اتوار، 26 جون، 2022

تذکرہ شیخ الحدیث مولانا نصیر احمد خان بلند شہریؒ (1918ء - 2010ء)

تذکرہ شیخ الحدیث مولانا نصیر احمد خان بلند شہریؒ (1918ء - 2010ء)

محمد روح الامین میُوربھنجی

تاریخ تکمیل تحریر: 26 ذی قعدہ 1443ھ بہ مطابق 27 جون 2022ء بہ روز پیر

       دار العلوم دیوبند کے مایۂ ناز استاذ الاساتذہ، فن ہیئت و فلکیات کے ماہر، جامع المعقول والمنقول، دار العلوم دیوبند میں تقریباً پینسٹھ سال تدریسی خدمات انجام دینے والے عالم دین سابق شیخ الحدیث دار العلوم دیوبند مولانا نصیر احمد خان بلند شہریؒ کی حیات و خدمات آج میرا موضوع تحریر ہے، ان کے بارے میں مندرجۂ ذیل کتابوں میں مواد موجود ہیں: (1) مجلہ الداعی؛ 2010ء کے مختلف شمارے، (2) ماہنامہ دار العلوم؛ 2010 - 11ء کے مختلف شمارے، (3) ”نقوش حیات“ و ”قافلۂ علم و کمال“ از مولانا خلیل الرحمن قاسمی برنی، (4) ”خدا رحمت کند“ و ”بے مثال شخصیت باکمال استاذ“ از مولانا ندیم الواجدی، (5) ”تاریخ دار العلوم“ جلد دوم از مولانا سید محبوب رضویؒ، (6) ”دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ“ از مولانا محمد اللّٰہ خلیلی قاسمی، (7) ”وہ کوہ کَن کی بات“ از مولانا نور عالم خلیل امینیؒ، (8) ”ذکر رفتگاں“ جلد دوم از مفتی محمد سلمان منصورپوری۔ راقم تحریر نے اس مضمون میں مولانا ندیم الواجدی کی تحریر سے، مولانا خلیل الرحمن برنی قاسمی برنی کی کتاب نقوشِ حیات سے اور مولانا محمد اللّٰہ خلیلی قاسمی کی دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ سے بہت استفادہ کیا ہے اور بعض باتوں کی تحقیق ان کی اولاد سے بھی کی ہے۔ 

         ولادت و خاندان
      شیخ نصیر احمد خاں 21 ربیع الاول 1337ھ بہ مطابق 23 دسمبر 1918ء کو بَسِی، ضلع بلند شہر، صوبجات متحدہ آگرہ و اودھ (موجودہ اترپردیش)، برطانوی ہند میں پیدا ہوئے تھے (نقوش حیات میں شامل قاری شفیق الرحمن قاسمی و مولانا عبد الرؤوف غزنوی کی تحریروں سے پتہ چلا کہ شیخ کی سن ولادت دراصل 1335ھ بہ مطابق 1916ء ہے، جو بعض دفعہ ان حضرات نے شیخ سے بھی سنا تھا؛ دار العلوم دیوبند کے داخلہ فارم اور سرکاری دستاویزات کے مطابق وہی مشہور سن ہے)۔ ان کا خاندانی تعلق افغانستان کے بازیدخیل داؤد زئی قبیلہ سے تھا، ان کے اجداد میں سے شہباز خان وہ مورث اعلیٰ تھے، جو سب سے پہلے افغانستان سے ہندوستان آکر موضع بَسِی (ضلع بلند شہر، اترپردیش) میں آباد ہوئے۔ بلند شہر سے شمالی جانب تقریبا 45 کلومیٹر کی دوری پر پٹھان برادریوں پر مشتمل پر چند آبادیاں ”بارہ بستی“ کے نام سے موسوم ہیں، ”بَسِی“ انھیں میں سے ایک ہے، جس کے آباد کرنے والوں میں شیخ کے اجداد میں سے شہباز خان کا نام بھی آتا ہے۔ ان کے والد ماجد عبد الشکور خان انگریزی دور میں اعلیٰ سرکاری ملازم تھے؛ مگر دیندار اور علماء کے قدردان تھے، مولانا خلیل احمد انبیٹھویؒ کے مرید تھے۔ انھوں نے جب سنا کہ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے ”تحریک ترکِ موالات“ شروع کی ہے تو انگریزی ملازمت سے مستعفی ہو کر کاشتکاری کے ذریعے روزگاری میں مشغول ہوگئے۔

         تعلیم و تربیت 
      شیخ نصیر احمد ابھی چار پانچ سال ہی کے تھے کہ ان کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور شیخ اپنے بڑے بھائی مولانا بشیر احمد خان بلند شہریؒ کے زیر کفالت و تربیت آ گئے۔ مولانا بشیر احمد خاں ان دنوں مدرسہ منبع العلوم گلاؤٹھی، ضلع بلند شہر میں مدرس تھے تو اپنے چھوٹے بھائی کو بھی وہیں داخل کروادیا اور اس طرح شیخ نصیر احمد خاں نے وہیں رہ کر میزان سے بخاری تک کی کتابیں پڑھیں۔ 1362ھ بہ مطابق 1942ء میں جب مولانا بشیر احمد خاں دار العلوم میں بحیثیت مدرس تشریف لائے تو ساتھ میں شیخ نصیر احمد بھی دیوبند تشریف لائے اور دورۂ حدیث میں داخلہ لے کر دوبارہ دار العلوم سے دورۂ حدیث کی تکمیل کی، اس وقت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی چوں کہ نینی الہ آباد کے جیل میں نظر بند تھے تو شیخ نے جامع ترمذی و صحیح بخاری شیخ الادب والفقہ مولانا اعزاز علی امروہویؒ سے پڑھی۔ 1363ھ بہ مطابق 1943ء میں جب شیخ الاسلام جیل سے رہا ہوکر تشریف لائے تو شیخ نصیر احمد خاں سہ بارہ شیخ الاسلام کے صحیح بخاری و جامع ترمذی کے اسباق میں شریک ہوئے، دیگر کتابوں کے اسباق میں بھی شرکت کی، اگلے دو سال بھی دار العلوم دیوبند میں رہ کر تجوید و قرات کی بہت سی کتابیں پڑھیں (جن میں سبعہ و عشرہ کی بھی کئی کتابیں شامل تھیں)، طب اور معقولات کی کئی کتابوں کے دروس میں بھی حاضر رہے اور ہدایہ آخرین، سراجی، تفسیر بیضاوی، دیوان متنبی، توضیح تلویح، مسلم الثبوت سمیت دیگر کئی کتابوں کے اسباق میں بھی شریک رہے۔

         دار العلوم دیوبند میں شیخ کے اساتذہ
       شیخ کے اساتذۂ دار العلوم میں شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، شیخ الادب والفقہ مولانا اعزاز علی امروہویؒ، مولانا بشیر احمد خان بلند شہریؒ، مولانا عبد الخالق ملتانیؒ، مولانا عبد الحق اکوڑویؒ، قاری محمد طیب قاسمیؒ، قاضی شمس الدین گجرانوالہؒ، مولانا حافظ عبد الرحمن امروہویؒ، قاری حفظ الرحمن پرتاب گڑھیؒ اور حکیم محمد عمر دیوبندیؒ قابل ذکر ہیں۔

          تدریس و دیگر خدمات
       فراغت کے بعد ملتان کے ایک بڑے مدرسے میں صدر القراء کی حیثیت سے تقرر عمل میں آیا؛ مگر بڑے بھائی نے اتنے دور بھیجنا گوارہ نہ کیا، پھر 1365ھ بہ مطابق 1946ء میں بحیثیت اعزای مدرس دار العلوم دیوبند میں شیخ کا تقرر ہوا، اولا دو سال عارضی پھر 28 صفر 1367ھ کو مستقل استاذ مقرر ہوئے۔ شیخ نصیر احمد خاں نے 1365ھ بہ مطابق 1946ء سے 1429ھ بہ مطابق 2008ء تک قمری سال کے لحاظ سے تقریباً پینسٹھ سال اور شمسی سال کے اعتبار سے تقریباً تریسٹھ سال دار العلوم دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دیں، میزان سے بخاری تک کی کتابیں پڑھانے کا شرف شیخ کو حاصل ہوا۔ 1391ھ بہ مطابق 1971ء سے 1397ھ بہ مطابق 1977ء کے درمیان حدیث کی تین کتابیں: شرح معانی الآثار (طحاوی شریف)، مسلم شریف جلد ثانی اور مؤطا امام مالک شیخ سے متعلق رہیں۔ 1397ھ بہ مطابق 1977ء میں دار العلوم میں مدرس بننے کے تقریباً بتیس سال بعد دار العلوم دیوبند کے اس وقت کے شیخ الحدیث مولانا شریف حسن دیوبندیؒ کی وفات کے بعد صحیح بخاری کا درس شیخ نصیر احمد خاں سے متعلق ہوا، ایک سال مکمل بخاری شریف کا درس دیا، پھر اخیر تک جلد اول ہی کا درس شیخ سے متعلق رہا۔ 1429ھ بہ مطابق 2008ء تک تقریباً بتیس سال شیخ نے بخاری کا درس دیا اور ان کا درس بخاری بے حد مقبول تھا، ان سے صرف صحیح بخاری پڑھنے والے طلبہ کی تعداد کم و بیش پچیس ہزار لکھی ہوئی ہے۔ 1391ھ بہ مطابق 1971ء سے 1414ھ بہ مطابق 1994ء تک تقریباً چار سال شیخ نے دار العلوم دیوبند کی نیابت اہتمام کے فرائض بھی انجام دیے۔ نیز 1412ھ بہ مطابق 1991ء سے 1429ھ بہ مطابق 2008ء تک تقریباً اٹھارہ سال شیخ؛ دار العلوم دیوبند کی صدارت تدریس کے منصب پر فائز رہے۔ 1429ھ بہ مطابق 2008ء میں شیخ نے پیرانہ سالی اور مختلف جسمانی عوارض کی وجہ سے دار العلوم دیوبند کی ذمہ داریوں سے معذرت کی تحریر پیش کی، مجلس تعلیمی (منعقدہ: ربیع الاول 1429ھ) میں شیخ کی تحریر پیش کی گئی، مجلس شوریٰ نے شیخ کی معذرت قبول کرتے ہوئے مفتی سعید احمد پالن پوریؒ کو شیخ کی جگہ پر ترقی دیتے ہوئے انھیں شیخ الحدیث مقرر کیا، پھر مجلس عاملہ (منعقدہ: یکم جمادی الثانی 1429ھ) نے شیخ کی طویل تدریسی و انتظامی خدمات کے اعتراف میں ان کے لیے پندرہ ہزار ماہانہ وظیفہ جاری کرتے ہوئے مفوضہ ذمہ داریوں سے انھیں سبکدوش کر دیا۔

          تلامذہ
      شیخ نصیر احمد خاںؒ کے تلامذہ کی تعداد ہزاروں میں ہے، دار العلوم دیوبند میں اکثر اساتذہ ان کے شاگرد ہیں، ان کے مشہور تلامذہ میں مولانا وحید الزماں کیرانویؒ، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی دربھنگویؒ، مولانا خورشید عالم دیوبندیؒ، مفتی سعید احمد پالن پوریؒ، مولانا سید ارشد مدنی، مفتی ابو القاسم نعمانی، قاری محمد عثمان منصورپوریؒ، مولانا ریاست علی ظفر بجنوریؒ، مولانا عبد الخالق مدراسی، مولانا عبد الخالق سنبھلیؒ، علامہ قمر الدین گورکھپوری، مفتی محمد امین پالن پوری اور مولانا مجیب اللّٰہ گونڈوی، مولانا عبد العلی فاروقی، مفتی عبد الرزاق بھوپالیؒ، مفتی محمد سلمان منصورپوری، مولانا واجد حسین دیوبندیؒ، مولانا نسیم اختر شاہ قیصر، مولانا واصف حسین ندیم الواجدی، مولانا عبد الرؤوف خان غزنوی، مفتی یاسر ندیم الواجدی وغیرہم بھی شامل ہیں، ان کے علاوہ ملک و بیرون ملک کے بہت سے نامور علماء بھی ان کے تلامذہ کے زمرہ میں شمار کیے جاتے ہیں۔

       فن ہیئت و فلکیات
    فن ہیئت کے وہ ماہر تھے اور من جانب اللّٰہ انھیں اس فن میں بھی خصوصی درک و گیرائی حاصل تھی، جس کا اعتراف ان کے معاصرین کو بھی تھا، دار العلوم میں اس فن کی مشہور کتاب ”التصریح“ سالہا سال ان کے زیر درس رہی، اس فن میں انھوں نے ایک رسالہ بھی لکھا تھا، نیز ایک معروف کتاب ”فتحیہ“ پر شیخ نے حواشی بھی لکھے تھے، جو مکتبہ دار العلوم سے چھپا تھی۔ اس فن میں ان سے استفادہ کرنے والے تلامذہ بھی ملک و بیرون ملک میں پھیلے ہوئے ہیں، جن میں ایک نام مولانا ثمیر الدین قاسمی مقیم حال مانچسٹر، انگلینڈ بھی ہیں، جو اس وقت فن ہیئت و فلکیات کے ماہر عالم دین شمار کیے جاتے ہیں اور خصوصیت سے رؤیت ہلال کے سلسلے میں ان سے رائے لی جاتی ہے، ان کی اس فن میں لکھی ہوئی کتابوں میں ”ثمرۃ الفلکیات“، ”رویت ہلال علم فلکیات کی روشنی میں“ اور ”ثمیری کیلنڈر“ بھی شامل ہیں۔

       بیعت و خلافت
    شیخ نصیر احمد خاں کا اصلاحی تعلق شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ سے رہا، پھر اکثر تحریروں کے مطابق شیخ کا تعلق حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمیؒ سے قائم ہوا اور ان کی طرف سے خلافت سے بھی نوازے گئے اور بندہ کی تحقیق کے مطابق شیخ الاسلام نے شیخ کو اپنے خلیفہ قاری اصغر علی سہسپوریؒ سے منسلک کر دیا تھا، شیخ نصیر احمد کو؛ قاری اصغر علی صاحب نے خلافت سے بھی نوازا تھا؛ مگر بہر دو صورت شیخ انتہائی تواضع کی بنا پر اس تعلق کو لوگوں سے مخفی رکھتے تھے اور بیعت وغیرہ نہیں کیا کرتے تھے۔

       خدمت و تفسیر قرآن
     شیخ نے 1350ھ سے 1414ھ تک تقریباً پینسٹھ سال تراویح میں قرآن سنایا۔ تمل ناڈو کے کوئمبتور شہر کی مختلف مساجد میں شیخ نے تقریباً 27 سال تک تروایح میں قرآن سنایا اور وہاں شیخ تفسیر قرآن بھی کیا کرتے تھے اور مختلف جگہوں پر شیخ کے اصلاحی مواعظ بھی ہوا کرتے تھے، جس سے اس علاقے کے لوگوں میں عقائد و اعمال میں خاصا سدھار آیا اور خاصے لوگوں نے اپنے بچوں کو دینی تعلیم دے کر انھیں عالم دیں بنایا؛ یہاں تک کہ انھیں طلبہ میں سے ایک مولانا محمد الیاس قاسمی نے کوئمبتور میں شیخ کی یاد میں ”دار العلوم نصیریہ“ کے نام سے ایک مدرسہ بھی قائم کیا ہے، جہاں ناظرہ و حفظ، دینیات اور ابتدائی عربی کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔

       اوصاف و کمالات
     شیخ نیک صالح، حلیم و بردبار، نرم خو و خوش اخلاق انسان تھے، نماز باجماعت کے پابند تھے، بزرگوں اور اسلاف کی یادگار تھے، انتہائی متواضع اور منکسر المزاج تھے، بشاشت وخندہ پیشانی سے ملنے والوں کا استقبال کیا کرتے تھے، بڑوں کے ساتھ چھوٹوں کا بھی احترام کیا کرتے تھے، بلا امتیازِ عمر اہل علم کے نہایت قدرداں تھے، اعلیٰ ظرف و کریم النفس شخصیت کے حامل تھے اور طلبہ میں بھی بے حد محبوب و مقبول تھے۔ 

       پسماندگان
    شیخ کی وفات کے وقت ان کے بقید حیات پسماندگان میں پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ بیٹوں میں ضمیر احمد خان، رفیع احمد خان، عزيز احمد خان، شكيل احمد خان، عقيل احمد خان شامل ہیں اور ماشاء اللّٰہ سبھی حفظ قرآن کی دولت سے مالا مال ہیں، جن میں سے اب تک حافظ عزیز احمد خاں اللّٰہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔

        وفات
    شیخ نصیر احمد خاںؒ کا انتقال 19 صفر 1431ھ بہ مطابق 4 فروری 2010ء کو جمعرات کی شب میں؛ مشہور قول کے مطابق ہجری تقویم کے لحاظ سے تقریباً 95 اور شمسی تقویم کے اعتبار سے تقریباً 92 سال کی عمر میں شہر دیوبند میں ہوا۔ نماز جنازہ احاطۂ مولسری دار العلوم دیوبند میں ہزاروں کے مجمع نے قاری محمد عثمان منصورپوریؒ کی اقتدا میں ادا کی اور قاسمی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔

     اللّٰہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور راقم تحریر کو بھی ان کی طرح دینی خدمات کے لیے قبول فرمائے۔ آمین ثم آمین

اتوار، 12 جون، 2022

تذکرہ داعی اسلام محمد پالن حقانی گجراتیؒ (1922ء - 2003ء)

تذکرہ داعی اسلام محمد پالن حقانی گجراتیؒ (1922ء - 2003ء)

محمد روح الامین میوربھنجی

تاریخ تکمیل تحریر: 11 ذی قعدہ 1443ھ بہ مطابق 12 جون 2022ء بہ روز اتوار

       ہر زمانہ میں اس زمانے کے دیگر دنیاوی تقاضوں کی طرح دینی و ایمانی تقاضے بھی ہوتے ہیں، جن کو اللّٰہ تعالیٰ دیگر دنیاوی تقاضوں کی طرح پورا فرماتے رہتے ہیں؛ اس سلسلے کا سب سے بڑا اور بنیادی تقاضا ہدایت ہے، اس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے اللّٰہ تعالیٰ نے ہر زمانہ میں ہر قوم کے لیے الگ الگ نبی اور رسول بھیجے، جس کو قرآن کریم میں ”ولکل قوم ھاد“ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ قرآن کریم میں ”ولكن رسول اللّٰه و خاتم النبيين“ کے ذریعے ہمارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے اور ان کے ذریعے سلسلۂ رسالت و نبوت پر مہر لگائے جانے کا اعلان کیا گیا ہے؛ لیکن ہدایت پر مہر لگا کر اس کا سلسلہ ختم نہیں کر دیا گیا؛ بلکہ نبی خاتم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت کی رشد و ہدایت کے لیے قدرت کا یہ فیصلہ چلا آ رہا ہے کہ وہ ہر زمانہ میں اسی امت میں سے امت ہی کی دینی و اخروی خیر و بھلائی کے لیے انھیں میں سے کسی کا انتخاب کرکے اسے قوم و ملت کے لیے ذریعۂ رشد و ہدایت بنا دیتا ہے اور اس کے لیے باقاعدہ عالم ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا، جس کی بہت سی نظیریں موجود ہیں، اسی سلسلے کی ایک کڑی جناب محمد پالن حقانی گجراتی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ہے، جو زندگی کا ایک حصہ بدعات و رسومات میں گزار کر ہدایت یاب ہوئے، پھر اپنی بقیہ زندگانی نسیمِ ہدایت کا جھونکا بن کر گزاری اور ہزاروں زندگیوں کے لیے رشد و ہدایت کا باب بنے اور جنھوں نے صرف گجرات و مہاراشٹر میں ہی نہیں؛ بلکہ ملک کے بیشتر شہروں اور قریوں کے اسفار کرکے بدعات وخرافات کی حقیقت مدلل و معقول انداز میں لوگوں کے سامنے بیان فرمائے۔ میرا موضوع تحریر انھیں کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالنا ہے۔

               نام و خاندان
      محمد پالن حقانی کا اصل نام ”محمد“ تھا، ”پالن“ کا لاحقہ والد (جن کا نام پالن تھا) کی طرف نسبت کرتے ہوئے تھا، اور ”حقانی“ ان کو حق بیانی اور دعوت حق کی نسبت سے کہا گیا۔ ان کا خاندان رہ زنی، ڈکیتی اور بدعات و خرافات میں مصروف اور دلیری و بہادری میں مشہور تھا۔

      ولادت اور خاندانی و وطنی پس منظر
     محمد پالن حقانی کی ولادت 11 نومبر 1922ء بہ روز سنیچر ہوئی تھی۔ ان کا آبائی وطن سابق ہندوستانی ریاست سوراشٹر (کاٹھیاواڑ) کے موربی ضلع کا ''مالن'' نامی علاقہ تھا، موربی ضلع 1819ء تا 1924ء ''کاٹھیاواڑ ایجنسی'' میں آتا تھا، 1924ء تا 1944ء یہ خطہ ''ویسٹرن انڈیا ایجنسی'' کے تحت رہا، 1944ء تا 1947ء ''بڑودہ، ویسٹرن انڈیا اینڈ گجرات اسٹیٹس ایجنسی'' کے تحت رہا، 1947ء کے بعد یہ متحدہ ایجنسی بھی تین ریاستوں ممبئی اسٹیٹ، سوراشٹر اسٹیٹ اور کچھ اسٹیٹ میں تقسیم ہوگیا۔ ریاست سوراشٹر 1956ء میں ریاست ممبئی میں شامل کی گئی، پھر 1960ء میں ریاست ممبئی کی تقسیم کرکے موجودہ دو الگ الگ ریاستیں: مہاراشٹر اور گجرات وجود عمل میں آئیں۔ محمد پالن حقانی کا خاندان ابتداءً مالن، ضلع موربی میں آباد تھا، پھر وہاں سے ہجرت کرکے احمد آباد آگیا، پندرہ سال احمد آباد میں رہ کر وانکانیر میں آکر آباد ہوگیا، وانکانیر 2013ء تک راجکوٹ ضلع میں آتا تھا اور آج وہ موربی ضلع کا حصہ ہے۔

         بچپن سے جوانی تک
      چوں کہ حضرت حقانی کے والد کا پیشہ رہ زنی اور ڈکیتی تھا تو وہ حکومت کی نظر میں تھے، انگریزی دور میں لوٹ مار اور قتل و غارت گری کے الزام میں حقانی صاحب کے والدین جیل میں بند تھے، حقانی صاحب جیل ہی میں پیدا ہوئے، حقانی صاحب ابھی چھ ماہ کے ہی تھے کہ ان کے والد ماجد گولی لگنے سے جاں بحق ہوگئے۔ ان کی والدہ محنت مزدوری کرکے موصوف اور ان کے بڑے بھائی کی پرورش کرتی تھیں، نہایت پاکباز تھیں، جب وہ بارہ تیرہ سال کے ہوئے تو ان کی والدہ نے انھیں ان کے بھائی سمیت احمد آباد کے ایک کپڑا بننے والی مِل میں کام کے لیے بھیج دیا، بچپن میں گاؤں کے مولوی صاحب سے ہلکی پھلکی گجراتی اور اردو پڑھ لی تھی، یہ مختصر و محدود علم آگے چل کر دینی علوم پڑھنے اور تبلیغی و تصنیفی خدمات کے سلسلے میں ان کے لیے نہایت مفید و نافع ثابت ہوا۔ چوں کہ آواز بچپن سے بہت ہی اچھی تھی تو انھوں نے شوقیہ باقاعدہ گانا بجانا سیکھا اور اس طرح سے حقانی قوال بن گئے، نعتیہ قوالی بھی کیا کرتے تھے، گانے بجانے سے کی گئی کمائی کو جائز نہیں سمجھتے تھے اور وہ رقم ساز بجانے والوں کو دے دیا کرتے تھے۔ خورد و نوش کے لیے مل میں مزدوری کرتے تھے، اس طرح سے زندگی کی گاڑی آگے بڑھتی رہی؛ یہاں تک کہ حقانی صاحب کا تار ایک مجذوب صفت ولی علی شاہ بابا سے جڑ گیا، جن کے پاس دعائیں لینے چلے جایا کرتے تھے، ایک مرتبہ ان بابا صاحب نے انھیں اپنی بچی ہوئی کھچڑی کھانے کے لیے دی، وہ انھوں نے کھالی، جس کے اثر سے ان کے دل کی دنیا بدل گئی، گانے بجانے سے نفرت اور نماز روزے کی طرف رغبت ہونے لگی اور خلق خدا کو راہ حق سمجھانے کا جذبہ دل میں پیدا ہونے لگا اور اردو اور گجراتی زبان میں فقہ، حدیث اور تفسیر کی کتابیں خرید کر جمع کرنے لگے اور ان کا مطالعہ کرنے لگے، شوقِ تحصیلِ علم ایسا پیدا ہوا کہ کمائی کا زیادہ تر حصہ کتابیں خریدنے کی نذر ہو جاتا، بدعات وخرافات کی زندگی سے رشد و ہدایت والی زندگی پائی تھی تو بدعات وخرافات میں پڑے دیگر مخلوق خدا کی ہدایت و فلاحِ آخرت اور ان کے اصلاح حال کے لیے کوشاں ہوئے، جو کچھ سیکھتے انھیں دوسروں کو سکھاتے تھے، شام کو دو گھنٹہ بچوں کو، پھر مغرب تا عشاء اپنے ہم عمر لڑکوں کو، اسی طرح مل سے چھٹی ہونے کے بعد مل مزدوروں کو پڑھاتے تھے، ان کی اس خدمت سے بہت سے لوگوں نے نماز قرآن والی زندگی اختیار کر لی، بہتوں نے اپنے چہروں پر سنت کا نور سجا لیا، آہستہ آہستہ ان کا یہ سلسلہ لوگوں کے آنکھوں میں چبھنے لگا، گھر والے اور متعلقین مخالفت پر اتر آئے، شرعی لباس پہننا شروع کیا تو مذاق اڑانے لگے، لوگوں کو بدعات و خرافات کی حقیقت سمجھانا اور دین و سنت نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم سکھانا شروع کیا تو اہل قوم مخالف ہوگئے، بائیکاٹ کیا، گالیاں دیں اور گاؤں سے نکال دیا، ان کا قائم کیا ہوا مدرسہ بند کروا دیا، خدمت دین کے لیے کرایہ پر لیا ہوا مکان چھین لیا گیا، وہاں دین اور نماز پڑھنا پڑھانا ممنوع کر دیا گیا؛ غرضے کہ جوں جوں ان کی مخالفت کی گئی خدمت دین کا جذبہ اور زیادہ بڑھ گیا، اپنے محلہ اور گاؤں سے بڑھ کر پورے سوراشٹر، پھر پورے گجرات میں تبلیغ دین کے لیے دورے ہونے لگے اور راہ حق کے طلب گار لوگوں میں خوب مقبول ہونے لگے، وعظ و نصیحت کا سلسلہ شروع ہو گیا، متمول طبقہ کے لوگ بھی ان کی طرف مائل ہونے لگے، پہلے بڑی بڑی کتابیں خریدنا مشکل تھا تو من جانب اللہ غیب سے اس کا بھی انتظام ہوگیا، کسی نے لاوڈ اسپیکر کا بھی انتظام کروا دیا، جب خدمت و تبلیغ دین میں بہت زیادہ منہمک ہوئے تو ملازمت کو بھی خیرباد کہ دیا، کتب بینی اور دین میں تدبر و تفکر میں وقت صرف کرنے لگے۔

      خدمت دین کے لیے غیبی نصرت
      اللّٰہ تعالیٰ نے ان کو وہ قوت حافظہ دیا تھا کہ قرآن کی سینکڑوں آیات کریمہ، صحاح ستہ کی بے شمار احادیث مبارکہ، معتبر اور مستند تفاسیر کے بے شمار حوالے انھیں ازبر ہوگئے تھے، جب تبلیغ دین کرتے تو برجستہ و بر موقع آیت، سورہ اور پارہ نمبر کے ساتھ قرآن کی آیات یوں پڑھتے، ان کا مطلب بتاتے ہوئے تفسیر کی کتابوں کا حوالہ اس طرح ان کے نوک زبان پر ہوتا تھا اور احادیث مبارکہ مع حوالہ جات ایسے سنایا کرتے تھے کہ اس حقیقت حال سے بڑے بڑے علماء بھی دنگ رہ جاتے تھے۔

     تبلیغی اسفار
    تبلیغ دین کے لیے یوں مشہور ہوئے کہ اخبار میں بھی ان کی خبریں ہوا کرتی تھیں، گجرات سے نکل کر رفتہ رفتہ پورے ملک جیسے ممبئی، کانپور، مہراج گنج، فتح پور، مئو، مرادآباد، حیدرآباد، سکندرآباد، ورنگل، جمشید پور اور کٹک وغیرہ میں تبلیغی و تقریری اسفار ہونے لگے؛ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ لندن و افریقہ جیسے بیرون ممالک میں بھی مشہور و مقبول ہوگئے، لوگ اپنے اپنے علاقوں میں ان کا پروگرام کروایا کرتے اور جوق در جوق ان کا بیان سننے آیا کرتے تھے اور شرک و بدعات والی زندگی سے تائب ہو کر سنت و ہدایت والی زندگی گزارنے لگتے تھے، جس کی وجہ سے اہل بدعت میں ناراضگی پیدا ہوگئی تھی اور ان کی طرف سے موصوف پر کئی قاتلانہ حملے بھی ہوئے، ان کی کتاب شریعت یا جہالت کو نذر آتش بھی کیا گیا۔

     انداز تقریر
     حق و باطل کو مدلل و محقق انداز میں عوام کو اس طرح سمجھاتے تھے کہ ہزاروں اور لاکھوں کا مجمع گھنٹوں بندھا رہتا تھا (ان پر لکھی گئی سوانحی کتاب میں تو پچاس ہزار سے پانچ لاکھ مجمع کا ذکر ہے) اور اس سلسلے میں ان کے سفر کردہ علاقوں میں پیش آمدہ جناب حقانی کی آمد کے واقعات آج بھی مشہور ہیں۔ دلائل اس طرح بیان کرتے تھے کہ خواص بھی دنگ رہ جاتے تھے، نیز تقریروں میں پر ترنم اشعار اور پر حکمت حکایات و لطائف بھی شامل تھے، جن سے عوام خوب محظوظ ہوتے اور خوب عبرت حاصل کرتے تھے۔ ان کے لطائف کا مجموعہ مفتی محمد معصوم قاسمی (ناظم جامعہ عربیہ مدینۃ العلوم قصبہ منگلور، اتراکھنڈ) نے ”لطائف حقانی“ کے نام سے شائع کیا ہے، جو نہایت مشہور و مقبول ہے۔ تقریر کی مقبولیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حقانی صاحب کو چھ چھ ماہ گھر جانے کا موقع نہیں ملتا تھا، ایک ایک سال کے پیشگی پروگرام طے رہا کرتے تھے۔

     تبصرے
    مولانا شاہ عالم گورکھپوری دامت برکاتہم ”حیات محمد پالن حقانی“ کے مقدمہ میں حقانی مرحوم کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں: ”راقم سطور کی تحقیق کے مطابق ماضی قریب کی تاریخ میں امیر شریعت حضرت مولانا عطاء اللّٰہ شاہ بخاری رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بعد کسی کے وعظ و بیان میں اس قدر کثیر مجمع اگر کسی خوش نصیب کو ملا تو وہ حضرت مولانا محمد پالن حقانی تھے“۔
  مولانا نسیم احمد غازی (متوفّٰی: 2017ء) سابق شیخ الحدیث جامعۃ الہدیٰ مرادآباد نے مرحوم کی کتاب ”قرآن و حدیث اور مسلک اہل حدیث“ پر تقریظ لکھی ہے، جس کا کچھ حصہ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے: ”حقانی صاحب امی ہیں، کسی ادارہ سے رسمی فراغت تو در کنار وہ اردو لکھنے پڑھنے پر بھی پوری قدرت نہیں رکھتے، اس کے با وجود حق تعالی نے ان کو قرآن وحدیث اور فقہ و عقائد وغیرہ علوم پر ایسا زبردست عبور دیا ہے کہ وہ اپنے مواعظ و بیانات میں بلا تکلف آیات، احادیث اور مسائل کو مکمل حوالوں، آیت نمبر بقید باب، صفحہ و سطر ذکر کرتے ہیں، قادر مطلق نے ان کو خیرالقرون کا سا مضبوط حافظہ اور ذہنِ رسا عطا فرمائے ہیں، مسائل فقہیہ و مباحث اختلافیہ کو بڑی وضاحت و تحقیق کے ساتھ اس انداز میں بیان فرماتے ہیں کہ مغالطے اور شکوک وشبہات دور ہوتے چلے جاتے ہیں، ان کے بیانات عام فہم، دلوں میں اتر جانے والے اور سامعین میں ایک صالح انقلاب برپا کر دینے والے ہوتے ہیں، طرز بیان ان کا نرالا اور طریقۂ تعبیر انوکھا اور ان کی اپنی زبان جدا گانہ ہے“

      تصانیف
   انھوں نے قرآن و حدیث اور تفاسیر قرآن کے مدلل حوالہ جات کے ساتھ ایسی ایسی کتابیں تصنیف کیں کہ آج بھی اپنی مثال آپ ہیں اور منظور نظرِ خواص و عوام ہیں، جیسے شریعت یا جہالت، تقاریر حقانی، عبادت کر رب کی اور اتباع کر رسول ﷺ کی وغیرہ۔
 
      جب جوانی و قوت کے زمانے میں بہ کثرت ان کے اسفار ہوا کرتے تھے، اس وقت سترہ سال کی محنت و مشقت کے بعد ”شریعت یا جہالت“ نامی کتاب لکھی تھی، پھر عرصۂ دراز تک تالیفی سلسہ موقوف رہا؛ لیکن جب ضعف بہت آگیا تو اسفار کا سلسلہ منقطع یا کم ہوگیا اور تب قلم اٹھالیا اور بقیہ کتابیں لکھیں۔

ان کی کتابوں کے نام مندرجۂ ذیل ہیں:
(1) شریعت یا جہالت
(2) تقاریر حقانی
(3) انگوٹھی خطرے سے خالی نہیں
(4) قرآن و حدیث سے باطل کا فیصلہ
(5) حق اور باطل کی جنگ
(6) قرآن و حدیث اور مسلک اہل حدیث
(7) تین جماعتیں جنت میں جائیں گی
(8) ضد میں ابلیس سے آگے
(9) عبادت کر رب کی اور اتباع کر رسول ﷺ کی
(10) جماعت اہل حدیث کا خلفائے راشدین سے اختلاف
(11) نعت و سلام

       حیات حقانی پر کتاب
    جناب محمد پالن حقانی گجراتی رحمۃ اللّٰہ علیہ پر ”حیات محمد پالن حقانی“ کے نام سے گجرات کے ایک عالم مریڈیا سفیان بن محمد امین نے ایک کتاب لکھی تھی، جو 2018ء میں دار العلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابو القاسم نعمانی، جامعۃ القراءۃ کفلیہ (گجرات) کے شیخ الحدیث مفتی رشید احمد لاجپوری اور جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل کے استاذ حدیث مفتی عبد القیوم راجکوٹی دامت برکاتہم العالیہ کے تقاریظ اور نائب ناظم کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت، دار العلوم دیوبند مولانا شاہ عالم گورکھپوری دامت برکاتہ کے مقدمہ کے ساتھ مولانا گورکھپوری کے نشریاتی ادارہ ”مرکز التراث العلمی، دیوبند“ سے بھی چھپ چکی ہے۔

    ”شریعت یا جہالت“ یا محمد پالن حقانی پر تنقیدی کتابیں 
     ان کی کتاب شریعت یا جہالت پر مشہور زمانہ بریلوی عالم مولانا ارشد القادری (متوفّٰی: 2002ء) نے ایک کتاب لکھی تھی، جس میں محمد پالن حقانی گجراتی کی شریعت یا جہالت نامی کتاب پر بے جا اور ظالمانہ تنقید کی ہوئی ہے، جو ”شریعت بہ جواب شریعت یا جہالت“ کے نام سے شائع ہوئی اور انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے۔ نیز ایک کتاب انٹرنیٹ پر سید خالد قادری نامی مصنف کی ”پالن حقانی کی نقاب کشائی“ کے نام سے دستیاب ہے۔ مجھے محمد حقانی صاحب کے دار العلوم دیوبند میں زیر تعلیم صاحب زادہ محمد اطہر حقانی سے امید ہے کہ وہ ان کتابوں کا مدلل و معقول جوابی کتاب لکھیں گے ان شاء اللّٰہ۔
 
     وفات
    مرحوم کا انتقال 12 مئی 2003ء بہ روز پیر ساڑھے اکیاسی سال کی عمر میں ہوا اور اپنے علاقہ وانکانیر، گجرات ہی میں سپردِ خاک ہوئے۔

     پس ماندگان
    مرحوم کی تین بیویاں تھیں، جن میں سے پہلی کو چھوڑ کر بقیہ دو سے کل چودہ اولاد ہیں؛ جن میں سے گیارہ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ بڑے صاحب زادہ جناب عبد الرشید صاحب گریجویٹ ہیں، نیز اپنے والد کی طرح ماشاء اللّٰہ دینی خدمات انجام دے رہے ہیں اور انھوں نے اپنے والد محمد پالن حقانی کی کتاب ”شریعت یا جہالت“ کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا ہے، ایک صاحب زادہ محمد انور حافظ قرآن ہیں اور ایک محمد اطہر حقانی فی الحال دار العلوم دیوبند میں عربی پنجم میں زیر تعلیم ہیں؛ البتہ تمام اولاد صوم و صلوٰۃ کے پابند ہیں۔ اولاد و پس ماندگان کی مزید تفصیل ”حیات محمد پالن حقانی“ میں مذکور ہے۔

      قارئین سے درخواست ہے کہ کاتب تقدیر پروردگار سے اس کاتب تحریر خطہ کار کے لیے دعا فرمائیں کہ اسے بھی موصوف مرحوم سی صفات عطا فرمائے اور خدمت دین کے لیے قبول فرما لے۔ آمین ثم آمین

مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ

مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ محمد روح الامین میوربھنجی       مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی سرزمینِ بہا...