جمعہ، 1 دسمبر، 2023

استاذ الاساتذہ حضرت مولانا محمد سلمان بجنوری نقشبندی: مختصر سوانحی خاکہ

استاذ الاساتذہ مولانا محمد سلمان بجنوری نقشبندی: مختصر سوانحی خاکہ


محمد روح الامین میُوربھنجی


        دار العلوم دیوبند کے مایۂ ناز استاذ اور اپنے نور و معرفت سے ایک عالَم کو فیضیاب کرنے والے عالم مولانا محمد سلمان بجنوری نقشبندی مدظلہ العالی سے ہر صاحبِ علم و کمال واقف ہوگا، حضرت مولانا تیس سال سے دار العلوم دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں اور 1440ھ سے درجۂ علیا کے استاذ کی حیثیت سے خدمت انجام دے ہیں۔ اسی طرح ربیع الاول 1438ھ مطابق دسمبر 2016ء سے ماہنامہ دار العلوم دیوبند کے مدیر ہیں اور مئی 2022ء سے جمعیۃ علماء ہند (میم) کے نائب صدر ہیں۔ اب مولانا موصوف کا مختصر سوانحی خاکہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔   

         ابتدائی و تعلیمی زندگی

    مولانا موصوف 14 اپریل 1969ء کو قصبۂ سہسپور، ضلع بجنور، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ماجد مولانا سعید احمد قاسمی سہسپوریؒ، امام و خطیب جامع مسجد و عیدگاہ سہسپور و صدر مدرس مدرسہ باب العلوم سہسپور؛ شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کے فیض یافتہ تھے۔

     مولانا موصوف کی تعلیم و تربیت میں ان کے والدِ بزرگوار کے علاوہ ان کی والدۂ ماجدہ کا بھی کردار رہا ہے، اسی کا نتیجہ تھا کہ موصوف محض سات سال اور تین ماہ کی کم عمری میں 14 جولائی 1976ء کو حفظِ قرآن کی دولت سے بہرہ ور ہو چکے تھے۔

     انھوں نے قاعدۂ بغدادی و نورانی قاعدہ، ناظرہ و حفظِ قرآن سے لے کر سالِ اول و دوم عربی کی تمام نصابی کتابوں کی تعلیم اپنے والد محترم کے پاس حاصل کی۔ اس کے بعد سنہ 1401ھ میں ان کے والد نے ان کا داخلہ جامعہ اشرف العلوم رشیدی، گنگوہ میں کروا دیا، ابھی موصوف عربی ششم ہی میں زیر تعلیم تھے کہ 16 شعبان 1405ھ مطابق 7 مئی 1985ء کو سایۂ پدری سے محروم ہو گئے اور اپنے برادر کبیر مولانا محمد سفیان غانم قاسمی سہسپوری مدظلہ، امام و خطیب جامع مسجد و عیدگاہ سہسپور (جو اُسی سال دار العلوم دیوبند سے دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے تھے) کے زیر سرپرستی آ گئے۔ بہر حال موصوف نے جامعہ اشرف العلوم رشیدی میں سالِ سوم عربی سے دورۂ حدیث تک کی تعلیم حاصل کی اور 1407ھ بہ مطابق 1987ء کو دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے۔ ان کے اساتذۂ اشرف العلوم رشیدی میں مولانا قاری شریف احمد گنگوہیؒ (متوفی: 4 مئی 2005ء) بانی و سابق مہتمم جامعہ اشرف العلوم رشیدی، مولانا رئیس الدین بجنوریؒ (متوفی: 4 مارچ 2011ء)، سابق شیخ الحدیث جامعہ اشرف العلوم رشیدی مولانا وسیم احمد سنسارپوریؒ (متوفی: 11 اپریل 2020ء)، صاحبِ ”الحل المرضی“ مولانا محمد انور گنگوہی مدظلہ موجودہ شیخ الحدیث دار العلوم رشیدیہ گنگوہ اور مولانا محمد سلمان گنگوہی مدظلہ استاذ حدیث جامعہ اشرف العلوم رشیدی و مجازِ فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ شامل تھے۔

       گنگوہ کے بعد مولانا موصوف ”نسبت قاسمیہ“ سے منسلک ہونے کے لیے دار العلوم دیوبند تشریف لائے اور وہاں داخلہ لے کر سنہ 1408ھ مطابق 1988ء میں دوبارہ دورۂ حدیث کے اساتذہ سے اکتسابِ فیض کیا اور امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی۔

  ان کے دار العلوم دیوبند کے اساتذۂ دورۂ حدیث کے نام مع اسماۓ کتب درج ذیل ہیں:

صحیح بخاری (جلد اول): شیخ الحدیث مولانا نصیر احمد خان بلند شہریؒ

صحیح بخاری (جلد ثانی): مولانا عبد الحق اعظمیؒ

صحیح مسلم (جلد اول)، سنن ابو داؤد (جلد ثانی)، موطأ امام محمد: بحر العلوم مولانا نعمت اللّٰہ اعظمی

صحیح مسلم (جلد ثانی): علامہ قمر الدین احمد گورکھپوری

سنن ابو داؤد (جلد ثانی)، موطأ امام مالک: مولانا محمد حسین بہاریؒ

جامع ترمذی (جلد اول)، شرح معانی الآثار: مفتی سعید احمد پالن پوریؒ

جامع ترمذی (جلد ثانی): مولانا سید ارشد مدنی

سنن ابن ماجہ: مولانا ریاست علی ظفر بجنوریؒ

سنن نسائی: مولانا زبیر احمد دیوبندیؒ

شمائل ترمذی: مولانا عبد الخالق مدراسی

    دار العلوم دیوبند سے دورۂ حدیث کے بعد شوال 1408ھ کو دار العلوم ہی کے تکمیلِ ادب عربی کے شعبہ میں داخلہ لیا اور دونوں امتحانات میں اول پوزیشن سے کامیابی حاصل کی۔ ان کے تکمیلِ ادب کے اساتذہ میں مولانا معراج الحق دیوبندیؒ، معلمِ عبقری مولانا وحید الزماں کیرانویؒ، مولانا قاری محمد عثمان منصور پوریؒ اور ادیبِ عصر مولانا نور عالم خلیل امینیؒ شامل تھے۔

     مولانا موصوف نے ابتداءً اپنے والد سے، پھر حکیم ننھو میاں سے بہت کچھ سیکھا، پھر دیوبند کے زمانۂ طالب علمی میں حضرت مولانا ریاست علی ظفر بجنوریؒ سے ان کا تقریباً تیس سالہ تعلق رہا، جس درمیان انھوں نے مولانا ریاست علی صاحب سے خوب استفادہ کیا اور ان کے فکر و علم کا اثر مولانا کی شخصیت پر بھی پڑا۔ دیگر وہ شخصیات؛ جن سے مولانا قلبی یا فکری طور پر متاثر ہوئے؛ ان میں فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ، مولانا وحید الزماں کیرانویؒ، فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنیؒ، مولانا محمد منظور نعمانیؒ اور مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ شامل ہیں۔

          تدریسی و عملی زندگی

      دار العلوم دیوبند سے تکمیل ادب عربی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ذی قعدہ 1409ھ مطابق اواخر جون یا اوائل جولائی 1989ء کو دار العلوم ہی میں معین مدرس مقرر ہوئے اور دو سال معین مدرس رہنے کے بعد شوال 1411ھ تا شعبان 1412ھ (مطابق مئی 1991 تا فروری 1992ء) ایک سال مدرسہ فیضِ ہدایت رحیمی، رائے پور میں مدرس رہے۔ پھر شعبان 1412ھ میں مولانا موصوف کا تقرر جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد میں ہوگیا، جہاں انھوں نے شوال 1412ھ تا شعبان 1414ھ (مطابق جون 1992 تا جنوری 1994ء) دو سال تدریسی فرائض انجام دیے۔ اس وقت مدرسہ شاہی میں بَہ طورِ خاص تکمیلِ ادب عربی کا شعبہ ان سے منسلک رہا، ان کی تحریک پر مدرسہ شاہی میں عربی انجمن ”النادی الادبی“ کا قیام عمل میں آیا اور النادی سے نکلنے والے پندرہ روزہ جداریہ ”البلاغ“ کے نگراں بھی تھے۔

      شعبان 1414ھ مطابق فروری 1994ء کو درجۂ علیا کے استاذ کی حیثیت سے دار العلوم دیوبند میں مولانا موصوف کا تقرر عمل میں آیا اور اس وقت سے اب تک تقریباً انتیس سال سے وہاں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں اور فی الحال سنن ابنِ ماجہ، مشکوۃ المصابیح، دیوانِ حماسہ اور سبعہ معلقہ جیسی کتابوں کے اسباق ان سے متعلق ہیں۔

      مئی 2022ء کو مولانا موصوف جمعیت علمائے ہند (میم) کے نائب صدر منتخب ہوئے۔

       ”ماہنامہ دار العلوم“ کی ادارت

      ربیع الاول 1438ھ مطابق دسمبر 2016ء سے مولانا موصوف ماہنامہ دار العلوم دیوبند کے مدیر ہیں اور اس وقت سے بحسن و خوبی یہ ذمے داری انجام دے رہے ہیں۔ ان سے پہلے ماہنامہ دار العلوم کے مدیر ابنِ حجر ثانی مولانا حبیب الرحمن قاسمی اعظمیؒ تھے۔

    ”دار العلوم دیوبند: حالات، خدمات، منصوبے“ کی ترتیب کے علاوہ ذیل میں ان کے زیر ادارت شائع ہونے والے ماہنامہ دار العلوم کے بعض خصوصی نمبر؛ یا ان شماروں کی تفصیلات ہیں، جس میں کسی شخصیت پر ایک سے زائد مضامین موجود ہیں:

• گوشۂ شیخ عبد الحق اعظمی (جلد: 101، شمارہ: 1–2، فروری 2017ء)

• گوشۂ مولانا کفیل احمد علوی (جلد: 101، شمارہ: 4، اپریل 2017ء)

• مولانا ریاست علی ظفر بجنوری نمبر (جلد: 101، شمارہ: 8–9، اگست – ستمبر 2017ء)

• گوشۂ مولانا محمد مصطفیٰ اعظمی (جلد: 102، شمارہ: 2، فروری 2018ء)

• گوشۂ خطیب الاسلام مولانا محمد سالم قاسمی (جلد: 102، شمارہ: 4، اپریل 2018ء)

• مقام و عظمت صحابہ نمبر (جلد: 102، شمارہ: 11–12، نومبر – دسمبر 2018ء)

• گوشۂ شارح ہدایہ مولانا جمیل احمد سکروڈی (جلد: 103، شمارہ: 5–6، مئی – جون 2019ء)

• گوشۂ پیر طریقت مولانا محمد طلحہ کاندھلوی (جلد: 103، شمارہ: 9، ستمبر 2019ء)

• گوشۂ شارح جلالین مولانا محمد جمال میرٹھی (جلد: 103، شمارہ: 10، اکتوبر 2019ء)

• گوشۂ مولانا برہان الدین سنبھلی (جلد: 104، شمارہ: 2 – 3، فروری – مارچ 2020ء)

• گوشۂ مولانا برہان الدین سنبھلی (جلد: 104، شمارہ: 2 – 3، فروری – مارچ 2020ء)

• ذکرِ سعید [مفتی سعید احمد پالن پوری نمبر] (جلد: 104، شمارہ: 6 – 7، جون – جولائی 2020ء)

• ذکرِ سعید [مفتی سعید احمد پالن پوری نمبر] (جلد: 104، شمارہ: 8 – 9، اگست – ستمبر 2020ء)

• مولانا نور عالم خلیل امینی نمبر (جلد: 105، شمارہ: 6 – 7، جون – جولائی 2021ء)

• مولانا حبیب الرحمن ثانی اعظمی نمبر (جلد: 105، شمارہ: 8، اگست 2021ء)

• مولانا حبیب الرحمن ثانی اعظمی نمبر (جلد: 105، شمارہ: 8، اگست 2021ء)

• امیر الہند رابع [قاری محمد عثمان منصور پوری] نمبر (جلد: 105، شمارہ: 9، ستمبر 2021ء)

• گوشہ ہاۓ مولانا عبد الخالق سنبھلی، قاری سید محمد عثمان منصور پوری، مولانا حبیب الرحمن اعظمی، مولانا نور عالم خلیل امینی (جلد: 105، شمارہ: 10، اکتوبر 2021ء)

         بیعت و خلافت

      گنگوہ کے زمانۂ تعلیم میں مولانا موصوف کو نبیرۂ حضرت گنگوہیؒ مولانا حکیم عبد الرشید محمود گنگوہیؒ (معروف بَہ حکیم ننھو میاں) سے خصوصی تعلق اور ان کا بھرپور اعتماد حاصل رہا تھا۔ نیز حکیم صاحب کی علمی مجالس کے حاضر باش بھی رہا کرتے تھے۔ بعد میں اپریل 2011ء کو جب مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی مدظلہ العالی دیوبند تشریف لائے، تو اس وقت ان کا قلبی رجحان پیر صاحب کی طرف ہوا اور وہ پیر صاحب سے منسوب ہوگئے اور ان سے سلوک کے منازل طے کرتے رہے؛ یہاں تک کہ اواخرِ رمضان 1434ھ مطابق اوائلِ اگست 2013ء کو زامبیا میں اعتکاف کے موقع پر مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی نے مولانا موصوف کو اجازتِ بیعت و خلافت سے نوازا۔ ماشاء اللّٰہ!! اِس وقت ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مولانا موصوف کے منتسبین و اہلِ ارادت موجود ہیں۔

    اللّٰہ تعالیٰ مولانا موصوف کی عمر و صحت میں برکت عطا فرمائے اور ہمیں اور امت مسلمہ کو ان سے زیادہ سے زیادہ استفادے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ

مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ محمد روح الامین میوربھنجی       مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی سرزمینِ بہا...