منگل، 1 مارچ، 2022

صحبتِ اہل اللّٰہ کی اہمیت

صحبتِ اہل اللّٰہ کی اہمیت

محمد روح الامین میوربھنجی

     کوئی شخص کتنا ہی بڑا عالم، کتنا ہی بڑا مفسر اور کتنا ہی بڑا محدث کیوں نہ ہوجائے، مگر علم کا نور اور معرفت الہی؛ اہل اللہ کی جوتیاں سیدھی کرنے اور ان کے کڑوے گھونٹ پینے سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔

    علم روشنی کے مانند ہے تو عمل چراغ کے مانند؛ مگر علم پر عمل اسی وقت ہوگا جب چراغِ عمل میں روغنِ اخلاص ہو اور اخلاص کا روغن اہل اللہ کی دوکان یعنی ان کی صحبت سے حاصل ہوتا ہے ہے (اہل اللہ کی صحیح پہچان یہ ہے جو ادنی سے ادنیٰ سنت کو بھی نہ چھوڑتا ہوں، گناہوں سے اجتنابِ کلی کرتا ہوں، بدعت اور خلافِ شرع عمل کو کسی بھی قیمت پر برداشت نہ کرتا ہو، دنیا کو آخرت پر ترجیح نہ دیتا ہو، اس کے پاس بیٹھ کر اللہ تعالی کی یاد تازہ ہو جائے، دنیا سے بے رغبتی اور آخرت سے رغبت پیدا ہونے لگے) اہل اللہ کی صحبت وہ چیز ہے، جس کی وجہ سے دل میں خدا اور خاصّانِ خدا سے محبت پیدا ہوتی ہے، قلب میں خوف خدا اور خوف آخرت راسخ ہو جاتا ہے اور محبت و خوف خدا سے اعمال صالحہ کا شوق و جذبہ پیدا ہوتا اور گناہوں سے اجتناب آسان ہوجاتا ہے اور سچے اعتقادات میں رسوخ پیدا ہو جاتا ہے، جس کو 'رسوخ فی الایمان' بھی کہا جا سکتا ہے اور بزرگوں نے اہل اللہ کی صحبت سے پیدا ہونے والی اس حالت و کیفیت کو 'کمال' کہا ہے اور یہ کمال خود دوسرے کمالات کے حصول کا موجب ہے۔

    اہل اللہ لوگوں کے جوہرِ قلبی کی شناخت کرتے اور پھر اسے تراش کر ہیرا بنا دیتے ہیں۔ مولانا رومی رحمہ اللہ نے کہا ہے:
     ہر کُجا گوشے بُد از وے چشم گشت
     ہر کُجا سنگے بُد از وے یشم  گشت

    یعنی جو لوگ محض کان تھے، وہ صاحبِ معرفت و ہوش ہو گئے اور انھیں بصیرتِ قلبی حاصل ہو گئی اور جو لوگ پتھر یعنی میں بے قدر و منزلت تھے وہ ہیرے یعنی قدر و منزلت والے ہوگئے۔ اردو کے ایک شعر کا مصرع ہے:

      نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

     اہل اللہ سے تعلق ضروری ہے؛ اس لیے کہ ان سے تعلق اس لیے کیا جاتا ہے کہ نفس کا تزکیہ اور اس کی اصلاح ہو جائے اور تزکیۂ نفس میں فلاح و کامرانی مضمر ہے ''قد أفلح من زکّٰىھا''، اور اگر خواہشات نفسانیہ کی تکمیل میں مصروف رہا تو آخرت میں ناکامی و خسارہ ہے ''وقد خاب من دسّٰىھا''؛ اس لیے طلبہ کو چاہیے کہ وہ زمانۂ طالب علمی ہی سے کسی اہل دل اور صاحب نسبت بزرگ کا دامنِ صحبت مضبوطی سے تھام لیں اور ان صلاح و مشورہ لے کر اپنے مقصدِ تعلیمی میں مشغول رہیں ان شاء اللہ فلاح و کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔
      عارف گیاویؒ کا شعر ہے:

فکر و جستجو جسے ہوگی
کامیابی اسی کی راہ میں ہے
مل گئی اس کو منزلِ مقصود
پیر و مرشد کی جو نگاہ میں ہے

قال را بُگُزار! مردِ حال شو
پیشِ مردِ کاملے پامال شو

اتباع ہویٰ یعنی نفس پرستی

اتباع ہویٰ یعنی نفس پرستی

محمد روح الامین میُوربھنجی

     خواہش رانی اور اتباع ہویٰ ایک ایسی بیماری ہے، جو انسان کو آہستہ آہستہ بے فکر اور انجام کار سے غافل بنا دیتی ہے اور احکامات الٰہیہ اور ارشادات نبویہ پر عمل کرنے میں مانع بنتی اور رکاوٹ پیدا کرتی ہے، خواہش نفسانی کی پیروی کرنے والا شخص بسا اوقات گمراہی اور ہلاکت کی راہوں پر چل پڑتا ہے، قرآن کریم میں خواہش پرستوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے أ فرأیت من اتخذ إلہ ھواہ الخ یعنی ''پھر کیا تم نے کبھی اس شخص کے حال پر غور کیا، جس نے اپنا معبود اپنی نفسانی خواہشات کو بنا لیا اور اللّٰہ نے علم کے باوجود اس کو گمراہ کر دیا اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی، اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا، پس اللّٰہ کے (گمراہ کرنے کے) بعد کون ہے، جو اُسے ہدایت دے دے، کیا پھر بھی تم سبق حاصل نہیں کرتے'' (سورۃ الجاثیۃ: 23) اس آیت میں جس صفتِ رذیلہ اور اس کی وبال کا بیان ہے، وہ صفت انسان کو گمراہی اور ضلالت میں دھکیلنے کے لیے کافی ہے۔

      ہوائے نفسانی اور نفسانی خواہش وہ شری قوت ہے، جو انسان کو شر پر آمادہ کرتی ہے؛ یہاں تک کہ پھر اسے صحیح اور غلط کی تمیز بھی نہیں رہ جاتی اور وہ تجاہلِ عارفانہ کا شکار ہو جاتا ہے اور آئندہ نہ کرنے کا ارادہ کرکے نفسانی خواہشات پورا کرتا ہے اور اپنے آپ کو دھوکے میں ڈالے رکھتا ہے۔

     انبیاء و رسل کی راہِ دعوت میں بھی بارہا یہ برائی روڑا بنتی رہتی ہے، کافروں کو مخاطب بناتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا أ فلما جاءکم رسول بما لا تھوی أنفسکم الخ ''پھر یہ تمھارا کیا طریقہ ہے کہ جب بھی کوئی رسول تمھارے پاس یہ حکم لے کر آیا کہ خواہشات نفسانیہ کی پیروی نہ کرو، تو تم نے (اس کے مقابلے میں) سرکشی کی، کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کر ڈالا'' (سورۂ البقرۃ: 87)۔

    الغرض! خواہشات نفسانیہ ہی انسان کو قتل و غارت گری اور فساد و خوں ریزی کی طرف لے جاتی ہے اور اسے رب تعالیٰ کا نافرمان اور شیطان کی کٹھ پُتلی بنا دیتی ہے، ایک حدیث میں آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا لا یؤمن أحدکم؛ حتیٰ یکون ھواہ تبعا لما جئت بہ (رواه البغوى فى شرح السُّنَّة) ''تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا؛ جب تک کہ اس کی نفسانی خواہشات میرے لائے ہوئے طریقہ کے مطابق نہ ہو جائے''، مطلب یہ ہے کہ مومن کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی تمام تر طبعی میلانات اور قلبی رجحانات؛ تعلیمات نبویہ کے مطابق نہ ہو جائیں۔

     حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ''مجھے بس تم پر دو چیزوں کا خطرہ ہے ایک تو دُور دراز کی امیدوں اور توقعات دوسری خواہش پرستی''۔ اور قرآن میں تو اللہ تعالی نے صاف فرما دیا ولا تتبع الھوی فیضلک عن سبیل اللہ الخ یعنی "اور تمام خواہشات نفسانیہ کی پیروی نہ کرو؛ کیوں کہ یہ (اتباع ہویٰ) تمھیں اللہ تعالی کے راستے سے ہٹا دے گا، یقیناً وہ لوگ جو اللہ کے راستے سے بھٹک جاتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے، اس وجہ سے کہ انھوں نے روزِ حساب کو بھلا دیا" (سورۂ ص: 26) اس آیت سے اتباع ہویٰ کا علاج بھی سمجھ میں آ گیا کہ روزِ حساب کو ہمہ وقت یاد رکھنا اور اور ہر دم اس کی تیاری کرتے رہنا یہی اتباع ہویٰ اور خواہش رانی سے بچنے کا علاج ہے۔

     اللّٰہ تعالی مجھے اور تمام امت نبویہ کو اتباع ہوا اور نفس و شیطان کی غلامی سے بچائے۔ آمین

مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ

مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ محمد روح الامین میوربھنجی       مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی سرزمینِ بہا...