جمعہ، 21 جنوری، 2022

اِیصالِ ثواب: ایک تحقیق؛ ایک جائزہ

اِیصالِ ثواب: ایک تحقیق؛ ایک جائزہ
ترجمہ: محمد روح الامین میور بھنجی
         تمام تعريفيں اللہ کے لیے ہیں، اور اللہ کے رسول اور اُن کے آل و اصحاب پر دُرود و سلام نازل ہو۔
    بہرحال حمد و صلاة کے بعد یہ کہ علماء کا اِس بات پر اِجماع (اِتّفاق) ہے کہ دعا و صدقہ سے میت کو فائده پہنچتا ہے(جب اُس کے لیے دعا و صدقہ کیا جائے) اور میت تک دعا و صدقہ کا ثواب بھی پہنچتا ہے(جب اِس کی نیّت کی جائے)، دلیل یہ حدیث ہے ۞عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله تعالى عنه: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: إِذَا مَاتَ ابنُ آدم انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثٍ: صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أو عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.۞(حضرت ابو ہریرة ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"جب انسان مرجاتا ہے تو اُس کے عمل کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے؛ سواۓ  تین (راستوں) کے؛ (1) صدقۀ جاریہ،(2) علمِ نافع،(3) وہ نیک اولاد جو اُس کے لیے دُعا کرے"(اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے)۔
   اور علماء کا اختلاف دعا و صدقہ کے علاوه دیگر اعمالِ صالحہ میں ہے، جیسے: ذکر، قرآن اور نماز میں؛ کہ آیا ذکر، قرآن اور نماز سے میت کو فائده پہنچتا ہے یا نہیں؟ اور اِن کا ثواب میّت کو پہنچتا ہے یا نہیں؟
    تو یہاں تین طرح کے قائلین  ہیں،(1) وہ جنکا ماننا ہے کہ میت کو ذکر، قرآن اور نماز کے ثواب میں سے کچھ نہیں پہنچتا،(2) وہ جنکا کہنا ہے میت کو مذکورہ ساری چیزیں پہنچتی ہیں،(3) وہ جو ان اعمال میں فرق کرتے ہیں۔
   "کشّاف القِناع" میں لکھا ہے:"اور ہر وہ نیکی جو مسلمان کرے اور اُس کا پورا ثواب یا بعضِ ثواب؛ جیسے آدھا یا تہائی یا چوتھائی ثواب کسی زندہ یا مُردہ مسلمان کو پہنچانے کی نیت کرے تو ایسا کرنا جائز ہے اور یہ اُس کے لیے بھی مفید ہے؛ کیوں کہ اُس کو بھی اِس کا ثواب ملتا ہے"۔
   اور امامِ زیلعیؒ نے "تبیین الحقائق" میں ۞باب الحجّ عن الغیر۞(حجِ بدل کے باب) کے تحت لکھا ہے:"ضابطہ اِس باب میں یہ ہے کہ"اہل السنة و الجماعة" کے نزديک؛ انسان کے لیے اپنے عمل کا ثواب اپنے علاوہ کسی اور  کو پہنچانا جائز ہے، خواہ وہ عمل نماز ہو؛ روزہ ہو؛ حج ہو؛ تلاوتِ قرآن ہو؛ اَذکار ہوں؛ یا وہ دیگر چیزیں جو نیکی کے اقسام میں آتی ہوں، اور یہ ساری چیزیں؛ میت تک پہنچتی بھی ہیں اور اُس کو اِن سے فائدہ بھی ہوتا ہے"۔
  اور شیخ الاسلام امام ابنِ تیمیہؒ نے فرمایا ہے اور یہ نبیﷺ سے صِحّت کے ساتھ ثابت بھی ہے کہ آپﷺ نے میت کے لیے صدقہ کا حکم فرمایا اور یہ حُکم فرمایا کہ میّت کی طرف سے روزے رکھیں جائیں اور مُردوں کی طرف سے صدقہ کرنا بھی ایک نیک عمل ہے۔
   اور اسی طرح وہ احادیث؛ جو مَوتٰی(مُردوں) کی طرف سے روزہ رکھنے کے سلسلے میں وارِد ہُوئیں ہیں، اور اِس حدیث اور اِس کے علاوہ دیگر احادیث سے، اُن علماء نے اِستِدلال کیا(دلیل پیش کیا) ہے، جو اِس بات کے قائل ہیں کہ مسلمان مُردوں کو مالی اور بدنی عبادتوں کا ثواب بخشنا جائز ہے؛ جیسا کہ یہ امام احمد بن حنبلؒ؛ امام ابوحنیفہؒ کا اپنایا ہُوا راستہ ہے،اور مالِکِیّہ اور اصحابِ شوافع میں سے ایک جماعت کا بھی یہی مسلک ہے۔
  چناں چہ اگر میّت کو روزے؛ نماز؛ یا قرآن پڑھنے کا ثواب پہنچاۓ تو یہ جائز ہے۔
   اور مالِکِیّہ اور شوافع میں سے اکثر اِس بات کے قائل ہیں: "مالی عبادتوں میں تو یہ مشروع(ثابت) ہے۔اور اِسی کے ساتھ سلف کی عادت بھی نہیں تھی کہ جب وہ نفل نماز پڑھتے؛ روزہ رکھتے؛ حج کرتے؛ یا قرآن کی تلاوت کرتے ہوں تو اُس کا ثواب مسلمان میّتوں اور اپنے خواصّ کو پہنچاتے ہوں؛ بل کہ اُن کی عادت وہی تھی جس کا ذکر ماقبل میں گُزرا یعنی اُنھوں نے عبادت اپنے لیے کیا، ہاں! میّت کے لیے دُعا اور صدقہ کرتے تھے؛ لہٰذا سلف کے طریقہ کو بدلنا مناسب نہیں؛ کیوں کہ اُنھیں کا طریقہ افضل اور زیادہ کامل ہے"۔
   اور امام عینیؒ نے لکھا ہے: "لوگوں کا اِس مسئلہ میں اختلاف ہے، سو ابو حنیفہ و احمد(رحمہما اللہ) کا مسلک یہ ہے کہ میّت کو تلاوتِ قرآن کا ثواب پہنچتا ہے(یعنی جب اِس کی نیّت کرے)"۔
 اور امام نَوَوِیؒ نے لکھا ہے:  (امام)شافعیؒ اور ایک جماعت کا یہ مسلک مشہور ہے کہ تلاوتِ قرآن (کا ثواب) میّت کو نہیں پہنچتا؛ لیکن علماء کا اِس بات پر اِتّفاق ہے کہ دُعا مُردوں کے کام آتی ہے اور اُس کا ثواب بھی مُردہ تک پہنچتا ہے، اُن کی دلیل اللہ تعالٰی کا یہ قَول ہے:۞والذین جاؤوا مِن بعدھم یقولون ربنا اغفر لنا و لإخواننا الذین سبقونا بالإیمان۞ "اور وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے، وہ کہیں گے: اے ہمارے پروردگار! تو بخشش فرما ہماری اور ہمارے اُن بھائیوں کی جو ہم سے پہلے ایمان لاۓ" (الحشر؛ الآیة:10)
   اور اِس کے علاوه بھی آیات اور  مشہور حدیثیں ہیں؛ جن میں سے نبیﷺ کا یہ قول ہے: "اے اللہ! قبرستان (جنت) البقیع والوں کی مغفرت فرما"۔
   اور اُنھیں احادیث میں سے نبیﷺ کا یہ قول بھی ہے:" اے اللہ! ہمارے زندوں اور ہمارے مُردوں کی بخشش فرما" اِس کے علاوہ (دیگر دلائل بھی)ہیں۔
    سو اگر تو سوچے کہ کیا روزہ؛ صدقہ؛ یا غُلام آزاد کرنے کا ثواب مُردے تک پہنچتا ہے؟ تو میرا جواب یہ ہوگا کہ ابوبکر نجّارؒ نے "کتاب السُّنَن" میں عَمْرو بن شعیبؒ کی حدیث روایت کی ہے،عمرو بن شعیبؒ نے اپنے ابّا سے، اُن کے ابا نے اُن  کے دادا سے رِوایت کیا ہے کہ اُنھوں نے نبیﷺ سے سوال کرتے ہُوے کہا: اے اللہ کے رسول! عاص بن وائلؓ نے زمانۀ جاہِلِیّت میں 100 اونٹ کی قُربانی دینے کی مَنَّت مانی تھی اور ہِشام بن عاصؓ نے۔۔۔۔۔۔پچاس (اونٹوں) کی قُربانی دی تو کیا یہ اُن کی(عاص بن وائلؓ کی) طرف سے کافی ہوجاۓ گا؟ تو نبیﷺ نے فرمایا:" اگر تمہارے والد نے خدا کے ایک ہونے کا اِقرار کیا تھا پھر تُم نے اُن کی طرف سے روزہ رکھا؛ صدقہ کیا؛ یا غُلام آزاد کیا تو یہ(اُس کا ثواب) اُن تک پہنچ گیا"۔
   اور "دارِ قُطنی" میں روایت کیا گیا ہے: ایک شخص نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! میں اپنے والدین کے گزر جانے کے بعد کس طرح اُن تک نیکی پہنچاؤں؟ تو (آپﷺ نے) فرمایا: موت کے بعد نیکی پہنچانا یہ ہے کہ تو اپنی خاطر دُعا کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کے لیے بھی دعا کرے، اپنے لیے روزے رکھنے کے ساتھ ساتھ اُن کے لیے بھی روزے رکھے اور اپنی طرف سے صدقہ کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی طرف سے بھی صدقہ کرے"۔
   اور قاضی امام ابو الحسن بن الفَرّاءؒ کی کتاب میں ہے؛ اُنھوں نے حضرت انسؓ سے روایت کیا ہے: حضرت انسؓ نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کرتے ہُوے فرمایا: اے اللہ کے رسول! اگر ہم اپنے مُردوں کی طرف سے صدقہ کریں، اُن کی طرف سے حج کریں اور اُن کے لیے دُعا کریں تو کیا یہ اُن تک پہنچے گا؟ آپﷺ نے فرمایا:" بالکل! اور مُردے اِس سے خوش ہوتے ہیں؛ جیساکہ تُم میں سے کوئی (قیمتی اشیاء سے بھری) طشتری سے خوش ہوتا ہے جب اُسے وہ  ہدیہ میں دیا جاۓ"۔
   اور سعدؓ سے مَروِی ہے؛ اُنھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے والد کا اِنتِقال ہوگیا تو کیا میں اُن کی طرف سے غُلام آزاد کرسکتا ہُوں؟ آپﷺ نے فرمایا: "بالکل!"۔
   اور ابو جعفر محمدؒ بن علیؒ بن حُسینؓ سے روایت ہے کہ حضراتِ حَسنَین رضی اللہ عنہما  حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے غُلام آزاد فرمایا کرتے تھے۔
  اور "الصحیح" میں ہے؛ ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری ماں وفات پاچُکی ہیں! کیا میرا اُن کی طرف سے صدقہ کرنا اُن کے لیے نفع بخش ہوگا؟ آپﷺ نے فرمایا:"بالکل"۔
   سو اگر تُم کہو کہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے:۞وأن لیسَ لِلإنسانِ إلا ماسَعٰی۞"اور انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اُس نے سعی کی"(النجم؛ الآیة:39) اور یہ آیت تو میت تک؛ قرآن کا ثواب نہ پہنچنے پر دلالت کرتی ہے؟
    تو میرے پاس اُس کا جواب یہ ہے کہ علماء کا اِس آیت کی تفسير میں اختلاف ہے؛ یہاں آٹھ 8 اَقوال ہیں، جِن میں سے ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے(اِس آیت کا حُکم اُٹھا لیا گیا تھا) اللہ تعالٰی کے دوسرے فرمان کی وجہ سے، اور وہ یہ ہے:۞والّذین آمَنُوا واتَّبَعَتْھُم ذُرِّیَّتُھُم۞(الطور؛ الآیة:21)
   یعنی باب دادا؛ اولاد کی نیکیوں کی بدولت جنت میں داخِل کیے جائیں گے۔ اور یہ تفسیر حضرت ابنِ عبَّاسؓ نے کی ہے۔
  اور اُنھیں آٹھ اقوال میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ۞وأن لیسَ لِلإنسانِ إلا ماسَعٰی۞ یہ فرمان عَدل و اِنصاف کے طریقہ سے ہے(یعنی اگر اللہ تعالٰی اپنا عدل دکھانے لگیں تو انسان کو وہی بدلہ مِلے جیسا اُس نے عمل کیا ہو)۔
   پر اللہ تعالٰی اگر اپنے فَضل کا مُظاہرہ فرماۓ تو مُمکِن ہے کہ جتنا چاہے (بندہ کے عمل میں) اِضافہ کردے؛ یہ حُسین بن فضلؒ کا قول ہے۔
   اور اُنھیں آٹھ اقوال میں سے یہ بھی ہے کہ "انسان کے لیے تو اُسی کی کِی ہُوئی محنت ہے"؛ مگر یہ کہ اسباب و ذرائع مُختلِف ہوتے ہیں۔کبھی اُس کی محنت بذاتِ خود کسی چیز کے حاصِل کرنے کے لیے ہوتی ہے اور کبھی اُس کی محنت اُس چیز کے سبب کے حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہے (اُس کی محنت اُسے اُس جگہ پر پہنچادیتی جو اُس کے لیے منزلِ مقصود تک پہنچنے کا سبب ہو)؛ جیسے: اُس کی محنت  ایک ایسے لڑکے کے حاصِل کرنے سلسلے میں ہو جو اُس کے لیے دُعاۓ رحمت کرے اور اُس کی محنت ایسے دوست کو پانے کے لیے ہو جو اُس کے واسطے دعائے مغفرت کرے۔اور کبھی خدمتِ دین کے تعلّق سے محنت کرتا ہے، یکایک اُسے خُدّامِ دِین سے محبت ہوجاتی ہے ،تو یہاں خدمتِ دین کے تعلُّق سے محنت؛ ایک ایسا سبب بَن گئی جس کی بَدَولت؛ علماء کی محبت حاصِل ہوگئی۔ یہ ابوالفرج نے اپنے شیخ "ابنِ زغوانی" کے واسطے سے بیان کیا ہے۔
  اور اِس آیت کی تاویل و تفسیر میں اِس کے علاوہ بھی دیگر اقوال ہیں۔
   اختتام ہُوا ۔ یہ ساری باتیں "عُمدة القاری" سے معمولی تصرُّف کے ساتھ ماخوذ ہیں (اور اردو؛ عربی عبارت کا ترجمہ ہے)۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ

مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ محمد روح الامین میوربھنجی       مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی سرزمینِ بہا...