباً ڈھائی بجے دیوبند: دار العلوم کے احاطے میں (اعظمی میدان) پہنچ گئی اور اس بس کے مسافروں میں بندے کا نام بھی درج تھا۔
(ماخذِ تصویر: 91 ٹرکس)28 رمضان (1441ء) مطابق 22 مئی (2020ء) بہ وقتِ فجر؛ بس دیوبند سے روانہ ہوئی اور مظفر نگر، میرٹھ ہوکر آگرہ پہنچی اور آگرہ سے "آگرہ – لکھنؤ ایکسپریس" شاہراہ کے ذریعے؛ لکھنؤ کے لیے چل پڑی، لکھنؤ کے "ٹول گیٹ" (ٹول ناکہ) پر لکھنؤ کے معروف "واحد بریانی" والوں نے (اس شاہراہ سے آنے والے) مسافروں کے لیے افطار کا بہترین انتظام کر رکھا تھا، وہاں پر رفیقانِ سفر کو بھی افطار کے لیے مدعو کیا گیا اور سحری کے لیے بھی خاصا سامان ہمارے ساتھ کر دیا گیا؛ بالآخر بس روانہ ہوئی، لکھنؤ میں داخل ہوتے ہی دار العلوم ندوۃ العلماء میں زیرِ تعلیم اڈیشا کے ایک طالب علم کو ہم راہِ سفر کیا گیا، پھر بس؛ سلطان پور، گورکھپور ہوتے ہوئے بہار کی سرحد میں داخل ہوئی؛ یہاں تک کہ نالندہ، کوڈرما، ہزاری باغ، رانچی سے گزرکر آگے بڑھے۔ رات کے کھانے کے لیے کوئی ہوٹل یا ڈھابہ بھی نہیں مل رہا تھا، جب ہم اڈیشا کی بارڈر یعنی سرحد میں داخل ہونے کے لیے ضلع رانچی، جھارکھنڈ ”سُودے“ نامی گاؤں سے گذرے تو بڑبل، ضلع کیونجھر، اڈیشا کے ایک ساتھی مولانا محمد صادقین صاحب کے چاہنے والوں نے وہاں پر کھانے کا انتظام کر رکھا تھا، جب ہم اس گاؤں سے گزرے تو بس جناب خطیب صاحب کے مکان پر رُکی اور ہمارا والہانہ استقبال کیا گیا، نماز سے فارغ ہوئے، پھر سادے کھانے کا بہترین انتظام تھا، کھانے کے بعد دعا ہوئی، اس کے بعد ہم لوگ راورکیلا کے لیے روانہ ہوئے، وہاں یعنی راورکیلا میں (اسی رات) راورکیلا اور جھارسگوڈا کے بعض رفقا اتر گئے (بڑبل کے دو ساتھیوں: مولانا محمد صادقین اور مفتی محمد زاہد قاسمی کے چھوٹے بھائی مولانا محمد سالم قاسمی نے بھی خیر باد کہا) اور وہاں بھی سحری کے لیے ہمارے ہمراہ سامان دے دیا گیا اور پھر ہم پالاہڑا، بارکوٹ اور ڈھینکا نال کے راستے سے؛ 54 گھنٹے میں "منگولی چوک، کٹک" پہنچے، وہاں پر بعض اصحاب اتر گئے، جن میں بندہ بھی تھا، ایک بات لکھنا بھول گیا کہ جب ہم راستے میں تھے تو پہلی بس والوں (جو ہم سے قبل روانہ ہوکر ہم سے پہلے پہنچ چکے تھے) سے یہ اطلاع ملی کہ بہتر یہ ہے کہ طلبہ اپنے اپنے علاقوں میں (جن کا علاقہ راستہ میں پڑے) یا (اگر راستہ میں اپنا علاقہ نہ ہو تو) کم از کم بھوبنیشور سے پہلے ہی جو جہاں اتر سکے، اتر جائے اور سیدھے اپنے علاقے میں چلا جائے؛ کیوں کہ سب کو اپنے اپنے علاقوں میں "کورنٹائن" کیا جا رہا ہے (اور پہلے اطلاع ملی تھی کہ پہلے طلبہ بھوبنیشور پہنچیں گے، پھر وہاں سے چیک اَپ وغیرہ کے بعد اپنے علاقوں تک پہنچیں گے)، تبھی طلبہ اپنے اپنے علاقوں میں (اگر بس وہاں سے گزرتی) یا اپنے علاقوں کے قریب اترتے گئے، اس طرح بس؛ تقریباً 56 گھنٹے میں دیوبند سے کٹک ہوتے ہوئے بھوبنیشور پہنچی تھی۔
طلبہ اپنے اپنے علاقوں میں پہنچ کر "ہوم کورنٹائن" کر دیے گئے، بعض اپنے علاقے کے اسکولوں یا مدرسوں میں کورنٹائن کر دیے گئے، بندہ بھی کٹک شہر کے قریب؛ "منگولی چوک" میں دوندو شریف، ضلع میوربھنج کے ایک رفیق یعنی مولوی محمد سجاد قاسمی کے ساتھ؛ بس سے اترا اور بالو بیسی والے مولانا حکیم الاسلام قاسمی کے ماموں؛ حافظ سراج الاسلام اور (نعت گو شاعر) قاری عبد الرحمن صاحبان وہاں اپنی کار لیے موجود تھے (جو کہ کورونا جیسی وباء کے دور میں بھی تقریباً ڈھائی سو کیلومیٹر سفر کے لیے تیار ہوگئے تھے؛ اگرچہ اجارے پر ہی ان سے بات کی گئی تھی؛ مگر ان کی رضا مندی والد صاحب سے تعلقِ کے سبب سے تھا)، ہم جلد ہی وہاں سے اپنے علاقے کے لیے روانہ ہوگئے، راستے میں مولانا حکیم الاسلام قاسمی اور ان کے برادر حافظ امین الاسلام سے بھی دور سے یعنی دروازے کے آر پار سے ملاقات ہوئی (جو بہ ذریعہ پہلی بس؛ ہم سے پہلے پہنچ کر خود ایک اسکول میں کورنٹائن تھے)، پھر ہم آگے چل پڑے، مولوی محمد سجاد تو "کرنجیا" (جو کہ ہمارے گاؤں ”چڑئی بھول“ سے تقریباً 18 کیلومیٹر پہلے ایک چھوٹا سا شہر ہے) میں اتر گئے اور ہم لوگ میرے قریہ "چڑئی بھول" روانہ ہوگئے، وہاں پر سب سے پہلے مجھے اُس اسکول میں لے جایا گیا جہاں پر مسافروں کو قرنطینے میں رکھا جا رہا تھا، پھر وہاں سے مجھے تھوڑی دیر دُور ایک اسکول میں حاضری لکھوانے اور کچھ کار روائی کے لیے بھیجا گیا، وہاں کا ذمہ دار؛ پڑھا لکھا آدمی تھا، تھوڑی سی بات چیت کے بعد اسے سمجھ آگیا (کہ کس طرح احتیاط سے ہمیں دار العلوم دیوبند میں رکھا گیا اور کس احتیاط سے ہم گھر پہنچے اور یہ کہ میں دیوبند میں کووڈ کی جانچ کروا چکا ہوں) اور اس نے مجھے اپنے گاؤں کے اسکول میں بھیج دیا، پھر ہمارے گاؤں کے پردھان کی اجازت سے فوراً ہی مجھے اپنے گھر میں "ہوم کورنٹائن" کر دیا گیا، اور اس طرح الحمد للّٰہ بندہ 54 گھنٹہ بس، پھر ساڑھے چار گھنٹہ کار میں سفر کرکے تھوڑی دقت کے بعد اپنے گھر میں موجود تھا، بندہ نے شکرانہ ادا کیا اور اس کے بعد اپنے حجرے میں قرنطینے کے اوقات گزارتے ہوئے یہ تحریر لکھی تھی، گاؤں والوں کے لعن طعن کے ڈر سے (اور ان کی تحفظ کی خاطر) بندہ بھی اپنے کمرہ میں ایک طرح سے محبوس ہی تھا................ قرنطینے میں بندہ یہ محسوس کر رہا تھا کہ کس طرح مسلم برادران؛ جیلوں میں بند ہیں اور کتنی پریشانیاں انھیں جھیلنی پڑتی ہیں۔ اللّٰہ تعالٰی جیلوں میں محبوس تمام مسلم بھائیوں کی دست گیری فرمائے اور انھیں جلد آزاد فرمائے اور انھیں عزت و آبرو کی زندگی عطا فرمائے اور اس کے لیے محنت کرنے والوں کی بھی نصرت و اعانت فرمائے۔ آمین ثم آمین
پیر، 10 اپریل، 2023
مولانا مفتی عبد اللہ معروفی: مختصر سوانحی خاکہ
مولانا مفتی عبد اللہ معروفی: مختصر سوانحی خاکہ
محمد روح الامین میُوربھنجی
برصغیر پاک و ہند میں علوم حدیث کے تعلق سے تقریباً نصف صدی سے جو حضرات بے لوث خدمات انجام دے رہے ہیں، ان میں ایک نام مولانا مفتی عبد اللّٰہ معروفی حفظہ اللّٰہ کا ہے، جو تقریباً تیئس سال سے ایشیا کی عظیم درس گاہ دار العلوم دیوبند میں شعبۂ تخصص فی الحدیث کے استاذ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں اور گزشتہ ایک عرصے سے اس شعبے کے نگراں و صدر بھی ہیں اور دیگر فنون کے ساتھ ساتھ علم حدیث اور فن اسماء الرجال پر جن کو غیر معمولی دسترس اور گیرائی حاصل ہے (ماشاء اللّٰہ)۔ آج قارئین کے سامنے ان کا مختصر سوانحی خاکہ پیش کرتا ہوں۔
ابتدائی و تعلیمی زندگی
مولانا مفتی عبد اللہ بن عمر بن بشیر معروفی 1386ھ (بہ مطابق 1967ء) شمالی ہند کے صوبہ اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے قصبہ پورہ معروف (جو اب ضلع مئو میں آتا ہے) میں پیدا ہوئے۔
ان کی ابتدائی تعلیم کا مرحلہ مدرسہ اشاعت العلوم پورہ معروف میں طے ہوا، پھر انھوں نے 1978 تا 1982ء (بہ مطابق 1398 تا 1402ء) اپنے عم بزرگوار مولانا زین العابدین اعظمیؒ کے ایما پر مدرسۃ الاصلاح سرائے میر، اعظم گڑھ میں عربی اول تا چہارم کی تعلیم حاصل کی۔
پھر ان ہی کے حکم و مشورے سے دار العلوم دیوبند آگئے اور سنہ 1406ھ بہ مطابق 1986ء میں دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے اور اگلے سال 1987ء میں دار العلوم ہی سے افتا کیا۔
شعبان 1406ھ میں دورۂ حدیث سے فراغت کے بعد جب گھر گئے تو اپنے عم بزرگوار مولانا زین العابدین اعظمیؒ سے حجۃ اللّٰہ البالغۃ کے شروع کا بعض حصہ پڑھا۔
دورۂ حدیث شریف کے اساتذہ
ان کے اساتذۂ دورۂ حدیث کے نام مع اسمائے کتب درج ذیل ہیں:
صحیح بخاری (نصف اول): شیخ الحدیث مولانا نصیر احمد خان بلند شہریؒ
صحیح بخاری (نصف ثانی): مولانا عبد الحق اعظمیؒ
صحیح مسلم (نصف اول): مولانا نعمت اللّٰہ اعظمی
صحیح مسلم (نصف ثانی): علامہ قمر الدین احمد گورکھپوری
جامع ترمذی (نصف اول): مفتی سعید احمد پالن پوریؒ
جامع ترمذی (نصف ثانی کا اکثر حصہ): مولانا سید ارشد مدنی
جامع ترمذی (نصف ثانی کا بعض حصہ): مولانا معراج الحق دیوبندیؒ
سنن ابو داؤد (ایک معتد بہ حصہ): مولانا محمد حسین بہاریؒ
سنن نسائی (کتاب الطہارۃ، کتاب الصلاۃ): مولانا زبیر احمد دیوبندیؒ
موطأ امام مالک (نصاب میں داخل حصہ): مولانا محمد حسین بہاریؒ
موطأ امام محمد (نصاب میں داخل حصہ): مولانا نعمت اللّٰہ اعظمی
شمائل ترمذی: مولانا عبد الخالق مدراسی
سنن ابن ماجہ (مقدمہ، کتاب الطہارۃ): مولانا ریاست علی ظفر بجنوریؒ
شرح معانی الآثار (کتاب الطہارۃ، کتاب الصلاۃ): مفتی سعید احمد پالن پوریؒ
دیگر اسانیدِ حدیث
اساتذۂ دورۂ حدیث کے علاوہ انھیں مولانا محمد یونس جونپوریؒ کی طرف سے رسائلِ ثلاث یعنی ”الفضل المبین فی المسلسل من حدیث النبی الامین“، ”الدر الثمین فی مبشرات النبی الامین“ اور ”النوادر من احادیث سید الاوائل و الاواخر“ کی اجازت حاصل تھی۔
مولانا عاشق الٰہی بلند شہری/برنیؒ نے انھیں اپنی اُن تمام مسموعات اور مُجازاتِ احادیث کی اجازت دی جن کی تفصیل مولانا برنی نے ”العناقید الغالیہ“ میں تحریر فرمائی ہے۔
انھیں حکیم مولانا احمد حسن خاں ٹونکی نے بھی اپنی تمام مسموعات اور مجازات کے روایت کرنے کی اجازت عطا فرمائی ہے، جن میں ایک سند وہ بھی ہے جس میں وہ مولانا حیدر حسن خاں ٹونکیؒ، پھر میاں نذیر حسین دہلویؒ کے واسطے سے سیدھے شاہ اسحاق دہلویؒ تک پہنچ جاتے ہیں۔
اسی طرح انھیں ان کے عم بزرگوار مولانا زین العابدین معروفی/اعظمیؒ نے رسالۃ الاوائل لمحمد سعید بن سنبلؒ کی اجازت عطا فرمائی تھی۔
تدریسی و عملی زندگی
افتا سے فراغت کے بعد 1407ھ میں مدرسہ مطلع العلوم رامپور میں بحیثیت مدرس ان کا تقرر ہوا، پھر شوال 1408ھ بہ مطابق 1988ء میں جامعہ اسلامیہ ریوڑھی تالاب، بنارس میں بحیثیت مدرس ان کا تقرر ہوا اور انھوں نے تقریباً آٹھ سال وہاں پر تدریسی خدمات انجام دیں۔
پھر جب 1415ھ بہ مطابق 1995ء کو مظاہر علوم جدید سہارنپور میں شعبۂ تخصص فی الحدیث کا قیام عمل میں آیا تو پہلے سال تو مولانا زین العابدین اعظمیؒ نے اس شعبے میں تنہا تدریسی خدمات انجام دیں اور اگلے سال مفتی عبد اللہ معروفی مظاہر علوم سہارنپور کے شعبۂ تخصص فی الحدیث کے لیے بحیثیت مدرس و معاون منتخب کیے گئے اور اس وقت سے 1421ھ (بہ مطابق 2000ء) تک تقریباً پانچ سال اپنے عم محترم کے زیر سایہ رہ کر مظاہر علوم میں علم حدیث کی تدریسی خدمات انجام دیں اور اس وقت انھیں اپنے عم بزرگوار سے خوب استفادہ کا موقع ملا۔
1421ھ (بہ مطابق 2000ء) میں انھیں دار العلوم دیوبند کے شعبۂ تخصص فی الحدیث کے استاذ کی حیثیت سے مدعو کیا گیا اور 1440ھ میں درجۂ علیا میں ان کی ترقی ہوئی۔
مظاہر علوم جدید کے زمانۂ تدریس میں ”معرفۃ انواع علم الحدیث“ معروف بَہ ”مقدمۃ ابن الصلاح“ کی شرح و تحقیق ”تدریب الراوی“ ان کے زیر درس رہی، پھر ایک دو سال قبل تک دار العلوم دیوبند کے شعبۂ تخصص فی الحدیث میں اصل مقدمۂ ابن صلاح بھی بیس – پچیس سال ان کے زیر درس رہ چکی ہے۔
فی الحال (1444ھ بہ 2023ء میں) شعبۂ تخصص فی الحدیث کے دونوں سال کے طلبہ کی تدریس و تربیت کے ساتھ مقدمۂ شیخ عبد الحق، نزھۃ النظر شرح نخبۃ الفکر اور مشکاۃ المصابیح جیسی علم حدیث اور اصولِ حدیث کی کتابوں کے اسباق بھی ان سے متعلق ہیں۔ شعبۂ تخصص فی الحدیث کی نگرانی کے علاوہ اس شعبے کی ”الرفع و التکمیل فی الجرح و التعدیل“ اور دراسۃ المتون کے اسباق بھی ان سے منسلک ہیں۔ ہر موضوع؛ خصوصاً ”الحکم علی الحدیث“ کے تعلق سے شعبے کے طلبہ کی رہنمائی فرماتے اور ان کی مشق کرواتے ہیں۔ اسی طرح بحر العلوم مولانا نعمت اللہ اعظمی مد ظلہ العالی کی ”مدارس الرواة ومشاهير اساتذتها“ بھی ان کے زیر درس ہے۔
بیعت و خلافت
مدرسہ مطلع العلوم، رامپور، اتر پردیش کے قیام کے زمانے میں انھوں نے مرادآباد ہی میں مقیم مولانا عبد الجبار اعظمیؒ (1907–1989ء) خلیفہ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کے دست مبارک پر بیعت کر لیا تھا اور موصوف جب بنارس میں مدرس تھے تو 1409ھ (بہ مطابق 1988ء) میں مولانا عبد الجبار اعظمیؒ کا انتقال ہوگیا، ان کے انتقال کے بعد 1411ھ (بہ مطابق 1990ء) میں انھیں کے خلیفہ مولانا زین العابدین اعظمیؒ (1933–2013ء) سے مفتی صاحب نے تعلقِ سلوک و بیعت قائم کر لیا؛ مگر مفتی صاحب ان کی زندگی ہی میں اپنے عم محترم اور مولانا پیر محمد طلحہ کاندھلویؒ، جانشین مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کے باہمی مشورے سے پیر صاحب کی تربیت میں آ گئے اور پیر صاحب کی حیات تک ان کی توجہات سے مستفید ہوتے رہے۔
1421ھ میں مفتی صاحب جب دار العلوم دیوبند تشریف لے آئے تو اس کے ایک سال بعد یعنی 1422ھ میں پیر صاحب نے مفتی صاحب کو اجازتِ بیعت اور خلافت سے نوازا۔
خلوص و للہیت اور علم حدیث سے خاص شغف
مظاہر علوم جدید سہارنپور میں جب شعبۂ تخصص فی الحدیث کا قیام عمل میں آیا اور مولانا زین العابدین اعظمیؒ تنہا تدریس کا کام انجام دے رہے تھے تو معاون مدرس کے لیے مظاہر علوم جدید کے ناظم اعلیٰ مولانا محمد سلمان مظاہریؒ کی نظرِ انتخاب مفتی عبد اللہ معروفی پر پڑی، جو پہلے ہی سے علم حدیث سے خاص شغف رکھتے تھے اور آٹھ ہزار روپے کے مشاہرے کے ساتھ جامعہ اسلامیہ، بنارس میں استاذِ حدیث تھے۔ چناں چہ جب مولانا سلمان صاحب نے مفتی عبد اللہ معروفی صاحب کا نام لے کر کہا کہ انھیں بلایا لیا جائے تو مولانا زین العابدین اعظمیؒ نے مظاہر علوم جدید میں تنخواہ کی قلت کی بنا پر خود ہی سے شرم کی بنا پر معذرت کر لی کہ اپنے بھتیجے کو اعلیٰ تنخواہ کو چھوڑ کر ادنی تنخواہ کے لیے کیسے کہ سکتا ہوں؛ مگر کسی طرح اس واقعے کی خبر مفتی عبد اللہ معروفی صاحب کو پہنچ گئی اور انھوں نے اپنے عم بزرگوار (بڑے ابا) کو خط میں یہ لکھا: ”بڑے ابا جان کو معلوم ہو کہ ہم نے علم دین پیسہ حاصل کرنے کے لیے نہیں سیکھا ہے؛ بلکہ صرف دین کی خدمت کے لیے یہ علم حاصل کیا ہے اس لیے مولانا سلمان صاحب کی رائے کو تسلیم کر لینا چاہیے تھا، روپیہ پیسہ کا مالک اللہ ہے جس کو چاہے دے دے اور جس سے چاہے لے لے۔“ (دیکھیے: مجلہ سراج الاسلام، سراج نگر، چھپرہ، ضلع مئو کا ”مولانا زین العابدین معروفیؒ نمبر“)
یہ جواب سن کر مولانا زین العابدین صاحب کو اپنے عمل پر پشیمانی ہوئی اور اس کے بعد مفتی عبد اللہ صاحب کو شعبۂ تخصص فی الحدیث کے لیے مظاہر علوم بلا لیا گیا اور مفتی صاحب نے وہاں پر پانچ سال خدمات انجام دیں، پھر کیا تھا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے دار العلوم دیوبند کے شعبۂ تخصص فی الحدیث کے لیے قبول فرما لیا اور تقریباً پانچ سال مظاہر میں رہ کر 1421ھ میں وہ دار العلوم دیوبند بلا لیے گئے اور اس وقت سے آج تک تقریباً تئیس سال سے دار العلوم دیوبند میں علوم حدیث پر تدریسی، تحقیقی اور تصنیفی خدمات انجام دے رہے ہیں، جس کا اندازہ ان کی تصانیف اور ان کے تلامذہ سے لگایا جا سکتا ہے۔
قلمی و تصنیفی خدمات
انھوں نے اپنے تیس سالہ تدریسی عرصے کے درمیان علوم حدیث پر ایسی قلمی خدمات انجام دی ہیں، جو قابل رشک ہیں، نیز دیگر موضاعات پر کتابیں اور ان کے زیر نگرانی منظر عام پر آنے والے رسائل، کتب اور ہزاروں صفحات پر مشتمل ڈھیرں سارے مقالات مستقل ہیں۔
قلمی کارناموں میں مندرجۂ ذیل کتابیں شامل ہیں:
(1) العَرف الذکی شرح جامع ترمذی: جس کی پانچ جلدیں شائع ہو کر منظر عام پر آ چکی ہیں اور سترہ جلدوں کا کام ہو چکا ہے، ابواب التفسیر مکمل ہونے کو ہے، اس کے بعد صرف ابواب الدعوات اور ابواب المناقب باقی رہ جاتے ہیں اور اس طرح یہ عظیم الشان کام پایۂ تکمیل کو پہنچنے والا ہے۔ جس میں علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے افادات کی تسہیل و تحقیق، نیز حدیث پر ترمذی کے احکام کی تطبیق کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔
(2) تہذیب الدر المنضَّد فی شرح الادب المفرد – چار جلدوں میں یہ امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ کی ”کتاب الادب المفرد“ کی عربی شرح ہے۔
(3) مقدمۃ الدر المنضَّد – یہ ایک مستقل کتاب ہے، جس میں سندِ حدیث پر حکم لگانے میں لوگوں کی بے راہ روی کا تذکرہ کیا گیا اور احادیث پر حکم لگانے کا آسان، محفوظ اور معتدل طریقہ بیان کیا گیا ہے۔
(4) حدیث اور فہم حدیث – یہ ایک ایسی کتاب ہے، جس میں علم حدیث کی نہایت قیمتی اور گُر کی باتوں کو آسان اور مرتب انداز میں بیان کر دیا گیا ہے۔
(5) فضائل اعمال پر اعتراضات: ایک اصولی جائزہ (اردو؛ جس کے عربی، انگریزی اور بنگلہ میں بھی ترجمے کیے جا چکے ہیں۔)
(6) غیر مقلدیت: اسباب و تدارک
(6) جواب الرسالۃ – جس میں انھوں نے اپنی کتاب مقدمۃ الدر المنضّد میں "بیان کیے گئے احادیث پر حکم لگانے کے معتدل منہج" پر معروف عالم دین شیخ محمد عوامہ حفظہ اللّٰہ کے نقد و جرح کا تفصیلی جائزہ لیا ہے، جو تقریباً ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل ہے۔
(7) العَرف الفیّاح فی شرح مقدمۃ ابن الصلاح – ان کے دروسِ مقدمۃ ابن الصلاح کو مولانا مشاہد الاسلام امروہی، فاضل شعبۂ تخصص فی الحدیث دار العلوم دیوبند نے جمع فرمایا تھا، جس کو مفتی صاحب نے تنقیح و مراجعت اور حذف و اضافہ جیسے امور کے بعد شائع فرمایا، جو 600 سے زائد صفحات پر مشتمل ایک جلد میں دستیاب ہے۔
ان کے علاوہ ان کے زیر نگرانی انجام پانے والی علمی و تحقیقی کارناموں میں مندرجۂ ذیل کتب شامل ہیں:
(1) الحديث الحسن فی جامع الترمذی (دراسۃ و تطبیق؛ 700 صفحات پر مشتمل ایک جلد)
(2) حسن صحيح فی جامع الترمذی (دراسۃ و تطبیق، تین جلدیں)
(3) حسن غريب فی جامع الترمذی (دراسۃ و تطبیق، دو جلدیں)
(4) حدیث غريب فی جامع الترمذی (دراسۃ و تطبیق، 700 صفحات پر مشتمل ایک جلد)
ان کی بعض کتابیں تو ہندوستان کے علاوہ بیرون ملک جیسے پاکستان سے بھی شائع ہو چکی ہیں۔ بندہ کے علم کے مطابق مولانا مفتی عبد الرؤف غزنوی (خلیفہ فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ و استاذ حدیث جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن، کراچی، پاکستان) نے مولانا موصوف کی دو کتابیں ”حدیث اور فہم حدیث “ اور ”العرف الفیاح فی شرح مقدمۃ ابن الصلاح“ کو اپنے کتب خانہ مکتبہ غزنوی، کراچی سے شائع فرمائی ہیں۔
اللّٰہ تعالی موصوف کی عمر و صحت میں خوب برکت عطا فرمائے اور ہمیں اور امت مسلمہ کو ان کے علوم سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین
پیر، 16 جنوری، 2023
علم الصیغہ کا عربی ترجمہ
علم الصیغہ کا عربی ترجمہ
جمعہ، 16 دسمبر، 2022
اسلام کا تصور سیاست اور عصر حاضر میں اس کی معنویت
اسلام کا تصور سیاست اور عصر حاضر میں اس کی معنویت
مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ
مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ محمد روح الامین میوربھنجی مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی سرزمینِ بہا...
-
بلبل اڈیشا مناظر اسلام حضرت مولانا سید سراج الساجدین صاحب کٹکی قاسمیؒ (1939–2006ء): مختصر تذکرہ و سوانحی خاکہ محمد روح الامین میُوربھنجی ...
-
پروفیسر مولانا سید کفیل احمد قاسمی: مختصر سوانحی خاکہ محمد روح الامین میُوربھنجی مشرقی ہند میں واقع اڈیشا جیسے دور دراز صوبے ...
-
پھوپھا حضرت مولانا محمد شیث صاحب غازی بوکاروی رحمۃ اللّٰہ علیہ (1956ء - 2022ء) محمد روح الامین میُوربھنجی ہر انسان کی زندگی میں کچھ لوگ ...