پیر، 10 اپریل، 2023

مولانا مفتی عبد اللہ معروفی: مختصر سوانحی خاکہ

مولانا مفتی عبد اللہ معروفی: مختصر سوانحی خاکہ

محمد روح الامین میُوربھنجی


     برصغیر پاک و ہند میں علوم حدیث کے تعلق سے تقریباً نصف صدی سے جو حضرات بے لوث خدمات انجام دے رہے ہیں، ان میں ایک نام مولانا مفتی عبد اللّٰہ معروفی حفظہ اللّٰہ کا ہے، جو تقریباً تیئس سال سے ایشیا کی عظیم درس گاہ دار العلوم دیوبند میں شعبۂ تخصص فی الحدیث کے استاذ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں اور گزشتہ ایک عرصے سے اس شعبے کے نگراں و صدر بھی ہیں اور دیگر فنون کے ساتھ ساتھ علم حدیث اور فن اسماء الرجال پر جن کو غیر معمولی دسترس اور گیرائی حاصل ہے (ماشاء اللّٰہ)۔ آج قارئین کے سامنے ان کا مختصر سوانحی خاکہ پیش کرتا ہوں۔


      ابتدائی و تعلیمی زندگی

    مولانا مفتی عبد اللہ بن عمر بن بشیر معروفی 1386ھ (بہ مطابق 1967ء) شمالی ہند کے صوبہ اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے قصبہ پورہ معروف (جو اب ضلع مئو میں آتا ہے) میں پیدا ہوئے۔


     ان کی ابتدائی تعلیم کا مرحلہ مدرسہ اشاعت العلوم پورہ معروف میں طے ہوا، پھر انھوں نے 1978 تا 1982ء (بہ مطابق 1398 تا 1402ء) اپنے عم بزرگوار مولانا زین العابدین اعظمیؒ کے ایما پر مدرسۃ الاصلاح سرائے میر، اعظم گڑھ میں عربی اول تا چہارم کی تعلیم حاصل کی۔


پھر ان ہی کے حکم و مشورے سے دار العلوم دیوبند آگئے اور سنہ 1406ھ بہ مطابق 1986ء میں دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے اور اگلے سال 1987ء میں دار العلوم ہی سے افتا کیا۔


شعبان 1406ھ میں دورۂ حدیث سے فراغت کے بعد جب گھر گئے تو اپنے عم بزرگوار مولانا زین العابدین اعظمیؒ سے حجۃ اللّٰہ البالغۃ کے شروع کا بعض حصہ پڑھا۔


        دورۂ حدیث شریف کے اساتذہ

     ان کے اساتذۂ دورۂ حدیث کے نام مع اسمائے کتب درج ذیل ہیں:

صحیح بخاری (نصف اول): شیخ الحدیث مولانا نصیر احمد خان بلند شہریؒ

صحیح بخاری (نصف ثانی): مولانا عبد الحق اعظمیؒ

صحیح مسلم (نصف اول): مولانا نعمت اللّٰہ اعظمی

صحیح مسلم (نصف ثانی): علامہ قمر الدین احمد گورکھپوری

جامع ترمذی (نصف اول): مفتی سعید احمد پالن پوریؒ

جامع ترمذی (نصف ثانی کا اکثر حصہ): مولانا سید ارشد مدنی

جامع ترمذی (نصف ثانی کا بعض حصہ): مولانا معراج الحق دیوبندیؒ

سنن ابو داؤد (ایک معتد بہ حصہ): مولانا محمد حسین بہاریؒ

سنن نسائی (کتاب الطہارۃ، کتاب الصلاۃ): مولانا زبیر احمد دیوبندیؒ

موطأ امام مالک (نصاب میں داخل حصہ): مولانا محمد حسین بہاریؒ

موطأ امام محمد (نصاب میں داخل حصہ): مولانا نعمت اللّٰہ اعظمی

شمائل ترمذی: مولانا عبد الخالق مدراسی

سنن ابن ماجہ (مقدمہ، کتاب الطہارۃ): مولانا ریاست علی ظفر بجنوریؒ

شرح معانی الآثار (کتاب الطہارۃ، کتاب الصلاۃ): مفتی سعید احمد پالن پوریؒ


       دیگر اسانیدِ حدیث

    اساتذۂ دورۂ حدیث کے علاوہ انھیں مولانا محمد یونس جونپوریؒ کی طرف سے رسائلِ ثلاث یعنی ”الفضل المبین فی المسلسل من حدیث النبی الامین“، ”الدر الثمین فی مبشرات النبی الامین“ اور ”النوادر من احادیث سید الاوائل و الاواخر“ کی اجازت حاصل تھی۔


   مولانا عاشق الٰہی بلند شہری/برنیؒ نے انھیں اپنی اُن تمام مسموعات اور مُجازاتِ احادیث کی اجازت دی جن کی تفصیل مولانا برنی نے ”العناقید الغالیہ“ میں تحریر فرمائی ہے۔


     انھیں حکیم مولانا احمد حسن خاں ٹونکی نے بھی اپنی تمام مسموعات اور مجازات کے روایت کرنے کی اجازت عطا فرمائی ہے، جن میں ایک سند وہ بھی ہے جس میں وہ مولانا حیدر حسن خاں ٹونکیؒ، پھر میاں نذیر حسین دہلویؒ کے واسطے سے سیدھے شاہ اسحاق دہلویؒ تک پہنچ جاتے ہیں۔


    اسی طرح انھیں ان کے عم بزرگوار مولانا زین العابدین معروفی/اعظمیؒ نے رسالۃ الاوائل لمحمد سعید بن سنبلؒ کی اجازت عطا فرمائی تھی۔


        تدریسی و عملی زندگی

    افتا سے فراغت کے بعد 1407ھ میں مدرسہ مطلع العلوم رامپور میں بحیثیت مدرس ان کا تقرر ہوا، پھر شوال 1408ھ بہ مطابق 1988ء میں جامعہ اسلامیہ ریوڑھی تالاب، بنارس میں بحیثیت مدرس ان کا تقرر ہوا اور انھوں نے تقریباً آٹھ سال وہاں پر تدریسی خدمات انجام دیں۔


     پھر جب 1415ھ بہ مطابق 1995ء کو مظاہر علوم جدید سہارنپور میں شعبۂ تخصص فی الحدیث کا قیام عمل میں آیا تو پہلے سال تو مولانا زین العابدین اعظمیؒ نے اس شعبے میں تنہا تدریسی خدمات انجام دیں اور اگلے سال مفتی عبد اللہ معروفی مظاہر علوم سہارنپور کے شعبۂ تخصص فی الحدیث کے لیے بحیثیت مدرس و معاون منتخب کیے گئے اور اس وقت سے 1421ھ (بہ مطابق 2000ء) تک تقریباً پانچ سال اپنے عم محترم کے زیر سایہ رہ کر مظاہر علوم میں علم حدیث کی تدریسی خدمات انجام دیں اور اس وقت انھیں اپنے عم بزرگوار سے خوب استفادہ کا موقع ملا۔


1421ھ (بہ مطابق 2000ء) میں انھیں دار العلوم دیوبند کے شعبۂ تخصص فی الحدیث کے استاذ کی حیثیت سے مدعو کیا گیا اور 1440ھ میں درجۂ علیا میں ان کی ترقی ہوئی۔


    مظاہر علوم جدید کے زمانۂ تدریس میں ”معرفۃ انواع علم الحدیث“ معروف بَہ ”مقدمۃ ابن الصلاح“ کی شرح و تحقیق ”تدریب الراوی“ ان کے زیر درس رہی، پھر ایک دو سال قبل تک دار العلوم دیوبند کے شعبۂ تخصص فی الحدیث میں اصل مقدمۂ ابن صلاح بھی بیس – پچیس سال ان کے زیر درس رہ چکی ہے۔


    فی الحال (1444ھ بہ 2023ء میں) شعبۂ تخصص فی الحدیث کے دونوں سال کے طلبہ کی تدریس و تربیت کے ساتھ مقدمۂ شیخ عبد الحق، نزھۃ النظر شرح نخبۃ الفکر اور مشکاۃ المصابیح جیسی علم حدیث اور اصولِ حدیث کی کتابوں کے اسباق بھی ان سے متعلق ہیں۔ شعبۂ تخصص فی الحدیث کی نگرانی کے علاوہ اس شعبے کی ”الرفع و التکمیل فی الجرح و التعدیل“ اور دراسۃ المتون کے اسباق بھی ان سے منسلک ہیں۔ ہر موضوع؛ خصوصاً ”الحکم علی الحدیث“ کے تعلق سے شعبے کے طلبہ کی رہنمائی فرماتے اور ان کی مشق کرواتے ہیں۔ اسی طرح بحر العلوم مولانا نعمت اللہ اعظمی مد ظلہ العالی کی ”مدارس الرواة ومشاهير اساتذتها“ بھی ان کے زیر درس ہے۔


        بیعت و خلافت 

    مدرسہ مطلع العلوم، رامپور، اتر پردیش کے قیام کے زمانے میں انھوں نے مرادآباد ہی میں مقیم مولانا عبد الجبار اعظمیؒ (1907–1989ء) خلیفہ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کے دست مبارک پر بیعت کر لیا تھا اور موصوف جب بنارس میں مدرس تھے تو 1409ھ (بہ مطابق 1988ء) میں مولانا عبد الجبار اعظمیؒ کا انتقال ہوگیا، ان کے انتقال کے بعد 1411ھ (بہ مطابق 1990ء) میں انھیں کے خلیفہ مولانا زین العابدین اعظمیؒ (1933–2013ء) سے مفتی صاحب نے تعلقِ سلوک و بیعت قائم کر لیا؛ مگر مفتی صاحب ان کی زندگی ہی میں اپنے عم محترم اور مولانا پیر محمد طلحہ کاندھلویؒ، جانشین مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کے باہمی مشورے سے پیر صاحب کی تربیت میں آ گئے اور پیر صاحب کی حیات تک ان کی توجہات سے مستفید ہوتے رہے۔


   1421ھ میں مفتی صاحب جب دار العلوم دیوبند تشریف لے آئے تو اس کے ایک سال بعد یعنی 1422ھ میں پیر صاحب نے مفتی صاحب کو اجازتِ بیعت اور خلافت سے نوازا۔


    خلوص و للہیت اور علم حدیث سے خاص شغف

   مظاہر علوم جدید سہارنپور میں جب شعبۂ تخصص فی الحدیث کا قیام عمل میں آیا اور مولانا زین العابدین اعظمیؒ تنہا تدریس کا کام انجام دے رہے تھے تو معاون مدرس کے لیے مظاہر علوم جدید کے ناظم اعلیٰ مولانا محمد سلمان مظاہریؒ کی نظرِ انتخاب مفتی عبد اللہ معروفی پر پڑی، جو پہلے ہی سے علم حدیث سے خاص شغف رکھتے تھے اور آٹھ ہزار روپے کے مشاہرے کے ساتھ جامعہ اسلامیہ، بنارس میں استاذِ حدیث تھے۔ چناں چہ جب مولانا سلمان صاحب نے مفتی عبد اللہ معروفی صاحب کا نام لے کر کہا کہ انھیں بلایا لیا جائے تو مولانا زین العابدین اعظمیؒ نے مظاہر علوم جدید میں تنخواہ کی قلت کی بنا پر خود ہی سے شرم کی بنا پر معذرت کر لی کہ اپنے بھتیجے کو اعلیٰ تنخواہ کو چھوڑ کر ادنی تنخواہ کے لیے کیسے کہ سکتا ہوں؛ مگر کسی طرح اس واقعے کی خبر مفتی عبد اللہ معروفی صاحب کو پہنچ گئی اور انھوں نے اپنے عم بزرگوار (بڑے ابا) کو خط میں یہ لکھا: ”بڑے ابا جان کو معلوم ہو کہ ہم نے علم دین پیسہ حاصل کرنے کے لیے نہیں سیکھا ہے؛ بلکہ صرف دین کی خدمت کے لیے یہ علم حاصل کیا ہے اس لیے مولانا سلمان صاحب کی رائے کو تسلیم کر لینا چاہیے تھا، روپیہ پیسہ کا مالک اللہ ہے جس کو چاہے دے دے اور جس سے چاہے لے لے۔“ (دیکھیے: مجلہ سراج الاسلام، سراج نگر، چھپرہ، ضلع مئو کا ”مولانا زین العابدین معروفیؒ نمبر“)


     یہ جواب سن کر مولانا زین العابدین صاحب کو اپنے عمل پر پشیمانی ہوئی اور اس کے بعد مفتی عبد اللہ صاحب کو شعبۂ تخصص فی الحدیث کے لیے مظاہر علوم بلا لیا گیا اور مفتی صاحب نے وہاں پر پانچ سال خدمات انجام دیں، پھر کیا تھا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے دار العلوم دیوبند کے شعبۂ تخصص فی الحدیث کے لیے قبول فرما لیا اور تقریباً پانچ سال مظاہر میں رہ کر 1421ھ میں وہ دار العلوم دیوبند بلا لیے گئے اور اس وقت سے آج تک تقریباً تئیس سال سے دار العلوم دیوبند میں علوم حدیث پر تدریسی، تحقیقی اور تصنیفی خدمات انجام دے رہے ہیں، جس کا اندازہ ان کی تصانیف اور ان کے تلامذہ سے لگایا جا سکتا ہے۔


      قلمی و تصنیفی خدمات

    انھوں نے اپنے تیس سالہ تدریسی عرصے کے درمیان علوم حدیث پر ایسی قلمی خدمات انجام دی ہیں، جو قابل رشک ہیں، نیز دیگر موضاعات پر کتابیں اور ان کے زیر نگرانی منظر عام پر آنے والے رسائل، کتب اور ہزاروں صفحات پر مشتمل ڈھیرں سارے مقالات مستقل ہیں۔


 قلمی کارناموں میں مندرجۂ ذیل کتابیں شامل ہیں:

(1) العَرف الذکی شرح جامع ترمذی: جس کی پانچ جلدیں شائع ہو کر منظر عام پر آ چکی ہیں اور سترہ جلدوں کا کام ہو چکا ہے، ابواب التفسیر مکمل ہونے کو ہے، اس کے بعد صرف ابواب الدعوات اور ابواب المناقب باقی رہ جاتے ہیں اور اس طرح یہ عظیم الشان کام پایۂ تکمیل کو پہنچنے والا ہے۔ جس میں علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے افادات کی تسہیل و تحقیق، نیز حدیث پر ترمذی کے احکام کی تطبیق کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔

(2) تہذیب الدر المنضَّد فی شرح الادب المفرد – چار جلدوں میں یہ امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ کی ”کتاب الادب المفرد“ کی عربی شرح ہے۔

(3) مقدمۃ الدر المنضَّد – یہ ایک مستقل کتاب ہے، جس میں سندِ حدیث پر حکم لگانے میں لوگوں کی بے راہ روی کا تذکرہ کیا گیا اور احادیث پر حکم لگانے کا آسان، محفوظ اور معتدل طریقہ بیان کیا گیا ہے۔

(4) حدیث اور فہم حدیث – یہ ایک ایسی کتاب ہے، جس میں علم حدیث کی نہایت قیمتی اور گُر کی باتوں کو آسان اور مرتب انداز میں بیان کر دیا گیا ہے۔

(5) فضائل اعمال پر اعتراضات: ایک اصولی جائزہ (اردو؛ جس کے عربی، انگریزی اور بنگلہ میں بھی ترجمے کیے جا چکے ہیں۔)

(6) غیر مقلدیت: اسباب و تدارک

(6) جواب الرسالۃ – جس میں انھوں نے اپنی کتاب مقدمۃ الدر المنضّد میں "بیان کیے گئے احادیث پر حکم لگانے کے معتدل منہج" پر معروف عالم دین شیخ محمد عوامہ حفظہ اللّٰہ کے نقد و جرح کا تفصیلی جائزہ لیا ہے، جو تقریباً ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل ہے۔

(7) العَرف الفیّاح فی شرح مقدمۃ ابن الصلاح – ان کے دروسِ مقدمۃ ابن الصلاح کو مولانا مشاہد الاسلام امروہی، فاضل شعبۂ تخصص فی الحدیث دار العلوم دیوبند نے جمع فرمایا تھا، جس کو مفتی صاحب نے تنقیح و مراجعت اور حذف و اضافہ جیسے امور کے بعد شائع فرمایا، جو 600 سے زائد صفحات پر مشتمل ایک جلد میں دستیاب ہے۔


ان کے علاوہ ان کے زیر نگرانی انجام پانے والی علمی و تحقیقی کارناموں میں مندرجۂ ذیل کتب شامل ہیں:

(1) الحديث الحسن فی جامع الترمذی (دراسۃ و تطبیق؛ 700 صفحات پر مشتمل ایک جلد)

(2) حسن صحيح فی جامع الترمذی (دراسۃ و تطبیق، تین جلدیں)

(3) حسن غريب فی جامع الترمذی (دراسۃ و تطبیق، دو جلدیں)

(4) حدیث غريب فی جامع الترمذی (دراسۃ و تطبیق، 700 صفحات پر مشتمل ایک جلد)


   ان کی بعض کتابیں تو ہندوستان کے علاوہ بیرون ملک جیسے پاکستان سے بھی شائع ہو چکی ہیں۔ بندہ کے علم کے مطابق مولانا مفتی عبد الرؤف غزنوی (خلیفہ فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ و استاذ حدیث جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن، کراچی، پاکستان) نے مولانا موصوف کی دو کتابیں ”حدیث اور فہم حدیث “ اور ”العرف الفیاح فی شرح مقدمۃ ابن الصلاح“ کو اپنے کتب خانہ مکتبہ غزنوی، کراچی سے شائع فرمائی ہیں۔


    اللّٰہ تعالی موصوف کی عمر و صحت میں خوب برکت عطا فرمائے اور ہمیں اور امت مسلمہ کو ان کے علوم سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین

مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ

مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ محمد روح الامین میوربھنجی       مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی سرزمینِ بہا...