جمعہ، 30 ستمبر، 2022

بندہ کے لیے اعزاز


Aaqib Anjum Aafī, Founder of Deoband Community Wikimedia User Group (DCW) wrote to me:

"Dear Md. Ruhul Amin,
Thanks for your contributions to the July 2022 drive of the Deoband Yoruba Collaborative Project. I am happy to present you a certificate of appreciation. Have a nice time ahead!

Sincerely,
Aaqib Aafi
ترجمہ:
عاقب انجم عافی، دیوبند کمیونٹی ویکیمیڈیا یوزر گروپ (DCW) کے بانی نے مجھے لکھا:

 "محترم محترم روح الامین،
 دیوبند یوروبا کولیبریٹو پروجیکٹ کی جولائی 2022ء کی مہم میں آپ کے تعاون کا شکریہ۔  میں آپ کو تعریفی سند پیش کرتے ہوئے خوش ہوں۔  آگے اچھا وقت گزرے!

 دل سے،
 عاقب عافی"


   نوٹ: بندہ نے نائیجیریا اور ہندوستان کے دو ویکی جماعتوں کے اس پراجیکٹ میں اول درجہ حاصل کیا تھا الحمد للّٰہ 


دیوبند کمیونٹی ویکیمیڈیا اور دیوبند یوروبا کولیبریٹو پروجیکٹ کے بارے میں جاننے کے لیے نیچے دیے لنکس کے ذریعے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے

جمعرات، 29 ستمبر، 2022

پھوپھا حضرت مولانا محمد شیث صاحب غازی بوکاروی رحمۃ اللّٰہ علیہ (1956ء - 2022ء)

پھوپھا حضرت مولانا محمد شیث صاحب غازی بوکاروی رحمۃ اللّٰہ علیہ (1956ء - 2022ء)



محمد روح الامین میُوربھنجی

    ہر انسان کی زندگی میں کچھ لوگ بہت ہی قریبی ہوتے ہیں اور جن کی یادیں اَنمِٹ نقوش بن کر دلوں میں نقش ہو جاتی ہیں، جن کی یادوں سے آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں اور یادیں آکر غموں کی لہر چھوڑ جاتی ہیں، میرے لیے ایک ایسی ہی ذات تھی پھوپھا حضرت مولانا محمد شیث صاحب غازی بوکاروی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی، بندے سے ان کا بہت ہی دردمندانہ اور مشفقانہ تعلق تھا، میری تعلیم و تربیت کی فکر انھیں بھی تھی، چوں کہ والد صاحب کے پھوپھا زاد بہنوئی تھے تو انھیں پھوپھا کہ کر پکارتا تھا، حالیہ سالوں میں جب وہ میرا کوئی مضمون پڑھتے تو بہت خوش ہوتے تھے، میرے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے تھے اور مجھ سے جب ملاقات یا بات ہوئی تو میری حوصلہ افزائی بھی فرمائی، نیز میری ننھیال اور میرے نانا جان حضرت مولانا سید حسین احمد قاسمی عارف گیاوی رحمۃ اللّٰہ علیہ، سابق امام و خطیب جامع مسجد ساکچی، جمشید پور سے بھی ان کا نیاز مندانہ و عقیدت مندانہ تعلق تھا، والد صاحب کا رشتہ سمجھ لیجیے انھیں کی بدولت اس خانوادۂ نیک نام سے جڑا تھا؛ الغرض جس طرح اپنا کوئی انتہائی قریبی ہوتا ہے، اسی طرح میرا ان کا رشتہ تھا، وہ میرے غمخوار و غم گسار بھی تھے۔ گزشتہ کل مورخہ یکم ربیع الاول 1444ھ بہ مطابق 28 ستمبر 2022ء بہ روز بدھ اپنے علاقے میں ان کا سڑک حادثہ ہوگیا، سر اور ہاتھ، پیر میں شدید چوٹ لگی، بوکارو ہی کے نیلم ہاسپٹل میں ایڈمٹ کروائے گئے، چوٹ کی تاب نہ لا کر چند ہی گھنٹوں میں انتقال کرگئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون

     گزشتہ کل وفات کے دن سے تقریباً ایک مہینہ پہلے 29 اگست 2022ء کو میری ان سے بہ ذریعہ موبائل بات ہوئی، اس وقت میں نے ان کی اجازت سے ان کی حیات و خدمات سے متعلق کچھ سوالات کیے تھے اور کال ریکارڈ کرکے محفوظ کر لیا تھا، ان سے کسی موقع پر قلم بند کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا، اس دن ان کے آخری جملے اس طرح کے تھے کہ  ”دعا کی درخواست ہے بابو! بابو! دعا کرنا بس! ہم کو تو ابھی سب سے زیادہ دعا کی ضرورت ہے، اللّٰہ تعالیٰ میری آخرت کو سنوار دے، اللّٰہ راضی ہو جائے، اس کے علاوہ اور کیا! بس موت کی تیاری کر رہا ہوں“۔

      اسی کال ریکارڈ میں موجود معلومات کی روشنی میں مزید تحقیق کے ساتھ یہ مضمون قلم بند کیا ہے، جو قارئین کی خدمت میں پیش کرکے ان سے دعا کی درخواست کرتا ہوں!!

       

    مختصر سوانح 

     حضرت مولانا کی ولادت 1956ء کو نوڈیہا، ضلع بوکارو، جھارکھنڈ میں ہوئی، اس وقت جھارکھنڈ بہار ہی کا حصہ تھا۔ ابتدائی تعلیم حضرت مولانا محمد اخلاق صاحب قاسمی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ادارہ مدرسہ رفاہ المسلمین، دبڑا، ضلع پرولیا، مغربی بنگال میں ہوئی۔ اس کے بعد مولانا محمد زکاۃ قلزم حیاتی نقشبندی  (1925ء - 2005ء) ابنِ مولانا محمد حیات سنبھلی (1892ء - 1987ء) رحمہما اللّٰہ کے مدرسہ جامعہ عربیہ حیات العلوم، مرادآباد میں ابتدائی عربی فارسی کی تعلیم حاصل کی، اس وقت مفتی دار العلوم دیوبند مفتی حبیب الرحمن خیرآبادی مد ظلہ بھی وہیں پر جلوہ افروز تھے، پھر جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد گئے اور حالات کی زد میں آکر شرحِ جامی کے بعد آگے پڑھنا میسر نہ ہوا۔ 1976ء میں تعلیمی سلسلہ کے اختتام کے بعد ابتدا میں ہُٹ مُڑا، ضلع پرولیا، مغربی بنگال کی کسی مسجد میں امامت کی اور مکتب میں بھی پڑھایا۔ اس کے بعد نیا ٹولی، رانچی میں کچھ دن امام رہے۔ اس کے بعد کھڑپوش، مغربی سنگھ بھوم، بہار (موجودہ جھارکھنڈ) میں تین چار سال امامت و تدریس کے فرائض انجام دیے۔ اس کے بعد کچھ عرصہ سنترا پور، ضلع کیونجھر، اڈیشہ میں رہے، پھر مدرسہ بحر العلوم نوڈیہا، ضلع بوکارو، جھارکھنڈ سے منسلک ہوکر اس ادارے کے لیے تقریباً دس گیارہ سال خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد کچھ عرصہ مدرسہ تعلیم القرآن، ذاکر نگر، مانگو، جمشید پور میں رہے۔ پھر حضرت والدِ محترم حافظ و قاری محمد نور الامین صدیقی دامت برکاتہم العالیہ (بانی و مہتمم مدرسہ دار العلوم حسینیہ، مدنی نگر، چڑئی بھول، ضلع میُوربھنج، اڈیشہ) کے محی الدین پور اور بشن پور، ضلع جگت سنگھ پور کے زمانۂ تدریس میں والد صاحب کے ساتھ منسلک رہے، پھر والد صاحب کے زمانۂ اہتمام جامعہ تجوید القرآن عثمانیہ، بارہ بٹیہ، ضلع جگت سنگھ پور، اڈیشہ میں  والد صاحب اور اس ادارے سے تقریباً دس سال منسلک رہے اور والد صاحب کی خوب رہنمائی بھی فرمائی، انھیں مدرسے کے سلسلے میں پہلی بار ممبئی لے کر گئے، لوگوں سے تعارف کروایا۔ جب والد صاحب نے اپنے وطن چڑئی بھول، ضلع میُوربھنج، اڈیشہ میں دار العلوم حسینیہ قائم کیا اور مدنی نگر بسایا تو بھی حضرت رحمۃ اللّٰہ علیہ کی توجہات رہتی تھیں اور کبھی کبھی ہمارے مدرسہ و گھر بھی تشریف لایا کرتے تھے۔

    نمازِ جنازہ آج بعد نماز ظہر پونے تین بجے مرحوم کے چچا زاد بھائی اور مرحوم قربان قاضی صاحب کے لڑکے حافظ یوسف صاحب کی اقتدا میں ادا کی گئی۔ پسماندگان میں اہلیہ اور دو بیٹیوں کے علاوہ چھ بیٹے بھی ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ پھوپھا مرحوم کی مغفرت فرمائے، ان کی خدمات کو قبول فرمائے، ان کی خطاؤں کو درگذر فرمائے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور پسماندگان و لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین

اتوار، 25 ستمبر، 2022

مولانا حبیب الرحمن قاسمی اعظمی: حیات و خدمات

مولانا حبیب الرحمن قاسمی اعظمی: حیات و خدمات


محمد روح الامین میُوربھنجی

     حضرت مولانا حبیب الرحمن قاسمی اعظمی ایک عالم دین، بلند پایہ مصنف، فن اسماء الرجال کے ماہر اور دار العلوم دیوبند کے استاذِ حدیث اور ’’شیوخ الامام ابی داؤد السجستانی فی کتاب السنن‘‘، ’’تذکرہ علمائے اعظم گڑھ‘‘، ’’اجودھیا کے اسلامی آثار‘‘ اور ’’بابری مسجد حقائق اور افسانے‘‘ سمیت کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ بندہ کو تین دنوں تک مولانا مرحوم کے دسترخوان پر مولانا مرحوم کے ساتھ کھانا میسر ہوا تھا۔ مولانا چہرے سے بارعب معلوم ہوتے تھے؛ مگر خوش طبع اور خوش اخلاق تھے۔ جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سید ارشد مدنی کی نگاہوں مولانا مرحوم کے مشورے وقعت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔

           مختصر سوانح

       ولادت و تعلیم 

       مولانا مرحوم 1361ھ بہ مطابق 1941ء کو جگدیش پور، ضلع اعظم گڑھ، برطانوی ہند میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ناظرہ، قرآن اور فارسی کی ابتدائی کتابوں تک اپنے قریہ میں پھر ایک قریبی قریہ برئی پور میں حاصل کی، پھر مدرسہ روضۃ العلوم پھول پور چلے گئے، جہاں انھوں نے عربی کی کچھ ابتدائی کتابیں اور فارسی کی بعض کتابیں پڑھیں، جہاں انھوں نے مولانا شاہ عبد الغنی پھول پوری سے گلستان سعدی پڑھی، اس کے بعد مدرسہ بیت العلوم سرائے میر میں عربی کی درجاتِ وسطی تک کی تعلیم حاصل کی، پھر عربی کی درجاتِ علیا کی تعلیم درجۂ عربی ہفتم تک دار العلوم مئو میں ہوئی، پھر 1962ء میں درس نظامی کی تکمیل کے لیے دار العلوم دیوبند تشریف لے گئے، جہاں سے انھوں نے 1384ھ بہ مطابق 1964ء دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کی، دار العلوم دیوبند میں ان کے اساتذۂ حدیث: فخر المحدثین مولانا سید فخر الدین احمد مرادآبادی، علامہ محمد ابراہیم بلیاوی، قاری محمد طیب قاسمی، مولانا بشیر احمد خاں بلند شہری، مولانا سید فخر الحسن مراد آبادی، مولانا شریف حسن دیوبندی، مولانا اسلام الحق اعظمی اور مولانا عبد الاحد دیوبندی تھے۔      

        تدریس و دیگر خدمات

      فراغت کے بعد کچھ ماہ تک مدرسہ روضۃ العلوم پھول پور کے شعبۂ تبلیغ سے جڑے رہے، پھر مدرسہ اشرف المدارس گھوسی سے تدریس کا آغاز کیا، جہاں وہ صدر المدرسین تھے۔ پھر مدرسہ اسلامیہ ریوڑھی تالاب بنارس چلے گئے، پھر آٹھ ماہ کے لیے مدرسہ قرآنیہ جونپور اور ایک سال کے لیےمدرسہ اسلامیہ منگراواں میں تدریسی خدمات انجام دیں، پھر مدرسہ اسلامیہ ریوڑھی تالاب بنارس میں مدرس ہوئے اور 1980ء تک وہاں مدرس رہے۔ 1980ء میں مؤتمر فضلائے دیوبند؛ خصوصاً فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی کی طلب پر دیوبند گئے اور عالمی مؤتمر کی نظامت اور ماہنامہ القاسم کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے، 1402ھ بہ مطابق 1982ء میں دار العلوم دیوبند کے مدرس مقرر ہوئے اور 1985ء میں ان کو ماہنامہ دار العلوم کا مدیر مقرر کیا گیا اور وہ 2016ء تک اس کے مدیر رہے۔ 1982ء تا 1983ء میں انھیں جمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ کا رکن بنایا گیا اور وہ تاوفات اس کے رکن رہے۔ 1420ھ میں دار العلوم کی ردِ عیسائیت کمیٹی کا ان کو نگراں پھر ناظم مقرر کیا گیا، جس کے ناظم وہ 1438ھ تک رہے۔ دار العلوم میں سنن ابو داود، مشکاۃ المصابیح، نخبۃ الفکر اور مقدمہ ابن الصلاح جیسی اہم کتابیں ان سے متعلق رہیں، مفتی سعید احمد پالن پوری کی وفات کے بعد صحیح البخاری کے بعض اجزا کے اسباق بھی ان سے متعلق ہوئے؛ لیکن 24 مارچ 2020ء سے ملک گیر سطح پر لاک ڈاؤن لگنے کی وجہ سے مدارس ہی بند رہے۔  

      بیعت و خلافت

    وہ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ سے بیعت تھے، مولانا کاندھلوی کی وفات کے بعد؛ جب فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنیؒ کو ان کے معمولات اور تسبیحات کے بارے میں معلوم ہوا تو مولانا مدنی نے کہا کہ آپ تو خلافت کے مستحق ہیں! چناں چہ مولانا مدنیؒ کے خلیفہ مولانا محمود سہارن پوریؒ نے ان کو خلافت عطا فرمائی تھی۔

      

      وفات و اظہارِ تعزیت

    مولانا مرحوم 30 رمضان 1442ھ بہ مطابق 12 مئی 2021ء بہ روز جمعرات تقریباً سوا بارہ بجے دن میں چند دنوں کی علالت کے بعد وہ اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے اور اپنے آبائی قبرستان جگدیش پور میں مدفون ہوئے۔ ان کی وفات پر جمعیت علمائے ہند الف کے صدر مولانا سید ارشد مدنی، جمعیت علمائے ہند میم کے سابق صدر قاری محمد عثمان منصور پوری، دار العلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابو القاسم نعمانی، دار العلوم وقف دیوبند کے مہتمم مولانا محمد سفیان قاسمی، دار العلوم کے سابق نائب مہتمم مولانا عبد الخالق سنبھلی، جامعہ امام محمد انور شاہ کے مہتمم مولانا احمد خضر شاہ مسعودی اور دیگر علما و دانشورانِ قوم و ملت نے افسوس کا اظہار کیا۔

            

         تصنیفی خدمات 

        ان کی تصانیف کے نام مندرجۂ ذیل ہیں:

(1) شیوخ الامام ابی ابوداؤد السجستانی فی کتاب السنن، (2) شجرۂ طیبہ (شیخ طیب بنارسی کے حالات)، (3) مقالاتِ حبیب (تین جلدیں)، (4) تذکرہ علمائے اعظم گڑھ، (5) شرح اردو مقدمہ شیخ عبدالحق (شرح مقدمة الشيخ عبد الحق المحدث الده‍لوي في بيان بعض مصطلحات علم الحديث)، (6) انتقاء کتاب الاخلاق، (7) ہندوستان میں امارت شرعیہ کا نظام اور جمعیت علمائے ہند کی جد وجہد، (8) اسلام میں تصور امارت، (9) متحدہ قومیت علماء کی نظر میں، (10) خمینیت عصر حاضر کا عظیم فتنہ، (11) فرقہ اثنا عشریہ فقہائے اسلام کی نظر میں، (12) خلیفہ مہدی صحیح احادیث کی روشنی میں (تحقیق و تعلیق)، (13) طلاق ثلاثہ صحیح مآخذ کی روشنی میں، (14) امام کے پیچھے مقتدی کی قرات کا حکم، (15) تحقیق مسئلہ رفع یدین، (16) مسائل نماز، (17) خواتین اسلام کی بہترین مسجد، (18) علم حدیث میں امام ابوحنیفہ کا مقام ومرتبہ، (19) اجودھیا کے اسلامی آثار، (20) بابری مسجد حقائق اور افسانے، (21)، (22) حرمت مصاہرت، (23) ایک فتویٰ کا تحقیقی جائزہ، (24) اسلام کا نظام عبادت، (25) اسلام میں تصور امارت، (26) اسلام اور نفقۂ مطلقہ، (27) امام ابو حنیفہ کا علم حدیث میں مقام و مرتبہ، (28) وفیات نمبر ماہنامہ دار العلوم دیوبند، (29) نور القمر شرح نخبۃ الفکر، (30) امام ابو داؤد اور ان کی سنن، (31) شیعیت قرآن و حدیث کی روشنی میں، (32) کیا حدیث حجت نہیں؟، (33) حدیث و سنت پر نقد و نظر، (34) سرسید احمد خان کا نظریۂ حجیت حدیث، بحث و تحقیق کے آئینے میں، (33) بابری مسجد تاریخ کے مختلف مراحل میں، (34) میت پر اظہارِ غم کے مسائل و دلائل، (35) مقامِ محمود (شیخ الہند سیمینار کے مقالات کا مجموعہ)۔ نیز لاک ڈاؤن کے زمانے میں انھوں نے امام اعظم حضرت ابو حنیفہ کے حالات و خدمات پر مبسوط شرح تصنیف فرمائی، جو منظر عام پر آنے والی تھی۔ 


حوالہ جات

  1. اعظمی، عبد العلیم بن عبد العظیم (30 جون 2021). "مولانا حبیب الرحمن اعظمی حیات وخدمات"جہازی میڈیا ڈاٹ کام. عبد العلیم بن عبد العظیم اعظمی. اخذ شدہ بتاریخ 11 اگست 2021.
  2. مولانا طیب قاسمی ہردوئی. دار العلوم ڈائری تلامذۂ فخر المحدثین نمبر (ایڈیشن 2016). دیوبند: ادارہ پیغامِ محمود.
  3. خان، فیروز (13 مئی 2021). "معروف عالم دین مولانا حبیب الرحمن اعظمی کا انتقال"آواز دی وائس. فیروز خان. اخذ شدہ بتاریخ 12 اگست 2021.
  4. محمد اللّٰہ خلیلی قاسمی. "حضرت مولانا حبیب الرحمن قاسمی اعظمی". دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ (ایڈیشن اکتوبر 2020). دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی. صفحہ 686-687.
  5. نایاب حسن قاسمی. "ماہنامہ دار العلوم.....چھٹے مدیر". دار العلوم دیوبند کا صحافتی منظرنامہ (ایڈیشن 2013). دیوبند: ادارہ تحقیق اسلامی. صفحات 120–121.
  6. اعظمی، مفتی شرف الدین، ویکی نویس (ستمبر 2021ء). "مولانا حبیب الرحمن اعظمی: حیات و خدمات". ماہنامہ الماس. ادارہ فکر و فن، انوار جامع مسجد، شیواجی نگر، گوونڈی، ممبئی، بھارت. 1 (4): 174–180.
  7. حلیمی قاسمی، محمد تبریز عالم (29 اگست 2021). "مولانا حبیب الرحمن اعظمی ؒ اور سلوک و تصوف"qindeelonline.com. قندیل آن لائن. اخذ شدہ بتاریخ 13 دسمبر 2021.
  8. سلمانی، رضوان (13 مئی 2021). "دارالعلوم دیوبند کے بزرگ استاذ حدیث مولانا حبیب الرحمن اعظمی کا انتقال ، دیوبندسمیت پوری اسلامی دنیا کا ماحول غمگین"ہندوستان اردو ٹائمز ڈاٹ کام. 12 اگست 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 12 اگست 2021.
  9. "دارالعلوم دیوبند :مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمیؒ کا انتقال"آواز دی وائس ڈاٹ کام. www.urdu.awazthevoice.in. 16 مئی 2021. اخذ شدہ بتاریخ 12 اگست 2021

    کتابیات

    • اعظمی، مفتی شرف الدین، ویکی نویس (ستمبر 2021ء). "مولانا حبیب الرحمن اعظمی: حیات و خدمات". ماہنامہ الماس. ادارہ فکر و فن، انوار جامع مسجد، شیواجی نگر، گوونڈی، ممبئی، بھارت. 1 (4).
    • اعظمی، عبد العلیم بن عبد العظیم (30 جون 2021). "مولانا حبیب الرحمن اعظمی حیات وخدمات"جہازی میڈیا ڈاٹ کام. اخذ شدہ بتاریخ 11 اگست 2021.
    • محمد اللّٰہ قاسمی. "حضرت مولانا حبیب الرحمن قاسمی اعظمی". دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ (ایڈیشن اکتوبر 2020). دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی. صفحہ 686-687.

ہفتہ، 24 ستمبر، 2022

حضرت مولانا محمد جابر صاحب قاسمی بنجھار پوریؒ (1943–2020ء): مختصر سوانحی خاکہ

حضرت مولانا محمد جابر صاحب قاسمی بنجھار پوریؒ (1943–2020ء): مختصر سوانحی خاکہ


محمد روح الامین میُوربھنجی


    سر زمین اڈیشا کے مایۂ ناز و قابل فخر علمائے دین، جنھوں نے اہلِ اڈیشا کے دین و ایمان کی حفاظت و پاسداری کے لیے بے پایاں قربانیاں دی ہیں، ان میں ایک معروف نام حضرت مولانا محمد جابر صاحب قاسمی بنجھار پوریؒ کا ہے۔ وہ فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ کے خلیفۂ اجل اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ اور فخر المحدثین حضرت مولانا سید فخر الدین احمد مرادآبادیؒ کے تلمیذ رشید تھے۔ آپ تقریباً نصف صدی تک اڈیشا میں دینی، تعلیمی، تربیتی، اصلاحی اور معاشرتی خدمات انجام دیتے رہے۔ تقسیمِ جمعیت کے ماقبل و مابعد؛ ہر دو زمانوں میں انھوں نے جمعیت کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ اخیر عمر میں تقریباً تیرہ سال جمعیۃ علمائے اڈیشا (میم) کے صدر رہے۔ اب ان کا مختصر سوانحی خاکہ قارئین کے حوالے کرتا ہوں، اڈیشا کے معروف ماہنامہ صدائے اڑیسہ کے ماہ دسمبر 2020ء کے شمارے میں مولانا مرحوم پر شائع مضمون سے بندہ نے استفادہ کیا ہے، نیز اپنی دانست و تحقیق کے مطابق بعض مزید چیزوں کا بھی اضافہ کر دیا ہے۔ حضرت مولانا محمد سلمان منصورپوری نے ندائے شاہی میں شائع تعزیتی مضامین کو الگ سے ذکرِ رفتگاں کے نام سے شائع کر دیا ہے، جس کے اب تک 6 حصے منظر عام پر آ چکے ہیں، جس کے حصۂ چہارم سے بھی بندہ نے مولانا مرحوم کے متعلق استفادہ کیا ہے۔

              مختصر سوانحی خاکہ  

       بیعت و خلافت

     مولانا مرحوم کی ولادت 1943ء کو بنجھار پور، ضلع جاجپور، صوبہ اڈیشا (اڑیسہ) میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں ہی میں رہ کر مولانا عرفان صاحبؒ کے پاس حاصل کی، اس کے بعد مولانا امان اللہ بنجھار پوریؒ و مولانا عبد الغفار بنجھار پوریؒ کے مشورے پر مولانا عرفان صاحبؓ کے ہم راہ مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد تشریف لے گئے، جلال آباد میں انھوں نے حفظِ قرآن کا آغاز کیا، اخیر کے دس پارے ہی حفظ کیے تھے کہ طبیعت خراب رہنے لگی.... کمزوری، سینے میں درد اور خون کی قے کی شکایت ہونے لگی تو ان کے استاذ نے انھیں درس نظامی پڑھنے کا مشورہ دیا، پھر مولانا مرحوم حصولِ علم کی غرض سے مظاہر علوم سہارنپور تشریف لے گئے اور وہاں رہ کر عربی پنجم تک کی تعلیم حاصل کی، ان کے اساتذۂ مظاہر علوم میں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ اور سابق ناظم اعلیٰ مظاہر علوم مولانا سید محمد سلمان مظاہریؒ کے والد مفتی محمد یحییٰ سہارنپوریؒ بطور خاص شامل ہیں۔

    مظاہر علوم کے بعد مولانا مرحوم نے دار العلوم دیوبند کا رخ کیا اور وہاں داخلہ لے کر 1366ھ مطابق 1966ء کو دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے، ان کے شرکائے دورۂ حدیث میں سابق صدر جمعیۃ علمائے غازی پور مولانا محمد ابو بکر غازی پوریؒ، شیخ الحدیث دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ مولانا محمد زکریا سنبھلی، مولانا شمیم الحق گیاویؒ، مولانا محمد ابراہیم کٹکی اور مولانا محمد علی یوسف قاسمی دریا پوری شامل ہیں۔ (دار العلوم ڈائری: تلامذہ فخر المحدثینؒ نمبر (2017ء)؛ ندوة العلماء اور دارالعلوم دیوبند کا باہمی ربط از مولانا عبد المالک بلند شہری)

      تدریس و دیگر خدمات

    تعلیم سے فراغت کے بعد مولانا مرحوم بیگو سرائے، صوبہ بہار کے ایک مدرسے میں پانچ سال مدرس رہے، پھر مولانا امان اللہ بنجھار پوریؒ و مولانا عبد الغفار بنجھار پوریؒ کے اصرار پر سینئر مدرسہ، بنجھار پور کی مسند تدریس کو شرف بخشا اور سالہا سال صحیح مسلم کا درس دیا۔ آپ نے مدرسہ مشکوٰۃ العلوم میں بھی بہ حیثیت مدرس خدمات انجام دیں۔

     بیعت و خلافت، ارشاد و اصلاح

     جیسا کہ مضمون کی ابتدا میں یہ بات آ چکی ہے کہ مولانا مرحوم؛ فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ کے خلیفۂ اجل تھے تو اسی ذمہ داری کے پیش نظر قوم و ملت کی اصلاح و تربیت کے واسطے بنجھار پور میں انھوں نے خانقاہ بھی قائم کیا، اس کے علاوہ دیگر مقامات میں بھی ان کی خانقاہیں قائم تھیں۔ مولانا مرحوم کے صاحب زادہ مولانا محمد اکرم تقی صاحب قاسمی کے بیان کے مطابق ایک مرتبہ مولانا مرحوم کی ملاقات؛ ان کے درسی ساتھی سابق شیخ الحدیث مظاہر علوم سہارنپور مولانا محمد یونس جونپوریؒ سے ہوئی تو انھوں نے زمانۂ طالب علمی ہی میں مولانا مرحوم کی تقویٰ و طہارت والی زندگی کی روشنی میں اس طرح کے جملے کہے تھے کہ جس دن مجھے خبر ملی تھی کہ جابر کٹکی کو فدائے ملت سے خلافت ملی ہے تو مجھے یقین ہوگیا تھا کہ وہ تم ہی ہو۔

       مولانا مرحوم اور جمعیت

     مولانا مرحوم نے جمعیۃ علمائے ہند کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، جمعیت کی تقسیم سے پہلے اور بعد؛ دنوں ہی زمانوں میں انھوں نے جمعیت سے منسلک ہوکر گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ 2008ء کے شروع میں وہ باقاعدہ متحدہ جمعیۃ علمائے اڈیشا کے صدر منتخب ہوئے، پھر 6 مارچ 2008 کو مرکزی جمعیۃ علماء کی تقسیم کا حادثہ پیش آیا، جس کے بعد مولانا مرحوم جمعیۃ علمائے اڈیشا (میم) کے صدر بنائے گئے اور تادمِ آخر بہ حیثیت صدر خدمات انجام دیتے رہے، اسی وقت سے تاوفات امارت شرعیہ اڈیشا کے امیر بھی رہے؛ لیکن باقاعدہ ان کی امارت کی توثیق امیر الہند رابع قاری محمد عثمان منصور پوری نے اپنے زمانۂ امارت کے آغاز یعنی سنہ 2010ء میں کی۔ آپ 2008ء سے تا وفات جمعیت علماء کے رکن مجلسِ عاملہ کی حیثیت سے جمعیۃ علماء (میم) کے مدعوئے خصوصی بھی رہے۔

      جمعیۃ علماء کے پلیٹ فارم سے منسلک ہو کر انھوں نے اڈیشا میں بے پایاں ملی، سماجی اور فلاحی خدمات انجام دیں، 1999ء کے مہلک طوفان اور دیگر طوفانوں اور حوادث کے موقع پر بھی وہ بہت سے امدادی کاموں میں سرگرمِ عمل رہے۔ جمعیۃ علمائے ہند کی طرف سے دہشت گردی مخالف مہم کے تحت بھی ان کی خدمات قابل ذکر ہیں، اسی مہم کے تحت مولانا مرحوم کے زیر صدارت اڈیشا کی دارالحکومت بھوبنیشور میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی، جس میں بہ طور مہمانانِ خصوصی: وزیر اعلیٰ اڈیشا نوین پٹنائک، حاجی محمد ایوب، منا خان اور ہندوستان کے دیگر علمائے کرام نے شرکت کی تھی۔ جمعیۃ علمائے ہند سے اتنا گہرا تعلق تھا کہ شدید بیماری اور ضعف کی حالت میں بھی 2 جنوری سنہ 2020ء کو منعقدہ اجلاسِ مجلس عاملہ میں شریک ہونے کے لیے دہلی تشریف لے گئے اور 22 اکتوبر سنہ 2020ء کو منعقد جمعیت علمائے ہند کے اجلاسِ مجلس عاملہ میں بھی بہ ذریعہ ”زوم“ (Zoom) شریک ہوئے۔

       اوصاف و کمالات

     مولانا مرحوم نہایت سادہ لوح، منکسر المزاج، نیک طبیعت، انتظامی صلاحیتیوں کے حامل، دیندار، اوقات کے پابند، پابندِ نماز باجماعت تھے، نیز لوگوں کی اصلاح و تزکیہ میں مشغول و متفکر رہا کرتے تھے۔ مولانا مرحوم کے صاحب زادہ مفتی ارشد ذکی صاحب کے بیان کے مطابق آخری سال رمضان میں انتہائی درد و الم کے عالم میں بھی اخیر کے دس پارے حفظ کر لیے تھے اور مرض الوفات کے اندر ہوش و حواس کی حالت میں نمازِ تہجد تک ترک کرنا گوارا نہ کرتے تھے۔ ایک واقعہ مولانا مرحوم کے صاحب زادہ مولانا محمد اکرم تقی صاحب کے بیان میں سنا کہ ایک مرتبہ مولانا مرحوم دیوبند گئے، سہارنپور بھی جانا ہوا، مظاہر علوم کے اس وقت کے ناظم اعلیٰ مولانا سید محمد سلمان مظاہریؒ نے انھیں بہت سی کتابیں ہدیے میں دیں، جب دیوبند میں کتابیں کھول کر دیکھی گئیں تو اس میں مولانا سید محمد سلمان صاحب نے مولانا مرحوم کو استاذ محترم کے نام سے منسوب کیا تھا یعنی استاذ محترم لکھا تھا، جب کہ مولانا سلمان صاحب بھی اس وقت خاصے ضعیف ہو چکے تھے، دیکھنے والوں نے حیرت زدہ ہو کر دریافت کیا تو مولانا مرحوم نے کچھ یوں جواب دیا کہ جب وہ جلال آباد سے سہارنپور تشریف لے گئے تو مولانا سلمان صاحب کے والد مفتی محمد یحییٰ صاحب سہارنپوریؒ اور حضرت شیخ کے منظورِ نظر ہو گئے تھے، تعلیم میں ان کی محنت و لگن، سبق فہمی وغیرہ دیکھ کر اساتذہ انھیں اپنے قریب بٹھانا چاہتے تھے، اس وقت مفتی محمد یحییٰ صاحب نے اپنے صاحب زادہ مولانا سید محمد سلمان صاحب مظاہریؒ کو مولانا مرحوم سے متعلق کر دیا تھا اور اس وقت مولانا مرحوم کے پاس مولانا سید محمد سلمان صاحب نے بہت سی کتابیں پڑھی تھیں (جب کہ خود مولانا مرحوم کا یہ زمانۂ طالب علمی تھا)۔

      وفات، اظہارِ تعزیت اور پس ماندگان

     مولانا مرحوم 17 نومبر 2020ء مطابق یکم ربیع الثانی 1442ھ بہ روز منگل طویل علالت کے بعد دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کر گئے اور اسی دن بعد نماز عشاء بنجھار پور میں علماء و عوام کی جم غفیر کی موجودگی میں مولانا مرحوم کے صاحب زادہ مولانا مفتی ارشد ذکی صاحب قاسمی کی اقتدا میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی اور وہیں بنجھار پور میں سپردِ خاک کیے گئے۔ ان کی وفات پر سابق صدر جمعیۃ علمائے ہند مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوریؒ اور سابق جنرل سکریٹری و موجودہ صدر جمعیۃ علمائے ہند مولانا سید محمود اسعد مدنی نے قلبی رنج والم کا اظہار کرتے ہوئے اسے جمعیۃ علمائے ہند کے لیے بالخصوص اور دینی وملی حلقے کے لیے بالعموم نقصانِ عظیم قرار دیا۔

   پسماندگان میں تین صاحب زادیوں کے علاوہ سات صاحب زادے ہیں اور ماشاء اللّٰہ سب دینی تعلیم سے آراستہ ہیں: (1) مولانا محمد اختر ذکی قاسمی، مہتمم مدرسہ مشکوۃ العلوم، بنجھار پور، (2) مولانا مفتی محمد ارشد ذکی قاسمی، سابق استاذ حدیث جامعۃ الشیخ حسین احمد المدنی، محلہ خانقاہ، دیوبند، جو فی الحال جامعہ آسام دارالحدیث، جے نگر کے شیخ الحدیث ہیں، (3) مولانا محمد اسعد ذکی قاسمی، جو برہم پوری، دہلی میں مقیم روحانی وجسمانی علاج کے ماہر ہیں، (4) مولانا محمد احمد ذکی قاسمی، سی اے ممبئی، (4) مولانا محمد اکرم تقی قاسمی، ناظم مدرسہ مشکوۃ العلوم و ناظم اعلیٰ جمعیۃ علمائے اڈیشا (میم)، (5) حافظ محمد احسن ذکی، جو اورنگ آباد میں کسی اسکول کے استاد ہیں، (6) حافظ محمد اسجد ذکی؛ جو گجپتی، اڈیشا کے کسی بستی میں امام ہیں۔


   اللّٰہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے، ان کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے اور ہمیں بھی دینی و ملی خدمات کے لیے قبول فرمائے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین
    

اتوار، 18 ستمبر، 2022

پروفیسر ظفر احمد نظامی اور ”قلمی خاکے“

پروفیسر ظفر احمد نظامی اور ”قلمی خاکے“


کتاب: قلمی خاکے (مشہور شخصیات کا جامع تعارف)
مصنف: پروفیسر ظفر احمد نظامی
مرتبہ: ڈاکٹر شمع افروز زیدی
صفحات: 264
ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز، جوگا بائی، نئی دہلی
تبصرہ نگار: محمد روح الامین میُوربھنجی

       ”قلمی خاکے“ کے نام سے تصویر میں نظر آ رہی تصنیفِ لطیف اسلوبِ نگارش میں عمدہ، حسن تعبیر کا شاہکار اور اردو ادب کے حسن کا آئینہ دار ہے، جو پروفیسر ظفر احمد نظامی کے قلمی خاکوں کا مجموعہ ہے اور ڈاکٹر شمع افروز زیدی مدیر ماہنامہ بیسویں صدی دہلی کا مرتب کیا ہوا ہے۔ 

      پروفیسر نظامی کا تعلق سیاسیات سے تھا، وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر تھے؛ مگر انھوں نے دیگر خدمات کے ساتھ ساتھ تاریخ میں بھی نمایاں خدمات انجام دی ہیں، ان کے اسلوبِ نگارش کا کیا کہیے!! وہ صاحب کمال ہیں، خود میں اک مثال ہیں۔

      خاکہ نگار کا تعارف
     پروفیسر نظامی کے والد حکیم جمیل احمد شیرکوٹ، ضلع بجنور سے تعلق رکھتے تھے، انھوں نے طبیہ کالج، دہلی سے سندِ طب حاصل کرکے اپنے وطن مالوف کو خیر باد کہ کر پرتاپ گڑھ، راجستھان کو وطن اقامت بنا لیا تھا، جہاں پر 25 نومبر 1939ء کو پروفیسر ظفر احمد نظامی پیدا ہوئے، میرٹھ میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج، رتلام سے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ میں کامیابی حاصل کی، پھر 1959ء کو ہولکر کالج اندور سے انگریزی ادب میں ایم اے اور 1961ء کو سیاسیات میں اعزازی نمبرات کے ساتھ ڈبل ایم اے کیا، اس کے بعد ”ہندوستانی سیاست میں قوم پرست مسلمانوں کا حصہ“ کے موضوع پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری سے سرفراز ہوئے۔ 1960ء سے دتیا، اندور، شیوپوری، رتلام اور جاورہ جیسے مختلف مقامات میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ پہلے تدریس کا آغاز اسکول سے شروع کیا، پھر لیکچرر اور ریڈر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز (آئی او ایس)، جوگابائی، جامعہ نگر، نئی دہلی کے اکیڈمک ڈائریکٹر بھی رہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اکیڈمک اسٹاف کالج کے ڈائریکٹر اور 30 سال شعبۂ سیاسیات میں پروفیسر کے عہدے پر متمکن رہنے کے بعد 2001ء میں صدر کے عہدے سے سبکدوش ہوتے ہوئے وظیفہ یاب ہوئے۔ پروفیسر نظامی 23 اپریل 2009ء کو اس دار فانی سے رخصت ہوگئے۔ نظامی اپنی ذمہ داری بخوبی نبھانے والے، خوش اخلاق اور نماز کے پابند تھے۔ نظامی استاذ و پروفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر، مصنف اور ایک افسانہ نگار بھی تھے۔ وہ بہترین افسانے/ کہانیاں لکھتے تھے، ان کی کہانیاں ماہنامہ بیسویں صدی دہلی، روبی دہلی اور شمع دہلی کی زینتِ مسلسل بنا کرتی تھیں۔ ان کی کہانیوں میں آٹو گراف، انتظار، اپریل فول، منزل سے آگے، الجھن، ہم سفر، لٹیرے، مس جوزیفائن، جوائننگ رپورٹ، تاج محل اور بند پیکٹ شامل ہیں۔ 

   پروفیسر نظامی کے قلمی کارناموں میں معمارانِ جامعہ، ہندوستان کے چند سیاسی رہنما، مولانا آزاد کی کہانی، شاہ ولی اللّٰہ: حیات و افکار، تاریخ ہند: عہدِ جدید، بلڈرز آف ماڈرن انڈیا: حکیم اجمل خاں، ڈاکٹر ذاکر حسین: اَ پکٹوریل بایوگرافی، جماعت اسلامی: اسپیئر ہیڈ آف سیپریٹیزم اور آزادی ہند کی جدوجہد میں مسلمانوں کا کردار شامل ہیں۔

     ”قلمی خاکے“
   1990ء تا 2006ء قلمی چہرہ کے عنوان سے مختلف شخصیات پر ماہنامہ بیسویں صدی دہلی میں پروفیسر نظامی کے تحریر کردہ خاکے شائع ہوا کرتے تھے، جن میں سے انہتر (69) شعرا و ادبا اور پچاس (50) دانشوران اور سیاسی و سماجی شخصیات پر شائع شدہ خاکوں کو ڈاکٹر شمع افروز زیدی نے ”قلمی خاکے“ کے عنوان سے مرتب کیا، اس طرح ماہنامہ بیسویں صدی میں شائع 115 خاکے اس کتاب میں شامل ہیں اور وہ کتاب 2013ء کو آئی او ایس، جوگا بائی، جامعہ نگر، نئی دہلی سے شائع ہوئی۔ ڈاکٹر شمع افروز زیدی ”قلمی خاکے“ کے آغاز میں پروفیسر نظامی کے خاکوں کے بارے میں لکھتی ہیں: ”یہ تمام خاکے مسجّع و مقفّٰی عبارت کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ نظامی صاحب نے یہ ایسا تخلیقی کام کیا ہے جو ان کی واضح پہچان قائم کرنے میں معاون ہے۔“

     ایک بات قابل ذکر ہے کہ اس کتاب میں ”بیسویں صدی“ میں شائع خاکوں کے علاوہ آئی او ایس کی جانب سے دیے جانے والے شاہ ولی اللّٰہ ایوارڈ کے موقع پر قاضی مجاہد الاسلام قاسمی، پروفیسر نجات اللہ صدیقی، مولانا محمد شہاب الدین ندوی اور پروفیسر یٰسین مظہر صدیقی پر نظامی کے لکھے گئے خاکے بھی شامل ہیں، جن کو لے کر یہ کتاب کل 119 خاکوں پر مشتمل کہلاتی ہے۔ 

     زیر نظر کتاب میں شامل آخری خاکے کا مختصر حصہ بطور مثال پڑھا جا سکتا ہے: ”کتابی چہرا، آنکھوں پر پہرا۔ چوڑی پیشانی، علمیت کی کہانی۔ بڑے بڑے کان، دانشمندی کی داستان۔ سر پر برف جیسے بال، ذہن محوِ خیال۔ یہ ہیں نامور ادیب، دین اسلام کے نقیب۔ ممتاز دانشور، علوم اسلامی کے پروفیسر۔ مشہور مورخ اسلام، مقبولِ خاص و عام۔ صاحبِ تصنیفاتِ اسلامی، حاملِ شخصیتِ نامی و گرامی۔ مجسمۂ صدق و لطافت، پیکرِ حق و شرافت۔ مردِ میدانِ کارِ تحقیقی یعنی پروفیسر یٰسین مظہر صدیقی!!“

    مذکورۂ بالا عبارت سے نظامی کی جادو بیانی اور البیلا و سماں باندھتا اندازِ نگارش دیکھا جا سکتا ہے۔ پروفیسر نظامی کی یہ کتاب ”قلمی خاکے“ نثر نگاروں اور خاکہ نگاروں کے لیے انمول تحفہ ہے۔ اسے پڑھنے سے لکھنے کا ذوق پیدا ہوتا ہے، خصوصاً میرے جیسے نئے مضمون نگاروں کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔

    ”قلمی خاکے“ میں پروفیسر آل احمد سرور، پروفیسر جگن ناتھ آزاد، پروفیسر اختر الواسع، ڈاکٹر بشیر بدر،خواجہ احمد فاروقی، بیکل اتساہی، پروفیسر شمس الرحمن فاروقی، پروفیسر شمیم حنفی جیسے شعرا و ادبا اور ڈاکٹر منموہن سنگھ، ڈاکٹر غلام نبی آزاد، سونیا گاندھی، جے للتا، ملائم سنگھ یادو جیسی سیاسی شخصیات کے خاکے ہیں تو وہیں قاضی مجاہد الاسلام قاسمی، مولانا محمد شہاب الدین ندوی، پروفیسر محمد نجات اللہ صدیقی اور پرفیسر یسین مظہر صدیقی جیسے علماء کے بھی خاکے شامل ہیں۔
 
    قاضی عبید الرحمن ہاشمی نے اس کتاب پر مقدمہ لکھا ہے، جس میں انھوں نے فن خاکہ نگاری کے آئینے میں پروفیسر ظفر احمد نظامی کے خاکوں کا جائزہ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے: ”ظفر احمد نظامی کا شمار ہمارے Main Stream اردو ادیبوں میں نہیں ہوتا....... تاہم ان کے خاکوں کی یہ خوبی ضرور ہے کہ ان میں فراہم کردہ اطلاعات، مواد اور حقائق کے استناد سے انکار کی جرأت نہیں ہو سکتی..... ظفر احمد نظامی اپنے خاکوں سے کسی بڑی خدمت کے لیے راہ ہموار کرنے کے بجائے فوری مسرت اور سرخوشی کا ماحول پیدا کرنا چاہتے تھے، جس میں وہ یقیناً پوری طرح کامیاب ہیں“۔
     مرتبہ کا مختصر تعارف
    ڈاکٹر شمع افروز زیدی ایم اے و پی ایچ ڈی کی ڈگری یافتہ صحافی، بیسویں صدی، روبی، شمع، آنگن اور گلفشاں جیسے رسالوں کی مدیرہ؛ بچوں کا ماہنامہ امنگ، اردو دنیا اور فکر و تحقیق جیسے رسالوں کی نائب مدیرہ اور اردو ناول میں طنز و مزاح (1987ء)، فکر تونسوی: حیات اور کارنامے (1989ء)، گلدستہ کلام شعرا (1990ء)، اردو ادب اور جدیدیت (1997ء)، فن کے آئینے میں (2003ء)، اردو صحافت کا نیر تاباں (2013ء)، تنقیدی دریچے (2013ء)، قلمی خاکے (2013ء) اور رحمان نیر اپنی تحریروں کے آئینے میں (2015ء) جیسی کتابوں کی مصنفہ ہیں۔

نوٹ: اس کتاب کو پڑھ کر بندہ بہت خوش ہوا، پھر پروفیسر نظامی کے بارے میں پڑھتا گیا اور ان کے حالات کو اپنے انداز میں لکھتا گیا، اس کے بعد جب مضمون تقریباً مکمل ہو چکا تھا تو گوگل پر ”کتاب - قلمی خاکے - مشہور شخصیات کا جامع تعارف“ کے نام سے سہیل انجم نامی صاحب کا ایک مضمون پڑھا، اخیر میں اس سے بھی کچھ استفادہ کیا؛ لیکن میرا یہ مضمون سہیل انجم کے مضمون سے کاپی پیسٹ کیا ہوا نہیں ہے۔

     اللّٰہ پروفیسر نظامی مرحوم کی مغفرت فرمائے، ان کی خدمات کو قبول فرمائے، مرتبہ کو بھی اجر جزیل عطا فرمائے اور ہم جیسے لوگوں کو علمی و ادبی خدمات کے لیے قبول فرمائے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین

منگل، 13 ستمبر، 2022

حسین احمد عارف گیاوی کی وفات پر لکھی گئی یادگار تحریر

عصر حاضر کا حسین بھی رخصت ہوگیا

 مولانا محمد شاہد الناصری الحنفی، مدیر مکہ میگزین، ممبئی

(لاک ڈاؤن سے قبل لکھی ہوئی یادگار تحریر)

       آہ صد آہ  یہ کیسی خبر ملی کہ  دل پھر  فگار ہوگیا، فکر جامد ہوگئی اور قلم بھی چلنے سے رک گیا کہ وہ لکھے تو کیا لکھے اور کس کے لیے لکھے، یہ کیا لکھ دیا خالد نے پتہ نہیں یہ کیوں لکھ دیا کہ:   "ابی نہیں رہے"۔ بس کیا تھا کہ لمحوں نے قلب وفکر کو ایک دوسرے سے جدا جدا کردیا، اب قلم بھی آمادہ نہیں کہ خالو جان کے لیے کچھ خامۂ حقیقت رقم کرسکے۔

آج غالبا پانچواں دن ہے اور وہ بھی پنجتن پاک کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔

 1941ء میں حافظ سید محمد مسلم کے یہاں جہان آباد میں خاکدان فانی کے ایک گھر میں ایک حسین ترین بچے کا ظہور ہوا، ہاتف غیبی نے رہنمائی کی اور اس بچے کا نام اس خاکدان فانی کو لالہ زار اور جہاں آباد بنانے والے مکہ کے در یتیم کے نام اور ان کے اس نواسہ کے نام کو شامل کرکے (حسین احمد) سے موسوم کردیا گیا۔ اور سارا جہان ان کے اسی نام سے متعارف ہوا۔ اورخصوصیات بھی وہی ودیعت کی گئی کہ: نرغے میں دشمنوں کے اکیلا حسین ہے۔ جو کار محمدی سینہ بسینہ حسین بن علی رضی اللہ عنہ تک پہونچا، پھر نسلًا بعد نسلٍ ان کی نسلوں میں منتقل ہوا، اس کار امانت کو عملا وفا کرنا اللہ کی توفیق ونصرت کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا۔ 
چناں چہ ایک جہان کو اپنے علم ومعرفت اور دعوت وعزیمت سے آباد کرنے والے حسین احمد کو بھی در یتیمی کے شرف سے نوازا گیا اور اس در نایاب کو برادر محترم حضرت مولانا ضیاء الدین صاحب مظاہری کے حوالہ کیا گیا۔

آپ نے برادر محترم کی سرپرستی میں تعلیم کا ایک معتد بہ حصہ حاصل کرنے کے بعد ہندوستان کے مشہور ومعروف علمی وروحانی مرکزی تربیت گاہ مدرسہ اسلامیہ قاسمیہ گیا بہار میں داخلہ حاصل کیا اور وہاں انتہائی قلیل مدت میں بعمر دس سال حفظ قرآن مجید کی نعمت سے سرفراز ہوئے اور اس وقت کے مجاہد جلیل شیخ وقت اور اسلام کے جلیل القدر فرزند کبیر شیخ الاسلام والمسلمین مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ نے اپنے دست مبارک سے دستار حفظ آپ کے سرپر باندھا اوردعاؤں سے نوازا۔

کتنی پر مسرت اور معنی خیز وہ ساعت تھی کہ ایک حسین احمد جب اپنی زندگی کی آخری بہاروں کو امت مسلمہ پر نچھاور کرنے کے سلسلے کی تکمیل کرنا چاہ رہا ہے تو وہ اپنے نور علم اور خشیت الہی نیز اخلاق حسنہ اور دعوت عزیمت وجہد مسلسل کی امانت دستار کی شکل میں ایک دس سال کے حسین احمد کے سر میں باندھ رہا ہے۔ 

یہ اسی مرد مومن کی نگاہ کا کمال ہے کہ بہت جلد اس کے انتقال کے بعد جب حسین احمد کو دار العلوم دیوبند سے اکتساب فیض کا موقع ملا تو اس کے ہم درس رفقاء میں اس مجاہد جلیل کے فرزند مولانا ارشد مدنی بھی شریک تھے اور دیگر ہم درس احباب بھی ایسے شامل تھے جو اپنے زمانہ کے فرد فرید ثابت ہوئے۔

1964ء میں دارالعلوم دیوبند سے علم و فضل اور تقوی میں درجۂ کمال پر فائز ہوکر وطن مالوف لوٹ آئے اور پھر اپنے مربی ومحسن اور فخر الاولیاء حضرت مولانا قاری فخر الدین صاحب گیاوی قدس سرہ خلیفۂ اجل شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمہ اللہ کی سرپرستی میں مختلف جگہوں کے دینی حلقات میں اپنے جوہر علم کو تقسیم کرتے رہے تا آنکہ اس وقت کی مرکزی درسگاہِ علم وفن جامعہ قاسمیہ گیا کے منصب تدریس کے لیے آپ منتخب کیے گئے جہاں شیخ الاسلام حضرت مدنی کے صاحبزادہ اور آپ کے ہم درس مولانا ارشد مدنی صاحب بھی اپنے کشکول علم ومعرفت سے طلاب کو نواز رہے تھے اور وہاں حضرت شیخ الاسلام کے داماد مولانا قاری محمد عثمان منصورپوری بھی پیکر عفت وحیا کا مجسم نمونہ بن کر طلاب میں صفت حیاء کی اشاعت میں مشغول تھے، اس قافلے میں اب ایک حسین احمد کا اضافہ ہوگیا۔
  ہر عہد میں حسینی کردار کی کتنی کچھ ضرورت رہتی ہے اس سے اہل بصر خوب واقف ہوتے ہیں ہاں یہ اور بات ہے کہ کوئی اس کردار سے خالی ہو تو وہ ضرور مداہنت کرے گا-

مدرسہ قاسمیہ اسلامیہ گیا اس عہد میں علم ومعرفت اور تصوف وطریقت کے حوالے سے بقعۂ نور بن چکا تھا اور رشد وہدایت وخشیت الہی کی مئے نایاب کی تقسیم عام ہوچکی تھی۔ حضرت مولانا قاری فخر الدین صاحب گیاوی مرحوم ایک قوی النسبت بزرگ اورقوی النسبت باپ کے بیٹے تو تھے ہی شیخ الاسلام حضرت مدنی مرحوم کی صحبت نے مزید ان کے اندر ایسی تواضع اور فنائیت پیدا کردی تھی جو اس زمانے میں بھی کمیاب تھی اور ہمارے عہد میں تو نایاب کے درجہ میں ہے۔

حضرت مولانا سید حسین احمد قاسمی مرحوم کو اوائل عمری کے ہی دور میں چونکہ حضرت قاری صاحب کی آتشیں صحبت مل چکی تھی اس لیے فکر ونظر اور قلب کے رذائل جل کر خس وخاشاک کی طرح اپنا نام نشان ختم کرچکا تھا اس لیے درجات علم کو بہ آسانی طے کرنے میں ان کو کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ اور پھر دیوبند سے فراغت کے بعد قریہ در قریہ دینی حلقات میں خدمت پر مامور کرنا دراصل نفس کشی کا ہی ایک مجاہدہ تھا۔
 اور ان مجاہدات کا تکملہ پھر مدرسہ قاسمیہ اسلامیہ گیا کے منصب تدریس پر فائز ہونا تھا۔ 

اللہ پاک نے حضرت مولانا حسین احمد صاحب کو وافر مقدار میں وجاہت، شجاعت، دیانت اور عدالت کے ساتھ ساتھ استقامت کی دولت سے سرفراز فرمایا تھا۔ اور استقامت ہی وہ نعمت ہے کہ اس کے بعد ہی بندہ افضال وانعامات ربانی کا مورد ومرکز بن جاتا ہے، پھر اس کو {ألا تخافوا ولا تحزنوا وأبشِروا بالجنة} کا مژدہ سنا دیا جاتا ہے اور اس وقت اس مستقیم عارف کی جو کیفیت ہوتی ہے اس کو ایک دوسرے عارف ربانی حضرت پرتابگڈھی رحمہ اللہ نے اس طرح فرمایا ہے:

وہ تصور میں آئے تھے میرے ابھی
کھل گئی کھل گئی میرے دل کی گلی
یوں تو لب پر نہیں ان کا ذکر جلی
لیکن ہر وقت ہے ان سے ربط خفی

حضرت مولانا حسین احمد المتخلص عارف گیاوی رحمہ اللہ کا یہی حال زندگی بھر رہا، شریعت وسنت پر تا زندگی عزیمت اختیار فرمائی۔ کلمۂ حق کے اظہار میں رشتہ داریاں اور دوست احباب کی خاطر داریاں کبھی حائل نہیں ہوئیں، زندگی کے تمام شعبوں میں اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استحضار فرماتے، نششت وبرخواست اور چلنے پھرنے قیام وطعام اور نوم وبیداری میں بھی سنت رسول کو ملحوظ رکھتے۔
قرآن مجید سے حد درجہ عشق تھا درد وسوز کے ساتھ پوری توجہ اور انہماک سے تلاوت کرنے کا معمول تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تو گویا فدا تھے، آپ کی ایک ایک اداؤں کا ذکر لطف ولذت اور قلب کی حلاوت کے ساتھ فرماتے، یہی وجہ ہے کہ عشق رسول میں جب فنا ہوئے تو بغیر نقطہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں ایک زبردست شاہکار الہامی نعت لکھی جو اہل دل واہل علم اور صاحب فکر ونظر کے یہاں بہت مقبول ہوئی۔ 

جامع مسجد ساکجی جمشید پور کی امامت کا وقت ہو یا درون خانہ قیام اللیل کا، خشیت الہی کا ان دو وقتوں میں بطور خاص غلبہ رہتا۔ اذان شروع ہوتے ہی یا بسا اوقات اذان کے بعد وہ مسجد کے لیے اہل خانہ یا دوستوں سے اس طرح جدا ہوتے جیسے کوئی اجنبی غیر متعارف ہو۔ مزاح با دوستاں اور مدارات با دشمنان وحاسداں میں اس عہد میں حضرت مولانا حسین احمد صاحب کی مثال کوئی اور پیش کرنے سے شاید قاصر ہوگا۔

قناعت مرحوم کی زندگی کا خاصہ تھا اور سخاوت عادت ثانیہ تھی۔ اپنے زمانے کے اہل علم وتصوف اور طلباء کا حد درجہ احترام واکرام فرماتے، ہر خورد وکلاں کے اچھے اعمال وافعال اور اقوال نیز ان کی اچھی عادت وخصلت پر بلا تکلف ان کی تحسین فرمانے اور حوصلہ افزائی کرنے کی عادت تھی، اگر اس وقت جیب میں کچھ موجود رہتا تو اس کو انعام دینے میں کوئی تامل نہ فرماتے، بلکہ بے دریغ اور بے جھجھک نوازتے۔ 

شریعت وسنت کی جس طرح محبت ان کے رگ رگ میں رچ بس گئی تھی اسی طرح حمیت اسلام ومسلمین کی محبت سے وہ سرشار تھے اور وہ وطن عزیز بشمول اقصائے عالم کے مسلمانوں کی دینی ودنیاوی ترقیات سے جہاں خوش ہوتے وہیں اگر ان کے حوالہ سے کوئی رنج وغم کی بات معلوم ہوتی تو پھر طبیعت بے قابو ہو جاتی اور شدت غم سے آب دیدہ ہوجاتے پھر ان کے لیے دعا ومناجات میں مشغول ہوجاتے۔

خاکسار کی شاید حضرت مولانا حسین احمد صاحب سے دو بار ملاقات ہوئی تھی، بار اول کی ملاقات ٹاٹا نگر جنکشن پر ہوئی، اسی ملاقات وزیارت پر ان سے ہونے والی چند منٹ کی گفتگو نے ان کی عقیدت ومحبت کو میرے لیے مقدر کردیا تھا۔ پھر یہ ان کا بڑاپن کہ مجھ جیسے گنوار دہقانی بے ڈھنگے انسان کی اصلاح کے لے حکیمانہ انداز اختیار کرتے ہوئے اپنے اہل خانہ سے فرمایا کہ شاہد بابو میرے ہم مزاج ہیں۔ یہ سن کر کسی فریب خوردہ شاہیں کی طرح اس وقت تو میری بانچھیں بھی شاید پوری طرح کھل گئیں تھیں پھر ان کے دولت کدہ پر دو روزہ قیام کے دوران اہل خانہ اور عام ملاقاتیوں پر جو ان کے اعلی  اخلاق و مدارات نیز منکسر المزاجی اور تواضع اور شیریں بیانی کے مناظر دیکھے تو ہوش اڑ گئے کہ بڑے میاں نے چھوٹے میاں کو ایک ہی نظر میں تاڑ لیا اس لیے مزید احوال عجیبہ کا انکشاف نہ ہو ان کی قیام گاہ پر دوران قیام توبہ واستغفار کرتا رہا تا آنکہ جدائی کی گھڑی آپہونچی اور میں بنگال کے لیے رخصت ہوگیا۔  

اب جب کہ واقعی وہ رنج وآلام اور مکر وفریب کی اس پر خطر وادی اور نفاق وشقاق، کبر ونخوت، علو علم وفضل اور برتری کے دعوی اورجھوٹی نمائش اور جھوٹے تقوی کے اعلان اور دجل وتلبیس کی سفید عمامے والی دنیا سے نجات پاکر راحت وآرام اور عافیت وسکون کے دار النعیم میں {فادخلي في عبادي وادخلي جنتي} کے اعلی واولی مقام میں داخل ہوچکے ہیں تو  ان کا داغ مفارقت ہم جیسے دین وشریعت سے بے بہرہ اور غافل لوگوں کے لیے خسارہ عظیم سے کم نہیں کہ شفقت ومحبت سے لبریز جملوں میں بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ منور وپرنور چہرہ اور اپنے جمال جہاں آراء کی زیارت کراتا ہوا کون ایسی دوسری شخصیت ہے جو اپنا رعب جمائے اور کرخت لہجہ اختیار کیے بغیر حکیمانہ انداز سے ہماری نصح وخیرخواہی کرے گا۔ کون ہے جو اب فون پر دلداری کرے گا۔ لفظوں میں پھول اور مرہم عطا کرے گا۔ 
آہ صد آہ کہ اب وہ نہ رہا جو ہر غیر کو اپنا سمجھتا تھا اور جو اپنے خون جگر سے نقش نا تمام کی تکمیل کرتا تھا۔ 

وہ تین خوش مزاج وخوش خصال، نیک طینت، شریف اور سنجیدہ، باوقار وباحیا عالم وفاضل، عابد وساجد اور مفتی کے عظیم ترین باپ تھے جن کے تصور اور اسمائے گرامی کے ورد سے ان کی آنکھیں حضرتِ یعقوب (علیہ السلام) کی طرح روشن ہوجاتی تھیں اور وہ ہیں: اعظم، زاہد اور خالد۔
اسی طرح وہ تین شریف زادی جو حلیمہ، متینہ، اور عفیفہ عابدہ زاہدہ ہیں ان کے بھی باپ تھے، جن کی تعلیم وتربیت اور پرورش کی وجہ سے وہ روز ازل میں ہی جنتی موسوم کردیے گئے ہوں گے۔ اسی طرح وہ ہزاروں گم کردہ راہوں کے روحانی باپ تھے جو مرحوم کی جد وجہد سے راہ یاب ہوگئے تھے۔ 

اوصاف ابھی حضرتِ حسین احمد کے باقی ہیں اور اتنے ہیں کہ:
سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کے لیے
مگر رہ رہ کر ان کی جدائ کی شدت کچھ اورلکھنے کی ہمت نہیں جٹاپا رہاہے کہ صد محاسن وصد فضائل کی حامل دلنواز شخصیت کی زندگی کے مختلف گوشوں کو بصورت باب تحریر کیاجائے اس لئے    
 حضرت اقبال مرحوم کی دعا پر قلم اپنی راہ لے رہا ہے۔ 

آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزه نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

پیر، 12 ستمبر، 2022

حضرت مولانا ندیم الواجدی مد ظلہ: ایک معروف صاحب علم

حضرت مولانا ندیم الواجدی مد ظلہ: ایک معروف صاحب علم


محمد روح الامین میُوربھنجی

   حضرت مولانا ندیم الواجدی ایک معروف و مشہور کالم نگار، مضمون نگار، نقاد، سوانح نگار، مصنف، مترجم، اردو و عربی زبان کے ادیب اور مایۂ ناز عالمِ دین ہیں۔ ماہنامہ ترجمانِ دیوبند کے مدیر اور مشہور کتب فروش کتاب گھر دار الکتاب دیوبند کے مالک ہیں۔ بندہ نے خود مولانا سے ملاقات کرکے مولانا سے متعلق اردو ویکیپیڈیا پر تحقیقی مضمون لکھا تھا، جس کو الگ سے سپردِ قرطاس کر رہا؛ کیوں کہ ویکیپیڈیا پر کوئی تحریر ذاتی نہیں ہوتی اور وہاں کوئی بھی ترمیم کر سکتا ہے۔

           

     ابتدائی و تعلیمی زندگی

    ولادت
   ان کی ولادت 23 جولائی 1954ء کو دیوبند، ضلع سہارنپور، بھارت میں ہوئی۔[1][2] پیدائشی نام واصف حسین ہے، جو شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا تجویز کردہ ہے۔[3]

    خانوادہ 
   ان کا خانوادہ بھی علمی تھا، ان کا خاندان تقریباً ڈیڑھ صدی قبل بجنور سے دیوبند میں آکر آباد ہوا۔ ان کے دادا مولانا احمد حسن دیوبندی؛ جامعہ مفتاح العلوم جلال آباد کے شیخ الحدیث تھے، ان کے والد مولانا واجد حسین دیوبندی؛ جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین، ڈابھیل کے شیخ الحدیث تھے۔[1][4] ان کے ماموں مولانا شریف حسن دیوبندی دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث تھے۔[5]

    تعلیم
   ان کی ابتدائی تعلیم ناظرہ و دینیات تک دیوبند میں ہوئی، پھر انھوں نے حفظِ قرآن مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد، ضلع مظفر نگر (موجودہ ضلع شاملی) میں کیا اور وہیں اپنے والد اور دادا کے پاس ہی اردو، فارسی اور عربی سوم تک کی مروجہ کتابیں پڑھیں، وہیں مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد میں انھوں نے مسیح الامت مولانا مسیح اللہ خان شیروانی جلال آبادی سے بھی استفادہ کیا۔[1][3][6]

     دار العلوم دیوبند میں داخلہ، فراغت اور عربی ادب کی تعلیم
   اس کے بعد 1967ء میں ان کا داخلہ دار العلوم دیوبند میں ہوا اور وہاں پر انھوں نے درجاتِ وسطیٰ یعنی شرح جامی سے تعلیم کا آغاز کیا اور 1393ھ بہ مطابق 1974ء میں پہلی پوزیشن کے ساتھ دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے، انھوں نے صحیح بخاری مولانا شریف حسن دیوبندی سے پڑھی اور فراغت کے بعد وہیں پر مزید دو سال عربی زبان و ادب کی تعلیم کے لیے تکمیلِ ادب عربی و تخصص فی الادب العربی کے شعبہ جات میں رہ کر مولانا وحید الزماں کیرانوی سے اکتساب فیض کیا۔[1][3][7]

   النادی الادبی کے معتمد
تکمیل ادب کے شعبہ میں وحید الزماں کیرانوی کو بہت جلد ان پر اعتماد ہوا اور دو ہی مہینہ بعد انھیں طلبۂ دار العلوم دیوبند کی محبوب نمائندہ عربی انجمن النادی الادبی کا معتمد بنا دیا۔ ندیم الواجدی نے اپنے زمانہ میں اس انجمن سے الشعور کے نام سے جداریہ (دیواری رسالہ) بھی شائع کیا، جو دار العلوم کے علمی فضا میں انقلابی حیثیت کا حامل تھا۔[1][2]

               

      تدریس و دیگر خدمات

     تدریس
  فراغت کے بعد انھوں نے اپنے خاص اساتذہ؛ مولانا شریف حسن دیوبندی، مولانا نصیر احمد خان بلند شہری اور مولانا محمد نعیم دیوبندی کے حکم سے ایک سال کے لیے حیدرآباد، دکن کے ایک مدرسۂ عربیہ میں تدریسی خدمات انجام دیں۔[1][3] پھر 1978ء میں مجلس شوریٰ دار العلوم دیوبند نے اجلاسِ صد سالہ کے شعبۂ تصنیف و تالیف کے نگراں کے طور پر انھیں دار العلوم مدعو کیا، جس کی بنا پر انھوں نے دار العلوم تشریف لا کر (دو سال تک) یہ ذمہ داری نبھائی اور اپنی نگرانی میں انھوں نے عربی و اردو کی متعدد کتابیں اور رسالے تیار کیے۔ 1980ء ہی میں[3] انھوں نے دیوبند میں عربک ٹیچنگ سینٹر کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا، جہاں سے سالوں تک ہزاروں طلبہ مستفید ہوتے رہے اور اس ادارے کے تحت سات ایسی کتابیں منظر عام پر آئیں، جو متعدد مدارس میں داخلِ نصاب ہیں۔[1][2]

    دار الکتاب دیوبند
  1980ء میں انھوں نے اجلاسِ صد سالہ، دار العلوم کے بعد دیوبند ہی میں دار الکتاب کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا[3][8] اور 1980ء سے 1987ء کے درمیان سات سال کے عرصہ میں انھوں نے امام ابوحامد محمد الغزالی کی شہرۂ آفاق کتاب احیاء علوم الدین کا قسط وار اردو ترجمہ شائع کیا، جو بے حد مقبول ہوا اور چار جلدوں میں شائع ہوکر منظر عام پر بھی آیا اور پاکستان میں لاہور و کراچی اور بنگلہ دیش میں ڈھاکہ سے بھی شائع ہوا (کراچی سے مَذاقُ العارفین کے نام سے شائع ہوا)۔[3] اس اشاعتی ادارے سے انھوں نے درسی و غیر درسی، ملکی اور غیر ملکی جیسے بیروت، لبنان، شام اور مصر وغیرہ کی بے شمار کتابیں بھی شائع کی ہیں اور اب یہ کتب خانہ برصغیر کا اک معروف و مشہور کتب خانہ ہے۔[8][9]

   معہد عائشہ الصدیقہ للبنات کا قیام
  اکیسویں صدی کی ابتدا یعنی 2001ء میں انھوں نے آزادی نسواں کے نام پر مسلم معاشرہ؛ خصوصاً خواتین کے اندر کی بگاڑ کی اصلاحی کوشش میں اپنے دادا سسر؛ نعیم احمد دیوبندی، سابق شیخ الحدیث دار العلوم وقف دیوبند کی سرپرستی میں سرزمینِ دیوبند میں معہد عائشہ الصدیقہ للبنات کے نام سے دیوبند میں پہلا رہائشی مدرسۂ بنات قائم کیا اور داخلی امور کی ذمہ داری؛ اپنی عالمہ زوجہ بنت قاری عبد اللّٰہ سلیم قاسمی، سابق شیخ القراء دار العلوم دیوبند و بانی معہد تعلیم الاسلام شکاگو، امریکا کو سونپ دی اور خارجی امور کی ذمہ داری اپنے ذمے رکھی۔ اس ادارے سے پانچ سالہ عالمیت کے نصاب کے ذریعے؛ ہزاروں طالبات؛ فیضانِ نبوت حاصل کرکے اپنے علاقوں میں دینی خدمات میں مشغول ہیں۔[10]

    مناصب/ذمے داریاں
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اترپردیش سے رکن میقاتی و رکن عمومی[11]
ناظم معہد عائشہ صدیقہ للبنات، دیوبند
ایڈیٹر ماہنامہ ترجمان دیوبند
ڈائریکٹر احمد ندیم الواجدی ایجوکیشنل ٹرسٹ، دیوبند
چیئرمین دار العلوم آن لائن، شکاگو
مالک دار الکتاب دیوبند (ملک کا معروف کتب خانہ)
                

              قلمی خدمات

    مضمون نگاری
  انھوں نے اپنے زمانۂ طالب علمی ہی میں 1970ء سے لکھنا شروع کر دیا تھا،[17] پندرہ روزہ مرکز کے ذریعہ ان کی تحریر میں مہمیز لگی، زمانۂ طالب علمی ہی میں وہ دیواری مجلہ شعور کے ایڈیٹر تھے۔ اس وقت سے 2013ء تک ملک و بیرون ملک کے معیاری اخبارات و رسائل میں ان کے تقریباً 400 مضامین شائع ہو چکے تھے، 2013ء تک ان کے مقالات و مضامین کے تیرہ مجموعے شائع ہوچکے تھے۔ ان کے مضامین اکثر ماہنامہ دار العلوم دیوبند، نیا دور لکھنؤ، آج کل، راشٹریہ سہارا، روزنامہ صحافت اور سہ روزہ دعوت وغیرہ میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔[5][6] ان کا شمار؛ عربی زبان کے موجودہ ہندوستانی ادبا میں ہوتا ہے۔[12] وہ ایک نامور محقق صاحب قلم و صاحب اسلوب شخصیت کے مالک ہیں۔[13] مولانا سید نسیم اختر شاہ قیصر اپنی کتاب اپنے لوگ میں رقم طراز ہیں:[5][14]

” مبالغہ نہ سمجھیے! اقلیمِ تحریر کے وہ فرماں روا ہیں، جن کی موجودگی میں دوسروں کی جانب نگاہ نہیں اٹھتی۔ لکھنے والے لکھ رہے ہیں اور لکھتے رہیں گے؛ مگر اس قافلے میں جو شریک ہیں وہ سب ان کے پیچھے ہیں۔“

”مولانا کے بارے میں میرا تاثر یہ ہے کہ ان کی تحریریں اپنی جاذبیت، اپنے اسلوب، اپنے مواد، اپنے طرزِ نگارش کے اعتبار سے ہم سب کی تحریروں پر بھاری ہیں، پھر ان کا قلم جس برق رفتاری اور تیزی کے ساتھ اپنے موضوع کا احاطہ کرتا ہے اور عنوانات کو نئی آب دیتا ہے، وہ دوسروں کے بس کا روگ نہیں۔“

    ماہنامہ ترجمان دیوبند
  2001ء میں انھوں نے اپنے ہی کتب خانہ سے ترجمانِ دیوبند کے نام سے ایک ماہنامہ جاری کیا، جو تاحال (2022ء میں بھی) جاری ہے اور ملک و بیرون ملک تک اہل علم میں مقبول و معروف ہے اور ملک و بیرون ملک کے باوقار اہل قلم کی تحریروں کے ساتھ اس میں مسلسل بیس سال سے ان کے قیمتی مضامین شائع ہو رہے ہیں۔[1][6][15]

    تصانیف
   اپنے سابق مراسلاتی عربک ٹیچنگ سینٹر کی خدمت کے عرصے میں انھوں نے 2001ء تک سات نصابی کتابیں لکھیں، جو کئی مدارس میں داخل نصاب ہیں۔ اب تک ان کی تقریباً پچاس کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں، جن میں سے بعض کے نام ذیل میں درج ہیں:[2][5][6][14][16]

احیاء العلوم اردو (امام غزالی کی احیاء العلوم کا اردو ترجمہ: چار جلدوں میں)
القاموس الموضوعی (عربی، انگریزی اور اردو میں ایک سہ لسانی لغت)
جمع الخصائل شرح الشمائل
آزادی سے جمہوریت تک
اسلام؛ حقائق اور غلط فہمیاں
انسانی مسائل؛ اسلامی تناظر میں
تین طلاق؛ عوام کی عدالت میں
اسلام اور ہماری زندگی
قرآن کریم کے واقعات
مسلمانوں کی ملی اور سیاسی زندگی
نئے ذہن کے شبہات اور اسلام کا موقف
ہمارے مدارس؛ مزاج اور منہاج
رمضان کیسے گزاریں؟ (اردو و ہندی)
آج رات کی تراویح (اردو و ہندی)
رمضان؛ نیکیوں کا موسمِ بہار
ملتِ اسلامیہ کا دھڑکتا ہوا دل
نگارشات
رشحاتِ قلم
مقالات و مضامین
قیامت کی نشانیاں اور مولانا وحید الدین خاں کے نظریات
لہُو پکارے گا آستیں کا
آئینۂ افکار
پھر سُوئے حرَم لے چل
ہندوستان کا تازہ سفر
خدا رحمت کُنَد
بے مثال شخصیت باکمال استاذ (ان کے والد مولانا واجد حسین دیوبندی کی سوانح حیات)
عربی بولیے
عربی زبان کے قواعد؛ نئے اسلوب میں
عربی میں ترجمہ کیجیے
عربی میں خط لکھیے
جدید عربی زبان ایسے بولیے!
معلم العربیہ (تین حصے)
عربی، انگلش، اردو بول چال
انگلش بولنا سیکھیے
التعبیرات المختارۃ
خُطَبُ الجمعة و العيدين

  اللّٰہ تعالیٰ مولانا موصوف کی عمر میں برکت عطا فرمائے اور ہمیں اور امت مسلمہ کو مزید ان سے استفادہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین

حوالہ جات

  1. جاوید اختر فیضی. "احیاء العلوم کے مترجم: ایک مختصر تعارف". مذاق العارفین (جلد اول) (ایڈیشن 2001). پاکستان: دار الاشاعت، اردو بازار، کراچی. صفحات 29–30.
  2. ابن الحسن عباسییادگار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ (ایڈیشن ستمبر 2020). دیوبند: مکتبۃ النور، مکتبۃ الانور. صفحہ 251.
  3. مولانا ندیم الواجدی. "واصف حسین ندیم الواجدی". بے مثال شخصیت باکمال استاذ (ایڈیشن 2017ء). دیوبند: دار الکتاب. صفحات 67–68.
  4. راشد امین (2 جون 2021). "ڈاکٹر مفتی یاسر ندیم الواجدی پر ایک طائرانہ نظر"بصیرت آن لائن. اخذ شدہ بتاریخ 1 جنوری 2022.
  5. منظور عثمانی. "مولانا ندیم الواجدی". خوشبوئے وطن (جلد دوم) (ایڈیشن 2015). دیوبند: مکتبہ مدنیہ، سفید مسجد. صفحات 13–17.
  6. نایاب حسن قاسمی. "مولانا ندیم الواجدی". دار العلوم دیوبند کا صحافتی منظرنامہ (ایڈیشن 2013). دیوبند: ادارہ تحقیق اسلامی. صفحات 258–261.
  7. مولانا طیب قاسمی ہردوئی. دار العلوم ڈائری لیل و نہار: فیضانِ مولانا شریف حسن دیوبندی نمبر (ایڈیشن 2018ء). دیوبند: ادارہ پیغامِ محمود.
  8. ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی (17 فروری 2021). علم و عمل کا حسین امتزاج: مولانا ندیم الواجدی. قندیل آن لائن. اخذ شدہ بتاریخ 01 جنوری 2022.
  9. ڈاکٹر عبید اقبال عاصم. "پرنٹنگ پریس اور کتب خانے". دیوبند تاریخ و تہذیب کے آئینے میں (ایڈیشن 2019). دیوبند: کتب خانہ نعیمیہ. صفحہ 122.
  10. ڈاکٹر عبید اقبال عاصم. "جامعہ عائشہ للبنات". دیوبند تاریخ و تہذیب کے آئینے میں (ایڈیشن 2019). دیوبند: کتب خانہ نعیمیہ. صفحات 342–345.
  11. حقانی القاسمی. "دیوبند کے مآثر و معارف". دار العلوم دیوبند ادبی شناخت نامہ1 (ایڈیشن مئی 2006ء). جامعہ نگر، نئی دہلی: آل انڈیا تنظیم علمائے حق. صفحہ 39.
  12. چودھری، سمیر (1 جنوری 2021). "ممتاز عالم دین مولانا ندیم الواجدی کی چار نئی کتابوں کا رسم اجراء"asrehazir.com. عصر حاضر پورٹل. اخذ شدہ بتاریخ 04 جنوری 2022.
  13. نسیم اختر شاہ قیصر. "مولانا ندیم الواجدی". اپنے لوگ (ایڈیشن جنوری 2012ء). محلہ خانقاہ، دیوبند: ازہر اکیڈمی، شاہ منزل. صفحات 110–113.
  14. ڈاکٹر عبید اقبال عاصم. "صحافت و ادب". دیوبند تاریخ و تہذیب کے آئینے میں (ایڈیشن 2019). دیوبند: کتب خانہ نعیمیہ. صفحات 154–155.
  15. "مولانا ندیم الواجدی کی تصانیف". رہنمائے کتب (ایڈیشن نومبر 2021ء). دیوبند: دار الکتاب. صفحات 154–155.
  16. مولانا محمد خالد اعظمی قاسمی وغیرہ (مولانا ندیم الواجدی سے ایک انٹرویو) علماء و دانشوران کے ایک واٹس ایپ گروپ پاسبان علم و ادب کے ایڈمن مولانا محمد خالد اعظمی قاسمی اور اس کے کارکنان خصوصاً مولانا منصور احمد قاسمی نے مولانا ندیم الواجدی سے ایک انٹرویو لیا تھا، جو غیر مطبوعہ مسودہ کی شکل میں پرنٹ کیا ہوا بھی موجود ہے، اس میں مضمون نگاری کی ابتدا اور زندگی کے کئی گوشوں سے متعلق وضاحتیں ہیں۔ اس انٹرویو میں درج ہے کہ تیرہ سال کی عمر میں مولانا ندیم الواجدی کا پہلا مضمون ہفت روزہ الجمعیت میں کئی قسطوں میں شائع ہوا تھا۔


مولانا نور عالم خلیل امینی رحمۃ اللّٰہ علیہ: حیات و خدمات

مولانا نور عالم خلیل امینی رحمۃ اللّٰہ علیہ: حیات و خدمات

محمد روح الامین میُوربھنجی

   حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی رحمۃ اللّٰہ علیہ ہندوستان کے ایک نامور قلمکار، مصنف اور عربی و اردو کے مایۂ ناز ادیب تھے۔ وہ دار العلوم دیوبند میں تقریباً چالیس سال عربی ادب کے استاذ اور مجلہ الداعی کے مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ عربی و اردو؛ دونوں ہی زبانوں کے باکمال مصنف تھے، مختلف مدارس کے درس نظامی و تکمیلِ عربی ادب کے نصاب میں بالترتیب ان کی کتابیں مفتاح العربیہ اور متی تكون الكتابات مؤثرة؟ داخل ہیں اور اول الذکر کتاب کئی اسکولوں کے میں بھی داخلِ نصاب ہے۔  گزشتہ سال دار العلوم دیوبند میں طلبۂ صوبہ بہار، اڈیشا، جھارکھنڈ و نیپال کی محبوب انجمن کے تحت مولانا مرحوم پر سال بھر کے کسی پروگرام میں صحافتی مسابقہ بھی رکھا گیا، جس میں بعض احباب نے اور خود بزم سجاد کے ناظم مولانا مبارک ارریاوی نے بھی بندہ کو حصہ لینے کا مشورہ دیا، بندہ نے جس میں حصہ نہ لے کر یہ خیال کیا کہ اردو ویکیپیڈیا پر تحقیقی مضمون لکھ دوں، جہاں سے بڑی تعداد استفادہ کر سکتی ہے، اسی غرض سے ویکیپیڈیا پر مندرجۂ ذیل مواد پر مشتمل مضمون لکھا تھا، جس کو الگ سے بھی سپردِ قرطاس کر رہا؛ کیوں کہ ویکیپیڈیا پر کوئی تحریر ذاتی نہیں ہوتی اور وہاں کوئی بھی ترمیم کر سکتا ہے۔

             ابتدائی و تعلیمی زندگی
   ولادت
   ان کی ولادت 1 ربیع الآخر 1372ھ بہ مطابق 18 دسمبر 1952ء میں اپنے نانیہال ہرپوربیشی، ضلع مظفرپور (بہار) میں ہوئی، جب کہ ان کا آبائی گھر رائے پور، ضلع سیتامڑھی میں تھا۔ ان کے والد محمد خلیل صدیقی تھے۔[2][3][4][5]

   ابتدائی و متوسط تعلیم
  ان کی تعلیم کی ابتدا ان کے نانا جان کے پاس بغدادی قاعدہ سے ہوئی، پھر رائے پور میں مولوی ابراہیم کے پاس ہوئی۔ پھر مدرسہ نور الہدیٰ پوکھریرا، ضلع سیتا مڑھی میں تعلیم حاصل کی، وہاں سے 1380ھ بہ مطابق 1960ء میں مدرسہ امدادیہ دربھنگہ چلے گئے، 1961ء میں سات پارہ حفظ قرآن کرنے کے بعد، درجہ ششم اردو میں داخل ہوئے۔ وہاں ان کے اساتذہ میں محمد ادریس رائے پوری، محمد تسلیم سدھولوی اور محمد ہارون الرشید جمال پوری تھے۔

   دار العلوم مئو میں
  1383ھ بہ مطابق 1964ء میں دار العلوم مئو گئے اور وہیں پر عربی اول سے عربی چہارم تک کی تعلیم حاصل کی۔ ان کے دار العلوم مئو کے اساتذہ میں ریاست علی بحری آبادی، امین ادروی، شیخ محمد مئوی، نذیر احمد مئوی، نیاز احمد جہان آبادی، سلطان احمد مئوی، سلطان احمد مئوی، ریاض الحق مئوی، عبد الحق اعظمی، محمد یاسین اور محمد اسلام الدین اعظمی شامل تھے۔

دار العلوم دیوبند اور مدرسہ امینیہ میں
16 شوال 1387ھ بہ مطابق 20 دسمبر 1968ء کو دار العلوم دیوبند کے درجہ عربی پنجم میں ان کا داخلہ ہوا؛ لیکن کچھ اسباب کی وجہ سے وہاں سے سند فراغت حاصل نہ کرسکے۔ ان کے اساتذۂ دار العلوم دیوبند میں وحید الزماں کیرانوی، معراج الحق دیوبندی، محمد حسین بہاری، نصیر احمد خان بلند شہری، فخر الحسن مرادآبادی، شریف الحسن دیوبندی، قمر الدین گورکھپوری، خورشید عالم دیوبندی، حامد میاں دیوبندی اور بہاء الحسن مرادآبادی شامل تھے۔

   فراغت
  پھر مدرسہ امینیہ، دہلی میں داخلہ ہوا اور وہیں سے اپنے مشفق استاذ محمد میاں دیوبندی کے زیر نگرانی؛ 1970ء میں سند فضیلت حاصل کی۔

          تدریسی و دیگر خدمات
   دار العلوم ندوۃ العلماء میں
  فراغت کے بعد 1972ء تا 1982ء دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ میں دس سال مدرس رہے۔ اس عرصہ میں انھوں نے محمد ثانی حسنی ندوی اور ابو الحسن علی حسنی ندوی سے خوب استفادہ کیا۔

   شاہ سعود یونیورسٹی سے عربی زبان کی تدریسی مشق
  پھر 1403ھ بہ مطابق 1982ء ہی میں دار العلوم کے انتظامی انقلاب کے بعد؛ ان کے خاص استاذ وحید الزماں کیرانوی (اس وقت کے نائب مہتمم دار العلوم دیوبند) نے انھیں مجلہ الداعی کی ادارت کے لیے دار العلوم دیوبند مدعو کیا، وہ دار العلوم گئے پھر چند مہینے شاہ سعود یونیورسٹی، ریاض میں تدریسی تدریب و مشق کیا۔

   دار العلوم دیوبند میں تدریس اور ”الداعی“ کی ادارت
  شاہ سعود یونیورسٹی سے واپسی کے بعد ”مجلہ الداعی“ کی ادارت کے ساتھ انھیں دار العلوم دیوبند میں عربی ادب کا استاذ مقرر کیا گیا اور وہ تاوفات ان دونوں مناصب پر فائز رہے اور اس طرح سے ان کے دار العلوم دیوبند کا تدریسی زمانہ تقریباً 40 سال کے عرصہ کو محیط رہا۔ دار العلوم دیوبند میں: دیوانِ متنبی اور عربی ادب کی کئی کتابوں کے اسباق؛ ان سے وابستہ تھے۔ اور انھیں کی ادارت میں مجلہ الداعی نے اپنی جامعیت و جاذبیت اور اصحاب علم و فضل کے پر مغز و معلومات سے بھرپور مضامین کے پیش نظر، اطرافِ عالم میں اپنا رتبہ و مقام، اپنی شناخت و پہچان بنائی۔

   تلامذہ
مولانا حقانی القاسمی، مفتی عارف جمیل مبارکپوری موجودہ مدیر الداعی، مولانا مفتی محمد اسجد صاحب قاسمی استاذ ادب عربی مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور، مولانا مفتی فہیم الدین قاسمی بجنوری، مولانا مفتی اشرف عباس قاسمی، مولانا مصلح الدین قاسمی سدھارتھ نگری، مفتی محمد نجیب قاسمی سنبھلی، مولانا نایاب حسن قاسمی، مولانا ابرار احمد اجراوی، مولانا محمد ساجد کُھجناوری سمیت ان کے تلامذہ کی تعداد ہزاروں میں ہے۔

   صدر جمہوریہ ہند کی طرف سے اعزاز
  انھیں عربی زبان و ادب پر ان کی خدمات کے لیے ”صدارتی اعزازی سند بابت 2017ء“ (Presidential Certificate of Honour) کے لیے نامزد کیا گیا اور جمعرات 27 رجب 1440ھ بہ مطابق 14 اپریل 2019ء کو اشوکا ہوٹل، نئی دہلی میں ایک تقریب کے موقع پر نائب صدر جمہوریہ ہند؛ وینکیا نائیڈو نے انھیں اس اعزاز سے نوازا۔

   وفات اور اظہار تعزیت
نور عالم خلیل امینی کا انتقال 20 رمضان المبارک 1442ھ بہ مطابق 3 مئی 2021ء کو دیوبند میں واقع اپنی رہائش گاہ پر ہوا۔ علمائے کرام؛ بالخصوص ابو القاسم نعمانی، سید ارشد مدنی، محمد سفیان قاسمی اور محمود مدنی نے ان کی وفات پر غم کا اظہار کیا۔ ان کی نماز جنازہ مولانا سید ارشد مدنی نے پڑھائی اور انھیں قاسمی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

   مقالہ نویسی و مضمون نگاری
وہ عربی و اردو دونوں ہی زبانوں کے یکساں شہسوار تھے ملک و بیرون ملک کے کئی رسالوں اور اخباروں جیسے: ”ماہنامہ الداعی“ دیوبند؛ ”البعث الاسلامی“ لکھنؤ؛ ”الرائد“ لکھنؤ؛ ”ماہنامہ دار العلوم دیوبند“؛ ”آئینۂ دار العلوم دیوبند“؛ ہفت روزہ ”تعمیر حیات“؛ ”الدعوۃ“ ریاض؛ ”الحرس الوطنی“ ریاض؛ ”الفیصل“ ریاض؛ ”الجزیرة“ ریاض؛ ”العالم الاسلامی“ مکہ مکرمہ؛ ”الندوۃ“ مکہ مکرمہ؛ روزنامہ ”راشٹریہ سہارا“ اردو نئی دہلی؛ ”نئی دنیا“ دہلی؛ ”منصف“ حیدرآباد؛ ”انقلاب“ ممبئی و دہلی؛ ”اردو ٹائمز“ ممبئی؛ ”اخبار مشرق“ کلکتہ و دہلی؛ سہ روزہ ”دعوت“ نئی دہلی؛ ہفت روزہ ”نقیب“ پٹنہ؛ ”عالمی سہارا“ نئی دہلی؛ ”الجمعیۃ“ دہلی؛ ”الفرقان“ لکھنؤ؛ ”ترجمان دار العلوم“ جدید دہلی؛ رسالہ ”الحق“ پاکستان؛ ”اذان بلال“ آگرہ، ”ریاض الجنۃ“ گورینی جونپور؛ ماہنامہ ”ہدایت“ جے پور؛ ”البدر“ کاکوری؛ ”خبر دار جدید“ نئی دہلی؛ ”ترجمان دیوبند“ دیوبند میں ان کے پانچ سو سے زائد اردو و عربی مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی مضمون نگاری پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری کے نبیرہ اور مولانا سید محمد ازہر شاہ قیصر کے فرزند مولانا سید نسیم اختر شاہ قیصر (13 صفر المظفر 1444ھ بہ مطابق 11 ستمبر 2022ء) رقم طراز ہیں:

” مولانا تحریری قلمرو کے مالک تھے اور اس کا رنگ جدا تھا۔ ان کی مضمون نگاری مہکتی عبارتوں، پُردم جملوں، مسحور کن اقتباسات، سماں باندھتی تشبیہات سے عبارت تھی۔ تراکیب کی ندرت اور اسلوب کی آفاقیت انھیں دوسرے قلم کاروں سے بلند کرتی ہے۔ شہد میں گھلے طویل اقتباسات، چاشنی میں لپٹے لمبے لمبے جملے یوں ان کا قلم شخصیت کے خدوخال کو خوبصورتی کے ساتھ کاغذ پر ایسے اتارتا کہ مکمل تصویر بن جاتی۔ عادت، اخلاق، مزاج، کردار، کمال، صلاحیت، خدمات، کارنامے، داستانِ زندگی کا ہر ورق روشن ہوتا۔ لگتا کہ زیر قلم مرحوم شخصیت اٹھ بیٹھی ہو اور آنکھیں ان کے متحرک ہونے، چلنے پھرنے کا حیرت انگیز منظر دیکھتی ہوں۔ مولانا نے بے شمار مقالات، مضامین اور کافی کتابیں لکھیں، سب شاہکار ہیں، معلومات کا خزینہ ہیں، زبان و بیان کا گنجینہ اور اسلوب و ادائیگی کا حسین قرینہ ہیں۔ ’’پسِ مَرگ زندہ‘‘ اس کی بہترین مثال ہے۔ “
الداعی میں سوانحی مقالہ جات
انھوں نے 1982ء میں الداعی کے مدیر بننے کے بعد سے وفات تک کے عرصے میں کم و بیش تین سو شخصیات پر عربی میں سوانحی و تاثراتی مضامین لکھے۔

        تصانیف
   انھوں نے اردو و عربی میں تقریباً 60 کتابیں لکھیں ہیں، جن میں 11 اردو کی اور 11 عربی کی کتابیں بھی شامل ہیں۔  انھوں نے اپنی اور اشرف علی تھانوی، حسین احمد مدنی، ابو الحسن علی حسنی ندوی، محمد منظور نعمانی، محمد طیب قاسمی، محمد تقی عثمانی، سعید الرحمن اعظمی ندوی امین احسن اصلاحی، کرشن لال (نو مسلم غازی احمد) اور خورشید احمد جیسے کئی علماء و دانشوران کی تقریباً 35 اردو کتابوں کا عربی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔  نیز انھوں نے دو سو سے زائد مقالات کا عربی میں ترجمہ کیا، جو ہند و بیرون ہند شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی کتاب فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں کے خصوصی حوالہ سے نور عالم خلیل امینی کی تحریروں میں سماجی و سیاسی پہلووں پر آسام یونیورسٹی میں ابو الکلام نے اشفاق احمد کی نگرانی میں اپنا ڈاکٹریٹ کا مقالہ پیش کیا۔ ان کی اردو و عربی کی کتابیں اور تراجم کی فہرست بالترتیب ذیل میں درج ہیں:

اردو تصانیف:
وہ کوہ کَن کی بات (وحید الزماں کیرانوی کی سوانحِ حیات)
فَلَسطین: کسی صلاح الدین کے انتظار میں
پسِ مَرگ زندہ
رفتگانِ نارفتہ
حرفِ شيریں
موجودہ صلیبی صہیونی جنگ: حقائق، دلائل و شواہد اور اعداد و شمار
عالم اسلام کے خلاف حالیہ جنگ
کیا اسلام پسپا ہو رہا ہے؟
صحابۂ رسول اسلام کی نظر میں
خط رقعہ کیوں اور کیسے سیکھیں؟
خاکی مگر افلاکی (غیر مطبوعہ)

عربی تصانیف:
مفتاح العربیہ (مکمل دو حصے)؛ یہ کتاب مختلف مدرسوں میں داخلِ نصاب ہے۔
فِلِسطين: فی انتظارِ صلاحِ دين (عربی)
المسلمون في الهند بين خدعة الديمقراطية وأكذوبة العلمانية في النصف الأول من القـرن العشرين
الصحابة و مكانتهم في الإسلام
مجتمعاتنا المعاصرة والطريق إلى الإسلام
الدعوة الإسلامية بين دروس الأمس و تحديات اليوم
متی تكون الكتابات مؤثرة؟
تعلّموا العربیة فإنہا من دینکم
العالم الهندي الفريد: الشيخ المقرئ محمد طيب
من وحي الخاطر (پانچ جلدیں)
في موكب الخالدين (غیر مطبوعہ)

دیگر مصنفین کی اردو کتب کے عربی تراجم:
التفسير السياسي للإسلام في مرآۃ کتابات الأستاذ أبی الأعلى مودودي والشہید سید قطب (ابو الحسن علی حسنی ندوی کی ”عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح“ کا عربی ترجمہ)
أحاديث صريحة في باكستان (ابو الحسن علی حسنی ندوی کی ”پاکستانیوں سے صاف صاف باتیں“ کا عربی ترجمہ)
الداعية الكبيرة الشيخ محمد إلياس الكاندهلوي (ابو الحسن علی حسنی ندوی کی ”مولانا الیاس اور ان کی دینی دعوت“ کا عربی ترجمہ)
سيدنا معاوية رضي اللّٰه عنه في ضوء الوثائق الإسلامية والحقائق التاريخية (محمد تقی عثمانی کی ”حضرت معاویہؓ اور تاریخی حقائق“ کا عربی ترجمہ)
مـاهي النصرانية؟ (محمد تقی عثمانی کی ”عیسائیت کیا ہے؟“ کا عربی ترجمہ)
علماء ديوبنـد واتجاههم الـديني ومـزاجهم الـمـذهبي (محمد طیب قاسمی کی ”علمائے دیوبند کا دینی رخ اور مسلکی مزاج“ کا عربی ترجمہ)
مأساةُ شاب هندوسي اعتنـق الإسلام (”من الظلمات الی النور“ (کرشن لال) کا عربی ترجمہ)
الحالة التعليمية في الهند، فيما قبل عهد الاستعمار الإنجليزي وفيما بعده (حسین احمد مدنی کی ”ہندوستان کی تعلیمی حالت انگریزی سامراج سے پہلے اور اس کی آمد کے بعد“ کا عربی ترجمہ)
بحوث في الدعوة والفكر الإسلامي (حسین احمد مدنی کے مختلف مضامین و محاضرات کے مجموعہ کا عربی ترجمہ)
الثورة الإيرانية في ميزان الإسلام (منظور نعمانی کی ”ایرانی انقلاب، امام خمینی اور شیعیت“ کا عربی ترجمہ)
دعايات مكثَّفة ضـد الشيخ محمد بـن عبـد الوهــاب النـجـدي (منظور نعمانی کی ”بر صغیر میں شيخ محمد بن عبد الوہاب نجدی کے خلاف پروپیگنڈہ کے علمائے حق پر اثرات“ کا عربی ترجمہ)
لآلي منثورة في التعبيرات الحكيـمـة عـن قـضـايـا الـدين والأخلاق والاجتماع (اشرف علی تھانوی کی ”مقالات حکمت ومجادلات معدلت“ کا عربی ترجمہ)
الإسلام والعقلانية (اشرف علی تھانوی کی ”الانتباھات المفیدۃ عن الاشتباھات الجدیدۃ“ کا عربی ترجمہ)
الدعوة الإسلامية: قضــايا ومشكلات (سعید الرحمن اعظمی ندوی کے ساتھ مل کر امین احسن اصلاحی کی ”دعوت اسلامی ۔ مسائل ومشکلات“ کا عربی ترجمہ)
الإسلام والاشتراكية (سعید الرحمن اعظمی ندوی کے ساتھ مل کر ڈاکٹر خورشید احمد کی ”اشتراکیت اور اسلام“ کا عربی ترجمہ)

   اللّٰہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ہمیں بھی مرحوم کی سی دینی، علمی اور قلمی خدمات کے لیے قبول فرما لے۔ آمین یارب العالمین

حوالہ جات

[1]
نایاب حسن قاسمی. "مولانا نور عالم خلیل امینی". دار العلوم دیوبند کا صحافتی منظرنامہ (ایڈیشن 2013). دیوبند: ادارہ تحقیق اسلامی. صفحات 247–252.
[2]
حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی - آتی ہی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو از مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، جھارکھنڈ، اوڈیشا_ماخوذ: ماہنامہ دار العلوم دیوبند، شوال- ذی الحجہ 1442ھ بہ مطابق جون-جولائی 2021ء، صفحہ: 72 تا 77۔
[3]
قاسمی، محمد نجیب"آہ! عربی واردو زبان وادب کا شہسوار چل بسا". بصیرت آن لائن. اخذ شدہ بتاریخ 3 مئی 2021.
[4]
نور عالم خلیل امینی. "حالات مصنف". پس مرگ زندہ (ایڈیشن پانچواں، فروری 2017). دیوبند: ادارہ علم و ادب. صفحہ 933.
[5]
الشيخ نور عالم خليل الأميني باق حبه في القلوب ما بقي الليل و النهار از مولانا ابو عائض عارف جمیل مبارکپوری، ایڈیٹر مجلہ الداعی_ماخوذ: مجلہ الداعی، دار العلوم دیوبند، محرم- ربیع الاول 1443ھ م اگست- نومبر 2021ء، صفحہ: 33 تا 49۔
[6]
محمد منہاج عالم ندوی. "حضرت مولانانور عالم خلیل امینیؒ کا انتقال ملت اسلامیہ کا بڑا علمی خسارہ: امارت شرعیہ". قندیل آنلائن. اخذ شدہ بتاریخ 4 مئی 2021.
[7]
[8]
مولانا نور عالم خلیل امینی: ایک خود ساز شخصیت از مولانا محمد ساجد قاسمی، استاذ دار العلوم دیوبند_ماخوذ: ماہنامہ دار العلوم دیوبند، شوال- ذی الحجہ 1442ھ بہ مطابق جون-جولائی 2021ء، صفحہ: 33۔
[9]
نایاب حسن قاسمی. "دار العلوم دیوبند اور عربی صحافت". دار العلوم دیوبند کا صحافتی منظرنامہ (ایڈیشن 2013ء). دیوبند: ادارہ تحقیق اسلامی. صفحات 126–129.
[11]
دکھ تو ایسا ہے کہ دل آنکھ سے کٹ کٹ کے بہے! از مولانا نایاب حسن قاسمی___ماخوذ: ماہنامہ دار العلوم دیوبند، شوال- ذی الحجہ 1442ھ بہ مطابق جون-جولائی 2021ء، صفحہ: 69۔
[12]
مولانا فہیم الدین بجنوری. "پیش رخ". نور درخشاں (ایڈیشن اکتوبر 2021ء). دیوبند، بنگلور: مکتبہ مسیح الامت. صفحہ 5.
[13]
کُھجناوری، محمد ساجد (29 جون 2021ء). "خوش فکر اہل زبان وقلم حضرت مولانانورعالم خلیل الأمینی" بصیرت آن لائن.
[14]
[17]
الصحف والمجلات تنعت الداعية الإعلامي الشيخ نور عالم خليل الأميني از مولانا ابو عائض عارف جمیل مبارکپوری، ایڈیٹر مجلہ الداعی_ماخوذ: مجلہ الداعی، دار العلوم دیوبند، محرم- ربیع الاول 1442ھ م اگست- نومبر 2021ء، صفحہ: 74۔
[18]
رفتگانِ نارفتہ: مختصر تعارف مؤلفِ کتاب، نور عالم خلیل امینی_سن طباعت: شعبان 1442ھ/ مارچ 2021ء، پہلا ایڈیشن، صفحہ: 703-704۔
[19]
نایاب حسن قاسمی. "مختصر سوانحی نقوش حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی". اک شخص دل ربا سا (ایڈیشن 2022ء). نئی دہلی: مرکزی پبلیکیشنز. صفحات 361–363.
[20]
"देवबंद: नहीं रहे दारुल उलूम के वरिष्ठ उस्ताद मौलाना नूर आलम, दुनिया के इस्लामिक जगत में था बड़ा नाम" [دیوبند: نہیں رہے دارالعلوم کے سینئر استاذ مولانا نور عالم، عالم اسلام میں تھا بڑا نام]. امر اجالا (بزبان ہندی).
[22]
"مولانا نور عالم خلیل امینی عربی و اردو کی مشترکہ لسانی روایت کے علم بردار تھے:ابرار احمد اجراوی". قندیل آنلائن. 3 مئی 2021.
[23]
مولانا فہیم الدین بجنوری. "مختصر سوانحی خاکہ". نور درخشاں (ایڈیشن اکتوبر 2021ء). دیوبند، بنگلور: مکتبہ مسیح الامت. صفحہ 41،42.
[24]
نسیم اختر شاہ قیصر (24 مئی 2021). مولانا نور عالم خلیل امینی: قرطاس و قلم کا ایک عہد. قندیل آن لائن.
[25]
"مولانا نور عالم خلیل امینی:اس کا اندازِ نظر اپنے زمانے سے جدا: نایاب حسن قاسمی". قندیل آنلائن. 20 جون 2021.
[26]
مہتاب، احسن، ویکی نویس (16–31 جنوری 2017). "فکر انقلاب: اردو کے فروغ میں علمائے دیوبند کا ڈیڑھ سو سالہ کردار". فکر انقلاب. آل انڈیا تنظیم علماء حق فکر انقلاب، دہلی. 5 (112): 535.
[27]
قراءة في مؤلفات الشيخ الأميني از مولانا ابو عاصم عارف جمیل مبارکپوری، ایڈیٹر مجلہ الداعی_ماخوذ: مجلہ الداعی، دار العلوم دیوبند، محرم- ربیع الاول 1443ھ م اگست- نومبر 2021ء، صفحہ: 78-102۔
[28]
من وحي الخاطر: المؤلف في سطور، نور عالم خلیل امینی_سن طباعت: جمادی الاخری 1442ھ/ جنوری 2021ء، پہلا ایڈیشن، صفحہ: 503-504۔
[29]

مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ

مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ محمد روح الامین میوربھنجی       مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی سرزمینِ بہا...