اتوار، 27 فروری، 2022

تذکرہ مولانا محمد عثمان معروفی (1928ء - 2001ء)

تذکرہ مولانا محمد عثمان معروفی (1928ء - 2001ء)

📝 محمد روح الامین میوربھنجی

     مولانا محمد عثمان معروفی رحمۃ اللّٰہ علیہ (1347ھ م 1928ء - 1422ھ م 2001ء) ایک مشہور مصنف، مؤرخ، سوانح نگار، فن تاریخ گوئی کے ماہر، ایک کامیاب مدرس اور ایک مایۂ ناز عالم دین تھے، وہ 1950ء سے 1995ء تک تقریباً نصف صدی تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے، اس کے بعد 1997ء تا 2001ء اپنی وفات تک چار سال ماہنامہ مظاہر علوم سہارنپور کے مدیر و ایڈیٹر رہے۔ ان کے بارے میں مندرجۂ ذیل کتابوں سے استفادہ کرتے ہوئے بندہ نے یہ مضمون تیار کیا ہے: (1) نقوش عثمان کردار و آثار کے چند زاویے از مولانا انصار احمد معروفی، (2) ایک عالمی تاریخ، (3) مشاہیر کوپا گنج، (4) مشاہیر پورہ معروف۔ (5) دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ از ڈاکٹر مولانا محمد اللّٰہ خلیلی قاسمی اور دیگر کئی کتابوں سے موصوف کے بعض اساتذہ کے سنینِ وفات ماخوذ ہیں۔

ولادت و خاندان
      ان کی ولادت 20 جمادی الاولی 1347ھ بہ مطابق 4 نومبر 1928ء بہ روز اتوار محلہ بانسہ، پورہ معروف، ضلع اعظم گڑھ (جو اس وقت ضلع مئو میں آتا ہے) میں ہوئی۔ تاریخی نام محمد مظہر علی تھا۔ ان کے والد قاری محمد حنیف صاحبؒ (متوفّٰی: 1391ھ م 1971ء)؛ حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ (متوفی: 1362ھ م 1943ء) سے بیعت تھے اور قاری محمد حنیف کے بڑے بھائی قاری عبد الکریم (متوفی: 1345ھ)؛ حکیم الامت کے خلیفہ اور مجاز بیعت تھے۔ ان کا سلسۂ نسب کچھ پشتوں تک مذکور ہے: ”عثمان بن محمد حنیف بن محمد یوسف بن عبد القادر بن عبد اللّٰہ بن محمد دلار بن محمد دانیال بن محد روشن“۔ وہ مفتی عبد اللّٰہ معروفی صاحب (متولّد: 1386ھ م 1966ء) استاذ حدیث و ناظم شعبۂ تخصص فی الحدیث دار العلوم دیوبند کے والد اور چچا مولانا زین العابدین اعظمیؒ (متوفی: 1434ھ م 2013ء)، استاذ حدیث و سابق صدر شعبۂ تخصص فی الحدیث مظاہر علوم سہارنپور کے ماموں زاد بھائی تھے۔

تعلیم و تربیت
      انھوں نے قرآن اپنے والد سے پڑھا، پھر انھوں نے 1357ھ م 1936ء تا 1362ھ م 1943ء پانچ سال مدرسہ معروفیہ، پورہ معروف میں مولانا شبلی شیدا خیر آبادیؒ (متوفی: 1374ھ) سے اردو، فارسی اور ابتدائی عربی کی تعلیم حاصل کی، نیز مذکورۂ بالا استاذ سے کتابت بھی سیکھی۔ پھر شوال 1362ھ تا شعبان 1363ھ ایک سال مولانا عبد الحئی مئوی (متوفی: 1363ھ) سے نور الایضاح، ہدایۃ النحو وغیرہ کتابیں پڑھیں، پھر شوال 1363ھ تا 1364ھ ایک سال مفتاح العلوم مئو میں پڑھائی کی، پھر شوال 1364ھ م تا شعبان 1367ھ م 1948ء تین سال احیاء العلوم مبارک پور، ضلع اعظم گڑھ میں جلالین و مشکوۃ تک کی کتابیں پڑھیں؛ البتہ نصف شوال سے نصف صفر (1366-67ھ) تک چھ ماہ اپنے والد کے سفر حج کے موقع پر، گھر پر رہنا ضروری ہونے کی وجہ سے مدرسہ معروفیہ، پورہ معروف ہی میں مولانا عبد الستار معروفیؒ (متوفی: 1414ھ م 1994ء) کے پاس مشکوۃ و جلالین کا ابتدائی حصہ پڑھا۔ اس کے بعد شوال 1367ھ میں دار العلوم دیوبند آگئے اور امتحان داخلہ علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ (متوفی: 1387ھ م 1967ء) نے لے کر دورۂ حدیث میں داخل کر دیا۔

دار العلوم دیوبند سے فراغت
      1368ھ بہ مطابق 1949ء میں دار العلوم دیوبند سے فارغ ہوئے۔ اگلے سال شوال 1368ھ تا شعبان 1369ھ دیوبند ہی میں رہ کر کتب فنون کی تکمیل کی، فتوی نویسی کی تمرین و مشق کی اور خوش نویسی و خطاطی میں کمال پیدا کیا۔

دار العلوم دیوبند میں ان کے اساتذہ
    ان کے اساتذۂ دار العلوم میں یہ حضرات شامل تھے:
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ (متوفی: 1377ھ م 1957ء)؛ جن سے انھوں نے صحیح البخاری مکمل اور جامع الترمذی جلد اول؛ یہ کتابیں پڑھیں۔
علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ (متوفی: 1387ھ م 1967ء)؛ جن سے انھوں نے صحیح المسلم، جامع الترمذی اور قاضی مبارک؛ یہ کتابیں پڑھیں۔
شیخ الادب والفقہ مولانا محمد اعزاز علی امروہویؒ (متوفی: 1374ھ م 1955ء)؛ جن سے انھوں نے سنن ابی داؤد مکمل، جامع الترمذی جلد دوم اور شمائل ترمذی؛ یہ کتابیں پڑھیں۔
مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ (متوفی: 1394ھ م 1974ء)؛ جن سے انھوں نے مؤطا امام مالک پڑھی۔
قاری محمد طیبؒ، مہتمم دار العلوم دیوبند (متوفی: 1403ھ م 1983ء)؛ جن سے انھوں نے سنن ابن ماجہ پڑھی۔
مولانا فخر الحسن مرادآبادیؒ (متوفی: 1400ھ م 1980ء)؛ جن سے انھوں نے سنن نسائی، تفسیر بیضاوی، توضیح تلویح، دیوان متنبی اور عروض المفتاح؛ یہ ساری کتابیں پڑھیں۔
مولانا سید فخر الدین احمد مرادآبادیؒ (متوفی: 1392ھ م 1972ء)؛ جنھوں نے ختم بخاری شریف (سن: 1368ھ بہ مطابق 1949ء) کے موقع پر شیخ الاسلام کے ایما پر مولانا محمد عثمان معروفی کو بخاری شریف کی چند حدیثیں پڑھا کر انھیں اجازت حدیث عطا فرمائی تھی۔
مولانا معراج الحق دیوبندیؒ (متوفی: 1412ھ م 1991ء)؛ جن سے انھوں نے دیوان حماسہ اور السبع المعلقات پڑھیں۔
مولانا بشیر احمد خان بلند شہریؒ (متوفی: 1386ھ م 1966ء)؛ جن سے انھوں نے تصریح، شرح چغمینی، بست باب اور اقلیدس؛ یہ کتابیں پڑھیں۔
مفتی سید مہدی حسن شاہجہاں پوریؒ (متوفی: 1396ھ م 1976ء)؛ جن کے پاس انھوں نے فتویٰ نویسی کی مشق و تمرین کی۔
مولانا قاری اعزاز احمد (معروف بہ: قاری احمد میاں) امروہویؒ؛ جن سے انھوں نے ترتیلًا مشق قراءت کیا۔
مولانا اشتیاق احمد دیوبندیؒ (متوفی: 1395ھ م 1975ء)؛ جن سے انھوں نے باقاعدہ خط نستعلیق و خط نسخ میں خطاطی سیکھی۔

لکھنؤ یونیورسٹی سے فاضل ادب عربی
    دار العلوم دیوبند سے فراغت کے بعد 1369ھ بہ مطابق 1950ء میں انھوں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے درجۂ دوم سے فاضلِ ادب عربی کا امتحان پاس کیا۔

تدریسی خدمات
     تعلیم سے فراغت کے بعد مدرسہ معروفیہ، پورہ معروف میں 11 ذوالقعدہ 1369ھ م 26 اگست 1950ء تا 20 شعبان 1389ھ بیس سال مدرس رہے اردو فارسی سے لے کر شرح جامی تک کی کتابیں پڑھاتے رہے۔ درمیان میں 21 صفر 1377ھ م 12 ستمبر 1957ء میں شعبان تک کے لیے سینئر مدرسہ اسلامیہ، گوما پھولباڑی، کامروپ (آسام) میں اسسٹنٹ سپرینٹنڈنٹ کی حیثیت سے مشکٰوۃ وغیرہ کا درس دیا (آسام سے واپسی پر مدرسہ معروفیہ کے صدر مدرس منتخب ہوئے)۔ 9 شوال 1389ھ م 20 دسمبر 1969ء سے 4 صفر 1397ھ م 25 جنوری 1977ء تک سوا سات سال مدرسہ احیاء العلوم مبارک پور میں مشقِ خوش نویسی اور میزان و منشعب سے شرحِ جامی، ہدایہ اولین اور دورۂ حدیث کی مؤطینِ امام مالک و محمد، شمائل ترمذی، نسائی، ابوداؤد، جلالین وغیرہ جیسی کتابوں کا درس دیا۔ 1397ھ میں احیاء العلوم سے مستعفی ہو کر کچھ دنوں مدرسہ مدرسہ اشاعت العلوم، پورہ معروف میں رہے۔ پھر ذی القعدہ 1397ھ تا شعبان 1398ھ ایک سال مدرسہ منبع العلوم، گلاوٹھی، ضلع بلند شہر میں رہے۔ شوال 1398ھ سے ذوالحجہ 1399ھ تک جامعہ اسلامیہ مدنیہ، مدنی نگر، کولکاتا (نمبر -51) میں درجات علیا کے مدرس اور ناظم تعلیمات رہے۔ اس کے بعد محرم الحرام 1400ھ م نومبر 1979ء تا 1408ھ م جون 1988ء جامع العلوم کوپاگنج میں صدر مدرس رہے، پھر وہاں سے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد سے 1413ھ م 1993ء تک جامعہ اسلامیہ سلطانپور کے صدر مدرس رہے۔ 1413ھ تا 1415ھ م 1995ء مدرسہ ضیاء العلوم پورہ معروف میں مدرس رہے۔

زمانۂ تدریس میں فن قراءت بروایت حفص کی تکمیل
    1394ھ میں احیاء العلوم مبارکپور کے زمانۂ تدریس میں تدریس کے ساتھ ساتھ قاری ظہیر الدین معروفی اور قاری محمد ادریس مبارکپوری سے 14 جمادی الاخری 1394ھ کو روایت حفص میں تجوید وقراءت کی تکمیل کی، مشق کے ساتھ کئی کتابیں بھی پڑھیں۔ 9 شعبان 1394ھ م 28 اگست 1974ء کو احیاء العلوم میں فراغت قراءت کی دستار محدث کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی (متوفی: 1412ھ م 1992ء) وغیرہ کے ذریعے ہوئی اور اجلاسِ صد سالہ کے موقع پر 4 جمادی الاولی 1400ھ م 22 مارچ 1980ء کو دار العلوم دیوبند سے دستار فضیلت بھی ملی۔

بیعت و اصلاحی تعلق
       غالباً 1371ھ میں ٹانڈہ جاکر اپنے استاذ شیخ الاسلام حضرت مدنی سے بیعت کی، اکثر رمضان میں اپنے شیخ کی خدمت میں رہ کر سلوک و تصوف کے  اسباق لیتے، شیخ الاسلام کی وفات کے بعد؛ بعد میں فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنیؒ (متوفی: 1427ھ م 2006ء) کی طرف رجوع کیا۔ نیز سہارنپور کے زمانۂ قیام میں مولانا پیر محمد طلحہ کاندھلویؒ (متوفی: 1440ھ م 2019ء) سے بھی رمضان میں ان کے خانقاہ میں مقیم رہ کر استفادہ کرتے تھے۔

خطاطی و طغرا نویسی
      وہ ایک بہترین خطاط اور طغرا نویس بھی تھے۔ جمعیت علمائے ہند کے کل ہند اجلاس میرٹھ 1963ء، ضلع گیا 1966ء، دہلی 1972ء میں بورڈ اور بینر کی کتابت کے لیے بلائے گئے اور وہاں خوش نویسی کے لیے انھیں اعلیٰ نمبروں سے نوازا بھی گیا، اور کئی مدارس وغیرہ میں ان کے لکھے ہوئے بورڈ اور کتبے لگے ہوئے ہیں۔ اس فن میں ان کے اساتذہ مولانا شبلی شیدا خیر آبادی اور مولانا محمد اشتیاق احمد دیوبندی تھے۔

تاریخ گوئی
    فن تاریخ گوئی کے وہ تاجور تھے، تاریخ گوئی میں ان کی مہارت تامہ کو سمجھنے کے لیے مولانا و مفتی محمد اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی، استاذ دار العلوم دیوبند کی تحریر سے یہ اقتباس ہی کافی ہوگا:
     ”حضرت مولانا معروفی میں تاریخ کی تخریج کا عجیب وغریب ملکہ قدرت نے ودیعت فرمایا تھا، موصوف اعداد کی جمع وتفریق میں بالکل غرق ہوجاتے تھے، مشق وتمرین اور ریاضت ومجاہدہ کی وجہ سے ابجدی حروف کے اعداد بالکل ازبر تھے، پوری پوری سطر لکھ لیتے اور لمحوں میں ان کا حساب نیچے رقم فرمادیتے تھے، حساب کے دوران ذہنی پرواز تو بہت اونچی ہوتی تھی؛ لیکن نگاہ، قلم اور جسم بالکل ساکت و صامت رہتے تھے اور سانسوں کے ساتھ گھن گھن کی دھیمی آواز نکلتی رہتی تھی، جو قریب بیٹھنے والے کو سنائی دیتی تھی، کبھی کبھی تو پوری پوری آیت یا حدیث کی تاریخی تخریج عمل میں آجاتی، اور الفاظ و تراکیب نہایت موزون و مناسب ہوتے تھے، عام طور سے اہلِ علم تاریخ کی تخریج تو کرلیتے ہیں؛ مگر موزونیت و تناسب سے وہ اکثر خالی ہوتے ہیں، حضرت مولانا معروفی کو اتنی ریاضت ہوگئی تھی کہ اس طرح کے عیب سے ان کی تحریر پاک تھی، اس میں بہت زیادہ وقت بھی نہیں لگتا تھا، تعجب و حیرت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی تھی، جب اشعار میں مادۂ تاریخ نکالتے تھے، تاریخ گوئی کی جتنی صنعتیں اور نوعیں ہیں، مولانا مرحوم ہر ایک میں مادۂ تاریخ نکالنے پر قادر تھے، تفصیل کے لیے ”محاسن التواریخ“ کا مطالعہ کافی ہوگا۔“

شاعری
    شاعری میں باقاعدہ ان کا کوئی استاذ نہیں تھا، تخلص عاصی تھا، کبھی بطورِ تخلص عثمان بھی استعمال کیا، انھوں نے حمد، نعت، غزل، مرثیہ، نیز ترانے میں اپنی شاعری کے جوہر دکھائے ہیں۔ جو محاسن التواریخ یا ان کی دیگر کتابوں اور مضامین میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

مضمون نگاری
    مضمون نگاری کا طرز انھیں قاضی محمد اطہر مبارک پوریؒ سے ملا، شاعری میں ان کا کوئی استاذ نہیں تھا، خداداد صلاحیت کہہ سکتے ہیں۔ مختصر نویسی ان کا خاصہ تھی، جو بقول مفتی عبد اللّٰہ معروفی صاحب؛ انھیں ابوالمآثر مولانا حبیب الرحمٰن اعظمیؒ سے ملی تھی۔

مضامین وغیرہ کی اشاعت
    ان کے مضامین و اشعار اور تاریخ گوئی کے شہ پارے کبھی کبھی الجمعیۃ دہلی، سیاست کانپور، انصاری دنیا مرادآباد، البلاغ بمبئی، القاسم دیوبند، ماہنامہ دار العلوم دیوبند، المنار کوپاگنج، پیغام پورہ معروف، ماہنامہ الفاروق کراچی، ماہنامہ ضیاء الاسلام، شیخوپور (اعظم گڑھ) ماہنامہ مظاہر علوم سہارنپور، معارف اعظم گڑھ، ترجمان الاسلام بنارس، ابوالمآثر مئو وغیرہ میں شائع ہوتے رہے ہیں، نیز کئی خصوصی نمبروں جیسے: الجمعیۃ کے شیخ الاسلام نمبر (فروری 1958ء)، مجاہد ملت نمبر (مارچ 1963ء)، حیات فخر الاسلام نمبر، تذکرہ مولانا عبد اللطیف نعمانیؒ، تذکرۂ طیب، تذکرہ علمائے اعظم گڑھ، ماہنامہ البلاغ کے احمد غریب نمبر (ستمبر 1968ء) وغیرہ میں بھی شائع ہوئے۔

مناصب
     اپنی تدریسی زندگی کے درمیان مختلف عرصوں میں مختلف مدارس کی نظامت تعلیم یا صدارت تدریس کے مناصب پر فائز رہے۔ نیز مدرسہ معروفیہ کے زمانۂ تدریس میں ”المعروف“ کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا تھا، ماہنامہ پیغام پورہ معروف کے روز اول (پہلا شمارہ: ربیع الثانی 1407ھ م اگست 1996ء) سے تاوفات سرپرست رہے۔

ماہنامہ مظاہر علوم کی ادارت
     1418ھ بہ مطابق 1997ء کو ماہنامہ مظاہر علوم سہارنپور کے مدیر مقرر ہوئے اور تاوفات چار سال اس کی ادارت کے فرائض انجام دیے۔ ماہنامہ مظاہر علوم کی ادارت کے دوران ان کی تحریری سرگرمیاں تیز سے تیز تر ہوگئیں، ملک کے مشہور و معروف اہل قلم؛ بالخصوص اپنے دوست اہل قلم حضرات سے خطوط بھیج کر مضمون منگواتے، شائع کرتے، بسا اوقات خطوط کے ذریعے سپاس گزار ہوتے، مدح سرائی کرتے اور ہدیۂ تشکر پیش فرماتے۔

وفات
     13 ربیع الاول 1422ھ بہ مطابق 6 جون 2001ء بہ روز بدھ سہارنپور ہی میں اِس دار فانی سے اُس دار بقا کی طرف کوچ کرگئے۔ دماغ کی رگ پھٹنے سے ان کی وفات ہوئی تھی اور نماز جنازہ مولانا محمد عاقل سہارنپوری، صدر المدرسین مظاہر علوم جدید سہارنپور نے پڑھائی تھی اور سہارنپور کے مشہور حکیموں والے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی تھی۔

پسماندگان
     پسماندگان میں صرف اکلوتے بیٹے مولانا محمد سفیان معروفی ہیں۔
      
تصانیف
     مولانا محمد عثمان معروفی کا قلم ”مختصر مگر جامع“ کا نمونہ تھا، مختصر انداز میں سوانح و تذکرہ نگاری، تاریخ، فن تاریخ گوئی، علم عروض و قوافی، علم ہیئت وغیرہ میں انھوں نے اکیس کتابیں لکھیں، ان کی تصانیف مع سن اشاعت مندرجۂ ذیل ہیں:
1. حیات طاہر (اشاعت اول: 1967ء، اشاعت دوم: 2014ء؛ مولانا قاضی محمد طاہر معروفیؒ (1808ء - 1879ء) کی سوانح حیات)۔
2. مشاہیر پورہ معروف (اشاعت اول: 1976ء)
3. تذکرۂ مشاہیر کوپا گنج (اشاعت اول: 1985ء)
4. حالات المصنفین (اشاعت اول: 1986ء)
5. محاسن التواریخ (اشاعت اول: 1987ء؛ فن تاریخ گوئی کے شہ پارے)۔
6. ایک عالمی تاریخ (اشاعت اول: 1987ء)
7. تذکرۃ الفنون (اشاعت اول: 1983ء)
8. تاریخ وقائع لاثانی (اشاعت اول: 1981ء؛ محی الدین الخیاطؒ (1865ء - 1914ء) کی شہرہ آفاق کتاب ”دروس التاریخ الاسلامی“ کا اردو ترجمہ)۔
9. مختصر تاریخ نبوی (اشاعت اول: 1983ء)
10. معجزات و کرامات (اشاعت اول: 1981ء؛ باحوالہ 80 معجزات اور 20 کرامات کا ذکر)۔
11. مفتاح التقادیم (اشاعت اول: 1990ء؛ ہجری و عیسوی سالوں کی مطابقت پر رہنما کتاب)۔
12. بابری مسجد (اشاعت اول: 1986ء)
13. ارکان تبلیغ (اشاعت اول: 1990ء)
14. پرتاثیر نماز (اشاعت اول: 1991ء)
15. سیرت الرسول
16. گلدستۂ فاخرہ (اشاعت اول: 1984ء؛ ان کا شعری مجموعہ)
17. کمیونزم اور مذہب (اشاعت اول: 1968ء)
18. ترجمہ مقامات حریریہ (1990ء؛ غیر مطبوعہ)
19. تقاریر مولانا آزاد (مولانا ابوالکلام آزادؒ (متوفی: 1958ء) کے الہلال و البلاغ سے ماخوذ تقاریر کا مجموعہ)
20. درس مغفرت (اشاعت اول: 1984ء؛ روز مرہ حالات زندگی سے متعلق 80 احادیث کا مجموعہ؛ پہلا ایڈیشن حرمِ مغفرت کے نام سے شائع ہوا تھا)۔

     اللّٰہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے، ان کی خدمات جلیلہ سے امت کو مزید مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور بندہ کو بھی ان کے جیسا بااخلاق بنائے اور خدمت دین کے لیے قبول فرما لے۔ آمین

بدھ، 23 فروری، 2022

ظلم نہ سہیں اور نہ ہونے دیں

ظلم نہ سہیں اور نہ ہونے دیں


📝 محمد روح الامین میوربھنجی

     جنوبی ہند کی نادَر قوم؛ جن کو معاشرے میں ادنیٰ سمجھا جاتا تھا؛ یہاں تک کہ ان کی عورتوں کو سینہ ڈھانکنے کے لیے بھی ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا!
https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%86%D8%A7%D8%AF%D8%B1_%28%D8%B0%D8%A7%D8%AA%29?wprov=sfla1

     پھر کیا تھا؛ انھوں نے اپنے حق کے لیے لڑائیاں لڑیں اور اپنے حقوق حاصل کرکے چھوڑے، (اس حق کی لڑائی کو 'بغاوتِ چَنّار' کہا جاتا ہے https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%BA%D8%A7%D9%88%D8%AA_%DA%86%D9%86%D8%A7%D8%B1?wprov=sfla1) پھر انھوں نے اپنی حیثیت و شناخت بنائی، اپنی تعلیم پر توجہ دی، اپنی معیشت درست کی، آج انھیں عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، آج انھیں ایک ترقی یافتہ قوم کہا جاتا ہے۔

   
       یہاں دیے گئے دونوں لنکوں کے ذریعے آپ اردو میں اس برادری اور قوم کے بارے خاصے معلومات حاصل کر سکتے ہیں، بندہ نے انھیں انگریزی سے اردو میں منتقل کیا ہے۔

ہفتہ، 19 فروری، 2022

ویکیپیڈیا پر کام کرتے ہوئے میری خود سے ملاقات ہوئی!

ویکیپیڈیا پر کام کرتے ہوئے میری خود سے ملاقات ہوئی!

📝 محمد روح الامین میوربھنجی

    ایک سال ہوگئے الحمد للّٰہ ویکیپیڈیا پر کام کرتے ہوئے۔

میں مدرسے کا طالب علم ہوں، دار العلوم دیوبند میں پڑھتا ہوں، لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھر پر تھا، تو اس وقت میں نے اپنے علاقے کے تعلق سے کچھ کام نہ پاکر، اردو میں برسر عام کوئی مواد نہ پاکر کسی طرح ویکیپیڈیا سے جڑا اور اس وقت میں نے ایک مضمون کے تاریخچہ پر فیصل انس بھائی کا نام دیکھا، پھر ان سے بات ہوئی، انھوں نے حوصلہ افزائی فرمائی، بہت ہاتھ بٹایا، پھر عاقب انجم عافی سے رابطے کا مشورہ بھی دیا کہ وہ علماء و مدارس اور اس طرح کے عنوانات پر کام کرتے ہیں، تو میں نے ان کے مضامین دیکھے، اُردو ویکیپیڈیا پر پہلے ان کے انگریزی مضامین کے ترجمے بھی شروع کیے، دینی موضوعات سے ہٹ کر بھی کئی مضامین کا اردو میں ترجمہ کیا، مجھے اتنی انگریزی آتی ہے کہ میں لغت دیکھ دیکھ کر جملوں کے ترجمے کر سکتا ہوں، لیکن وقت کہاں؟ اس لیے انگریزی ویکی مضامین سے ایک دو جملوں کو سنبھال کر پہلے اس کا گوگل ٹرانسلیٹ کے ذریعے ترجمہ کرتا، پھر اس کے نوک و پلک سنوارتا، بعض تعبیرات میں ردوبدل سے کام لیتا، کہیں تقدیم و تاخیر کی ضرورت پیش آتی، شروع میں ویکی تکنیکی معلومات سے ناواقفیت یا کم علمی کی وجہ سے اس طرح ترجمہ کرکے مضمون لکھنے میں بڑی دقت و پریشانی کا سامنا ہوتا تھا، تو پھر اردو کتابوں سے دیکھ دیکھ کر چند باتوں کا اضافہ کرنا شروع کیا، پھر دن/ مہینے گزرتے گزرتے الحمد للّٰہ خاصی ویکی معلومات حاصل ہوئیں، اب کئی مضامین؛ از خود کتابوں سے مواد لے کر الگ الگ تعبیروں کے ساتھ، اختصار و تطویل کے قاعدوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے لکھ چکا ہوں اور زندگی میں ایک مقصد سمجھ میں آیا کہ مجھے بھی تاریخ، جغرافیہ اور اس طرح کے دیگر موضوعات؛ خصوصاً سوانح نگاری میں دلچسپی ہے، پھر میں نے اپنے علاقے کے علماء پر کام کرنا شروع کیا ہے، مولانا محمد اسماعیل کٹکی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے حالات زندگی پر مفصل مضمون لکھا، پھر آہستہ آہستہ کئی شخصیات پر جیسے مولانا وحید الزماں کیرانوی، مولانا نور عالم خلیل امینی، مولانا مرغوب الرحمن بجنوری، مفتی سعید احمد پالن پوری، قاری سید فخر الدین فخر گیاوی رحمہم اللّٰہ وغیرہم پر مضامین لکھے اور اب بھی لکھ رہا ہوں الحمد للّٰہ اور اب تک صرف شخصیات پر ساٹھ مضامین تیار ہو چکے ہیں، جن میں سے چودہ شخصیات پر از خود تحقیق کرکے ویکیپیڈیا پر سوانحی مضامین لکھے ہیں اور بقیہ مختلف انگریزی ویکی مضامین کا اردو ترجمہ کیا ہے، جن میں سے عاقب انجم عافی، متعلم جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی کے کئی انگریزی ویکی مضامین کا اردو صفحہ بنایا ہے، جن کا میں اردو میں ترجمہ کرتا گوگل ٹرانسلیٹ کے ذریعے اور اپنی دانست کے مطابق تعبیر بدلتا، تقدیم و تاخیر، رد و بدل وغیرہ کے قواعد اپناتا، حوالہ جات کی مراجعت و تحقیق کرکے لکھتا یا بعض انگریزی حوالہ جات؛ انگریزی کتاب سے تھے اور خود وہ اردو کتاب کا ترجمہ ہے تو اردو کتاب ہی کو دیکھ کر اس کا حوالہ دیتا، اس طرح کی بہت سی باتیں لکھنے کو ہیں، پر زیادہ لکھنے سے ڈرتا ہوں۔

نوٹ
   سب سے بڑی بات کہ ویکیپیڈیا سے جڑ کر میرا حوصلہ بڑھا، مجھے ایک مقصد ملا کہ اس جانب توجہ کی ضرورت ہے، میں بھی کچھ کر سکتا ہوں.......

معذرت! لمبی بات لکھنے کے لیے!

دراصل آج اپنے تجربات شیئر کرنے کو، اپنے احساسات کو الفاظ دینے کو جی چاہ رہا تھا تو یہ چند جملے؛ بہت سی باتوں کو پردۂ خفا میں رکھتے ہوئے لکھ دیے ہیں!

یہ سمجھ میں آیا کہ واٹس ایپ یا فیس بک پر وقت ضائع کرنے سے اچھا ہے کہ اردو ویکیپیڈیا کے لیے کچھ کام کیا جائے؛ کیوں کہ اردو ویکیپیڈیا پر کام کرنا؛ اردو زبان کے فروغ و حفاظت کے مرادف ہی ہے!!

جمعرات، 17 فروری، 2022

تذکرہ مولانا سید حسین احمد قاسمی عارف گیاوی (1941ء - 2020ء)

تذکرہ مولانا سید حسین احمد قاسمی عارف گیاوی (1941ء - 2020ء)

محمد روح الامین میُوربھنجی (نواسۂ حضرت عارف گیاویؒ)


     حضرت مولانا سید حسین احمد قاسمی گیاوی رحمہ اللّٰہ سزمینِ بہار کے ایک نامور فاضلِ دیوبند اور نعت گو شاعر تھے، جنھوں نے تقریباً اپنی پوری زندگی خدمت دین میں گزار دی اور نصف صدی تک امامت کے فرائض انجام دیے۔ نیز 1983ء سے 2010ء تک 27 سال جامع مسجد، ساکچی، جمشید پور، جھارکھنڈ کے امام و خطیب رہے۔

ولادت و نام
     10 محرم الحرام 1360ھ بہ مطابق 7 فروری 1941ء کو موضع نگانواں، نزد جہان آباد، ضلع گیا، صوبہ بہار میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد ماجد حافظ محمد مسلمؒ (متوفی: 1364ھ م 1944ء) نے شیخ الاسلام رحمہ اللّٰہ سے عقیدت کی بنا پر ان کا نام حسین احمد رکھا۔  بچپن ہی میں 1944ء کو ان کے والد کا انتقال ہوگیا تھا۔

تعلیم و تربیت
    جب وہ تین سال کے تھے تو ان کے والد کا انتقال ہو چکا تھا، اس کے بعد بعمر چار سال اور چار ماہ ان کی رسم بسم اللّٰہ اپنے نانیہال دیورہ، ضلع گیا کے مکتب میں ہوئی۔ اس کے بعد ان کے والد رحمۃ اللّٰہ علیہ کی وصیت کے مطابق، ان کی بڑی بہن اور درویش صفت بڑے بہنوئی جناب شاہ سید عبد السلامؒ؛ ان کو ان کے گھر والوں کے ساتھ سِمری، مضافاتِ سہسرام، گیا لے گئے، سِمری ہی میں آپ کے گھر والوں نے بود و باش اختیار کر لی۔ سات سال کی عمر میں ان کے بڑے بھائی مولانا ضیاء الدین قادری مظاہری (متوفی: 4 مئی 1993ء) انھیں اپنے ہمراہ  مدرسہ قاسمیہ اسلامیہ، گیا لے گئے، جہاں انھوں نے دوبارہ قاعدہ بغدادی سے شروع کیا، جب چھ پارہ تک ناظرہ پڑھ لیا تو انھیں پڑھتے پڑھتے پہلا پارہ زبانی یاد ہو چکا تھا، ان کی ذہانت دیکھ کر ان کا حفظ شروع کروا دیا گیا، 1952ء کو تین سال کے عرصے میں بارہ سال کی عمر میں حفظ مکمل کر لیا، حفظ کے استاذ قاری مسعود صاحب گیاوی تھے، حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ (متولد: 1879ء - متوفّٰی: 1957ء) کی بارہا گیا تشریف آوری ہوتی تھی، حفظِ قرآن کی دستار بندی؛ شیخ الاسلام ہی کے دست مبارک سے ہوئی۔ انھوں نے فرمایا تھا کہ تم میرے ہم نام ہو یعنی حسین احمد۔ قاری فخر الدین گیاویؒ (متوفی:1409ھ م 1988ء) بھی اپنے شیخ و مرشد کے ہم نام ہونے کی وجہ سے انھیں اپنا جوتا اٹھانے نہیں دیتے تھے، حفظ کے ساتھ ہی قاری فخر الدین گیاویؒ ان کو قراءت کی مشق کروایا کرتے تھے، قاری صاحب نے انھیں پچاس رکوع کی مشق کروائی تھی۔ حفظ کے بعد مدرسہ قاسمیہ ہی میں رہ کر پانچ سال کے عرصے میں فارسی سے شرح جامی تک کی کتابیں پڑھیں۔
 

دار العلوم دیوبند میں داخلہ اور فراغت
    1377ھ بہ مطابق 1958ء میں شیخ الاسلامؒ کی وفات والے سال کے بعد، اٹھارہ سال کی عمر میں ان کا داخلہ دار العلوم دیوبند میں ہوا، داخلہ کے وقت قاری فخر الدین گیاوی صاحب نے صدر مدرس علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ (متوفی: 1387ھ م 1967ء) کو سفارشی خط لکھا تھا اور نائب صدر مولانا فخر الحسن مراد آبادیؒ (متوفی: 1400ھ م 1980ء) کے نام بھی خط روانہ کیا تھا کہ حسین احمد پر خصوصی نگاہ شفقت رکھیے گا، چناں چہ دار العلوم میں داخلہ ہوا اور مختصر المعانی، شرح وقایہ، سلم العلوم اور نور الانوار؛ یہ ساری درسی کتابیں ملیں اور پانچ سال وہاں رہ کر خود ان کی تحریر کے مطابق 1962ء کو دورۂ حدیث سے فراغت ہوئی (جب کہ مولانا محمد طیب قاسمی ہردوئی نے مولانا مرغوب الرحمن بجنوریؒ، سابق مہتمم دار العلوم دیوبند کی اجازت سے دار العلوم دیوبند سے طلبۂ دار العلوم دیوبند کی ریکارڈ حاصل کرکے سن وار اور سلسلہ وار الگ الگ شیخ الحدیث کے اعتبار سے فضلائے دار العلوم دیوبند کی فہرست شائع کی تھی، چناں چہ بندہ نے 'تلامذۂ فخر المحدثین نمبر' میں مولانا سید ارشد مدنی اور مولانا حسین احمد گیاوی کی سن فراغت 1383ھ لکھی ہوئی دیکھی، جس کے مطابق 1964ء سن فراغت بنتا ہے اور مولانا سید ارشد مدنی صاحب (متولد: 1360ھ م 1941ء) کے حالات زندگی لکھنے والوں نے سن فراغت 1382ء م 1963ء لکھا ہے) مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم العالیہ ان کے شریک دورۂ حدیث ہیں تو مولانا مدنی کے دورۂ حدیث کے اساتذہ عارف گیاوی کے بھی اساتذہ رہے ہوں گے اور یہاں بندہ نے انھیں اساتذہ کے نام لکھنے پر اکتفا کیا ہے، جو میں نے نانا جان (عارف گیاوی) سے سنے تھے یا جن کا ذکر ان کی خود نوشت ڈائری میں ملا۔

 
دار العلوم دیوبند میں ان کے مخصوص اساتذہ
     انھوں نے دار العلوم دیوبند میں صحیح البخاری فخر المحدثین مولانا سید فخر الدین احمد مرادآبادیؒ (متوفی: 1392ھ م 1972ء) سے پڑھی، ہدایہ؛ خطیب الاسلام مولانا محمد سالم قاسمیؒ (متولد: 1343ھ م 1926ء - متوفی: 1439ھ م 2018ء)، سابق مہتمم دار العلوم وقف دیوبند سے پڑھی، امام المعقول و المنقول علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ ان کے خاص استاذ تھے، جن سے موصوف نے جامع ترمذی پڑھی، موصوف اکثر علامہؒ کی خدمت میں رہا کرتے تھے۔ قاری حفظ الرحمٰن صاحب (متوفی: 1388ھ م 1969ء)، صدر القراء دار العلوم دیوبند بھی ان کے استاذ تھے اور ہزاروں کے بڑے مجمع میں بھی ان سے تلاوت کرواتے تھے۔

دیوبند کے زمانۂ طالب علمی میں امامت
    عارف گیاوی دیوبند کے زمانۂ طالبِ علمی ہی میں علامہ بلیاویؒ کے محلہ کی ”کمال شاہ مسجد“، محلہ بَڑ ضیاءالحق، دیوبند میں امامت بھی کرتے تھے۔

 تدریس و امامت
     عارف گیاویؒ نے فراغت کے بعد مدرسہ جامعہ اسلامیہ برنپور (ضلع آسنسول، مغربی بنگال) سے تدریس شروع کیا، تین سال وہاں مدرس رہے، پھر قاری صاحب نے انھیں مدرسہ قاسمیہ (گیا، بہار) بلالیا اور ترجمہ کلام پاک، مختصر المعانی، شرح وقایہ اور نفحۃ العرب کی تدریس ان کے ذمے کردی۔ آپ نے مذکورۂ بالا مدرسوں کے علاوہ ڈالٹین گنج (ضلع پلاموں، جھارکھنڈ)  میں بھی امامت وتدریس کے فرائض انجام دیے، جب وہ مدرسہ قاسمیہ، گیا میں مدرس تھے تو اس وقت وہاں جمعیت علمائے ہند (میم) کے سابق صدر حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوریؒ بھی مدرس تھے۔

جامع مسجد، ساکچی میں تقرری
     1983ء میں اہل ساکچی کے؛ قابل امام و خطیب کی طلب پر قاری فخر الدین گیاویؒ نے موصوف و مرحوم کو جامع مسجد، ساکچی، جمشیدپور کا امام وخطیب بناکر بھیجا تھا، آپ نے اس وقت سے 2010ء تک وہاں پر 27 سال امامت وخطابت کے فرائض انجام دیے، بالآخر ضعف کی بنا پر فرائض امامت سے سبکدوش ہوکر جمشید پور سے قریب ایک قصبہ ہلدی پوکھر، ضلع مشرقی سنگھ بھوم میں منتقل ہو گئے۔

بیعت و ارشاد
   1965ء میں مدرسہ قاسمیہ کی تدریس ہی کے زمانے میں قاری فخر الدین صاحب کے حکم سے فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنیؒ (متولد: 27 اپریل 1928ء - متوفی: 6 فروری 2006ء) سے بیعت ہوئے، قاری فخر الدین گیاوی سے بھی سلوک میں سبق لیتے رہے، اس کے بعد فدائے ملت نے انھیں مولانا محمد ازہر قاسمی رانچیؒ (متولد: 7 جولائی 1924ء - متوفی: 13 مئی 2017ء)، سابق رکن شوریٰ دار العلوم دیوبند سے منسلک کر دیا، بعد میں مولانا ازہر رانچوی نے فدائے ملت کے حکم سے، عارف گیاوی کو اجازت بیعت مرحمت فرمائی۔ 

اوصاف و کمالات
     وہ حافظ و قاری قرآن تھے، پندرہ سال کی عمر سے پچاس سال کی عمر تک پینتیس سال تک انھوں نے تراویح میں ختم قرآن کیا۔ وہ فرائضِ امامت کی انجام دہی میں وقت کے بڑے پابند تھے، کثرت سے ذکر اللّٰہ کیا کرتے تھے، بندہ نے بھی بارہا دیکھا کہ تکلیف کی حالت میں بھی ہاتھ میں تسبیح لیے ذکر اللّٰہ کرتے رہتے تھے، نیز خوش مزاج، خوش طبع اور بذلہ سنج تھے، ہمیشہ دوسروں کی خوبیوں کو دیکھ کر سراہتے، حوصلہ افزائی فرماتے تھے اور بسا اوقات انعامات سے بھی نوازتے تھے، نیز اگر وہ کسی کے اندر بد سلیقگی یا کوئی اخلاقی و معاشرتی خامی دیکھتے تو فوراً اسے آگاہ و متنبہ فرما دیتے تھے۔ ملنسار تھے، جس سے بھی ملتے، وہ ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔ اسی طرح بہت اچھے مقرر بھی تھے، جیساکہ ان کے حالات زندگی پڑھ کر معلوم ہوا۔

 شاعری
     حسین احمد قاسمی ایک کہنہ مشق شاعر بھی تھے، عارف گیاوی تخلص فرماتے تھے، شاعری میں نعت گوئی ان کا خاص میدان تھا۔

  نمونۂ کلام کے طور پر ان کا یہ غیر منقوط نعتیہ کلام ملاحظہ ہو:

رہے سَر کو ہر دم ہوائے محمد
ملے دردِ دل کو دوائے محمد

دو عالم کی حرص وہوس سے الگ ہے
ہے آسودہ ہر دم گدائے محمد

ہے اسلام اللہ کی راہِ محکم
اُصولِ مکمَّل کو لائے محمد

الٰہی! ملے کالی کملی کا ٹکڑا
مرے کام آئے رِدائے محمد

ہے درسِ محمد کہ اللہ ہے واحد
سدا آرہی ہے صدائے محمد

کلامِ الٰہی، اور اسلام لائے
عطائے الٰہی، عطائے محمد

رہائی ملے ہم کو درد و الم سے
مِرے کام آئے لِوائے محمد

سرِ لَوح وکرسی رَسائی ہوئی ہے
رسولوں کے سردار آئے محمد

سرور وسکوں دل کو حاصل ہوا ہے
حرم سے ہے آئی ہوائے محمد

ہمہ دم، ہر اک لمحہ رحم وکرم ہے
عدو کے ليے ہے دعائے محمد

محمد کا اُسوہ عمل ہو ہمارا
الٰہی! عطا کر ادائے محمد

ہر اِک لَمحہ دل سے کرو  وِرد، اَحمدؔ!
درودے محمد سلامے محمد


مجموعۂ کلام
     ان کا اِک مجموعۂ کلام نعتِ محمدی صلى اللّٰہ عليہ وسلم کے نام سے شائع ہوچکا ہے اور دوسرا مجموعۂ کلام ''اَفرادِ عارف گیاوی: ایک شعر، ایک مضمون'' کے نام سے زیرِ طباعت ہے، اور امید ہے کہ ان کی ذاتی خود نوشت سوانح بھی ترتیب کے مرحلہ سے گزرکر جلد شائع ہو۔

 
پسماندگان 
    پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین فرزندان ہیں: (1)  مفتی محمد اعظم ندوی، استاذ المعھد العالی الاسلامی حیدرآباد، (2) مولانا محمد زاہد حسین ندوی، امام و خطیب  محمدی مسجد، ہلدی پوکھر، مشرقی سنگھ بھوم، جھارکھنڈ و خلیفہ مولانا سید عبد اللّٰہ حسنی ندوی رحمہ اللّٰہ، (3) مفتی محمد خالد ندوی قاسمی۔ نیز تین بیٹیاں بھی ہیں ۔
 
وفات
   عارف گیاوی کا انتقال؛ 2 رجب 1441ھ مطابق 26 فروری سن 2020ء، رات 10 بجے، قبلہ رخ کلمہ پڑھتے ہوئے ہوا، انتقال کے وقت مرحوم کی عمر شمسی سال کے لحاظ سے 79 سال تھی، نمازِ جنازہ 27 فروری کو نمازِ عصر کے بعد آم بگان مسجد، ساکچی، جمشید پور کے میدان میں ادا کی گئی تھی، نمازِ جنازہ مرحوم کے بڑے صاحب زادہ مفتی محمد اعظم صاحب ندوی، استاذ المعہد العالی الاسلامی، حیدرآباد نے پڑھائی تھی، اور آپ کی وصیت کے مطابق؛ ساکچی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، جنازہ میں شہر کے اعزہ و احباب، اور محبین و متعلقین بڑی تعداد میں شریک ہوئے، اور اہلِ خانہ سے تعزیت کی (بندہ اور مولانا عبد الرحمن؛ دوری کی وجہ سے جنازہ میں شریک نہ ہوسکے، بندہ دیوبند میں تھا اور عبد الرحمٰن لندن میں)؛ بطورِ خاص مولانا مرحوم کے بڑے سمدھی مولانا قاری سید معین الدین قاسمی گیاوی، سابق صدر جمعیۃ علماء بہار، مرحوم کے بڑے ہم زُلف قاری محمد یعقوب فریدی، استاذ مدرسہ اسلامیہ عربیہ برنپور، آسنسول اور مولانا محمد صاحب قاسمی، مہتمم مدرسہ حسینیہ، کڈرو، رانچی اور راقم الحروف کے والد قاری محمد نور الامین صدیقی، مہتمم دار العلوم حسینیہ، مدنی نگر، چڑئی بھول، ضلع میور بھنج (اڈیشا)، مرحوم کے چھوٹے داماد جناب امیر حسن کلکتوی، مرحوم کے نواسی داماد مولانا عبد الرشید خان مظاہری (استاذ مدرسہ حسینیہ، مانگو، جمشید پور) اور دوسرے نواسی داماد حافظ مولوی محمد حسن میوربھنجی استاذ دار العلوم حسینہ مدنی نگر، چڑئی بھول وغیرہم نے جنازہ و تدفین میں شرکت فرما کر تعزیتِ مسنونہ پیش فرمائی۔

  اللّٰہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے اور ہمیں بھی ان کی طرح حق گو، متبع سنت اور ان سے کمالات عطا فرمائے۔ آمین

بدھ، 2 فروری، 2022

ابو الحیا مولانا قاری محمد فخر الدین فخرؔ گیاویؒ: حیات و خدمات

ابو الحیا مولانا قاری محمد فخر الدین فخرؔ گیاویؒ: حیات و خدمات

محمد روح الامین میُوربھنجی

        ابو الحیا مولانا قاری محمد فخر الدین فخر گیاوی صوبہ بہار کے مشہور و مقبول فضلائے دار العلوم دیوبند میں سے تھے، شیخ الاسلام حضرت مدنی کے اجل خلفاء میں سے تھے، انھوں نے تقریباً نصف صدی تک تدریس اور انتظام مدرسہ کے فرائض انجام دیے، مدرسہ قاسمیہ رنگون کے بانی تھے، ایک بہترین نعت گو شاعر اور نثر نگار تھے، اسم با مسمی تھے؛ گویا دین و اہل دین کے لیے سراپا قابلِ فخر تھے، جمعیت علمائے ہند کا مشہور ترانہ ”یہ لہراتا نظر آتا ہے حزب اللّٰہ کا جھنڈا“ انھیں کا ادبی شاہکار ہے۔ بندہ نے بھی ان سے متعلق بکھری باتوں کو یکجا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے متعلق کئی لوگوں نے لکھا ہے، مولانا سید احمد اللّٰہ ندوی نے ”تذکرہ مسلم شعرائے بہار (حصہ سوم)“ میں، مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی نے ”تذکرہ علمائے بہار (جلد اول)“ میں ان کا مختصر سوانحی خاکہ پیش کیا ہے، ڈاکٹر فرحانہ شاہین نے ”بہار میں اردو کی نعتیہ شاعری کا تنقیدی مطالعہ“ میں ان کا سوانحی تذکرہ کرتے ہوئے مزید ان کے اسلوب و طرزِ کلام پر روشنی ڈالی ہے، اس کے علاوہ مولانا کے چہیتے شاگرد، بھانجی داماد اور بندہ کے نانا جان مولانا سید حسین احمد عارف ؔ گیاوی (سابق امام و خطیب جامع مسجد، ساکچی، جمشید پور، جھارکھنڈ) نے بھی ان کی تعلیمی و تدریسی خدمات اور حالاتِ زندگی ایک خاص حد تک جمع کر دیے ہیں، جو مولانا موصوف و مرحوم کی مطبوعہ تصنیف ”درس حیات“ کے آغاز میں شامل ہے، ان کے علاوہ میرے محدود علم کے مطابق ”ماہنامہ دار العلوم دیوبند“ (رجب المرجب 1408ھ مطابق مارچ 1988ء کے شمارے) میں اور ”ماہنامہ الفرقان، لکھنؤ“ (شعبان المعظم 1408ھ مطابق اپریل 1988ء کے شمارے) میں ان کی وفات و خدمات کا مختصر ذکر ملتا ہے۔ مولانا عبد الباری قاسمی سمستی پوری، سابق ریسرچ اسکالر دہلی یونیورسٹی نے اپنے مضمون ’’ابو الحیا حضرت مولانا قاری فخرالدین فخرؔ گیاویؒ‘‘ میں (جو انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے) فخر گیاوی کی حیات و خدمات کا ذکر کرتے ہوئے ان کے دار العلوم دیوبند کے زمانۂ طالب علمی کی کئی نایاب باتیں بیان کی ہیں۔ ان کے علاوہ روزنامہ الجمعیۃ میں ضرور ان کے بارے میں کچھ نہ کچھ آیا ہوگا، جو بندہ کو دستیاب نہ ہو سکا؛ کیوں کہ ہفت روزہ الجمعیۃ، جو پہلے روزنامہ تھا، اس کے شمارے مشکل سے ملتے ہیں، شاید دفتر جمعیت علمائے ہند میں موجود ہوں۔

                ابتدائی و تعلیمی زندگی
نام اور ولادت
       ان کا پیدائشی نام محمد فخر الدین، کنیت ابو الحیا، تاریخی نام ظفیر عالم اور تخلص فخر ؔ تھا۔ ان کی ولادت 1331ھ مطابق 1912ء کو صوبہ بہار اڑیسہ (موجودہ صوبہ بہار) میں ان کے نانا مولانا عبد الغفار سرحدی گیاوی کے گھر، محلہ باٹم برج، مولانا عبد الغفار لائن، شہرِ گیا میں ہوئی تھی۔ ان کے والد مولانا محمد خیر الدین گیاوی (متوفی: 1947ء، سنہ فراغت 1309ھ)؛ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کے شاگرد، مولانا سید حسین احمد مدنی کے برادرِ بزرگ مولانا صدیق احمد فیض آبادی کے شریکِ دورۂ حدیث اور مفتیِ دار العلوم دیوبند مفتی محمد سہول عثمانی بھاگلپوری، مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد اور ان جیسی کئی شخصیات کے استاذ تھے۔

تعلیم و تربیت
     ان کی تعلیم کی ابتدا پانچ سال کی عمر میں ہوئی، سات سال کی عمر میں حفظ قرآن شروع کیا اور بارہ سال کی عمر میں حافظ قرآن ہوئے، ان کے حفظ قرآن کے اساتذہ میں قاری ارادۃ الحق، قاری عبد القدوس اور مولانا قاری فرید الدین شامل تھے۔
      حفظ کے بعد فارسی میں گلستانِ سعدی تک کی کتابیں گھر پر اپنے والد ہی سے پڑھیں، پھر مدرسہ فرقانیہ لکھنؤ جاکر ایک سال قاری عبد المالک صدیقی علی گڑھی سے قراءت حفص کی تعلیم حاصل کی (دستار بندی قاری عبد المالک کے استاذ قاری عبد الرحمن الٰہ آبادی ثم مکی کے دست مبارک سے ہوئی تھی) اور وہیں پر درس نظامی کی شرح ماۃ عامل تک کی کتابیں بھی پڑھیں۔
     پھر گھر آکر اپنے والد سے ہی ہدایۃ النحو وغیرہ کتابیں پڑھیں، پھر قاری عبد المالک صدیقی کے پاس (جو اس وقت مدرسہ فرقانیہ لکھنؤ سے مدرسہ فرقانیہ ٹونک منتقل ہو گئے تھے) ٹونک، راجستھان گئے اور وہیں پر مزید مشقِ قرات کی اور شرحِ جامی تک کی کتابیں بھی پڑھیں۔
  پھر گھر آکر اپنے والد سے تیسری بار شرح جامی، دوسری بار قدوری، سراجی اور شرح تہذیب پڑھی۔
    پھر دوبارہ لکھنؤ جاکر دو سال میں قراءاتِ سبعہ کی تکمیل کی، لکھنؤ سے واپسی پر والد سے عربی پڑھنا شروع کیا، پر والد کی ناسازی طبیعت کی بنا پر یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا، پھر مدرسہ حمیدیہ قلعہ گھاٹ، دربھنگہ میں چند دنوں رہ کر مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور چلے گئے اور ایک سال وہاں رہ کر مولانا صدیق احمد کشمیری، مولانا عبد الشکور کامل پوری اور مولانا جمیل احمد تھانوی جیسے اساتذہ سے فیض یاب ہوئے۔

دار العلوم دیوبند میں داخلہ اور فراغت

شوال 1352ھ مطابق جنوری 1934ء میں دار العلوم دیوبند میں ان کا داخلہ ہوا اور پانچ سال وہاں رہ کر 1357ھ مطابق 1938ء میں دورۂ حدیث شریف سے فارغ التحصیل ہوئے۔ ان کے اساتذۂ دار العلوم میں شیخ الاسلام مولانا سید حسین مدنی، شیخ الادب مولانا محمد اعزاز علی امروہوی، علامہ محمد ابراہیم بلیاوی، مولانا سید اصغر حسین دیوبندی، مولانا عبد السمیع دیوبندی، مفتی محمد شفیع عثمانی دیوبندی، مولانا شمس الحق سرحدی، مفتی ریاض الدین بجنوری، مولانا ظہور احمد دیوبندی، مولانا محمد جلیل علوی کیرانوی، مولانا عبد الحق (معروف بہ: نافع گل پشاوری) رحمہم اللّٰہ شامل تھے۔

ماہنامہ البیان کا اجرا

   ’’انجمن اصلاح البیان ‘‘ (موجودہ نام: بزم سجاد) صوبجات بہار، اڑیسہ، جھارکھنڈ، نیپال کی محبوب انجمن ہے، جسے فخر گیاوی کے دار العلوم میں داخلہ سے چھ سال پہلے امیر شریعت رابع مولانا سید منت اللّٰہ رحمانی نے قائم کیا تھا، اس وقت مذکورۂ بالا صوبوں کے تمام طلبہ بزم سجاد سے منسلک رہتے تھے، فخر گیاوی بھی دیگر طلبہ کی طرح بزم سجاد سے جڑے اور کچھ ہی عرصہ میں اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر قائدانہ کردار ادا کرنے لگے، اس وقت تک بزم سجاد کی جانب سے کوئی تحریری شمارہ شائع نہیں ہوتا تھا، باذوق طلبہ انفرادی طور پر تحریری مشق کیا کرتے تھے، فخر گیاوی نے اس بات کومحسوس کرتے ہوئے اس کمی کے ازالے کے مقصد سے طلبہ کے اندر تحریری ذوق پیدا کرنے، ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور ان کے ذوقِ تحریر میں مزید نکھار پیدا کرنے کے لیے اگلے ہی سال ’’البیان‘‘کے نام سے ایک ماہنامہ کا اجرا کیا اور جمادی الاولی 1353ھ میں اس کا پہلا شمارہ اپنی ادارت میں شائع کیا اور چار سال اس کے مدیر رہے، فخر گیاوی کو اس مقصد میں خاصی حد تک کامیابی بھی ملی، طلبۂ دار العلوم میں تحریر و زبان کا ایک خاص مزاج و مذاق پیدا ہونے لگا اور طلبہ کی ایک بڑی تعداد اس تحریک میں شامل ہوگئی، جن لوگوں نے اس تحریک سے متاثر ہو کر فن تحریر میں ایک خاص کمال پیدا کیا، ان میں سلیمان آسیؔ مظفر پوری، شمس الحق شمس ؔ مظفر پوری، صغیر احمد قاسمی، قمر ؔ بہاری، ازہر مونگیری، صداقت حسین چمپارنی، عبد الحنان گیاوی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس کے بعد سے اب تک ہزاروں شہسواران قلم اس بزم سے تیار ہوکر چہار دانگ عالم میں پھیلے ہوئے دینی و سماجی خدمات انجام دے چکے اور دے رہے ہیں۔

              تدریسی و انتظامی زندگی

دار العلوم تاموے، رنگون (برما) میں
     سہارنپور و دیوبند کے دور طالب علمی ہی میں موصوف ایک قاری قرآن کی حیثیت سے مشہور ہو چکے تھے۔ چناں چہ دار العلوم کی طالب علمی کے زمانے میں ہی مولانا محمود سورتی، مہتمم دار العلوم تاموے، کیمبل روڈ، رنگون نے اپنے مدرسے کی تدریس کے لیے انھیں باصرار پیشگی دعوت دے دی تھی تو فراغت کے بعد فخر گیاوی رنگون تشریف لے گئے اور ایک سال اس مدرسے میں مدرس رہے۔

جامعہ قاسمیہ رنگون کا قیام

   ایک سال دار العلوم تاموے میں مدرس رہنے کے بعد شوال 1358ھ مطابق اواخرِ نومبر یا اوائلِ دسمبر 1939ء میں اپنے شیخ مولانا مدنی کی دعا اور مولانا اعزاز علی امروہوی کے مشورے سے رنگون ہی میں ''جامعہ قاسمیہ'' کے نام سے ایک مدرسے کی بنیاد رکھی اور دو سال تک اس مدرسے کو پروان چڑھایا اور شرح جامی تک کی تعلیم ہونے لگی؛ لیکن منشائے الٰہی سمجھیں کہ دوسری عالمی جنگ کے موقع پر جاپان کی رنگون پر بمباری سے قبل ہی اپنے والد اور شیخ کے حکم سے رنگون سے ہندوستان چل دیے اور ابھی کلکتہ ہی پہنچے تھے کہ رنگون پر بمباری کی خبر آ پہنچی۔

مدرسہ قاسمیہ اسلامیہ، گیا کے اہتمام کی ذمے داری
       رنگون سے واپسی کے بعد اپنے شیخ مولانا مدنی کے مشورہ و دعا اور اپنے والد کے حکم سے مدرسہ قاسمیہ اسلامیہ، گیا کے انتظام و اہتمام کی ذمے داری سنبھالی، ان کے دور اہتمام میں اس مدرسے نے خوب ترقی و شہرت حاصل کی، 1941ء سے اپنی وفات 1988ء تک تقریباً 47 سال اس ادارے کے مہتمم رہے، آج اس مدرسے کی تقریباً 100 شاخیں ہیں۔
     یہ ادارہ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی کا منظور نظر تھا۔ مولانا سید ارشد مدنی اور مولانا قاری محمد عثمان منصور پوری بھی اس مدرسے میں تدریسی خدمات انجام دے چکے ہیں۔

بعض مشہور تلامذہ
    ان کے مشہور تلامذہ میں ان کے فرزندِ اکبر مولانا محی الدین گیاوی، فرزندِ اصغر مولانا قاری معین الدین قاسمی گیاوی، قاری عبد الرحیم بانکوی، حافظ میکائیل بانکوی، حافظ محسن صاحب، مولانا سید شمیم الحق گیاوی، مولانا سید قسیم الحق قسیم ؔ گیاوی، قاری سید محمد یعقوب فریدی سمستی پوری، مولانا قاری سید حسین احمد عارف ؔ گیاوی وغیرہم بھی شامل تھے۔ اِن کے علاوہ فخر گیاوی کے مشہور و غیر مشہور تلامذہ کی ایک کثیر تعداد ہے۔ (اب تک بندہ کو جو علم ہوا، وہ لکھ دیا ہے، بے شک ان کے علاوہ مشہور تلامذہ کی کثیر تعداد ہوگی )
                     بیعت و خلافت
    زمانۂ طالب علمی ہی میں مولانا بشارت کریم گڑھولوی سے متاثر اور ان کے معتقد تھے، مولانا گیاوی کو ان سے بہت دعائیں بھی ملتی تھیں؛ لیکن فراغت سے پہلے ہی مولانا گڑھولوی (1294ھ م 1877ء - 1354ھ م 1935ء) کا انتقال ہو گیا، پھر مولانا گیاوی؛ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی (1296ھ م 1879ء - 1377ھ م 1957ء) رحمۃ اللّٰہ علیہ سے بیعت ہوئے اور انھیں کے ہو کر رہ گئے، ان کے منظور نظر اور ان کے اجل خلفاء میں سے ہوئے۔
                       شاعری
    فخر گیاوی ایک کہنہ مشق، قادر الکلام اور فی البدیہ اشعار کہنے والے شاعر تھے۔ ان کے اندر بچپن ہی سے شاعری کا ذوق اور خداداد صلاحیت موجزن تھی، زمانۂ طالب علمی ہی میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ ابتدا میں تبسم ؔ تخلص کرتے تھے، پھر مستقل تخلص فخر ؔ اختیار کیا۔ وہ عربی، فارسی اور اردو؛ تینوں زبانوں میں شعر کہتے تھے، شاعری میں ان کے خاص استاذ رسا ؔ ہمدانی گیاوی (متوفی: 1948ء) تھے۔ بسمل ؔ سنسہاروی (متوفی: 1964ء) سے بھی مشورۂ سخن لیا، نیز انھوں نے دار العلوم دیوبند کے زمانۂ طالب علمی میں اردو فارسی میں مبلغ دار العلوم دیوبند ابو الوفا عارف ؔ شاہ جہاں پوری (1901ء - 1980ء) سے اور عربی شاعری میں شیخ الادب مولانا محمد اعزاز علی امروہی (1299ھ م 1882ء - 1374ھ م 1955ء) سے بھی اصلاح لی۔
              تصانیف و قلمی خدمات
     فخر گیاوی کی مطبوعہ تصانیف چار ہیں:
(1) درس حیات: جس میں انھوں نے مولانا عبد الغفار سرحدی گیاوی، مولانا بشارت کریم گڑھولوی اور مولانا محمد خیر الدین گیاوی رحہم اللّٰہ کی تفصیلی سوانح حیات جمع کی ہیں۔ جس کا دوسرا ایڈیشن 1431ھ مطابق 2010ء میں فخر گیاوی کی بہن کے نواسے اور پوتی داماد مفتی محمد اعظم ندوی (استاذ المعھد العالی الاسلامی، حیدرآباد) کی نظر ثانی اور حالاتِ مصنف کے مزید اضافے کے ساتھ شائع ہوا۔
(2) نورِ ایمان: یہ فخر گیاوی کی حمدیہ، نعتیہ، اصلاحی اور اسلامی نظموں کا مجموعہ ہے، جو خاصا مقبول ہوا۔
(3) نوائے درد: یہ مولانا بشارت کریم گڑھولوی کی رحلت پر کہے گئے اشعار کا مجموعہ ہے۔
(4) نذر عقیدت: یہ ان کے پیر و مرشد شیخ الاسلام مولانا مدنی کی شان میں کہے گئے اشعار کا مجموعہ ہے۔ نیز جیسا کہ اوپر آچکا ہے کہ جمعیت علمائے ہند کا مشہور ترانہ ’’یہ لہراتا نظر آتا ہے حزب اللّٰہ کا جھنڈا‘‘ انھیں کے قلم سے نکلا ہوا ادبی شاہکار ہے۔

                  وفات اور پسماندگان
       فخر گیاوی کی وفات چند دنوں کی علالت کے بعد 2 جمادی الاخری 1408ھ مطابق 9 فروری 1988ء کو گیا میں ہوئی، خانوادۂ مدنی سے ان کے والہانہ تعلقات اور خانوادۂ مدنی کے نزدیک ان کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی رحمۃ اللّٰہ علیہ قاری صاحب کے مرض الوفات کے وقت بہار اور موجودہ جھارکھنڈ کے سفر پر تھے، عیادت کے لیے تشریف لائے اور انھیں کی عیادت کے لیے تشریف آوری کے موقع پر قاری صاحب کی روح پرواز ہوئی اور نماز جنازہ اگلے دن فدائے ملت نے پڑھائی اور شہر گیا کے کریم گنج قبرستان میں تدفین عمل میں آئی (جیسا کہ قاری صاحب کے شاگرد رشید حافظ و قاری یعقوب صاحب فریدی کا بیان ہے۔)
       پس ماندگان میں دو بیٹے تھے: (1) مولانا محی الدین قاسمی گیاوی، (2) مولانا قاری معین الدین قاسمی گیاوی، سابق صدر جمعیت علمائے بہار (الف) و سابق مہتمم مدرسہ قاسمیہ اسلامیہ گیا (دونوں وفات پا چکے ہیں) اور دو بیٹیاں ہیں، جن میں سے ایک مولانا سید محمد ادریس سالم کٹکی سے منسوب ہیں اور دوسری؛ مولانا قاری حسان احمد پٹنوی ثم مکی، خلیفہ و مجاز شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی سے منسوب ہیں۔

     اللّٰہ تعالیٰ مرحوم اور ان کے عالی مقام خانوادہ کی مغفرت فرمائے اور ہمیں بھی ان کی صفات و اخلاق کا حصۂ وافر عطا فرمائے۔ آمین

مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ

مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ محمد روح الامین میوربھنجی       مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی سرزمینِ بہا...