پیر، 31 جنوری، 2022

ہندوستانی مسلمان ۔ روشن تاریخ ۔ سازشوں کے نرغے میں

ہندوستانی مسلمان: روشن تاریخ ۔ سازشوں کے نرغے میں
✒️ محمد روح الامین میُوربھنجی

      ملک کی موجودہ صورتِ حال نہایت ہی پُرخطر اور تشویش ناک ہے، اِس وقت ملک کا ہر سیکولر ذہن رکھنے والا؛ غم و غصّے کے عالم میں ہے، ملک کی جمہوریت کو انتہا پسندوں کی طرف سے خطرہ ہے، خصوصاً مسلمانوں کی آزادی اور ان کی شہریت پر حملہ کیا جارہا ہے، "دفعہ 370" کا ہٹایا جانا ہو یا "این، آر، سی"، "سی، اے، اے" اور "این، پی، آر" کا مسئلہ ہو، ہر طرف سے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، پہلے بھی مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے ڈھکے چھپے  بغض و عداوت کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، کبھی "لَو جہاد" کا حکم لگا کر انھیں بدنام کیا جاتا ہے، کبھی ان پر دہشت گردی اور دیش دروہی کا الزام لگا کر انھیں جیلوں میں بند کیا جاتا ہے، کبھی "گو رکشا" کا سہارا لے کر ہجومی تشدد (موب لنچنگ) کا نشانہ بنایا جاتا ہے؛ کبھی سادہ لوح مسلمانوں پر بے بنیاد الزام لگا کر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے، کبھی مسلم رہنماؤں کو باطل کے خلاف؛ آواز بلند کرنے کی پاداش میں دہشت گرد قرار دے کر کَٹھ گھروں میں کھڑا کیا جاتا ہے اور کبھی اُنھیں حوالۂ زِنداں کیا جاتا ہے، کبھی ان کی مقدس کتاب کی بے حرمتی کی جاتی ہے اور اُسے نذرِ آتش کیا جاتا ہے، کبھی ان کے پیغمبر ﷺ کا اِسٹیچو  بنا کر بے حرمتی کی جاتی ہے اور جان بوجھ کر ان کے ماننے والوں کا دل دکھایا جاتا ہے، کبھی مسلمانوں کی مسجد پر حملہ آور ہوکر اسے شہید کردیا جاتا ہے اور پھر ناانصافی کی حدیں پار کرتے ہوئے تمام ملزمان کو بیک قلم بری قرار دے دیا جاتا ہے
پستی کا کوئی حد سے گذرنا دیکھے
انسان کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے
اور کبھی آستھا کا نام لے کر اُن کے خلاف؛ فیصلہ صادر کردیاجاتا ہے؛ غرضے کہ صورتِ حال یہ ہے کہ اِس ملک کا مسلمان اور اس کی آزادی؛ باطل طاقتوں کے نرغے میں ہے، اور اب انھیں اپنی شہریت کا ثبوت(proof) پیش کرنے کو کہا جارہا ہے، اور انھیں ان کے حقوق  اور شہریت سے محروم کیا جارہا ہے، اور کمزوروں کو دبانے اور ان کی آواز بند کرنے کی ناکام کوششیں کی جا رہی ہیں؛ لیکن اِس ملک کا مسلمان کل بھی اِس دیش کا باسی تھا! آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا!!!
(ان شاء اللّٰہ)
 اُس نے نہ تو کل دستاویز پیش کیے تھے! نہ کسی نے اُن کی وطنیت پر سوال اٹھایا تھا! تو بھلا انھیں آج یہ کون شہریت کے ثبوت پیش کرنے کو کہہ رہا ہے؟؟ ؟
جب اس ملک کی آزادی میں مسلم عوام و خواص؛ انگریزوں کے خلاف سدا بر سرِ پیکار رہے، اپنا خون بہایا، اپنی بیویوں کو بیوہ اور اپنے بچوں تک کو یتیم کردیا؛ یہاں تک کہ اِس دیش کی آزادی میں وہ رول ادا کیا اور وطنیت کا وہ ثبوت پیش کیا ہے کہ باطل طاقتیں؛ ایسی قربانیوں کو سوچ کر بھی سہم جائیں، اُن کی روحیں کانپ اٹّھیں، اور ان کے قدم پیچھے ہٹ جائیں۔
 جب  ہم مسلمانوں نے ایسی قربانیاں دی ہیں (جن کا اعتراف خود انگریزوں نے کیا اور آج بھی یہاں کے پڑھے لکھے منصف مزاج برادان وطن اس کا برملا اعتراف کرتے ہیں) تو پھر کسی  بھی حکومت کو  ہمارے مسلمان بھائیوں سے وطنیت کا سرٹیفکیٹ طلب کرنے کا کیا مطلب؟
    یہی "سب کا ساتھ، سب کا وِکاس” ہے؟
کہ اپنے مذہب اور ہم مذہبوں کے تحفظ کی خاطر (خواہ وہ غیر ملکی ہی کیوں نہ ہوں!) اپنے ہم وطنوں کی شہریت کو خطرہ میں ڈال دینے والی قرارداد منظور کی گئی؟ جی نہیں!
پر مسلمان اب بھی مایوس نہیں! اس کے ساتھ  سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طاقت ہے، اور ملک کا ہر سیکولر طبقہ؛ کاندھے سے کاندھا ملائے ان کے ساتھ کھڑا ہے، اور واقعی انھوں نے  انسانیت کا وہ ثبوت پیش کیا ہے، جس کے ہم مسلمان سدا؛ شکرگزار اور آبھاری رہیں گے!
    اس لیے اِن حالات کے تناظر میں مسلمانوں کو بالعموم اور طلباء و علماء کو بالخصوص بیدار ہونے اور اپنے مستقبل اور اپنے ملک کے امن و امان کی سلامتی کے لیے تیار ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ اللّٰہ تعالٰی اِس ملک کو اور اِس میں بسنے والوں کو امن و امان عطا فرمائے! آمین!

جمعرات، 27 جنوری، 2022

BiP ایپ سے متعلق ایک عرضداشت

بِپ (BiP) ایک مختلف خصوصیات پر مشتمل ایپ ہے، جس کا مالک (owner) "Turkcell" ہے!
✒️ محمد روح الامین میُوربھنجی

"تُرک سیل"؛ اینڈرائیڈ (Android) کی طرح ترکی کی ایک موبائل آپریٹر کمپنی کا نام ہے، جس کے مالکان؛ مشترکہ طور پر تین کمپنیاں ہیں:
(1) ترکی ویلتھ فاؤنڈ (Turkey Wealth Found) جو ترکی کی حکومتی ملکیت کی ایک کمپنی ہے، جس کے موجودہ چیئرمین رجب طیب اردوغان ہیں۔ جس کمپنی کے پاس "تُرک سیل" کا 26.2 فی صد شیئر ہولڈنگ (حصۂ مالیت) ہے۔
(2) الفا گروپ (Alfa Group) جس کے سارے مالکان یہودی ہیں (الف- میکائیل فِرِڈ مین، ب- اسرائیلی جرمن خان، ج- ایلیکسی کوزمیکو، د- پیٹر ایوین)۔ جس کمپنی کے پاس "تُرک سیل" کا 19.8 فی صد شیئر ہولڈنگ (حصۂ مالیت) ہے۔
(3) فِریٹ فلوٹ Freet Float (بورسا استنبول Borsa Istanbul) جو کہ ترکی کے اسٹاک ایکسچینج کا ایک حکومتی و غیر حکومتی مشترکہ ادارہ ہے۔
جس ادارہ کے پاس "تُرک سیل" کا 54 فی صد شیئر ہولڈنگ (حصۂ مالیت) ہے۔

نوٹ:- ان باتوں سے بالکلیہ یہ واضح ہوجاتا ہے کہ BiP کوئی خالص ترکش اور مسلم مالکان کا بنایا ایپ نہیں!!
 *نوٹ:- پرائیویسی سے قطعِ نظر صرف مسلم ملک کے ایپ ہونے کی بات کی وضاحت کے لیے بندہ نے گوگل میں موجود ویکیپیڈیاؤں کی مدد سے یہ معلومات اکھٹی کی ہیں ، دعا کی درخواست ہے!

منگل، 25 جنوری، 2022

ان شاء اللّٰہ کے اردو و رومن انگریزی رسم الخط سے متعلق کچھ گذارشات

*"#انشاء_اللّٰہ" 👉 #اس_طرح_لکھنا_بہتر_نہیں_ہے!!*

     اس طرح لکھنا چاہیے 👈 "ان شاء اللّٰہ" (اگر اللہ نے چاہا)
    "إن" یعنی "اگر"، "شاءَ" یعنی "چاہا" اور لفظِ اللّٰہ تو اسمِ ذاتِ پاک ہے!
     اور "اِنشاءٌ" کے معنی ہیں 👈 "ایجاد، تخلیق" 
    
   مقصد یہ ہے کہ "انشاء اللہ" لکھنے کا مقصد کچھ اور ہے (اگر اللہ نے چاہا) اور بظاہر "انشاء اللہ بمعنی: اللّٰہ کی تخلیق" معلوم ہوتا ہے!
     
     اس لیے "ان شاء اللّٰہ" لکھنا چاہیے
  "ان" کو "شاءَ" سے الگ لکھ کر

   اور #انگریزی_میں *Insha'allah* لکھنا چاہیے؛ نا کہ *InshaAllah* 
       یعنی جب ہم *ان شاء اللّٰہ (Insha'allah)* بول رہے ہوتے ہیں تو دوسرا ہمزہ؛ لفظِ اللّٰہ کا نہیں ہوتا؛ بل کہ لفظِ اللّٰہ کا ہمزہ اُس وقت ضابطہ کے مطابق نہیں پڑھا جاتا ( *لفظِ اللّٰہ کا ہمزہ؛ ان شاء اللّٰہ میں سائلنٹ ہوتا ہے*)

#نوٹ:- "اِن شاءَ اللّٰہ" کے صرف آواز کو رومن انگلش میں اتارا جاتا ہے یعنی اس طرح Insha'allah/ In sha'allah/Inshā'allāh

صرف "اِن شاءَ اللّٰہ" کے تلفُّظ (Pronounciation) کو رومن انگلش میں ادا کر دیا جاتا ہے!

       بہتر تو یہی ہے کہ "اِن شاءَ اللّٰہ" لکھا جائے!!

پیر، 24 جنوری، 2022

صوبہ ”اڈیشہ“ (قدیم و سابق نام: اڑیسہ)

صوبہ ”اڈیشہ“ (قدیم و سابق نام: اڑیسہ)

محمد روح الامین

”اڈیشہ“ موجودہ ہندوستان (بھارت) کی ایک مشرقی ریاست ہے، جو کہ جغرافیائی اعتبار سے شمال میں ”جھارکھنڈ“ اور ”مغربی بنگال“ کے کچھ حصے سے، جنوب میں ”آندھرا پردیش“ سے، مشرق  میں ”خلیج بنگال“ سے اور مغرب میں ”چھتیس گڑھ“ سے ملا ہوا ہے۔ اس کی دار السلطنت ”بھوبنیشور“ ہے، کسی زمانہ میں ”کٹک“ (ضلع کٹک، شہر کٹک سے مختلف ہے) شہر بھی اڈیشہ کی راجدھانی ہوا کرتا تھا، یہاں کی سرکاری اور خاص کر یہاں کے ہندؤوں کی مادری زبان ”اڈیہ“ ہے (کچھ جگہوں پر مسلمانوں کی مادری زبان بھی ”اڈیہ“ ہے)۔ رقبہ کے اعتبار سے ہندوستان کا آٹھواں بڑا علاقہ کہلاتا ہے، معیشت میں سولہویں نمبر پر اور آبادی کے لحاظ سے گیارہویں نمبر آتا ہے، جس کا کُل رقبہ ایک لاکھ، پچپن ہزار، سات سو سات مربع کیلو میٹر پر مُحیط ہے، یہاں ہندو اکثریت میں اور مسلم اقلّیت میں رہتے ہیں، کچھ اور اقلیتیں بھی ہیں، جیسے سکھ، عیسائی وغیرہ۔ سنہ 2011ء کی مردم شماری کے حساب سے اڈیشا کی آبادی ”چار کروڑ، انیس لاکھ، چوہتر ہزار، دو سو اٹھارہ“ (41,974,218) تھی، اور مسلم آبادی دو سے ڈھائی فیصد تھی۔

مردم شماری 2011ء کے اعتبار سے اڈیشا کی آبادی بلحاظ مذاہب:
  ہندومت (93.63%)
  مسیحیت (2.77%)
  اسلام (2.17%)
  سرنا مت (1.14%)
  سکھ مت (0.05%)
  بدھ مت (0.03%)
  جین مت (0.02%)
  دیگر (.19%)"
(بہ حوالہ: ویکیپیڈیا)
  
  یہ صوبہ اس وقت 30 اضلاع پر مشتمل ہے، یہاں بھی چاول کی کاشت زیادہ ہوتی ہے، ساحلی علاقوں میں ناریل بھی بکثرت پایا جاتا ہے، یہاں کی صوبائی پرند میں نیل کَنٹھ، جنگلی جانور میں بارہ سِنگا آتا ہے، شمالی اور مغربی علاقوں کا بیشتر حصہ جنگلات اور پہاڑیوں پر مشتمل ہے، شمالی اور مغربی جنگلی علاقوں میں ہاتھی اور بنگالی باگھ بھی پائے جاتے ہیں، صوبۂ ”اڈیشہ“ میں ہندوستان کا ساتواں سب سے بڑا قومی پارک اور شیروں اور ہاتھیوں کا محفوظ مقام ( ٹائگر اینڈ ایلیفینٹ ریزرو) بھی ہے، جس کا نام ”سِملی پال نیشنل پارک“ ہے، جو دو ہزار، سات سو سات مربع کیلو میٹر زمین کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
  
     ہندوستان کی ایک مشہور بندرگاہ ”پارادیپ بندرگاہ“ (پارادیپ پورٹ) بھی یہیں پر موجود ہے، ساحلی علاقوں میں سیلاب کا سامنا بھی ہوتا رہتا ہے۔

     ”چیلیکا جھیل“ بھی یہیں پر واقع ہے، جو ہندوستان کی دوسری سب سے بڑی جھیل ہے، ”خلیج بنگال“ سے جڑی ہوئی ہے، جو ”گیارہ سو پانچ مربع کیلومیٹر“ پر پھیلی ہوئی ہے۔

    قدیم تاریخ (برطانوی سامراجی دَور) میں انگریزوں نے سنہ 1776ء میں بکسر کی لڑائی کے بعد بہار کو؛ قدیم صوبہ بنگال میں شامل کر لیا تھا اور صوبہ اڑیسہ کو بھی مکمل طور پر سنہ 1803ء میں صوبہ بنگال میں شامل کر لیا تھا، اس وقت اڑیسہ، بنگال اور بہار؛ موجودہ تینوں صوبے ایک ہی ریاست ”صوبۂ بنگال“ (بنگال پریزیڈنسی) میں آتے تھے اور اس بنگال میں موجودہ بنگلہ دیش بھی شامل تھا۔  سنہ 1912ء میں بہار و بنگال کو الگ کرکے ایک الگ ریاست صوبہ بہار و اڑیسہ/صوبہ بہار اڑیسہ  (بہار اینڈ اڑیسہ پروونس) بنا دیا گیا، پھر یکم اپریل سنہ 1936ء میں اڑیسہ کو بہار سے الگ کرکے ایک مستقل ریاست قرار دے کر اڑیسہ کی موجودہ حدود بندی کر دی گئی اور نام ہوگیا ”صوبہ اڑیسہ“ (اڑیسہ پروونس)۔ پھر آزادی کے بعد سے جمہوریہ ہند کی ایک ریاست ہوگئی۔ (آزادی کے بعد 15 نومبر سنہ 2000ء کو بہار کو بھی دو حصوں میں کرکے جنوبی حصہ کا نام ”جھارکھنڈ“ رکھ دیا گیا۔)

   صوبۂ اڈیشہ اپنی قبائلی ثقافتوں اور یہاں کی بہت سی مندروں کی وجہ سے بھی پہچانا جاتا ہے، ہندؤوں کی ایک بڑی تِیرتھ گاہ ”جگن ناتھ مندر“ بھی یہیں واقع ہے، سنہ 2011ء کو اڑیسہ (Orissa) کا نام بدل کر اڈیشہ (Odisha) کر دیا گیا ، اب اردو میں بعض حضرات ”اڈیشہ“ اور بعض حضرات ”اڈیشا“ لکھتے ہیں۔

  اڑیسہ کے قدیم ناموں میں سے یہ ہیں: اُتکَل، کَلِنگ، مَہا کنٹر، اوڈر، اوڈر راشٹر یا اوڈر دیش، اوڈا وِسیا، اوڈیانہ، دکشن کوسالہ، کنوَل منڈل، کنگوڈا، تِری کلنگا، توسالی، چیدی یا چیدی راشٹر، گونڈوانہ۔

     یہاں کے قدیم راجاؤں میں ”اشوک“ معروف ہے، جس کا دور حکومت؛ تقریباً 268 – 232 قبل مسیح کے درمیان ہے۔

   موجودہ اڈیشہ میں مسلمانوں کی مختلف جماعتیں ہیں، جیسے اہل السنۃ و الجماعۃ، اہلِ حدیث، اہلِ بدعت، جماعتِ اسلامی، اسی طرح مسلمانوں کے علاوہ شیعہ اور قادیانی بھی اقلِ قلیل تعداد میں بستے ہیں۔

    موجودہ اڈیشہ دنیوی تعلیم اور طبی سہولیات میں دوسری بہت سی ریاستوں سے آگے ہے؛ لیکن دینی تعلیم بہت ہی کم ہے، وہ بھی اکثر مدرسوں میں ناظرہ و حفظ تک ہی کی تعلیم ہوتی ہے، گنتی کے بس چند ہی ادارے ہیں، جہاں درسِ نظامی کے ابتدائی سالوں کے اسباق ہوتے ہیں، دو ہی مدرسوں میں دورۂ حدیث تک کی تعلیم دی جاتی ہے: (الف) جامعہ مرکز العلوم سونگڑہ، ضلع کٹک، (ب) جامعہ اشرف العلوم محمود آباد، ضلع کیندرا پاڑہ۔ ایک دو اور مدرسوں میں پہلے دورۂ حدیث کی تعلیم ہوا کرتی تھی۔

     ڈھائی فیصد کے نصف سے بھی کچھ کم صحیح العقیدہ لوگ یہاں بستے ہیں، واللّٰہ اعلم

     اللّٰہ تعالٰی اس خطۂ ارضی کی ہدایت طلب بنجر وادیوں میں اسلام کی نورانی بوچھاریں برسائے اور یہاں کے دلوں کو صراطِ مستقیم کی طرف مائل کردے۔ آمین
(آندھرا پردیش کی موجودہ تقسیم سے پہلے کا نقشہ)

نانا جان رحمۃ اللّٰہ علیہ بہت یاد آئیں گے

نانا جان حضرت مولانا سید حسین احمد قاسمی عارف گیاوی رحمۃ اللّٰہ علیہ، سابق امام جامع مسجد، ساکچی، جمشید پور، جھارکھنڈ

میں نے نانا جان سے بہت کچھ سیکھا ہے، جہاں ان کی ڈانٹ کھائی ہے، وہیں ان کا پیار بھی پایا ہے، سب سے بڑی بات یہ کہ کبھی ان کی طرف سے میرا یا کسی اور کا حوصلہ نہیں ٹوٹا، وہ ہر کسی کی خوبیوں کو دیکھ کر سراہتے، حوصلہ افزائی فرماتے اور بسا اوقات انعامات سے بھی نوازتے تھے، انھوں نے اپنی اولاد کو جو کچھ گراں قدر علمی و اخلاقی چیزیں ورثے میں دی ہیں، وہ ان کی اولاد کی اولاد میں بھی واضح اور نمایاں ہیں، انھوں نے ہمیشہ اپنوں اور پرایوں کی رہنمائی کی ہے، کبھی مشفقانہ اور کبھی مربیانہ، ان کی صحبت میں اور آس پاس رہنے والوں کو اپنی اکثر چیزوں  میں ان کی تربیت و رہنمائی جھلکتی ہوئی دکھائی دے گی، اگر وہ کسی پر اس کی حرکت کی بنا پر سختی سے روک ٹوک کردیتے، تو کچھ ہی دیر بعد اس کا دل خوش کر دیتے اس کی خوبیوں کو بیان کرکے یا اس کو کچھ عطا کرکے، وہ اتنے فراخ دل تھے کہ اس شخص سے بھی فراخ دلی سے پیش آتے تھے جس نے ان کا کچھ نقصان کیا ہو یا انھیں ٹھیس پہنچائی ہو، ان کی وفات سے چھ سات گھنٹے قبل بندہ نے خواب میں کچھ ایسا دیکھا تھا جس میں کسی حادثے کی طرف اشارہ تھا، جس کا پتہ ان کی وفات کے بعد چلا، ایک خوبی ان کی یہ تھی کہ کسی کے اندر کوئی اخلاقی و معاشرتی خرابی دیکھتے تو اسے اس کی حالت کے مطابق متنبہ وآگاہ فرما دیتے تھے، انھوں نے اپنی نصف اور آدھی عمر امامت میں صرف کی، امامت میں وہ وقت کے بڑے پابند تھے، وہ دار العلوم دیوبند کے فارغ اور حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب، مفتی سعید احمد پالن پوری اور قاری عثمان صاحب منصور پوری کے ہم عصر تھے، وہ قرآن واہلِ قرآن، علم و اہلِ علم اور دین و اہلِ دیں کی بہت قدر کرتے تھے، انھوں نے اپنے بیٹوں کو بھی عالمِ دین بنایا، ہمیشہ وہ اپنی زندگی کی یادوں کو ڈائری یا کاغذ پر نقل کرتے رہتے تھے، اخیر عمر تک وہ بازار سے گھر کا سامان خود لایا کرتے تھے، ان سے جو بھی ملتا تھا، وہ ان کا گرویدہ ہو جاتا اور ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا، وہ بڑے خوش مزاح تھے، انھیں شاعری سے غایت درجہ رغبت و لگاؤ تھا، وہ حالات کو اشعار کی لڑیوں میں بھی پرویا کرتے تھے، آخری ایام میں وہ ہندوستان کے حالات پر غم زدہ و فکر مند رہتے تھے، چناں چہ اشعار میں انھوں نے شاہین باغ کی خواتینِ وطن کی بھی حوصلہ افزائی فرمائی ہے؛ الغرض ان کی زندگی ایک کھلی کتاب تھی، جس کا مطالعہ کرنے والا زندگی کے ہر موڑ پر رہنمائی حاصل کرسکتا ہے، وہ اپنوں کے ساتھ ساتھ غیروں کا بھی ہر ممکن مالی اور فکری تعاون کیا کرتے تھے، نیز "أمر بالمعروف و نہی عن المنكر" کا پیکر تھے۔

     یہ چند سطور تھے، اگر ان کی زندگی کو لکھا جائے، تو لوگوں کے لیے اک مشعلِ راہ ثابت ہو!


اللّٰہ ان کو غریقِ رحمت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے.

محمد روح الامین

خواب کی تعبیر سے متعلق کچھ باتیں

خواب کی تعبیر سے متعلق کچھ باتیں

✒️ محمد روح الامین میُوربھنجی

بلا شبہ تعبیر الرؤیا ایک فن ہے اور اسلام میں اس فن میں سب سے زیادہ مشہور ابن سیرین شمار کیے جاتے ہیں۔

حافظ شمس الدین ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں ابن سیرین کے حوالے سے لکھا ہے کہ انھیں تائید غیبی حاصل تھی۔

فن تعبیر کے مشاہیر یعنی مشہور شخصیات:

اس فن کے مصنفین میں محمد ابن سیرین بصری (32ھ - 110ھ)، غرس الدين خليل بن شاهين ظاهری (813ھ - 873ھ)،  عبد الغنی نابلسی (1050ھ - 1143ھ)، ابراهيم بن يحيى بن غنام مقدسی (متوفی 779ھ) وغیرہ مشہور ہیں۔
   نصر بن یعقوب دینوری (متوفی: 410ھ) نے 'کتاب التعبیر القادری' میں ساڑھے سات ہزار معبرین علماء کی تعداد لکھی ہے۔
فن تعبیر میں بعض مشہور کتابیں:
   كتاب تفسير الأحلام، منتخب الکلام فی تفسیر الأحلام، الإشارات في علم العبارات، تعطير الأنام في تعبير المنام، المعلم على حروف المعجم وغیرہ
تعبیر معلوم کرنے کے راستے:
 تعبیر الرؤیا کے کئی طریقے ہیں؛ (1) کبھی خواب کی تعبیر قرآن سے ہوتی ہے، (2) کبھی خواب کی تعبیر احادیث مبارکہ سے، (3) کبھی خواب کی تفسیر ناموں کی مماثلت و مشابہت سے، (4) کبھی خوابوں کی تفسیر و تعبیر؛ شکلوں، حالتوں اور افعال و حرکات کی مماثلت و مشابہت سے، (5) کبھی خواب کی تعبیر و مطلب؛ مخالف و الٹا معنی مراد لے کر معلوم کیا جاتا ہے، (6) کبھی خواب کی تعبیر مثالوں، مجازی کنایوں اور استعاروں سے حاصل کی جاتی ہے، (7) کبھی تعبیر میں متعین معانی مراد ہوتے ہیں، (8) کبھی تعبیر بتانے میں اس خواب کے معنی میں کمی بیشی کرکے تعبیر لی جاتی ہے، (9) کبھی تعبیر خواب دیکھنے والے کی حالت کا اندازہ لگا کر بتائی جاتی ہے۔ ان کے علاوہ بھی طریقے ہیں۔

ضروری باتیں:
(1) ہر خواب کی تعبیر نہیں ہوتی، خواب تین طرح کے ہوتے ہیں:
(الف) اضغاثِ احلام (پراگندہ خیالات) یعنی آدمی دن میں جن خیالات و مشاغل میں لگا رہتا ہے، خواب میں وہی خیالات و مشاغل منتشر طور پر اس کے دماغ میں گھومتے رہتے ہیں۔
(ب) تخویف من الشیطان، یعنی شیطان کی طرف سے ڈرانے والی باتیں ڈراؤنے خواب۔
(ج) بشری من اللہ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے نیک بندوں کو اچھے خواب جو بطور بشارت دکھائے جاتے ہیں۔ (کبھی کوئی شخص اللّٰہ کو محبوب ہوتا ہے، مگر اس شخص کو پتہ بھی نہیں ہوتا ہے) ایسے خواب اپنی تعبیر رکھتے ہیں اور پہلی دو قسموں کی صورت میں دھیان نہیں دینا چاہیے، بس لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھنا چاہیے اور اللّٰہ سے دعا کرنا چاہیے اور ایسے خواب کی شر سے حفاظت مانگنی چاہیے۔
خواب کی تعبیر کس سے معلوم کریں؟
یہ فن باقاعدہ مدرسوں میں پڑھایا نہیں جاتا اور ہر عالم اس میں ماہر بھی نہیں ہوتا، اس لیے خواب کی تعبیر کسی جانکار شخص سے ہی معلوم کرنا چاہیے؛ ورنہ بس اللہ تعالیٰ سے برے خوابوں کے شر سے حفاظت یا بھلے خوابوں کی بھلائی مانگنی چاہیے۔
تعبیر الرؤیا کا فن کسبی ہے یا وہبی؟
یہ مسئلہ اختلافی ہے، بعض حضرات اسے وہبی ہی مانتے ہیں، بعض اسے صرف انبیاء علیہم السلام تک محدود رکھتے ہیں، بعض کی رائے ہے کہ قرآن سے تعبیر جرم ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ یہ کسبی بھی ہے اور وہبی بھی۔
خواب کی تعبیر پر اجرت:
اس میں بھی اختلاف ہے، بعض حضرات اس کو جائز اور بعض ناجائز کہتے ہیں۔
یہ فن کہاں سیکھا جا سکتا ہے؟
کسی ماہر خواب کی تعبیر بتانے والے سے سیکھا جا سکتا ہے۔
تعبیر کی کتاب پڑھ کر خود تعبیر معلوم کرنا کیسا ہے؟
یہ بالکل علاج و معالجہ کے موضوع پر لکھی ہوئی کسی کتاب سے پڑھ کر اپنا علاج خود کرنے کی طرح ہے، ایسا کرنا غلط ہے؛ بلکہ کسی ماہر خواب کی تعبیر بتانے والے کے بارے میں معلوم کرکے ہی اس سے معلوم کرنی چاہیے؛ ورنہ اللّٰہ تعالیٰ سے اس خواب کی اچھائی کو طلب کرنا چاہیے اور برائی سے حفاظت مانگنی چاہیے اور بس!
فال نکالنا نلکوانا
اسلام میں ناجائز ہے۔
تفاؤل
تفاؤل اور فال لینا؛ دونوں میں فرق ہے۔ فال لینا، نکالنا اور نکلوانا ناجائز ہے اور تفاؤل جائز ہے۔ آئندہ اللّٰہ تعالیٰ سے بھلائی کی امید پر کوئی کام کرنے کو 'تفاؤل' کہتے ہیں، جیسے حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے حضرت فاطمۃ الزھراء رضی اللّٰہ عنہا کا نام فاطمہ رکھا، جس سے متعلق میں نے پڑھا ہے کہ یہ تفاؤل کے طور پر تھا کہ فاطمہ کے معنی ہیں: دودھ چھڑانے والی یعنی میری بیٹی بڑی بھی ہوگی ان شاء اللّٰہ، اس کا نکاح بھی ہوگا، اولاد بھی ہوگی، اپنی اولاد کو وہ دودھ بھی پلائی گی، پھر اس کا دودھ بھی چھڑائے گی۔

   اللّٰہ تعالیٰ ہمیں فہمِ سلیم یعنی دین و دنیا کی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔ آمین

Kuchh bachchon ko completly islamic education dilana kiyun zaroori hai?

Kuchh bachchon ko completly islamic education dilana kiyun zaroori hai?
Thande dimaagh aur saf dil se padh kar samjhen!
Yeh khaas karke qaum ki us majority ke liye hai, jo na Madrase me padh rahe hain aur na Schools aur colleges me.
Ab agar 2-3 percent log Madrase me padhte hain Qur'an o Hadith ki hifazat ke liye, to log;  khas karke government unke peechhe pada huwa hai. Dhiyan us majority par dena ziyada achchha hai, jo gharon me bethe huwe hain, kuchh ghhurbat ki wajah se schools + colleges me padh nahi pate!
Picture me Maulana Sayed Arshad Madani ka yeh jumle Madrase me padhne waalon se nahi keh rahe hain; balki Aam Musalmanon se keh rahe hain ki apne bacchon ki education par dhiyan den, sirf Madrase me padhne waale hi bachhe nahi hain, is se ziyada bachche gharon me hotalon me pade huwe hain.

Islaam ki hifazat ke liye for example Apne 5 bachhon me se 1 ko ya apne mohalle me se 1 ko bhi islamic education nahi dilayen to nuqsaan aur sharam ki baat hai.

#Note: Bachchon ko sirf dekh kar (Nazra) Qur'an padha dene se yeh nahi kaha jayega ki hum ne apne bacchon ko islamic education dediya; balki kuchh logon ko completly Madrase me padhna padega; warna Musalmanon ke ander sirf naam ka islaam reh jayega aur bacha kucha islam bhi khatam ho jayega aur aahista aahista woh din bhi door nahi ki is tarah ke liberal muslims apna eimaan bhi bech den!

Read more:



جمعہ، 21 جنوری، 2022

اِیصالِ ثواب: ایک تحقیق؛ ایک جائزہ

اِیصالِ ثواب: ایک تحقیق؛ ایک جائزہ
ترجمہ: محمد روح الامین میور بھنجی
         تمام تعريفيں اللہ کے لیے ہیں، اور اللہ کے رسول اور اُن کے آل و اصحاب پر دُرود و سلام نازل ہو۔
    بہرحال حمد و صلاة کے بعد یہ کہ علماء کا اِس بات پر اِجماع (اِتّفاق) ہے کہ دعا و صدقہ سے میت کو فائده پہنچتا ہے(جب اُس کے لیے دعا و صدقہ کیا جائے) اور میت تک دعا و صدقہ کا ثواب بھی پہنچتا ہے(جب اِس کی نیّت کی جائے)، دلیل یہ حدیث ہے ۞عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله تعالى عنه: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: إِذَا مَاتَ ابنُ آدم انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثٍ: صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أو عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.۞(حضرت ابو ہریرة ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"جب انسان مرجاتا ہے تو اُس کے عمل کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے؛ سواۓ  تین (راستوں) کے؛ (1) صدقۀ جاریہ،(2) علمِ نافع،(3) وہ نیک اولاد جو اُس کے لیے دُعا کرے"(اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے)۔
   اور علماء کا اختلاف دعا و صدقہ کے علاوه دیگر اعمالِ صالحہ میں ہے، جیسے: ذکر، قرآن اور نماز میں؛ کہ آیا ذکر، قرآن اور نماز سے میت کو فائده پہنچتا ہے یا نہیں؟ اور اِن کا ثواب میّت کو پہنچتا ہے یا نہیں؟
    تو یہاں تین طرح کے قائلین  ہیں،(1) وہ جنکا ماننا ہے کہ میت کو ذکر، قرآن اور نماز کے ثواب میں سے کچھ نہیں پہنچتا،(2) وہ جنکا کہنا ہے میت کو مذکورہ ساری چیزیں پہنچتی ہیں،(3) وہ جو ان اعمال میں فرق کرتے ہیں۔
   "کشّاف القِناع" میں لکھا ہے:"اور ہر وہ نیکی جو مسلمان کرے اور اُس کا پورا ثواب یا بعضِ ثواب؛ جیسے آدھا یا تہائی یا چوتھائی ثواب کسی زندہ یا مُردہ مسلمان کو پہنچانے کی نیت کرے تو ایسا کرنا جائز ہے اور یہ اُس کے لیے بھی مفید ہے؛ کیوں کہ اُس کو بھی اِس کا ثواب ملتا ہے"۔
   اور امامِ زیلعیؒ نے "تبیین الحقائق" میں ۞باب الحجّ عن الغیر۞(حجِ بدل کے باب) کے تحت لکھا ہے:"ضابطہ اِس باب میں یہ ہے کہ"اہل السنة و الجماعة" کے نزديک؛ انسان کے لیے اپنے عمل کا ثواب اپنے علاوہ کسی اور  کو پہنچانا جائز ہے، خواہ وہ عمل نماز ہو؛ روزہ ہو؛ حج ہو؛ تلاوتِ قرآن ہو؛ اَذکار ہوں؛ یا وہ دیگر چیزیں جو نیکی کے اقسام میں آتی ہوں، اور یہ ساری چیزیں؛ میت تک پہنچتی بھی ہیں اور اُس کو اِن سے فائدہ بھی ہوتا ہے"۔
  اور شیخ الاسلام امام ابنِ تیمیہؒ نے فرمایا ہے اور یہ نبیﷺ سے صِحّت کے ساتھ ثابت بھی ہے کہ آپﷺ نے میت کے لیے صدقہ کا حکم فرمایا اور یہ حُکم فرمایا کہ میّت کی طرف سے روزے رکھیں جائیں اور مُردوں کی طرف سے صدقہ کرنا بھی ایک نیک عمل ہے۔
   اور اسی طرح وہ احادیث؛ جو مَوتٰی(مُردوں) کی طرف سے روزہ رکھنے کے سلسلے میں وارِد ہُوئیں ہیں، اور اِس حدیث اور اِس کے علاوہ دیگر احادیث سے، اُن علماء نے اِستِدلال کیا(دلیل پیش کیا) ہے، جو اِس بات کے قائل ہیں کہ مسلمان مُردوں کو مالی اور بدنی عبادتوں کا ثواب بخشنا جائز ہے؛ جیسا کہ یہ امام احمد بن حنبلؒ؛ امام ابوحنیفہؒ کا اپنایا ہُوا راستہ ہے،اور مالِکِیّہ اور اصحابِ شوافع میں سے ایک جماعت کا بھی یہی مسلک ہے۔
  چناں چہ اگر میّت کو روزے؛ نماز؛ یا قرآن پڑھنے کا ثواب پہنچاۓ تو یہ جائز ہے۔
   اور مالِکِیّہ اور شوافع میں سے اکثر اِس بات کے قائل ہیں: "مالی عبادتوں میں تو یہ مشروع(ثابت) ہے۔اور اِسی کے ساتھ سلف کی عادت بھی نہیں تھی کہ جب وہ نفل نماز پڑھتے؛ روزہ رکھتے؛ حج کرتے؛ یا قرآن کی تلاوت کرتے ہوں تو اُس کا ثواب مسلمان میّتوں اور اپنے خواصّ کو پہنچاتے ہوں؛ بل کہ اُن کی عادت وہی تھی جس کا ذکر ماقبل میں گُزرا یعنی اُنھوں نے عبادت اپنے لیے کیا، ہاں! میّت کے لیے دُعا اور صدقہ کرتے تھے؛ لہٰذا سلف کے طریقہ کو بدلنا مناسب نہیں؛ کیوں کہ اُنھیں کا طریقہ افضل اور زیادہ کامل ہے"۔
   اور امام عینیؒ نے لکھا ہے: "لوگوں کا اِس مسئلہ میں اختلاف ہے، سو ابو حنیفہ و احمد(رحمہما اللہ) کا مسلک یہ ہے کہ میّت کو تلاوتِ قرآن کا ثواب پہنچتا ہے(یعنی جب اِس کی نیّت کرے)"۔
 اور امام نَوَوِیؒ نے لکھا ہے:  (امام)شافعیؒ اور ایک جماعت کا یہ مسلک مشہور ہے کہ تلاوتِ قرآن (کا ثواب) میّت کو نہیں پہنچتا؛ لیکن علماء کا اِس بات پر اِتّفاق ہے کہ دُعا مُردوں کے کام آتی ہے اور اُس کا ثواب بھی مُردہ تک پہنچتا ہے، اُن کی دلیل اللہ تعالٰی کا یہ قَول ہے:۞والذین جاؤوا مِن بعدھم یقولون ربنا اغفر لنا و لإخواننا الذین سبقونا بالإیمان۞ "اور وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے، وہ کہیں گے: اے ہمارے پروردگار! تو بخشش فرما ہماری اور ہمارے اُن بھائیوں کی جو ہم سے پہلے ایمان لاۓ" (الحشر؛ الآیة:10)
   اور اِس کے علاوه بھی آیات اور  مشہور حدیثیں ہیں؛ جن میں سے نبیﷺ کا یہ قول ہے: "اے اللہ! قبرستان (جنت) البقیع والوں کی مغفرت فرما"۔
   اور اُنھیں احادیث میں سے نبیﷺ کا یہ قول بھی ہے:" اے اللہ! ہمارے زندوں اور ہمارے مُردوں کی بخشش فرما" اِس کے علاوہ (دیگر دلائل بھی)ہیں۔
    سو اگر تو سوچے کہ کیا روزہ؛ صدقہ؛ یا غُلام آزاد کرنے کا ثواب مُردے تک پہنچتا ہے؟ تو میرا جواب یہ ہوگا کہ ابوبکر نجّارؒ نے "کتاب السُّنَن" میں عَمْرو بن شعیبؒ کی حدیث روایت کی ہے،عمرو بن شعیبؒ نے اپنے ابّا سے، اُن کے ابا نے اُن  کے دادا سے رِوایت کیا ہے کہ اُنھوں نے نبیﷺ سے سوال کرتے ہُوے کہا: اے اللہ کے رسول! عاص بن وائلؓ نے زمانۀ جاہِلِیّت میں 100 اونٹ کی قُربانی دینے کی مَنَّت مانی تھی اور ہِشام بن عاصؓ نے۔۔۔۔۔۔پچاس (اونٹوں) کی قُربانی دی تو کیا یہ اُن کی(عاص بن وائلؓ کی) طرف سے کافی ہوجاۓ گا؟ تو نبیﷺ نے فرمایا:" اگر تمہارے والد نے خدا کے ایک ہونے کا اِقرار کیا تھا پھر تُم نے اُن کی طرف سے روزہ رکھا؛ صدقہ کیا؛ یا غُلام آزاد کیا تو یہ(اُس کا ثواب) اُن تک پہنچ گیا"۔
   اور "دارِ قُطنی" میں روایت کیا گیا ہے: ایک شخص نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! میں اپنے والدین کے گزر جانے کے بعد کس طرح اُن تک نیکی پہنچاؤں؟ تو (آپﷺ نے) فرمایا: موت کے بعد نیکی پہنچانا یہ ہے کہ تو اپنی خاطر دُعا کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کے لیے بھی دعا کرے، اپنے لیے روزے رکھنے کے ساتھ ساتھ اُن کے لیے بھی روزے رکھے اور اپنی طرف سے صدقہ کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی طرف سے بھی صدقہ کرے"۔
   اور قاضی امام ابو الحسن بن الفَرّاءؒ کی کتاب میں ہے؛ اُنھوں نے حضرت انسؓ سے روایت کیا ہے: حضرت انسؓ نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کرتے ہُوے فرمایا: اے اللہ کے رسول! اگر ہم اپنے مُردوں کی طرف سے صدقہ کریں، اُن کی طرف سے حج کریں اور اُن کے لیے دُعا کریں تو کیا یہ اُن تک پہنچے گا؟ آپﷺ نے فرمایا:" بالکل! اور مُردے اِس سے خوش ہوتے ہیں؛ جیساکہ تُم میں سے کوئی (قیمتی اشیاء سے بھری) طشتری سے خوش ہوتا ہے جب اُسے وہ  ہدیہ میں دیا جاۓ"۔
   اور سعدؓ سے مَروِی ہے؛ اُنھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے والد کا اِنتِقال ہوگیا تو کیا میں اُن کی طرف سے غُلام آزاد کرسکتا ہُوں؟ آپﷺ نے فرمایا: "بالکل!"۔
   اور ابو جعفر محمدؒ بن علیؒ بن حُسینؓ سے روایت ہے کہ حضراتِ حَسنَین رضی اللہ عنہما  حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے غُلام آزاد فرمایا کرتے تھے۔
  اور "الصحیح" میں ہے؛ ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری ماں وفات پاچُکی ہیں! کیا میرا اُن کی طرف سے صدقہ کرنا اُن کے لیے نفع بخش ہوگا؟ آپﷺ نے فرمایا:"بالکل"۔
   سو اگر تُم کہو کہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے:۞وأن لیسَ لِلإنسانِ إلا ماسَعٰی۞"اور انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اُس نے سعی کی"(النجم؛ الآیة:39) اور یہ آیت تو میت تک؛ قرآن کا ثواب نہ پہنچنے پر دلالت کرتی ہے؟
    تو میرے پاس اُس کا جواب یہ ہے کہ علماء کا اِس آیت کی تفسير میں اختلاف ہے؛ یہاں آٹھ 8 اَقوال ہیں، جِن میں سے ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے(اِس آیت کا حُکم اُٹھا لیا گیا تھا) اللہ تعالٰی کے دوسرے فرمان کی وجہ سے، اور وہ یہ ہے:۞والّذین آمَنُوا واتَّبَعَتْھُم ذُرِّیَّتُھُم۞(الطور؛ الآیة:21)
   یعنی باب دادا؛ اولاد کی نیکیوں کی بدولت جنت میں داخِل کیے جائیں گے۔ اور یہ تفسیر حضرت ابنِ عبَّاسؓ نے کی ہے۔
  اور اُنھیں آٹھ اقوال میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ۞وأن لیسَ لِلإنسانِ إلا ماسَعٰی۞ یہ فرمان عَدل و اِنصاف کے طریقہ سے ہے(یعنی اگر اللہ تعالٰی اپنا عدل دکھانے لگیں تو انسان کو وہی بدلہ مِلے جیسا اُس نے عمل کیا ہو)۔
   پر اللہ تعالٰی اگر اپنے فَضل کا مُظاہرہ فرماۓ تو مُمکِن ہے کہ جتنا چاہے (بندہ کے عمل میں) اِضافہ کردے؛ یہ حُسین بن فضلؒ کا قول ہے۔
   اور اُنھیں آٹھ اقوال میں سے یہ بھی ہے کہ "انسان کے لیے تو اُسی کی کِی ہُوئی محنت ہے"؛ مگر یہ کہ اسباب و ذرائع مُختلِف ہوتے ہیں۔کبھی اُس کی محنت بذاتِ خود کسی چیز کے حاصِل کرنے کے لیے ہوتی ہے اور کبھی اُس کی محنت اُس چیز کے سبب کے حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہے (اُس کی محنت اُسے اُس جگہ پر پہنچادیتی جو اُس کے لیے منزلِ مقصود تک پہنچنے کا سبب ہو)؛ جیسے: اُس کی محنت  ایک ایسے لڑکے کے حاصِل کرنے سلسلے میں ہو جو اُس کے لیے دُعاۓ رحمت کرے اور اُس کی محنت ایسے دوست کو پانے کے لیے ہو جو اُس کے واسطے دعائے مغفرت کرے۔اور کبھی خدمتِ دین کے تعلّق سے محنت کرتا ہے، یکایک اُسے خُدّامِ دِین سے محبت ہوجاتی ہے ،تو یہاں خدمتِ دین کے تعلُّق سے محنت؛ ایک ایسا سبب بَن گئی جس کی بَدَولت؛ علماء کی محبت حاصِل ہوگئی۔ یہ ابوالفرج نے اپنے شیخ "ابنِ زغوانی" کے واسطے سے بیان کیا ہے۔
  اور اِس آیت کی تاویل و تفسیر میں اِس کے علاوہ بھی دیگر اقوال ہیں۔
   اختتام ہُوا ۔ یہ ساری باتیں "عُمدة القاری" سے معمولی تصرُّف کے ساتھ ماخوذ ہیں (اور اردو؛ عربی عبارت کا ترجمہ ہے)۔

مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ

مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ محمد روح الامین میوربھنجی       مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی سرزمینِ بہا...