اتوار، 18 ستمبر، 2022

پروفیسر ظفر احمد نظامی اور ”قلمی خاکے“

پروفیسر ظفر احمد نظامی اور ”قلمی خاکے“


کتاب: قلمی خاکے (مشہور شخصیات کا جامع تعارف)
مصنف: پروفیسر ظفر احمد نظامی
مرتبہ: ڈاکٹر شمع افروز زیدی
صفحات: 264
ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز، جوگا بائی، نئی دہلی
تبصرہ نگار: محمد روح الامین میُوربھنجی

       ”قلمی خاکے“ کے نام سے تصویر میں نظر آ رہی تصنیفِ لطیف اسلوبِ نگارش میں عمدہ، حسن تعبیر کا شاہکار اور اردو ادب کے حسن کا آئینہ دار ہے، جو پروفیسر ظفر احمد نظامی کے قلمی خاکوں کا مجموعہ ہے اور ڈاکٹر شمع افروز زیدی مدیر ماہنامہ بیسویں صدی دہلی کا مرتب کیا ہوا ہے۔ 

      پروفیسر نظامی کا تعلق سیاسیات سے تھا، وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر تھے؛ مگر انھوں نے دیگر خدمات کے ساتھ ساتھ تاریخ میں بھی نمایاں خدمات انجام دی ہیں، ان کے اسلوبِ نگارش کا کیا کہیے!! وہ صاحب کمال ہیں، خود میں اک مثال ہیں۔

      خاکہ نگار کا تعارف
     پروفیسر نظامی کے والد حکیم جمیل احمد شیرکوٹ، ضلع بجنور سے تعلق رکھتے تھے، انھوں نے طبیہ کالج، دہلی سے سندِ طب حاصل کرکے اپنے وطن مالوف کو خیر باد کہ کر پرتاپ گڑھ، راجستھان کو وطن اقامت بنا لیا تھا، جہاں پر 25 نومبر 1939ء کو پروفیسر ظفر احمد نظامی پیدا ہوئے، میرٹھ میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج، رتلام سے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ میں کامیابی حاصل کی، پھر 1959ء کو ہولکر کالج اندور سے انگریزی ادب میں ایم اے اور 1961ء کو سیاسیات میں اعزازی نمبرات کے ساتھ ڈبل ایم اے کیا، اس کے بعد ”ہندوستانی سیاست میں قوم پرست مسلمانوں کا حصہ“ کے موضوع پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری سے سرفراز ہوئے۔ 1960ء سے دتیا، اندور، شیوپوری، رتلام اور جاورہ جیسے مختلف مقامات میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ پہلے تدریس کا آغاز اسکول سے شروع کیا، پھر لیکچرر اور ریڈر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز (آئی او ایس)، جوگابائی، جامعہ نگر، نئی دہلی کے اکیڈمک ڈائریکٹر بھی رہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اکیڈمک اسٹاف کالج کے ڈائریکٹر اور 30 سال شعبۂ سیاسیات میں پروفیسر کے عہدے پر متمکن رہنے کے بعد 2001ء میں صدر کے عہدے سے سبکدوش ہوتے ہوئے وظیفہ یاب ہوئے۔ پروفیسر نظامی 23 اپریل 2009ء کو اس دار فانی سے رخصت ہوگئے۔ نظامی اپنی ذمہ داری بخوبی نبھانے والے، خوش اخلاق اور نماز کے پابند تھے۔ نظامی استاذ و پروفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر، مصنف اور ایک افسانہ نگار بھی تھے۔ وہ بہترین افسانے/ کہانیاں لکھتے تھے، ان کی کہانیاں ماہنامہ بیسویں صدی دہلی، روبی دہلی اور شمع دہلی کی زینتِ مسلسل بنا کرتی تھیں۔ ان کی کہانیوں میں آٹو گراف، انتظار، اپریل فول، منزل سے آگے، الجھن، ہم سفر، لٹیرے، مس جوزیفائن، جوائننگ رپورٹ، تاج محل اور بند پیکٹ شامل ہیں۔ 

   پروفیسر نظامی کے قلمی کارناموں میں معمارانِ جامعہ، ہندوستان کے چند سیاسی رہنما، مولانا آزاد کی کہانی، شاہ ولی اللّٰہ: حیات و افکار، تاریخ ہند: عہدِ جدید، بلڈرز آف ماڈرن انڈیا: حکیم اجمل خاں، ڈاکٹر ذاکر حسین: اَ پکٹوریل بایوگرافی، جماعت اسلامی: اسپیئر ہیڈ آف سیپریٹیزم اور آزادی ہند کی جدوجہد میں مسلمانوں کا کردار شامل ہیں۔

     ”قلمی خاکے“
   1990ء تا 2006ء قلمی چہرہ کے عنوان سے مختلف شخصیات پر ماہنامہ بیسویں صدی دہلی میں پروفیسر نظامی کے تحریر کردہ خاکے شائع ہوا کرتے تھے، جن میں سے انہتر (69) شعرا و ادبا اور پچاس (50) دانشوران اور سیاسی و سماجی شخصیات پر شائع شدہ خاکوں کو ڈاکٹر شمع افروز زیدی نے ”قلمی خاکے“ کے عنوان سے مرتب کیا، اس طرح ماہنامہ بیسویں صدی میں شائع 115 خاکے اس کتاب میں شامل ہیں اور وہ کتاب 2013ء کو آئی او ایس، جوگا بائی، جامعہ نگر، نئی دہلی سے شائع ہوئی۔ ڈاکٹر شمع افروز زیدی ”قلمی خاکے“ کے آغاز میں پروفیسر نظامی کے خاکوں کے بارے میں لکھتی ہیں: ”یہ تمام خاکے مسجّع و مقفّٰی عبارت کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ نظامی صاحب نے یہ ایسا تخلیقی کام کیا ہے جو ان کی واضح پہچان قائم کرنے میں معاون ہے۔“

     ایک بات قابل ذکر ہے کہ اس کتاب میں ”بیسویں صدی“ میں شائع خاکوں کے علاوہ آئی او ایس کی جانب سے دیے جانے والے شاہ ولی اللّٰہ ایوارڈ کے موقع پر قاضی مجاہد الاسلام قاسمی، پروفیسر نجات اللہ صدیقی، مولانا محمد شہاب الدین ندوی اور پروفیسر یٰسین مظہر صدیقی پر نظامی کے لکھے گئے خاکے بھی شامل ہیں، جن کو لے کر یہ کتاب کل 119 خاکوں پر مشتمل کہلاتی ہے۔ 

     زیر نظر کتاب میں شامل آخری خاکے کا مختصر حصہ بطور مثال پڑھا جا سکتا ہے: ”کتابی چہرا، آنکھوں پر پہرا۔ چوڑی پیشانی، علمیت کی کہانی۔ بڑے بڑے کان، دانشمندی کی داستان۔ سر پر برف جیسے بال، ذہن محوِ خیال۔ یہ ہیں نامور ادیب، دین اسلام کے نقیب۔ ممتاز دانشور، علوم اسلامی کے پروفیسر۔ مشہور مورخ اسلام، مقبولِ خاص و عام۔ صاحبِ تصنیفاتِ اسلامی، حاملِ شخصیتِ نامی و گرامی۔ مجسمۂ صدق و لطافت، پیکرِ حق و شرافت۔ مردِ میدانِ کارِ تحقیقی یعنی پروفیسر یٰسین مظہر صدیقی!!“

    مذکورۂ بالا عبارت سے نظامی کی جادو بیانی اور البیلا و سماں باندھتا اندازِ نگارش دیکھا جا سکتا ہے۔ پروفیسر نظامی کی یہ کتاب ”قلمی خاکے“ نثر نگاروں اور خاکہ نگاروں کے لیے انمول تحفہ ہے۔ اسے پڑھنے سے لکھنے کا ذوق پیدا ہوتا ہے، خصوصاً میرے جیسے نئے مضمون نگاروں کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔

    ”قلمی خاکے“ میں پروفیسر آل احمد سرور، پروفیسر جگن ناتھ آزاد، پروفیسر اختر الواسع، ڈاکٹر بشیر بدر،خواجہ احمد فاروقی، بیکل اتساہی، پروفیسر شمس الرحمن فاروقی، پروفیسر شمیم حنفی جیسے شعرا و ادبا اور ڈاکٹر منموہن سنگھ، ڈاکٹر غلام نبی آزاد، سونیا گاندھی، جے للتا، ملائم سنگھ یادو جیسی سیاسی شخصیات کے خاکے ہیں تو وہیں قاضی مجاہد الاسلام قاسمی، مولانا محمد شہاب الدین ندوی، پروفیسر محمد نجات اللہ صدیقی اور پرفیسر یسین مظہر صدیقی جیسے علماء کے بھی خاکے شامل ہیں۔
 
    قاضی عبید الرحمن ہاشمی نے اس کتاب پر مقدمہ لکھا ہے، جس میں انھوں نے فن خاکہ نگاری کے آئینے میں پروفیسر ظفر احمد نظامی کے خاکوں کا جائزہ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے: ”ظفر احمد نظامی کا شمار ہمارے Main Stream اردو ادیبوں میں نہیں ہوتا....... تاہم ان کے خاکوں کی یہ خوبی ضرور ہے کہ ان میں فراہم کردہ اطلاعات، مواد اور حقائق کے استناد سے انکار کی جرأت نہیں ہو سکتی..... ظفر احمد نظامی اپنے خاکوں سے کسی بڑی خدمت کے لیے راہ ہموار کرنے کے بجائے فوری مسرت اور سرخوشی کا ماحول پیدا کرنا چاہتے تھے، جس میں وہ یقیناً پوری طرح کامیاب ہیں“۔
     مرتبہ کا مختصر تعارف
    ڈاکٹر شمع افروز زیدی ایم اے و پی ایچ ڈی کی ڈگری یافتہ صحافی، بیسویں صدی، روبی، شمع، آنگن اور گلفشاں جیسے رسالوں کی مدیرہ؛ بچوں کا ماہنامہ امنگ، اردو دنیا اور فکر و تحقیق جیسے رسالوں کی نائب مدیرہ اور اردو ناول میں طنز و مزاح (1987ء)، فکر تونسوی: حیات اور کارنامے (1989ء)، گلدستہ کلام شعرا (1990ء)، اردو ادب اور جدیدیت (1997ء)، فن کے آئینے میں (2003ء)، اردو صحافت کا نیر تاباں (2013ء)، تنقیدی دریچے (2013ء)، قلمی خاکے (2013ء) اور رحمان نیر اپنی تحریروں کے آئینے میں (2015ء) جیسی کتابوں کی مصنفہ ہیں۔

نوٹ: اس کتاب کو پڑھ کر بندہ بہت خوش ہوا، پھر پروفیسر نظامی کے بارے میں پڑھتا گیا اور ان کے حالات کو اپنے انداز میں لکھتا گیا، اس کے بعد جب مضمون تقریباً مکمل ہو چکا تھا تو گوگل پر ”کتاب - قلمی خاکے - مشہور شخصیات کا جامع تعارف“ کے نام سے سہیل انجم نامی صاحب کا ایک مضمون پڑھا، اخیر میں اس سے بھی کچھ استفادہ کیا؛ لیکن میرا یہ مضمون سہیل انجم کے مضمون سے کاپی پیسٹ کیا ہوا نہیں ہے۔

     اللّٰہ پروفیسر نظامی مرحوم کی مغفرت فرمائے، ان کی خدمات کو قبول فرمائے، مرتبہ کو بھی اجر جزیل عطا فرمائے اور ہم جیسے لوگوں کو علمی و ادبی خدمات کے لیے قبول فرمائے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ

مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ محمد روح الامین میوربھنجی       مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی سرزمینِ بہا...