قیام دار العلوم دیوبند اور پہلے طالب علم سے متعلق مواد

قیام دار العلوم دیوبند اور پہلے طالب علم سے متعلق مواد

مرتب: محمد روح الامین میُوربھنجی

سوانح قاسمی میں مولانا گیلانی نے تنہا حضرت نانوتوی کو بہ حیثیت بانی دارالعلوم یا اصل بانی دارالعلوم پیش کرنے کے کے سلسلے کی توجیہات کو خود تراشیدہ مفروضہ قرار دیا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ بیسویں صدی کے اواخر میں حضرت نانوتوی کو مستقل بانی دارالعلوم کہنے کا رجحان ہوا ہے اور انصاف تو یہ ہے کہ حاجی عابد حسین صاحب اور ان کے رفقا میں حضرت نانوتوی کا تذکرہ بہ حیثیت بانی کیا جائے؛ ناکہ مستقل انھیں ہی بانی کہا جائے۔ (ذیل میں پیش کی گئیں قدیم و جدید عبارات کو ملاحظہ فرمائیں اور خود ہی معتدلانہ رائے اختیار کریں۔)

الهدية السنية في ذكر المدرسة الإسلامية الديوبندية (مصنفہ: والدِ شیخ الہند مولانا ذوالفقار علی دیوبندی، مطبوعہ: 1307ھ م 1890ء)؛ مگر اس کے ابتدائی صفحات دستیاب پی ڈی ایف میں پڑھنے کے لائق نہیں ہیں:
اسی کی عکسِ طباعت مکتبہ محمودیہ، لاہور سے 1400ھ م 1980ء میں شائع ہوئی تھی، جس سے متعلقہ صفحات پیش خدمت ہیں:
الهدية السنية في ذكر المدرسة الإسلامية الديوبندية کے اندر حضرت شیخ الہند کے والد 1899ء میں لکھتے ہیں: "لما أراد الله... خير هذه البلاد و إرشاد العباد بإحياء العلوم الدينية و الفنون اليقينية إذعانا و تصديقا و إيقانا و تحقيقا ألهم السيد.... السيد الأجل محمد عابد أدام الله له... بتأسيس هذه المدرسة اللتي أسست على التقوى و العروة الوثقى... ثم فيّض الله سبحانه لترصيص الأمر المعلوم و إحياء العلوم الشيخ الأكبر... مولانا المولوي محمد القاسم كان الله له..." (اس عبارت کو عربی داں شخص سمجھ لے گا، ترجمے کی چنداں ضرورت نہیں ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مؤسس حاجی عابد صاحب تھے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت نانوتوی کے ذریعے علوم نبوت کا فیضان جاری کیا۔)

تذکرۃ العابدین (مصنفہ: محمد نذیر احمد دیوبندی، ص: 52 و 53، سنہ اشاعت: 1899ء) میں قیام دار العلوم سے متعلق:

پہلے استاد اور پہلے شاگرد:
حضرت نانوتوی قیام دار العلوم کے وقت دیوبند آئے تھے، اس سلسلے میں مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی نے اپنی کتاب میں حوالہ پیش نہیں کیا؛ مگر 1894ء میں مولانا یعقوب نانوتوی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ "مولوی محمد قاسم صاحب شروعِ مدرسہ میں دیوبند آئے۔" اب یہاں شروعِ مدرسہ میں دیوبند آنے کا ایک مطلب تو یہی ہے کہ تاسیس کے وقت دیوبند میں تشریف فرما تھے؛ لیکن تذکرۃ العابدین مطبوعہ 1899ء کے اس صریح بیان سے وہ احتمال ختم ہو جاتا ہے، وہ عبارت یہ ہے: ”جب حضرت حاجی صاحب نے دوبارہ چلہ کر لیا تو ایک روز آپ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا، صبح کو مولوی فضل الرحمن صاحب وغیرہ کو بلایا یا اور فرمایا کہ علم دین اٹھا جاتا ہے؛ کوئی تدبیر کرو کہ علم دین قائم رہے جب پرانے عالم نہ رہیں گے تو کوئی مسلہ بتانے والا ہی نہ رہے گا جب سے دہلی کا مدرسہ گم ہوا ہے کوئی علم دین نہیں پڑھتا۔ اس وقت سب صاحبوں نے عرض کیا کہ جو آپ تدبیر فرماویں وہ ہم کو منظور ہے۔ آپ نے فرمایا کہ چندہ کر کے مدرسہ قائم کرو اور کاغذ لے کر اپنا چندہ لکھ دیا اور روپے بھی آگے دھر دیے اور فرمایا کہ "ان شاء اللہ ہر سال یہ چندہ دیتا رہوں گا"۔ چناں چہ اسی وقت سب صاحبانِ موجودہ نے بھی چندہ لکھ دیا پھر حاجی صاحب مسجد سے باہر کو نکلے چوں کہ حاجی صاحب کبھی کہیں نہیں جاتے تھے جس کے گھر پر گئے اسی نے اپنا فخر سمجھا اور چندہ لکھ دیا اسی طرح شام تک قریب چار سو روپیہ کے چندہ ہو گیا۔ اگلے روز حاجی صاحب نے مولوی محمد قاسم صاحب کو میرٹھ یہ خط لکھا کہ "آپ پڑھانے کے واسطے دیوبند آئیے، فقیر نے یہ صورت کی ہے"۔ مولوی محمد قاسم صاحب نے جواب لکھا کہ "میں بہت خوش ہوا خدا بہتر کرے! مولوی ملا محمود صاحب کو پندرہ روپیہ ماہوار تنخواہ مقرر کر کے بھیجتا ہوں وہ پڑھا دیں گے اور میں مدرسۂ مذکور میں ساعی رہوں گا"۔ چناں چہ ملا محمود صاحب دیوبند آئے اور مسجد چھتہ میں عربی پڑھانا شروع کیا۔“ (تذکرۃ العابدین ص: 52–53)
مولانا محمد یعقوب نانوتوی علیہ الرحمہ کے قلم سے قیام دار العلوم کا تذکرہ:
صاحبِ نزہۃ الخواطر مولانا سید عبد الحی حسنی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے فرزندِ ارجمند مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر:
سوانح قاسمی میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب علیہ الرحمہ نے حاشیہ چڑھاتے ہوئے توجیہات بیان کی ہیں کہ قیام دار العلوم کے واقعات میں صاف صاف حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی علیہ الرحمہ سے متعلق معلومات کیوں نہیں ملتیں اور گرفتاری کے وارنٹ وغیرہ کو وجوہات کے طور پر بیان فرمایا ہے:
مولانا مناظر احسن گیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت نانوتوی کے تذکرہ نہ ملنے کی توجیہات کو نقل فرما کر انھیں خود تراشیدہ مفروضات قرار دیا ہے، اسی پر مولانا قاری محمد طیب علیہ الرحمہ نے حاشیے میں اس مفروضے کے حقیقت ہونے پر زور دیا ہے (حضرت حکیم الاسلام کا منشا یہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ حضرت نانوتوی علیہ الرحمہ بھی قیام مدرسہ کا ارادہ رکھنے والوں میں تھے؛ مگر گرفتاری کے وارنٹ وغیرہ کے معاملات کی وجہ سے وہ بنائے دار العلوم کے وقت یا تو میرٹھ سے تشریف ہی نہیں لائے تھے، جیسا کہ کئی کتابوں کی عبارتوں سے واضح ہے یا آپ علیہ الرحمہ تشریف لائے اور سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے آپ کا نام مخفی رکھا گیا؛ اس لیے آپ کا تذکرہ نہیں ملتا ہے ابتدائی کتابوں میں):
مولانا مناظر احسن گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر قیام دارالعلوم اور پہلے طالب علم کے تعلق سے اختلاف کے سلسلے میں، اس تحریر میں مولانا گیلانی نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے شیخ الہند کے پہلے طالب علم ہونے کے راجح ہونے کو قوی وجوہات سے بیان کیا ہے۔ (کتاب پر جانے کے لیے یہاں کلک کریں):
مولانا قاری محمد طیب علیہ الرحمہ کی تحریر قیام دارالعلوم اور پہلے طالب علم سے متعلق:
پرانے متون کے حوالے سے مولانا محمد اللہ خلیلی قاسمی کا قیام دار العلوم دیوبند سے متعلق تجزیہ:

تبصرے