اتوار، 10 دسمبر، 2023

مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ

مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ


محمد روح الامین میوربھنجی

      مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی سرزمینِ بہار کے ضلع دربھنگہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ایک عالم دین و مفتی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین نقاد، سوانح نگار، تذکرہ نویس، خاکہ نگار، مقالہ نگار اور مصنف بھی ہیں اور 1999ء سے کتب درس نظامی کی تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں، گریڈ کے لحاظ سے وسطی ب کے مدرس ہیں، عربی زبان اور بلاغت کے علاوہ ہدایہ ثانی، ترجمہ قرآن مجید اور حدیث کی کتاب الفیۃ الحدیث کا درس بھی دیتے ہیں۔ ذیل میں ان کا سوانحی خاکہ قارئین کے پیش خدمت ہے۔

      ولادت
    مولانا کی پیدائش؛ ان کے نانیہال جھمٹا ضلع سہرسہ بہار میں ہوئی۔ دستاویز کے مطابق تاریخ ولادت 7 جنوری 1978ء ہے؛ لیکن خاندان کی بزرگ خواتین کی صراحت کے مطابق مارچ سنہ 1974ء میں ان کی پیدائش ہوئی۔ والد صاحب کا نام انوار احمد اور گھرانہ شیخ صدیقی ہے۔ آبائی گاؤں جھگڑُوا، کرت پور بلاک، ضلع دربھنگہ، بہار ہے۔

     تعلیم و تربیت 
   انھوں نے ابتدائی تعلیم؛ اپنے والدین کے پاس پھر جناب ماسٹر عالم گیر صاحب کے پاس مکتب میں جماعت بندی کے بغیر دینیات، اردو، ہندی اور ابتدائی فارسی (فارسی کی پہلی) کی تعلیم حاصل کی۔

    پھر 1983ء تا 1986ء مدرسہ معارف العلوم جھگڑوا میں مولانا عمر فاروق شمسی، مولانا محمد طیب قاسمی اور ماسٹر شبیر احمد وغیرہ کے پاس فارسی کی دوسری، آمد نامہ، منہاج العربیہ اور سال کی قید و بند کے بغیر آزادانہ طور پر اسکول کی چھٹی جماعت تک کی کتابیں پڑھیں۔

   پھر 1986ء تا 1988ء مدرسہ فلاح المسلمین، بکرم، پٹنہ میں مولانا محمد سہیل احمد قاسمی، مولانا غیاث الدین احمد قاسمی، مولانا اظہار عالم قاسمی، حافظ محمود، مولانا ابو اللیث اور مولانا عبد القدوس وغیرہ کے پاس؛ فارسی، ہدایۃ النحو کا کچھ حصہ اور بہار بورڈ کی تحتانیہ و سلطانیہ چہارم تک کی تعلیم حاصل کی۔

    پھر 1989ء تا 1991ء مدرسہ قاسم العلوم، منگراواں، ضلع اعظم گڑھ (یو، پی) میں مفتی عبد القادر بستوی، مولانا سہیل احمد قاسمی مبارک پوری، مولانا قمر الزماں قاسمی مبارک پوری اور مولانا محمد عارف ولید پوری وغیرہ کے پاس؛ اول، دوم اور سوم عربی پڑھی اور الٰہ آباد بورڈ سے مولوی کا امتحان دیا۔

    پھر 1992ء تا 1995ء مدرسہ ریاض العلوم، گورینی، ضلع جونپور (یو، پی) میں حضرت مولانا عبد الحلیم جونپوری، مولانا محمد ارشاد بھاگلپوری، مولانا محمد جمیل، مولانا عبد اللّٰہ بستوی، مولانا اکرام اللّٰہ، مولانا عبد العظیم ندوی، مولانا سعادت علی الٰہ آبادی اور مفتی محمد حنیف جیسے اساتذہ کے پاس؛ چہارم، پنجم، ششم (موقوف علیہ)  تک کی تعلیم حاصل کی اور قاری محمد شمیم صاحب سے اوقات درس میں قراءتِ حفص اور خارج میں قراءت سبعہ کی شاطبیہ پڑھی اور سبعہ میں اجراء بھی کیا، نیز مولانا عبد الحلیم صاحب سے قصیدۂ بردہ اور ہدایت الاذکیاء پڑھی۔

     تعلیم سے فراغت
   1996ء میں دار العلوم دیوبند سے دورۂ حدیث سے سوم پوزیشن کے ساتھ فارغ ہوئے، 1997ء میں وہیں سے افتاء، 1998ء تا 1999ء میں دو سال تدریبِ افتاء کیا اور اسی دوران خارج اوقات میں مسلم فنڈ دیوبند، اندرا اکیڈمی دیوبند، پھر دار العلوم کے شعبۂ کمپیوٹر میں اولین طلبہ کے درمیان؛ اردو، عربی و انگریزی کی ٹائپ رائٹنگ بھی سیکھی۔

    دار العلوم دیوبند میں ان کے اساتذہ
 مولانا نے شیخ نصیر احمد خان بلند شہری سے صحیح بخاری جلد اول، شیخ عبد الحق اعظمی سے صحیح بخاری جلد ثانی، مولانا نعمت اللّٰہ اعظمی سے صحیح مسلم جلد اول و سنن ابی داؤد جلد ثانی، مولانا قمر الدین احمد گورکھپوری سے صحیح مسلم جلد ثانی و سنن ابی داؤد جلد اول، اپنے خاص مربی حضرت مفتی سعید احمد پالن پوری سے جامع ترمذی جلد اول و طحاوی شریف، مولانا سید محمد ارشد مدنی سے جامع ترمذی جلد ثانی، مولانا عبد الخالق مدراسی سے شمائلِ ترمذی اور مولانا ریاست علی ظفر بجنوری سے سنن ابن ماجہ پڑھی۔ اپنے پیر و مرشد مفتی محمود حسن گنگوہی سے بخاری شریف کتاب الایمان تبرکاً اور سنن نسائی مستقلاً پڑھی، اگلے سال شرح عقود رسم المفتی پڑھی اور ان کے پاس تمرین فتاویٰ بھی کی۔ نیز مولانا حبیب الرحمٰن قاسمی اعظمی سے موطا امام محمد، مولانا قاری عثمان منصور پوری سے موطا امام مالک، مفتی نظام الدین اعظمی سے قواعد الفقہ پڑھی۔ مفتی حبیب الرحمن خیر آبادی سے سراجی، الدر المختار (مقدمہ، کتاب الوقف) پڑھنے کے علاوہ تدریب فی الافتاء کے دونوں سال ان سے تمرین فتاویٰ بھی لی۔ مفتی ظفیر الدین احمد مفتاحی سے الدر المختار (کتاب النکاح، کتاب الطلاق) پڑھی، ان کے پاس افتاء کی تمرین کی اور ان سے فتویٰ نویسی کے اصول و ضوابط بھی سیکھے۔ اس کے علاوہ مفتی محمود حسن بلند شہری کے پاس باضابطہ فتویٰ نویسی کی تمرین کی اور موجودہ صدر مفتی و استاذ حدیث مظاہر علوم سہارنپور مفتی محمد طاہر قاسمی غازی آبادی سے الاشباہ و النظائر پڑھی۔

    بیعت و ارشاد کا تعلق
   افتاء ہی کے سال رسم المفتی کا نصاب مکمل ہونے کے بعد مولانا موصوف مفتی محمود حسن گنگوہی سے بیعت ہوئے تھے، پھر حضرت گنگوہی کی وفات کے بعد مولانا مفتی نظام الدین اعظمی سے مناسبت پاکر انھیں مناسبت کے بارے میں بتایا تو انھوں نے کہا کہ اپنے حالات لکھ کر بتایا کرو؛ مگر چند دنوں بعد ہی ان کا انتقال ہوگیا، پھر مولانا موصوف نے بیعت و ارشاد کا تعلق مولانا مفتی مظفر حسین اجراڑوی کے خلیفہ مفتی سعید احمد پالن پوری صاحب سے کر لیا اور حضرت پالن پوری کی وفات تک انھیں سے منسلک رہے۔ حضرت پالن پوری کے بعد خلیفۂ فقیہ الامت مفتی محمد طاہر قاسمی غازی آبادی صدر مفتی مظاہر علوم سہارنپور کی طرف رجوع کر لیا۔

   دار العلوم دیوبند میں معین مدرسی
  1999ء تا 2000ء دار العلوم دیوبند میں معین مدرس رہے اور اول دوم عربی کی ساری کتابیں یعنی قدوری و کافیہ بحث فعل و حرف تک کی کتابیں ان سے متعلق تھیں۔

    دار العلوم حیدر آباد میں
  انھوں نے 2000ء تا 2008ء دار العلوم حیدر آباد میں مدرس و نائب مفتی کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، جس درمیان اعدادیہ سے ہفتم عربی تک مختصر المعانی، تفسیر جلالین، مشکوٰۃ المصابیح اور افتاء میں الاشباہ و النظائر، رسم المفتی اور سراجی جیسی کتابیں ان سے متعلق تھیں۔

     دار العلوم دیوبند میں تقرر
   1430ھ مطابق 2008ء میں دار العلوم دیوبند میں ان کا تقرر ہوا اور اس وقت سے اب (2023ء) تک اول عربی سے  ششم عربی تک؛ مفتاح العربیہ، ہدایۃ النحو، نور الایضاح، مرقاۃ، قدوری، آسان منطق، کافیہ، شرح تہذیب، قطبی، القراءۃ الواضحۃ حصہ سوم، تعلیم المتعلم، نفحۃ العرب، مشکوٰۃ الآثار، الفیۃ الحدیث، ترجمۂ قرآن (شروع سے سورۃ الحجرات تک)، نور الانوار، ہدایہ اولین، قطبی، دروس البلاغہ، اصول الشاشی اور تسہیل الاصول، مختلف مراحل میں ان کے زیر درس رہی ہیں اور بعض کے اسباق اب بھی ان سے متعلق ہیں۔

       قلمی سرگرمیاں
   مولانا کی قلمی سرگرمیوں میں طرازی شرح اردو سراجی، خاصیاتِ فصولِ اکبری پر تحقیق و تعلیق، مختصر خاصیاتِ ابواب (اردو)، مولانا بستوی کا ذکر جمیل، زیب و زینت کے احکام، کلیاتِ کاشف کی ترتیب، مالا بد منہ کا اردو ترجمہ، مولانا سعید احمد اکبر آبادی کا ذکر جمیل اور تقریباً پانچ غیر مطبوعہ تصانیف بھی شامل ہیں۔ ان کی کتاب طرازی شرح اردو سراجی کا فارسی، پشتو اور بنگلہ ترجمہ میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے۔ نیز سالوں سے وہ ترجمۂ قرآن پر کام کر رہے تھے جو اب زیر طباعت ہے، جس کی چند خصوصیات درج ذیل ہیں: (1) ترجمہ آسان ترین اور جدید اسلوب میں ہے، جسے ادنیٰ اردو پڑھنے والا طبقہ بھی سمجھ سکتا ہے، (2) قدیم ترجموں میں عربی و فارسی کے الفاظ مستعمل ہوتے تھے، ان سے احتراز کیا گیا ہے اور ان کی جگہ آسان ترین متبادل استعمال کیا گیا ہے، (3) اجنبی و علاقائی الفاظ کے استعمال سے گریز کیا گیا ہے، (4) اٹھارہ قابلِ اعتماد اردو ترجموں کو سامنے رکھ کر حرفاً حرفاً ان کا تقابل کر کے آسان ترین الفاظ منتخب کیے گئے ہیں؛ تاکہ ترجمہ اکابر مترجمین کے مطابق رہے یعنی اس طرح ترجمہ کیا گیا ہے کہ ترجمہ ان قدیم ترجموں کے دائرے سے آزاد نہ ہونے پائے، (5) ترجمہ قابل اعتماد آٹھ عربی تفاسیر سے مراجعت اور اطمینان کے بعد کیا گیا ہے۔

      مقالات و مضامین
   رونامہ منصف حیدرآباد، روزنامہ اعتماد حیدرآباد، ماہنامہ حسامی حیدرآباد، ماہنامہ دار العلوم دیوبند، ماہنامہ ترجمانِ دیوبند، آئینۂ دار العلوم دیوبند، فکر و تحریر کلکتہ، سہ ماہی بحث و نظر حیدرآباد، ہماری زبان انجمن ترقی اردو، روزنامہ سہارا انڈیا، المفتاح حیدرآباد، ماہنامہ حضرت عائشہ حیدرآباد، ماہنامہ السعید پرنام بٹ (تمل ناڈو) وغیرہ میں مولانا کے تین سو سے زائد مقالات و مضامین شائع ہو چکے ہیں۔

بعض مشہور و اہم مقالات کا ذکر:
مفتی اعظم مفتی عزیز الرحمن عثمانی - حیات و خدمات
ترانۂ دار العلوم دیوبند کا فنی، فکری اور ادبی مطالعہ
صحابۂ کرام کے سلسلہ میں علمائے دیوبند کا معتدل موقف
حضرت مولانا محمد عثمان معروفی اور فن تاریخ گوئی
کاتبین پیغمبر اعظم صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ایک تعارف
تدوین قرآن مجید - ایک تحقیقی جائزہ
عربی تفسیروں کے اردو ترجمے- تعارف و تجزیہ
نیٹ ورک مارکیٹنگ - اقتصادی اور اسلامی نقطۂ نظر
حضرت مفتی کفیل الرحمن نشاط عثمانی کی غزلیہ شاعری - معاصر ادباء کی نظر میں
اسلام كا نظام سلام و مصافحہ
انقلابِ ماہیت - اسلامی نقطۂ نظر
مدارس میں زکوٰة کی فراہمی اور طریقۂ استعمال

      تحقیقی کارنامے
   آپ نے حیدرآباد کے زمانۂ تدریس ہی میں 2007ء میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (حیدرآباد) سے ایم اے (اردو) کیا، پھر اردو ہی میں 2008 تا 2009ء وہیں سے ایم فِل کیا۔ مقالۂ ایم فِل کا عنوان ”چند منتخب علمائے دیوبند کی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ“ تھا، جو سابق مہتمم دار العلوم دیوبند حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب، سابق مفتی دار العلوم دیوبند مولانا کفیل الرحمن نشاط عثمانی اور استاذ حدیث دار العلوم دیوبند مولانا ریاست علی ظفر بجنوری رحمہم اللّٰہ کی مطبوعہ شاعری کے تجزیاتی مطالعہ پر مشتمل تھا۔

     2012ء میں ڈاکٹر شمس الہدیٰ دریابادی کے زیر نگرانی ”علمائے دیوبند کی سوانح عمریوں کا تنقیدی تجزیہ (آزادی سے قبل)“ کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھنا شروع کیا، 2018ء میں جمع کروایا اور 20 فروری 2020ء میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے سندِ ڈاکٹریٹ ان کے حوالے کی گئی۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لیے جمع کیے گئے ان کے یہ مقالے شائع ہو جائیں تو دو ضخیم کتابیں منظر عام پر آ جائیں۔

    اللّٰہ تعالیٰ صحت و عافیت کے ساتھ مولانا موصوف کی عمر میں برکت عطا فرمائے اور امت مسلمہ کو ان سے خوب مستفید فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین

جمعہ، 1 دسمبر، 2023

استاذ الاساتذہ حضرت مولانا محمد سلمان بجنوری نقشبندی: مختصر سوانحی خاکہ

استاذ الاساتذہ مولانا محمد سلمان بجنوری نقشبندی: مختصر سوانحی خاکہ


محمد روح الامین میُوربھنجی


        دار العلوم دیوبند کے مایۂ ناز استاذ اور اپنے نور و معرفت سے ایک عالَم کو فیضیاب کرنے والے عالم مولانا محمد سلمان بجنوری نقشبندی مدظلہ العالی سے ہر صاحبِ علم و کمال واقف ہوگا، حضرت مولانا تیس سال سے دار العلوم دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں اور 1440ھ سے درجۂ علیا کے استاذ کی حیثیت سے خدمت انجام دے ہیں۔ اسی طرح ربیع الاول 1438ھ مطابق دسمبر 2016ء سے ماہنامہ دار العلوم دیوبند کے مدیر ہیں اور مئی 2022ء سے جمعیۃ علماء ہند (میم) کے نائب صدر ہیں۔ اب مولانا موصوف کا مختصر سوانحی خاکہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔   

         ابتدائی و تعلیمی زندگی

    مولانا موصوف 14 اپریل 1969ء کو قصبۂ سہسپور، ضلع بجنور، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ماجد مولانا سعید احمد قاسمی سہسپوریؒ، امام و خطیب جامع مسجد و عیدگاہ سہسپور و صدر مدرس مدرسہ باب العلوم سہسپور؛ شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کے فیض یافتہ تھے۔

     مولانا موصوف کی تعلیم و تربیت میں ان کے والدِ بزرگوار کے علاوہ ان کی والدۂ ماجدہ کا بھی کردار رہا ہے، اسی کا نتیجہ تھا کہ موصوف محض سات سال اور تین ماہ کی کم عمری میں 14 جولائی 1976ء کو حفظِ قرآن کی دولت سے بہرہ ور ہو چکے تھے۔

     انھوں نے قاعدۂ بغدادی و نورانی قاعدہ، ناظرہ و حفظِ قرآن سے لے کر سالِ اول و دوم عربی کی تمام نصابی کتابوں کی تعلیم اپنے والد محترم کے پاس حاصل کی۔ اس کے بعد سنہ 1401ھ میں ان کے والد نے ان کا داخلہ جامعہ اشرف العلوم رشیدی، گنگوہ میں کروا دیا، ابھی موصوف عربی ششم ہی میں زیر تعلیم تھے کہ 16 شعبان 1405ھ مطابق 7 مئی 1985ء کو سایۂ پدری سے محروم ہو گئے اور اپنے برادر کبیر مولانا محمد سفیان غانم قاسمی سہسپوری مدظلہ، امام و خطیب جامع مسجد و عیدگاہ سہسپور (جو اُسی سال دار العلوم دیوبند سے دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے تھے) کے زیر سرپرستی آ گئے۔ بہر حال موصوف نے جامعہ اشرف العلوم رشیدی میں سالِ سوم عربی سے دورۂ حدیث تک کی تعلیم حاصل کی اور 1407ھ بہ مطابق 1987ء کو دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے۔ ان کے اساتذۂ اشرف العلوم رشیدی میں مولانا قاری شریف احمد گنگوہیؒ (متوفی: 4 مئی 2005ء) بانی و سابق مہتمم جامعہ اشرف العلوم رشیدی، مولانا رئیس الدین بجنوریؒ (متوفی: 4 مارچ 2011ء)، سابق شیخ الحدیث جامعہ اشرف العلوم رشیدی مولانا وسیم احمد سنسارپوریؒ (متوفی: 11 اپریل 2020ء)، صاحبِ ”الحل المرضی“ مولانا محمد انور گنگوہی مدظلہ موجودہ شیخ الحدیث دار العلوم رشیدیہ گنگوہ اور مولانا محمد سلمان گنگوہی مدظلہ استاذ حدیث جامعہ اشرف العلوم رشیدی و مجازِ فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ شامل تھے۔

       گنگوہ کے بعد مولانا موصوف ”نسبت قاسمیہ“ سے منسلک ہونے کے لیے دار العلوم دیوبند تشریف لائے اور وہاں داخلہ لے کر سنہ 1408ھ مطابق 1988ء میں دوبارہ دورۂ حدیث کے اساتذہ سے اکتسابِ فیض کیا اور امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی۔

  ان کے دار العلوم دیوبند کے اساتذۂ دورۂ حدیث کے نام مع اسماۓ کتب درج ذیل ہیں:

صحیح بخاری (جلد اول): شیخ الحدیث مولانا نصیر احمد خان بلند شہریؒ

صحیح بخاری (جلد ثانی): مولانا عبد الحق اعظمیؒ

صحیح مسلم (جلد اول)، سنن ابو داؤد (جلد ثانی)، موطأ امام محمد: بحر العلوم مولانا نعمت اللّٰہ اعظمی

صحیح مسلم (جلد ثانی): علامہ قمر الدین احمد گورکھپوری

سنن ابو داؤد (جلد ثانی)، موطأ امام مالک: مولانا محمد حسین بہاریؒ

جامع ترمذی (جلد اول)، شرح معانی الآثار: مفتی سعید احمد پالن پوریؒ

جامع ترمذی (جلد ثانی): مولانا سید ارشد مدنی

سنن ابن ماجہ: مولانا ریاست علی ظفر بجنوریؒ

سنن نسائی: مولانا زبیر احمد دیوبندیؒ

شمائل ترمذی: مولانا عبد الخالق مدراسی

    دار العلوم دیوبند سے دورۂ حدیث کے بعد شوال 1408ھ کو دار العلوم ہی کے تکمیلِ ادب عربی کے شعبہ میں داخلہ لیا اور دونوں امتحانات میں اول پوزیشن سے کامیابی حاصل کی۔ ان کے تکمیلِ ادب کے اساتذہ میں مولانا معراج الحق دیوبندیؒ، معلمِ عبقری مولانا وحید الزماں کیرانویؒ، مولانا قاری محمد عثمان منصور پوریؒ اور ادیبِ عصر مولانا نور عالم خلیل امینیؒ شامل تھے۔

     مولانا موصوف نے ابتداءً اپنے والد سے، پھر حکیم ننھو میاں سے بہت کچھ سیکھا، پھر دیوبند کے زمانۂ طالب علمی میں حضرت مولانا ریاست علی ظفر بجنوریؒ سے ان کا تقریباً تیس سالہ تعلق رہا، جس درمیان انھوں نے مولانا ریاست علی صاحب سے خوب استفادہ کیا اور ان کے فکر و علم کا اثر مولانا کی شخصیت پر بھی پڑا۔ دیگر وہ شخصیات؛ جن سے مولانا قلبی یا فکری طور پر متاثر ہوئے؛ ان میں فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ، مولانا وحید الزماں کیرانویؒ، فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنیؒ، مولانا محمد منظور نعمانیؒ اور مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ شامل ہیں۔

          تدریسی و عملی زندگی

      دار العلوم دیوبند سے تکمیل ادب عربی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ذی قعدہ 1409ھ مطابق اواخر جون یا اوائل جولائی 1989ء کو دار العلوم ہی میں معین مدرس مقرر ہوئے اور دو سال معین مدرس رہنے کے بعد شوال 1411ھ تا شعبان 1412ھ (مطابق مئی 1991 تا فروری 1992ء) ایک سال مدرسہ فیضِ ہدایت رحیمی، رائے پور میں مدرس رہے۔ پھر شعبان 1412ھ میں مولانا موصوف کا تقرر جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد میں ہوگیا، جہاں انھوں نے شوال 1412ھ تا شعبان 1414ھ (مطابق جون 1992 تا جنوری 1994ء) دو سال تدریسی فرائض انجام دیے۔ اس وقت مدرسہ شاہی میں بَہ طورِ خاص تکمیلِ ادب عربی کا شعبہ ان سے منسلک رہا، ان کی تحریک پر مدرسہ شاہی میں عربی انجمن ”النادی الادبی“ کا قیام عمل میں آیا اور النادی سے نکلنے والے پندرہ روزہ جداریہ ”البلاغ“ کے نگراں بھی تھے۔

      شعبان 1414ھ مطابق فروری 1994ء کو درجۂ علیا کے استاذ کی حیثیت سے دار العلوم دیوبند میں مولانا موصوف کا تقرر عمل میں آیا اور اس وقت سے اب تک تقریباً انتیس سال سے وہاں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں اور فی الحال سنن ابنِ ماجہ، مشکوۃ المصابیح، دیوانِ حماسہ اور سبعہ معلقہ جیسی کتابوں کے اسباق ان سے متعلق ہیں۔

      مئی 2022ء کو مولانا موصوف جمعیت علمائے ہند (میم) کے نائب صدر منتخب ہوئے۔

       ”ماہنامہ دار العلوم“ کی ادارت

      ربیع الاول 1438ھ مطابق دسمبر 2016ء سے مولانا موصوف ماہنامہ دار العلوم دیوبند کے مدیر ہیں اور اس وقت سے بحسن و خوبی یہ ذمے داری انجام دے رہے ہیں۔ ان سے پہلے ماہنامہ دار العلوم کے مدیر ابنِ حجر ثانی مولانا حبیب الرحمن قاسمی اعظمیؒ تھے۔

    ”دار العلوم دیوبند: حالات، خدمات، منصوبے“ کی ترتیب کے علاوہ ذیل میں ان کے زیر ادارت شائع ہونے والے ماہنامہ دار العلوم کے بعض خصوصی نمبر؛ یا ان شماروں کی تفصیلات ہیں، جس میں کسی شخصیت پر ایک سے زائد مضامین موجود ہیں:

• گوشۂ شیخ عبد الحق اعظمی (جلد: 101، شمارہ: 1–2، فروری 2017ء)

• گوشۂ مولانا کفیل احمد علوی (جلد: 101، شمارہ: 4، اپریل 2017ء)

• مولانا ریاست علی ظفر بجنوری نمبر (جلد: 101، شمارہ: 8–9، اگست – ستمبر 2017ء)

• گوشۂ مولانا محمد مصطفیٰ اعظمی (جلد: 102، شمارہ: 2، فروری 2018ء)

• گوشۂ خطیب الاسلام مولانا محمد سالم قاسمی (جلد: 102، شمارہ: 4، اپریل 2018ء)

• مقام و عظمت صحابہ نمبر (جلد: 102، شمارہ: 11–12، نومبر – دسمبر 2018ء)

• گوشۂ شارح ہدایہ مولانا جمیل احمد سکروڈی (جلد: 103، شمارہ: 5–6، مئی – جون 2019ء)

• گوشۂ پیر طریقت مولانا محمد طلحہ کاندھلوی (جلد: 103، شمارہ: 9، ستمبر 2019ء)

• گوشۂ شارح جلالین مولانا محمد جمال میرٹھی (جلد: 103، شمارہ: 10، اکتوبر 2019ء)

• گوشۂ مولانا برہان الدین سنبھلی (جلد: 104، شمارہ: 2 – 3، فروری – مارچ 2020ء)

• گوشۂ مولانا برہان الدین سنبھلی (جلد: 104، شمارہ: 2 – 3، فروری – مارچ 2020ء)

• ذکرِ سعید [مفتی سعید احمد پالن پوری نمبر] (جلد: 104، شمارہ: 6 – 7، جون – جولائی 2020ء)

• ذکرِ سعید [مفتی سعید احمد پالن پوری نمبر] (جلد: 104، شمارہ: 8 – 9، اگست – ستمبر 2020ء)

• مولانا نور عالم خلیل امینی نمبر (جلد: 105، شمارہ: 6 – 7، جون – جولائی 2021ء)

• مولانا حبیب الرحمن ثانی اعظمی نمبر (جلد: 105، شمارہ: 8، اگست 2021ء)

• مولانا حبیب الرحمن ثانی اعظمی نمبر (جلد: 105، شمارہ: 8، اگست 2021ء)

• امیر الہند رابع [قاری محمد عثمان منصور پوری] نمبر (جلد: 105، شمارہ: 9، ستمبر 2021ء)

• گوشہ ہاۓ مولانا عبد الخالق سنبھلی، قاری سید محمد عثمان منصور پوری، مولانا حبیب الرحمن اعظمی، مولانا نور عالم خلیل امینی (جلد: 105، شمارہ: 10، اکتوبر 2021ء)

         بیعت و خلافت

      گنگوہ کے زمانۂ تعلیم میں مولانا موصوف کو نبیرۂ حضرت گنگوہیؒ مولانا حکیم عبد الرشید محمود گنگوہیؒ (معروف بَہ حکیم ننھو میاں) سے خصوصی تعلق اور ان کا بھرپور اعتماد حاصل رہا تھا۔ نیز حکیم صاحب کی علمی مجالس کے حاضر باش بھی رہا کرتے تھے۔ بعد میں اپریل 2011ء کو جب مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی مدظلہ العالی دیوبند تشریف لائے، تو اس وقت ان کا قلبی رجحان پیر صاحب کی طرف ہوا اور وہ پیر صاحب سے منسوب ہوگئے اور ان سے سلوک کے منازل طے کرتے رہے؛ یہاں تک کہ اواخرِ رمضان 1434ھ مطابق اوائلِ اگست 2013ء کو زامبیا میں اعتکاف کے موقع پر مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی نے مولانا موصوف کو اجازتِ بیعت و خلافت سے نوازا۔ ماشاء اللّٰہ!! اِس وقت ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مولانا موصوف کے منتسبین و اہلِ ارادت موجود ہیں۔

    اللّٰہ تعالیٰ مولانا موصوف کی عمر و صحت میں برکت عطا فرمائے اور ہمیں اور امت مسلمہ کو ان سے زیادہ سے زیادہ استفادے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین

جمعہ، 15 ستمبر، 2023

پروفیسر مولانا سید کفیل احمد قاسمی: مختصر سوانحی خاکہ

پروفیسر مولانا سید کفیل احمد قاسمی: مختصر سوانحی خاکہ

محمد روح الامین میُوربھنجی
   مشرقی ہند میں واقع اڈیشا جیسے دور دراز صوبے سے اٹھ کر پورے ہندوستان؛ بلکہ دنیا کے خطے خطے میں جن شخصیات نے اڈیشا کا نام روشن کیا ہے، ان میں نمایاں نام اور مقام حضرت مولانا پروفیسر سید کفیل احمد قاسمی کا ہے، جنھوں نے اپنی پوری حیات مستعار عربی زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے وقف کر دی اور جن کے تلامذہ ملک و بیرون ملک کے مختلف گوشوں میں عربی زبان و ادب کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ آج انھیں کی حیات و خدمات پر کچھ رقم کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔ اس مضمون یا مقالے کے لیے بندے نے خصوصی طور پر خود صاحب احوال کے فراہم کردہ مواد اور مولانا مطیع اللہ نازش، ہیڈ مولوی راونشا کالجیٹ اسکول، کٹک کی کتاب ”اڈیشا میں اردو نثر نگاری“ میں مولانا موصوف پر مضمون سے استفادہ کیا ہے۔

ولادت و خاندان: مولانا سید کفیل احمد قاسمی دار العلوم دیوبند کے تصدیق نامے اور جامعہ ہائر سیکنڈری اسکول کی سند کے مطابق؛ 25 دسمبر 1951ء کو صوبہ اڈیشا کے ضلع کٹک میں واقع قصبۂ سادات سونگڑہ کے جیرام پور، محلہ کود میں سید محمد صالح مرحوم کے یہاں پیدا ہوئے۔

ابتدائی و متوسط تعلیم: ابتدائی فارسی و عربی کی تعلیم گھر میں حاصل کرنے کے بعد؛ اڈیشا کے ام المدارس ”مدرسہ عربیہ اسلامیہ“ (موجودہ نام: جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم، سونگڑہ) میں داخلہ لیا۔ مدرسہ عربیہ اسلامیہ سونگڑہ میں مولانا موصوف کے عربی و فارسی کے اساتذہ میں مولانا سید محمد اسماعیل کٹکیؒ، مولانا عبد القدوس کٹکیؒ، مولانا عبد الغفارؒ (دھرم شالہ)، مولانا محمد عرفان دھام نگریؒ، مولانا محمد اسحاق کٹکیؒ، مولانا محمود الحسن کٹکیؒ، مولانا عبد الحفیظ کٹکی، مولانا رفیق الدین کٹکیؒ، مولانا محمد اسماعیل پٹنویؒ اور مولانا محمد یحیی مونگیریؒ شامل تھے۔ قرات کے اساتذہ میں قاری جمیل الرحمنؒ (بیگو سرائے)، قاری عبد العزیز بہاریؒ اور قاری عبد الشکورؒ (پوری) تھے۔

    ان کے وقت میں مدرسہ چھپر کا تھا؛ چھت پھوس کی تھی؛ بس ایک لمبا سا کمرہ تھا، جس میں اساتذہ الگ الگ جگہ بیٹھ کر درس دیا کرتے تھے، نیز باہر سے آنے والے طلبہ کو حسبِ استطاعت لوگ اپنے بچوں کی طرح اپنے گھروں میں ٹھہرا لیا کرتے تھے۔

    ان کے سینئر ساتھیوں میں مولانا منظور احمد قاسمیؒ، مولانا سید سراج الساجدین قاسمیؒ، حکیم سید عمید الاسلام قاسمیؒ، مولانا سید عبد المتین مفتاحیؒ، مولانا سید غلام کبریا مفتاحی، مولانا محمد جلال قاسمیؒ، مولانا اکرام الحق قاسمیؒ، مولانا عبد الرحیم مفتاحیؒ (معروف بہ منشی؛ داماد مسیح الامت مولانا مسیح اللّٰہ خاں جلال آبادیؒ)، مولانا محمد اسحاق پٹنویؒ وغیرہ تھے۔ ہم عصروں میں مولانا انیس الرحمن مفتاحی، مولانا عبد الوہاب، مولانا عمر احمد کٹکی، مولانا محمد آزاد کٹکی قاسمی، مولانا سید احمد میاںؒ (صاحب زادہ مولانا سید اسماعیل مرحوم) اور دیگر معاصرین طلبہ میں مولانا نفیل الرحمن بیگو سرائے، مولانا منور تِلدہ، مولانا زین العابدین تِلدہ، مولانا جمیل احمد معصوم پوری، مولانا اصغر الدین معصوم پوری اور مولانا علی یوسف دریا پوری وغیرہ تھے۔

      اعلیٰ تعلیم کے لیے دار العلوم دیوبند میں
    سونگڑہ میں کنز الدقائق، مختصر المعانی اور قطبی وغیرہ تک کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے 1962ء میں درجات متوسطہ اور اعلیٰ تعلیم کے لیے دار العلوم دیوبند کا رخ کیا، امتحان داخلہ ہوا، ان کا امتحان مولانا عبد الاحد دیوبندیؒ نے لیا اور شرح وقایہ، مختصر المعانی اور قطبی وغیرہ معیار کی جماعت میں ان کا داخلہ ہو گیا اور وہ 1385ھ مطابق 1965ء میں دورۂ حدیث پڑھ کر فارغ التحصیل ہوئے۔

ان کے اساتذۂ دار العلوم دیوبند کے نام مع اسمائے کتب:
مولانا محمد نعیم دیوبندیؒ (ہدایہ اولین، مختصر المعانی، ملا حسن)
مولانا انظر شاہ کشمیریؒ (مقامات حریری)
مولانا نصیر احمد خان بلند شہریؒ (جلالین)
مولانا عبد الاحد دیوبندیؒ (مشکاۃ المصابیح)
مولانا خورشید عالم دیوبندیؒ (سلم العلوم)
مولانا اسعد مدنیؒ (شرح وقایہ)
مولانا قمر الدین احمد گورکھپوریؒ (شرح وقایہ)
مولانا معراج الحق دیوبندیؒ (موطأ امام مالک)
قاری محمد طیب قاسمیؒ (سنن ابن ماجہ)
علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ (جامع ترمذی)
مولانا بشیر احمد خان بلند شہریؒ (صحیح مسلم)
میاں اختر حسین دیوبندیؒ (ہدایہ آخرین)
مولانا فخر الحسن مرادآبادیؒ (سنن ابو داؤد، شمائل ترمذی)
مولانا شریف الحسن دیوبندیؒ (سنن نسائی)
مولانا اسلام الحق اعظمیؒ (طحاوی یعنی شرح معانی الآثار، میبذی)
مولانا سید فخر الدین احمد مرادآبادیؒ (صحیح البخاری)

 مذکورۂ بالا اساتذۂ کرام کے علاوہ انھوں نے دار العلوم میں مولانا وحید الزماں کیرانویؒ سے ترجمۂ قرآن (نصف اول) پڑھا اور عربی کے کلاس سے بھی خصوصی استفادہ کیا۔

    ان کے شرکائے دورۂ حدیث میں قاری محمد عثمان منصور پوریؒ، مولانا محمد ولی رحمانیؒ جیسے مشاہیر اور مولانا عبد الوہاب کٹکی اور مولانا سید احمد میاںؒ (صاحب زادۂ مولانا سید محمد اسماعیل کٹکی) اور مولانا محمد ایوب کٹکی شامل تھے۔

عصری علوم کے لیے عصری درس گاہوں میں: علومِ دینیہ کی تحصیل کے بعد؛ عصری علوم کے لیے مولانا موصوف نے 1966ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی میں داخلہ لیا اور 1968ء میں وہاں سے فرسٹ ڈویژن اور درجۂ دوم کے ساتھ ہائر سیکنڈری کا امتحان پاس کیا۔ وہاں پر ان کے اساتذۂ عربی میں پروفیسر عبد الحلیم ندویؒ اور پروفیسر اجتبا ندویؒ شامل تھے۔

    1968ء کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بی اے کے سالِ اول میں ان کا داخلہ ہوا اور 1971ء میں فرسٹ ڈویژن اور درجۂ اول کے ساتھ مشترکہ طور پر عربی و انگریزی میں بی اے (آنرس) کا امتحان پاس کیا، خصوصی مضامین میں عربی آنرس کے ساتھ انگریزی زبان و ادب اور تاریخ شامل رہا۔ وہاں پر مولانا سعید احمد اکبر آبادیؒ ان کے دینیات کے استاذ رہے، تاریخ میں انھوں نے پروفیسر عرفان حبیب سے ”موڈرن انڈیا“ کا ایک پرچہ پڑھا، نیز وہاں پر ان کے عربی کے اساتذہ میں پروفیسر مختار الدین احمدؒ (سابق صدر شعبۂ عربی و شاگردِ خاص علامہ عبد العزیز المیمنیؒ)، ڈاکٹر حافظ غلام مصطفیٰؒ، پروفیسر ریاض الرحمن شیروانیؒ، پروفیسر محمد مہدی انصاریؒ اور ڈاکٹر حامد علی خاںؒ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

   1973ء میں وہیں سے عربی میں فرسٹ ڈویژن اور درجۂ اول کے ساتھ ایم اے کا امتحان پاس کیا، وہیں سے عربی میں 1976ء کو ایم فِل کیا اور 1986ء میں ڈاکٹر مختار الدین احمدؒ کے زیر نگرانی؛ تقی الدین المقریزیؒ (متوفی: 845ھ مطابق 1442ء) کے عربی مخطوطہ ”کتاب المقفی“ کی تیسری جلد پر عربی میں مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

   آخر الذکر مخطوطہ کو دائرۃ المعارف العثمانیہ، حیدرآباد نے پانچ جلدوں میں شائع کیا ہے۔ (دراصل مَقریزی، مصر کے علماء اور اصحابِ علم و فضل — خواہ وہ مصری الاصل ہوں؛ یا یا مصر آئے ہوں — کی تاریخ 80 جلدوں میں لکھنا چاہتے تھے اور 16 جلدیں ہی مکمل کر پائے؛ لیکن امتداد زمانہ کے ہاتھوں وہ سب ضائع ہو گئیں؛ صرف چار جلدیں پیرس میں ملتی ہیں، اسی مخطوطے پر متعدد لوگوں نے کام کیا۔)

تدریسی و عملی زندگی: 15 دسمبر 1975ء تا 15 فروری 1976ء وہ بنارس ہندو یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر رہے، پھر 16 اگست 1976ء میں بہ حیثیت اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ عربی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ان کا تقرر ہوا، 10 اپریل 1988ء میں اسی شعبے میں ایسوسی ایٹ پروفیسر بنائے گئے، پھر 19 دسمبر 1997ء تا 25 دسمبر 2016ء اسی شعبے میں بہ حیثیت پروفیسر تدریسی خدمات انجام دیں۔ نیز وہ تین بار شعبۂ عربی کے صدر رہ چکے ہیں: پہلی بار 1999 تا 2000ء؛ دوسری مرتبہ 2003 تا 2006ء اور تیسری دفعہ 2011 تا 2014ء۔ اسی طرح 10 جولائی 2014ء سے 9 جولائی 2016ء تک انھوں نے فیکلٹی آف آرٹس کے ڈین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور بالآخر 24 دسمبر 2016ء کو وہ ملازمت سے سبکدوش ہو گئے۔ اس درمیان وائس چانسلر اور پرو وائس چانسلر کے مختصر مدت کے لیے رخصت پر جانے کے موقع سے تین بار انھوں نے بطور وائس چانسلر بھی خدمات انجام دیں۔

قلمی و ادبی زندگی:

تصانیف:
• المَقريزي: حياته، بيئته، آثاره (عربی؛ 1994ء، مطبوعہ: جامعہ سلفیہ پریس، بنارس)
• اسواق عرب کا مختصر تعارف (2003ء؛ مطبوعہ: شعبۂ عربی زبان و ادب، اے ایم یو)
• کتاب المقفی الکبیر جلد سوم (تحقیق و تعلیق؛ 2008ء، مطبوعہ: دائرۃ المعارف حیدرآباد)
• مختصر تاریخ ادب (زیر طبع)

مضامین و مقالات: عربی و اردو کے متعدد و مقتدر قومی و بین اقوامی رسائل و جرائد میں ان کے پچاس مقالے شائع ہو چکے ہیں، ان کے اردو مضامین میں ”فلسطینی مزاحمتی شاعری“ (مطبوعہ: فکر و نظر علی گڑھ، ج: 45، ش: 4، دسمبر 2008ء)، ”ہندوستان سے متعلق البیرونی اور ابن بطوطہ کے تاثرات کا موازنہ“ (مطبوعہ: فکر و نظر علی گڑھ، ج: 46، ش: 4، دسمبر 2009ء)، ”اڈیا زبان و ادب پر عربی اور فارسی کے اثرات“ (مطبوعہ: فروغ ادب، اپریل تا جون 2013ء) اور ”اسلامی مملکت میں ڈاک کا نظام“ جیسے مضامین قابل ذکر ہیں۔

نیز 2003 سے 2006ء کے دوران وہ شعبہ عربی اے ایم یو سے نکلنے والے عربی جریدہ ”المجمع العلمی الہندی“ کے تین شماروں کی ادارت بھی کر چکے ہیں، اور اس میں شائع متعدد عربی مضامین زیور طبع سے آراستہ ہوئے۔

اسفار: انھوں نے 2006ء میں وزیرِ انسانی وسائل کی ترقی (ایچ آر ڈی) جناب ارجن سنگھ کے ہم راہ ہائی پاور ڈیلی گیشن کی وفد میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا تھا، جس میں اس وقت کے شاہ نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کو ایک خطیر رقم عرب کلچر سنٹر کے قیام کے لیے عطا کیا۔ ان کے علاوہ کراچی، ایران اور ریاستہائے متحدہ امریکا کے بین اقوامی سیمیناروں اور پچاسوں نیشنل سیمیناروں میں شریک ہو کر مقالے پیش کر چکے ہیں۔

اعزازات و مناصب: عربی زبان و ادب میں خدمات کے لیے وہ 2012ء میں ”سرٹیفکٹ آف آنر“ کے لیے نامزد کیے گئے اور 17 جنوری 2014ء کو راشٹر پتی بھون، نئی دہلی میں تیرھویں صدر جمہوریہ ہند پرنب مکھرجی کے ہاتھوں ”سرٹیفکٹ آف آنر“ سے نوازا گیا۔
   2017ء میں انھیں ”آل انڈیا ایسوسی ایشن آف عربک ٹیچرز اینڈ اسکالرز“ کی طرف سے ”لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ“ سے نوازا گیا۔

   2011ء میں ”ریاض بین اقوامی کتابی میلے“ میں ہندوستانی سفارت خانے کی طرف سے، اسی طرح نومبر 2005ء میں کراچی میں ”شیخ زاید اسلامک سنٹر“ میں انھیں کو ان کی خدمات کے اعتراف میں ہدیۂ تبریک پیش کیا گیا تھا۔

    ان کے زیر نگرانی پی ایچ ڈی، ڈی لٹ وغیرہ کرنے والے طلبہ/ریسرچ اسکالرز میں 10 ایم فِل اور 18 پی ایچ ڈی کرنے والے حضرات بھی شامل ہیں۔

   ان کے علاوہ ان کے زیر نگرانی یونیورسٹی گرانٹس کمیشن آف انڈیا (UGC) کے ڈی ایس اے (DSA) اور سی اے ایس (CAS) اسکیموں کے تحت آٹھ منصوبوں پر کام ہوا ہے؛ اسی طرح دسیوں سیمیناروں کی کنوینر، کوآرڈینیٹر اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے نگرانی کی ہے۔

    آسام یونیورسٹی (سلچر)، بنارس ہندو یونیورسٹی (وارانسی)، برکت اللہ یونیورسٹی (بھوپال)، بی جی ایس بی یونیورسٹی (راجوری)، کلکتہ یونیورسٹی (کولکاتا)، انگلش اینڈ فورین لینگویج یونیورسٹی (حیدرآباد)، گوہاٹی یونیورسٹی (گوہاٹی)، جامعہ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی)، جواہر لال نہرو یونیورسٹی (نئی دہلی)، کشمیر یونیورسٹی (سری نگر)، لکھنؤ یونیورسٹی (لکھنؤ) (مدراس یونیورسٹی (چنئی)، ناگپور یونیورسٹی (ناگپور)، عثمانیہ یونیورسٹی (حیدرآباد)، پٹنہ یونیورسٹی (پٹنہ)، ممبئی یونیورسٹی (ممبئی) اور دہلی یونیورسٹی (دہلی) کے ”بورڈ اینڈ اسٹاف سلیکشن کمیٹیز“ میں ایک ماہر (export) یا ممتحن (examiner) کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔

     بہار پبلک سروس کمیشن (پٹنہ)، جموں اینڈ کشمیر پبلک کمیشن (سری نگر)، راجستھان پبلک سروس کمیشن (اجمیر)، یونین پبلک سروس کمیشن (نئی دہلی)، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی؛ نئی دہلی)، یو پی پبلک سروس کمیشن (الہ آباد)، ویسٹ بنگال پبلک سروس کمیشن (کولکاتا) اور آندھرا پردیش پبلک سروس کمیشن (حیدرآباد) کے ماہر کمیٹی ممبر یا یونین یا اسٹیٹ پبلک سروس کمیشنوں کے ایگزامینر رہ رہ چکے ہیں۔


خصوصی مجالس/تنظیموں کے رکن:

رکن اکیڈمک کونسل، بی جی ایس بی یونیورسٹی، راجوری، جموں و کشمیر

رکن رابطۂ ادب اسلامی، انڈین چیپٹر، لکھنؤ

رکن انڈین اکیڈمی آف عربک، علی گڑھ

رکن مجلس ادارت، ’أقلام واعدة‘، حیدرآباد

رکن مجلس شوریٰ دارالعلوم تاج المسجد بھوپال

رکن فیکلٹی آف ہیومینٹیز اینڈ لینگویجز جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

رکن مجلس مشاورت، مجلہ الثقافۃ الاسلامیہ، شیخ زید اسلامک سنٹر، کراچی، پاکستان

رکن مجلس مشاورت، جرنل آف عربی ریسرچ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد، پاکستان

اے ایم یو، علی گڑھ میں مناصب و ذمہ داریاں: شعبہ عربی کے چیئرمین، ڈین فیکلٹی آف آرٹس، یو جی سی اسکیموں کے کوآرڈینیٹر، غیر ملکی کے داخلے کے لیے کوآرڈینیٹر، پرووسٹ، اسسٹنٹ، پراکٹر، اسسٹنٹ، ڈین ویلفیئر اسٹوڈنٹ، مختلف ہاسٹلوں میں وارڈن اور اے ایم یو علی گڑھ سوئمنگ کلب کے صدر، مجلس تعلیمی و مجلس شوریٰ کے رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں یا دے رہے ہیں۔

تلامذہ:
     ان کے تلامذہ میں یہ حضرات بھی شامل ہیں:
1. پروفیسر مسعود انور علوی، سابق صدر شعبۂ عربی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
2. پروفیسر محمد صلاح الدین عمری، سابق صدر شعبۂ عربی و ڈین فیکلٹی آف آرٹس اے ایم یو
3. پروفیسر محمد سمیع اختر، سابق صدر شعبۂ عربی اے ایم یو
4. پروفیسر محمد ثناء اللہ ندوی (بلادِ عربیہ میں ”علامہ ہندی“ کے نام سے معروف)، موجودہ صدر شعبۂ عربی اے ایم یو
5. پروفیسر مسز تسنیم کوثر، شعبۂ عربی اے ایم یو
6. ڈاکٹر عبد الجبار، ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبۂ عربی اے ایم یو
7. پروفیسر قاضی عبد الماجد کشمیری، سابق صدر شعبۂ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
8. پروفیسر سید حسنین اختر، موجودہ صدر شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی
9. پروفیسر سید علیم اشرف جائسی، موجودہ صدر شعبۂ عربی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد
10. پروفیسر محی الدین آزاد، صدر شعبۂ عربی شبلی نیشنل کالج اعظم گڑھ
11. ڈاکٹر جمشید احمد، صدر شعبۂ عربی، ممبئی یونیورسٹی، ممبئی
12. ڈاکٹر قمر اقبال، ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبۂ عربی لکھنؤ یونیورسٹی، لکھنؤ
13. ڈاکٹر محمد طارق ظلی، اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ عربی لکھنؤ یونیورسٹی
14. ڈاکٹر محمد عز الدین، اسسٹنٹ پروفیسر کاسرگوڈ، کیرالا
15. جناب عبد الحق حقانی القاسمی، معروف اردو ادیب و تنقید نگار
16. ڈاکٹر ذبیح اللہ تسنیم، حال مقیم ابہا، مملکت سعودی عربیہ
17. ڈاکٹر محمد انس، حال مقیم سڈنی، آسٹریلیا
18. ڈاکٹر زرنگار، اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ عربی جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
19. ڈاکٹر محمد اجمل، اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ عربی جے این یو، نئی دہلی
                  [ایک یادگار ملاقات]
   اللّٰہ تعالیٰ عربی زبان و ادب کے لیے موصوف کی خدمات کو قبول فرمائے، آخرت میں نجات کا ذریعہ بنائے اور ہمیں بھی ان کی خصوصیات میں سے حصہ عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

بدھ، 16 اگست، 2023

بلبل اڈیشا مناظر اسلام حضرت مولانا سید سراج الساجدین صاحب کٹکی قاسمیؒ (1939–2006ء): مختصر تذکرہ و سوانحی خاکہ

بلبل اڈیشا مناظر اسلام حضرت مولانا سید سراج الساجدین صاحب کٹکی قاسمیؒ (1939–2006ء): مختصر تذکرہ و سوانحی خاکہ

محمد روح الامین میُوربھنجی

     حضرت مولانا سید سراج الساجدین صاحب کٹکی رحمۃ اللّٰہ علیہ جید عالم دین، خوش الحان قاری، کامیاب مناظر، مشفق معلم، شیریں بیاں واعظ و خطیب، انشا پرداز ادیب اور نعت گو شاعر تھے۔ حسن اخلاق، حسن انتظام، مہمان نوازی، نظافت و نفاست اور خطابت و شیریں بیانی میں اپنی مثال آپ تھے۔ ان کے استاذ و مربی مناظر اسلام حضرت مولانا سید محمد اسماعیل کٹکیؒ نے اپنی زندگی میں ہی انھیں اپنا جانشین منتخب کر لیا تھا؛ 11 محرم 1426ھ مطابق 20 فروری 2005ء کو اپنے استاذ محترم کے انتقال کے بعد جمعیۃ علماء اور امارت شرعیہ صوبہ اڈیشا کے بالترتیب صدر و امیر شریعت منتخب کیے گئے تھے؛ مگر افسوس کہ اپنے استاذ کے رحلت فرما جانے کے محض ڈیڑھ سال بعد یعنی 27 رمضان المبارک 1427ھ مطابق 21 اکتوبر 2006ء کو خود بھی اس دار فنا سے دار بقا کی طرف کوچ کر گئے (انا للّٰہ وانا الیہ راجعون)۔

        ولادت اور تعلیم و تربیت
     آپؒ کی پیدائش سنہ 1939ء کو دریاپور، سونگڑہ، ضلع کٹک میں ہوئی۔ فارسی اور عربی کے ابتدائی درجات کی تعلیم جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم سونگڑہ میں حضرت مولانا سید محمد اسماعیل کٹکیؒ، مولوی سید عبد القدوس کٹکیؒ، مولانا شاہ عبد الغفار منی ناتھ پوریؒ، مفتی محمد اسحاق دریاپوریؒ، مولانا محمد اسماعیل پٹنویؒ وغیرہم کے پاس حاصل کی۔ پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے آپ دار العلوم دیوبند تشریف لے گئے، جہاں سے سنہ 79–1380ھ (مطابق 1960–61ء) میں دورۂ حدیث پڑھ کر فارغ التحصیل ہوئے۔

     مولانا مرحوم کے سونگڑہ کے زمانۂ طالب علمی کے معاصرین میں مولانا سید عبد الحفیظ صاحب کٹکی مظاہری (مہتمم جامعہ رشیدیہ ریاض العلوم، گوہالی پور، سونگڑہ)، مولانا محمد منظور احمد صاحب کٹکی قاسمیؒ (سابق چیئرمین اڈیشا اردو اکادمی، بھوبنیشور و مدیر سہ ماہی فروغ ادب، بھوبنیشور) اور مولانا ہاشم مرحوم وغیرہ شامل ہیں۔ (مجلس شوریٰ جامعہ رشیدیہ ریاض العلوم، گوہالی پور، سونگڑہ [منعقدہ: 8 جمادی الاولی 1425ھ مطابق 27 جون 2004ء] میں پیش کی گئی حضرت مولانا سید عبد الحفیظ صاحب کٹکی کی پیش کی گئی رپورٹ)

اسی طرح سونگڑہ کے زمانے کے ساتھیوں میں مولانا محمد اسحاق پٹنوی مرحوم بھی شامل تھے، جن سے مولانا مرحوم کے گہرے مراسم بھی تھے، نیز وہ جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم میں مدرس بھی رہے ہیں۔ (حضرت مولانا سید کفیل احمد قاسمی، مقیم علی گڑھ کی رہنمائی کے مطابق)

     شرکائے دورۂ حدیث میں سابق مفتی دار العلوم دیوبند مفتی کفیل الرحمن نشاط عثمانیؒ بھی شامل تھے۔ بہ قول مولانا نور عالم خلیل امینیؒ؛ مفتی کفیل الرحمن نشاط صاحبؒ کے اساتذۂ کرام میں فخر المحدثین مولانا سید فخر الدین احمد مرادآبادی (سابق شیخ الحدیث دار العلوم دیوبند)، امام المعقول والمنقول علامہ محمد ابراہیم بلیاوی، حضرت مولانا فخر الحسن مرادآبادی، حضرت مولانا بشیر احمد خاں بلند شہری، حضرت مولانا ظہور احمد دیوبندی، حضرت مولانا سید حسن دیوبندی اور سابق مہتمم دار العلوم دیوبند حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہم اللّٰہ شامل تھے۔ (پسِ مَرگ زندہ، پہلا ایڈیشن: مئی 2010ء، صفحہ: 787 و 788)

      تدریسی و عملی زندگی
    فراغت کے بعد مولانا مرحوم نے اسکول کی ملازمت اختیار کر لی تھی، پھر فخر المحدثین مولانا سید فخر الدین احمد مرادآبادیؒ اور اپنے والد ماجد ڈاکٹر زین العابدین کٹکیؒ کے ایما و حکم سے انھوں نے مرکز العلوم سے تدریس کا آغاز کیا، پھر کیا تھا؛ انھوں اپنی پوری زندگی مرکز العلوم کی آبیاری کے لیے وقف کر دی۔ پہلے استاذ رہے؛ پھر مولانا سید محمد اسماعیل کٹکیؒ کی وفات تک انچارج یا نائب مہتمم رہے؛ مگر نائب مہتمم ہونے کے باوجود نوے کی دہائی میں علماء کانفرنس کے موقع پر مولانا سید محمد اسماعیل کٹکیؒ نے اڈیشا کے علما اور عوام کی موجودگی میں مولانا مرحوم کو مدرسے کی پوری ذمے داری سونپ دی تھی۔ (حضرت مولانا محمد علی صاحب قاسمی کٹکی اور حضرت مولانا زعیم الاسلام صاحب قاسمی کے بیانوں کا مجموعی خلاصہ)

     حضرت مولانا علی اشرف قاسمی دریاپوری (استاذ حدیث مرکز العلوم سونگڑہ) کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کے اس سوال: ”آپ کے شاگردوں میں کوئی ایسے بھی شاگرد ہیں، جو آپ کے ان فکروں کو اور اس کارواں کو لے کر آگے بڑھ سکیں؟ آپ کی امیدیں کن سے وابستہ ہیں؟“ کا جواب دیتے ہوئے مولانا سید محمد اسماعیل کٹکیؒ نے فرمایا تھا: ”میرے کئی شاگرد ہیں، ان میں سے میں نے مولانا سید سراج الساجدین کو چن لیا ہے اور مجھے اطمینان ہے کہ وہ ان فکروں کو اپنے سر لیں گے اور اس کارواں کو آگے بڑھائیں گے۔“ (آئینۂ دار العلوم دیوبند، جلد: 12، شمارہ: 1، اشاعت: 28 صفر 1417ھ مطابق 15 جولائی 1996ء)

    دار العلوم دیوبند سے فراغت کے بعد اسکول کی عارضی ملازمت سے لے کر مرکز العلوم سے وابستگی تک کے بارے میں مولانا مرحوم ہی کے لائق و فائق شاگرد حضرت مولانا محمد علی صاحب قاسمی (سات بٹیہ، کٹک والے) نے کچھ یوں ارشاد فرمایا تھا کہ حضرت مولانا مرحوم نے دار العلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد اسکول کی ملازمت اختیار کر لی تھی، ان کے والد ماجدؒ کو یہ بات انتہائی ناگوار گزری، جب مولانا مرحوم نے اپنی پہلی تنخواہ (تین سو بیس روپے) اپنے والد کے ہاتھوں میں لاکر دی، تو انھوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اتنی ہی تنخواہ تم مجھ سے لے لو؛ مگر مدرسے میں پڑھاؤ۔ مولانا مرحوم کا کہنا تھا کہ میں اسکول میں پڑھاؤں گا اور الگ سے ذاتی طور پر ایک طالب علم کی کفالت کے ساتھ اس کی دینی تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دوں گا۔ یہ بات ان کے والد کو گوارا نہ تھی، ان کے والد نے اس وقت کے شیخ الحدیث دار العلوم دیوبند اور مولانا مرحوم کے استاذ محترم مولانا سید فخر الدین احمد مرادآبادیؒ کو صورت حال سے آگاہ کیا؛ تو انھوں نے مولانا مرحوم کو مخاطَب کرکے اس طرح کا جملہ ارقام فرمایا تھا کہ ”میں نے تمھیں سرکار مدینہ کی غلامی کے لیے تیار کیا ہے؛ سرکار اڑیسہ کی غلامی کے لیے نہیں!!“ اپنے استاذ کے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے آپ نے چالیس روپے ماہانہ تنخواہ پر مرکز العلوم سونگڑہ میں تدریسی خدمت انجام دینے لگے اور تادمِ آخر یہیں کے ہو رہے۔

   28 صفر  1407ھ مطابق 2 نومبر 1986ء میں امارت شرعیہ ہند کے قیام کے بعد (حیات ابو المآثر [جلد اول؛ سنہ اشاعت: 2011ء]، مؤلفہ: ڈاکٹر مسعود احمد الاعظمی) 1987ء میں اڈیشا میں امارت کانفرنس کے موقع پر انھیں مولانا سید اسماعیل صاحبؒ نے نائب امیر شریعت اڑیسہ منتخب کر لیا تھا (بہ قول مولانا زعیم الاسلام صاحب؛ غالباً 1992 یا 1993ء میں انھیں باضابطہ نائب امیر شریعت منتخب کیا گیا تھا)، ان کی حیات ہی میں مولانا مرحوم کو نائب صدر جمعیۃ علمائے اڑیسہ چن لیا گیا تھا اور صدر مجلس تحفظ ختم نبوت اڈیشا  بنا دیا گیا تھا، پھر مولانا اسماعیل صاحبؒ کی نماز جنازہ سے پہلے؛ 11 محرم 1426ھ مطابق 21 فروری 2005ء کو مولانا عبد الصمد صاحب نعمانی مد ظلہ (خلیفہ فدائے ملت مولانا سید اسعد صاحب مدنیؒ)، مولانا محمد جابر خان صاحب بنجھار پوریؒ (خلیفہ فدائے ملتؒ)، مولانا نور اللہ صاحب جدو پوریؒ (خلیفہ فدائے ملتؒ)، مولانا محمد جلال صاحب قاسمیؒ، مولانا محمد فاروق صاحب مدظلہ (خلیفہ حضرت قاری امیر حسن صاحبؒ) اور مولانا محمد جسیم الدین قاسمی دربھنگوی وغیرہم کی موجودگی میں مولانا مرحوم کو امیر شریعت ثانی اڈیشا منتخب کیا گیا تھا۔ (ماقبل والے پیراگراف کی بہت سی باتیں؛ خود مولانا مرحوم کی تقریر سے مستفاد ہیں) اسی طرح مولانا مرحوم اپنے استاذ محترم کے بعد جمعیۃ علمائے اڈیشا اور کل ہند رابطۂ مدارس اسلامیہ عربیہ، دار العلوم دیوبند کی صوبائی شاخ ”رابطۂ مدارسِ اسلامیہ عربیہ، صوبہ اڈیشا“ کے صدر بھی نامزد کیے گئے تھے۔ ان سارے عہدوں پر اپنی وفات تک فائز رہے۔

   حضرت مولانا سید شمس تبریز قاسمی، سفیر دار العلوم دیوبند نے حضرت مفتی خورشید انور صاحب گیاوی مد ظلہ، استاذ حدیث دار العلوم دیوبند کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ حضرت مولانا سید سراج الساجدین کٹکیؒ کے رکن مجلس شوریٰ دار العلوم دیوبند بنانے کی بات بھی چلی تھی؛ مگر جلد ہی ان کی وفات کا سانحہ پیش آ گیا۔ حضرت مولانا مفتی محمد کلیم الدین صاحب کٹکی (استاذِ دار العلوم دیوبند) نے کچھ یوں فرمایا کہ اگر وہ جلد رحلت نہ فرماتے؛ تو ممکن تھا کہ مجلس شوریٰ کے رکن نامزد کیے جاتے۔

        فرق باطلہ کا رد و تعاقب
     اللہ تعالیٰ نے مولانا مرحوم کو علمی تبحر بھی وافر حصے میں عنایت فرمایا تھا، بہترین یادداشت اور اعلیٰ ذہانت و فطانت کی دولت سے بھی بہرہ ور کیا تھا۔ انھوں نے صوبہ اڈیشا میں تحفظ ختم نبوت اور تحفظ سنت کے باب میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ مولانا زعیم الاسلام صاحب فرماتے ہیں کہ مولانا سید اسماعیل صاحبؒ نے صوبہ اڑیسہ سے قادیانیت کی بَی٘خ کَنی کی ہے، تو دیگر فرق باطلہ ضالہ کی کمر مولانا سید سراج الساجدین صاحبؒ نے توڑی ہے۔

     آپ مناظروں میں اپنے استاذ محترم حضرت مولانا سید محمد اسماعیل کٹکیؒ کی معاونت فرمایا کرتے اور بہ نفس نفیس بھی باطل کا مقابلہ کیا کرتے تھے۔ مولانا مرحوم نے اپنی زندگی میں قادیانیوں، غیر مقلدین، جماعت اسلامی والوں، بریلیوں اور قادیانیوں کی بگڑی ہوئی شکل ”دیندار انجمن“ (جس کا بانی حیدرآباد، دکن کا ”صدیق دیندار چَن بَسویشور“ تھا) کے لوگوں سے تقریباً بارہ مناظرے و مباحثے کیے، جن میں سے بعض مناظرے قابل ذکر ہیں، جیسے:
(1) 1963ء کا ”مناظرۂ یادگیر“؛ جو صوبہ کرناٹک کے مقام ”یادگیر“ میں ہوا تھا اور جس کی رپورٹ یادگار یادگیر کے نام سے آج بھی موجود ہے، جس میں حضرت مولانا سید احمد النبی صاحبؒ اور مولانا مرحوم نے حضرت مولانا سید محمد اسماعیل کٹکیؒ کی بھرپور معاونت کی تھی۔
(2) سات بٹیہ، کٹک سے شروع ہونے والے مسئلے کے بعد پدم پور میں ہونے والا مناظرہ، جسے ”مناظرۂ پدم پور“ یا سات بٹیہ کا مناظرہ کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ مناظرہ ”مناظرۂ پدم پور“ کے نام سے کتابی شکل میں شائع بھی ہوا تھا۔
(3) تحفظ سنت اور شرک و بدعت کے رد میں سنہ 1399ھ مطابق 1979ء کو ”کٹک بارہ بٹی اسٹیڈیم“ میں ہونے والا سہ روزہ مناظرہ؛ جس میں اہل حق کے مناظرین میں مولانا ارشاد احمد فیض آبادیؒ (متوفی: 1989ء؛ مبلغ دار العلوم دیوبند)، مناظر اسلام مولانا سید محمد اسماعیل کٹکیؒ (متوفی: 2005ء)، مولانا مرحوم اور مولانا مناظر اسلام مولانا سید طاہر حسین گیاویؒ تھے اور فریق مخالف کی طرف سے بریلویوں کے مجاہد ملت مولانا حبیب الرحمن دھام نگری اشرفی (متوفی: 1981ء) اور ان کے مشہور عالم دین مولانا ارشد القادری (متوفی: 2002ء) موجود تھے، جس میں فریق مخالف کو بری طرح شکست بھی ہوئی تھی۔ مولانا سید محمد اسماعیل صاحبؒ، مولانا مرحوم اور تیسرے دن مولانا سید طاہر گیاوی صاحبؒ اور مولانا ارشاد صاحبؒ، مبلغ دار العلوم دیوبند؛ اہل حق کی طرف سے اس مناظرے کے کلیدی کردار تھے۔ اس مناظرے کے حوالے سے حضرت مولانا سید طاہر حسین صاحب گیاویؒ کا تاثر یہ تھا کہ ”اس مناظرے (مناظرۂ بارہ بٹی اسٹیڈیم، کٹک) میں حضرت مولانا سید سراج الساجدین صاحب نے ارشد القادری کو مار ہی دیا تھا، میں نے آکر اس کی چمڑی ادھیڑ دی۔“

   ان کے علاوہ اڈیشا اور بیرون اڈیشا بدعات و خرافات اور فرق ضالہ کے خلاف مولانا مرحوم کے اصلاحی و تربیتی بیانات ہوتے رہتے تھے۔

   مناظر اسلام مولانا سید طاہر حسین گیاویؒ کا واقعہ
    مولانا مرحوم کی وفات کے بعد مناظر اسلام حضرت مولانا سید طاہر حسین گیاویؒ (متوفی: 2023ء) تعزیت کے لیے سونگڑہ تشریف لائے تھے اور تقریباً آدھ پون گھنٹے تک مولانا مرحوم کی قبر کے پاس بیٹھ کر روتے رہے، پھر وہاں سے ہٹ کر فرمایا تھا کہ ہماری برادری کا ایک ایسا آدمی رخصت ہو گیا، جس کا کوئی ثانی نہیں، اور یہ بھی فرمایا تھا کہ مولانا سید سراج الساجدین صاحب نے مناظرے کا ایک نیا طریقہ ایجاد کیا تھا کہ جواب تو مختصراً دیتے تھے؛ مناظرے کے اندر جواب دہی کے دوران اپنے جواب کے وقت کو تین حصوں میں تقسیم کرکے پہلے حصے میں مد مقابل کے اعتراض کا معمولی جواب دیتے، دوسرے حصے میں مد مقابل پر ہی اعتراضات کے انبار لگا دیتے اور تیسرے حصے میں مخالفین کو انھیں کی باتوں سے الجھا کر غصہ دلا دیتے کہ وہ غصے سے تلملا جاتے اور جب ان کے جواب کا وقت آتا تو تلملاہٹ کی وجہ سے الجھ جاتے تھے۔ (استاذ محترم حضرت مولانا زعیم الاسلام صاحب قاسمی اس تعزیتی مجلس میں وہاں موجود تھے)


         مشہور و معروف تلامذہ
     آپ کے مشہور و ممتاز تلامذہ میں مولانا عبد السبحان صاحب قاسمی نیا گڑھیؒ، مولانا نظام الدین قاسمی سونگڑویؒ، مولانا محمد داؤد صاحب سونگڑوی، مولانا میر مسعود صاحب قاسمی، مولانا مشیر الدین صاحب کٹکیؒ (سابق استاذ مرکز العلوم)، مولانا ابرار عالم صاحبؒ (سابق استاذ مرکز العلوم)، مولانا اختر بیگ صاحب قاسمیؒ (سابق استاذ مرکز العلوم)، مولانا سعید الاسلام صاحب (اولابر، آل، کیندرا پاڑہ)، مولانا عبد الستار صاحب کاکٹ پوری، مولانا محمد علی صاحب قاسمی (سات بٹیہ، کٹک)، مولانا محمد ابو سفیان قاسمی (بالوبیسی)، مولانا محمد فاروق صاحب قاسمی (امیر شریعت رابع اڈیشا و رئیس الجامعہ جامعہ اسلامیہ اشرف العلوم، محمود آباد، کیندرا پاڑہ، اڈیشا)، مولانا عبد الحمید صاحب مرکزیؒ (سابق ناظم و صدر مہتمم جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم سونگڑہ و از خواص مولانا مرحوم)، مولانا محمد ارشد صاحب قاسمی (موجودہ صدر جمعیۃ علمائے اڈیشا [الف])، مولانا محمد غفران صاحب قاسمی (بالو بیسی)، مفتی محمد اشرف علی قاسمی (مہتمم جامعہ قاسم العلوم، بشن پور، بالوبیسی)، مولانا عنایت اللہ صاحب ندوی (استاذ تفسیر و ادب دار العلوم ندوۃ العلماء)، مولانا محمد افضل صاحب قاسمی (رائی سواں، کیونجھر)، مولانا سید انظر نقی صاحب قاسمی (استاذ حدیث جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم)، مولانا نور اللہ صاحب قاسمی جدوپوریؒ (متوفی: 2022ء؛ خلیفہ فدائے ملت)، مولانا سید خلیق الامین صاحب قاسمیؒ (سابق استاذ حدیث مرکز العلوم سونگڑہ)، والد محترم قاری محمد نور الامین صدیقی (بانی و مہتمم دار العلوم حسینیہ، مدنی نگر، چڑئی بھول، ضلع میُوربھنج)، مولانا اصغر صاحب قاسمی (استاذ حدیث مرکز العلوم سونگڑہ)، مفتی سید نقیب الامین صاحب برقی قاسمی، مولانا زعیم الاسلام قاسمی (استاذ حدیث مرکز العلوم سونگڑہ) وغیرہم شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی ان کے تلامذہ میں اڈیشا کے علما و غیر مکمل حضرات (جو کسی وجہ سے تعلیم پور نہ کر سکے ہوں) کی ایک کثیر تعداد ہے۔ 

       سیاسی اثر و رسوخ
  مولانا مرحوم نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز؛ ”اڈیشا کمیونسٹ پارٹی“ سے کیا تھا۔ نیز وہ اڈیشا کمیونسٹ پارٹی کے نائب صدر بھی رہے۔ ازہر صاحب نے یہ بھی بتایا تھا کہ کوئی مولانا اسحاق سنبھلی تھے، جو کمیونسٹ پارٹی اور جمعیۃ علما کے فعال رکن تھے، ان سے متاثر ہو کر اور انھیں کے اصرار پر مولانا مرحوم اڈیشا کمیونسٹ پارٹی سے منسلک ہوئے تھے۔ (یہ باتیں مولانا زعیم الاسلام صاحب نے اڈیشا کمیونسٹ پارٹی کے نیتا ازہر صاحب کے حوالے سے بتلائیں۔ مولانا محمد اسحاق سنبھلی (1921–1999ء) فاضل دار العلوم نے جمعیۃ علما اور کانگریس کے پلیٹ فارم سے خدمات انجام دیں، بعد میں کانگریس چھوڑ کر کیمونسٹ پارٹی سے وابستہ ہوئے، 1958ء میں اسی پارٹی کی ٹکٹ پر یوپی اسمبلی کے ایم ایل سی یعنی رکنِ مجلسِ قانون ساز منتخب ہوئے اور اس کے بعد بھی جمعیۃ سے وابستگی برقرار رکھی تھی اور جمعیۃ علما یوپی کے نائب صدر رہے تھے۔ [ذکر رفتگاں، جلد اول، مفتی محمد سلمان منصورپوری، طبع دوم: اپریل 2020ء، ص: 464])

   اس کے بعد اسّی کی دہائی میں ”اڈیشا پردیش کانگریس کمیٹی“ (او پی سی سی) سے منسلک سابق وزیر اعلیٰ اڈیشا ”جانکی ولبھ پٹنائک“ (متوفی: 2015ء) نے مولانا سید اسماعیل صاحبؒ سے درخواست کی تھی کہ کسی بھی طرح مجھے مولوی سراج الساجدین دے دیجیے؛ مولانا اسماعیل صاحبؒ کے اصرار پر مولانا مرحوم ”او پی سی سی“ سے منسلک ہو گئے اور تا دمِ حیات اس کے رکن رہے۔

      نوّے کی دہائی میں جے بی پٹنائک دوبارہ اڈیشا کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے؛ تو انھوں نے مولانا مرحوم کو اڈیشا راجیہ سبھا کا رکن بنانا چاہا؛ مگر مولانا مرحوم نے راجیہ سبھا کی رکنیت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں راجیہ سبھا کی ممبری کے لیے سیاست میں نہیں ہوں اور ادھر عوام میں یہ وجہ بیان فرمائی کہ جس دن میں نے اس پیشکش کو قبول کر لیا، اس دن سے میری حیثیت کانگریس میں کم ہو جائے گی، آج وزیر اعلیٰ مجھے دیکھ کر کھڑا ہوتا ہے، کل مجھے اسے دیکھ کر کھڑا ہونا پڑے گا۔ جے بی پٹنائک نے بہ ذریعہ ٹیلی گرام فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی صاحبؒ سے بھی سفارش کروائی تھی کہ اس پیشکش کو قبول کر لیں؛ فدائے ملت نے مولانا مرحوم سے کہا کہ پارلیمنٹ میں، میری آواز کے ساتھ اگر تمھاری آواز بھی شامل ہو جائے گی، تو مجھے قوت پہنچے گی؛ لہذا تم اس پیشکش کو قبول کر لو! مولانا مرحوم نے جواب میں لکھا کہ اڈیشا کے مسلمانوں کی دینی و اسلامی خدمات کے لیے کوئی نمائندہ متعین فرما دیجیے، میں آپ کی حکم کے مطابق حاضر ہو جاؤں گا، فدائے ملت نے اس جواب کے بعد فرمایا کہ پھر تو تم وہیں پر اپنی قوم کی نمائندگی کرو۔

    سنہ 1999ء میں اڈیشا کی ہلاکت خیز طوفان کے بعد مشہور کشمیری سیاست داں غلام نبی آزاد اڈیشا تشریف لائے، ”سی ڈی اے، کٹک“ (نیو کٹک) کے ایک پروگرام میں مولانا مرحوم کی تقریر کے بعد غلام نبی صاحب نے مولانا سے کہا تھا کہ آپ مرکزی سیاست میں حصہ لیجیے، آپ جیسے لوگوں کو وہاں اوپر آنا چاہیے۔
     مولانا مرحوم تادم حیات مذکورۂ بالا پارٹی کے رکن رہے، پارٹی میں ان کی رائے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، کئی مسئلوں میں ان کی رائے قول فیصل مانا گیا؛ الغرض پارٹی میں ان کا اس قدر اثر و رسوخ تھا کہ بسا اوقات پارٹی کے ارکان مشورے کے لیے جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم  بھی حاضر ہوا کرتے تھے۔

نوٹ:- سیاسی زندگی سے متعلق یہ ساری معلومات مولانا زعیم الاسلام صاحب کے بیان کا خلاصہ ہے۔

       شیریں بیانی و نعت گوئی
    آپ صوبہ اڈیشا کی شان تھے، انھیں ”بلبلِ اڑیسہ“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ بے مثال اور شیریں بیاں مقرر تھے، تقریر کے درمیان اپنی اور دوسروں کی نعتیں اور اصلاحی نظمیں ترنم کے ساتھ سنایا کرتے تھے۔ جب تقریر کرتے، تو لوگوں میں التفات و توجہ کا عجیب سَماں بندھ جاتا، جب وہ نعت نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم گنگناتے، تو لوگوں کے قلوب میں عشقِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی لہریں دوڑ جاتیں اور لوگ ان کے گرویدہ ہو جاتے تھے۔ تقریر کے اختتام پر اپنے معمول کے مطابق جب وہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر، ترنم کے ساتھ؛ یہ مناجات: ”یارب! تباہ کاروں کا تُو کارساز ہے..... بندے کو ناز ہے کہ تُو بندہ نواز ہے.....“ پڑھا کرتے؛ تو پتھر دل بھی موم ہو جاتے اور اہل باطل بھی حق جل و علا کے سامنے سرنگوں ہو جاتے تھے۔ ان کی لکھی ہوئی نعتیں آج بھی خود گنگناتا یا ان کے فرزند ارجمند (استاذ محترم حضرت مولانا مفتی سید نقیب الامین برقی قاسمی، مہتمم و شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم، تبلیغ نگر، سونگڑہ، ضلع کٹک، اڈیشا) یا کسی اور کی زبانی سنتا ہوں، تو ایک کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور خیالوں میں عہد طفلی کی یادیں گردش کرنے لگتی ہیں۔ ان کے مشہور نعتوں میں ”باعثِ کُن فَکاں، مونسِ اِنس و جاں“، ”کھڑے ہیں سردارِ ہر دو عالم، قطارِ پیغمبراں کے آگے“، ”گرجتا ہے بادل چمکتی ہے بجلی، سَمائے رسالت کی برسات ہوگی“ وغیرہ اور نظموں میں ”اس دیش کی نگری نگری میں توحید کا نغمہ گائیں گے“، ”مسلمانوں خودی کو اور خدا کو کیوں بھلا بیٹھے“ وغیرہ شامل ہیں۔ 

 
     علمی لیاقت اور ذہانت
  ابتدائی کتابیں؛ خاص طور پر نحو کی کتابیں انھیں عبارت سمیت یاد تھیں، حضرت مولانا زعیم الاسلام صاحب اپنے زمانۂ طالب کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ مولانا مرحوم، زبانی ”ہدایۃ النحو“ کے دس بارہ صفحات پڑھا کر کتاب کسی اور کے حوالے کر دیا کرتے تھے، ان کے سال ایسا کیا؛ تو ان کے ساتھیوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ شاید مولانا کو کتاب اتنی ہی یاد ہے، اس بات کی خبر مولانا مرحوم کو لگ گئی، تو انھوں نے اگلے دن بلا کر کتاب زبانی اخیر سے الٹی پڑھنی شروع کر دی، ایک ڈیڑھ صفحات پڑھے تھے کہ ساتھیوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ شاید مولانا تک ہماری بات پہنچ چکی ہے؛ چناں چہ انھوں نے مولانا سے معافی مانگی، مولانا نے غصے سے کہا کہ میں نے بھوسہ کھا کر نہیں پڑھا ہے، کتاب کہیں سے پوچھ لیجیے، میں فوراً بتلا دوں گا۔
 
     مولانا مرحوم باقاعدہ حافظ قرآن نہیں تھے؛ البتہ انھیں قرآن کا بیشتر حصہ یاد تھا، کسی موضوع پر گفتگو ہوتی، تو فوراً اس موضوع سے متعلق قرآنی آیت بتلا دیتے تھے۔ مولانا زعیم الاسلام صاحب؛ مولانا محمد فاروق صاحب (رئیس الجامعہ اشرف العلوم، کیندرا پاڑہ) کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ مولانا مرحوم انھیں (مولانا محمد فاروق صاحب کو) بلاتے اور ایک صفحہ قرآن کا ایک دفعہ مطالعہ جیسا دیکھتے اور سنا دیتے تھے۔

     مولانا مرحوم ہی کی تقریر سے ماخوذ بہ طریق خلاصہ قابلِ ذکر باتیں اور بعض واقعات پیش خدمت ہیں، اس سے مولانا مرحوم کی علمی لیاقت اور ذہانت کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے: 1963ء ”مناظرۂ یادگیر“ کے موقع سے مولانا مرحوم کی رد قادیانیت پر تقریباً پچیس تقریریں ہوئی تھیں، ایک مجلس میں حضرت مولانا سید اسماعیل صاحبؒ نے بیس پچیس منٹ اپنے لوگوں کے سوالات کا جواب دینے کے بعد کہا کہ اب میں جاتا ہوں، سراج الساجدین میری جگہ ہے، وہاں پر تقریباً ساڑھے تین گھنٹے تک مزید مولانا مرحوم اور حاضرینِ مجلس کے درمیان سوال و جواب کا سلسلہ چلا۔ اس درمیان ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ مدرسہ الباقیات الصالحات، ویلور، تمل ناڈو کے اس وقت کے شیخ الحدیث نے اس مجلس میں کھڑے ہو کر ”فمن يملك من الله شيئا إن أراد أن يهلك المسيح ابن مريم و أمه و من في الأرض جميعًا“ (المائدۃ، آیت: 17) پڑھ کر ترجمہ کیا کہ ”اگر میں عیسیٰ کو مار دوں تو کون روک سکتا ہے، اگر میں اس کی ماں کو مار دوں تو کون روک سکتا ہے اور زمین پر جتنے ہیں، سب کو مار دوں تو کون روک سکتا ہے“ اور کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی انتقال کرگئے؛ کیوں کہ ان کی ماں مر چکی ہیں؛ تو بھلا عیسیٰ کیوں نہیں مر سکتے؟

      مولانا مرحوم نے کہا کہ ترجمہ یہ ہے: ”اگر ہم عیسی کو مار ڈالیں، عیسیٰ کا ٹھکانہ؛ جو آسمان ہے، اس کو بھی ختم اور ہلاک کر دیں اور تمام دنیا والوں کو بھی ختم کر دیں، تو کون ہمیں روک سکتا ہے؟“  یہ سن کر ان شیخ الحدیث صاحب نے کہا کہ آپ نے ٹھکانے کا ترجمہ کہاں سے کیا؟ مولانا مرحوم نے کہا کہ قرآن میں ہے: ”فأمه هاوية“ (القارعۃ، آیت: 9) ”اس کا ٹھکانہ جو ہے؛ جہنم ہے“، یہاں ”ام“ سے مراد ٹھکانہ ہے کہ نہیں! تو ویسے یہاں بھی ٹھکانے کے معنی میں ہے۔ دوسرا جواب یہ دیا کہ آیت کے اندر ”من فی الارض“ میں ہم لوگ بھی شامل ہیں، پھر ہم زندہ ہیں کہ نہیں؟ تو عیسیٰ کی موت اس آیت سے کیسے ثابت ہو گئی؟ اس جواب کے بعد ان شیخ الحدیث صاحب نے خوش ہو کر مولانا مرحوم کو گود میں اٹھا لیا (شاید ان شیخ الحدیث صاحب نے مولانا مرحوم کا جائزہ لینے کے لیے پوچھا ہو؛ کیوں کہ 1963ء میں مولانا مرحوم کی عمر کوئی چوبیس پچیس سال کی تھی۔ یہ واقعہ مولانا مرحوم کے اپنے بیان کے مضمون کا خلاصہ ہے)۔

     مہمان نوازی و میزبانی
    آپ کی مہمان نوازی اور میزبانی کا عالم یہ تھا کہ خود تالاب سے مچھلی پکڑتے اور خود ہی ذائقہ دار کھانا پکاکر مہمان نوازی کرتے؛ گویا مہمانوں پر جان چھڑکتے تھے۔ علمائے اڈیشا میں ان کی مہمان نوازی کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ انھوں نے اپنے مدرسے میں مہمانوں کے لیے باقاعدہ انتظام کر رکھا تھا، جس کا کچھ نمونہ اب بھی ان کے صاحبزادگان: مولانا مفتی سید نقیب الامین برقی قاسمی، مولوی سید خطیب الامین شبلی اور حافظ سید بلیغ الامین عینی صاحبان یا ان کے تربیت یافتہ لوگوں کے یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔

      نظافت و نفاست
    نظافت اور صفائی ستھرائی میں اعلی معیار کے حامل تھے؛ سفید صاف شفاف کلی دار کرتا پائجامہ، عمدہ دو پلی ٹوپی اور صدری زیب تن فرمایا کرتے تھے؛ گویا وہ نفیس الطبع اور نستعلیق مزاج واقع ہوئے تھے۔ ان کی یہ خصلت ان کے فرزند و جانشین مولانا سید نقیب الامین برقی قاسمی اور مولانا مرحوم کے بہت سے تلامذہ و خدام میں نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔

       حضرت کی خورد نوازی
     والد محترم (حضرت قاری محمد نوالامین صدیقی، بانی و مہتمم دار العلوم حسینیہ، مدنی نگر، چڑئی بھول، ضلع میُوربھنج، صوبہ اڈیشا) چوں کہ انھیں کے مدرسے کے خوشہ چیں اور ان کے تربیت یافتہ ہیں، تو والد صاحب کے جامعہ تجوید القرآن عثمانیہ، بارہ بٹیہ، تیرن، ضلع جگت سنگھ پور، اڈیشا کے زمانۂ قیام و اہتمام میں حضرت مولانا مرحوم کی بارہا ”بارہ بٹیہ، تیرن“ تشریف آوری ہوتی تھی۔ بندے سے حضرت مزاح بھی فرماتے اور محبت و شفقت کا معاملہ فرماتے تھے۔ غالباً سنہ 2006ء یا 2005ء کی بات ہے کہ سونگڑہ میں حضرت مولانا مرحوم سے ملاقات ہوئی، تو حضرت نے بیس روپے بطور ہدیہ عنایت فرمائے اور مزاحاً فرمایا کہ تم روح الامین، میں جبرئیل امین؛ ان کی یہ بات ہمیشہ یاد آتی ہے۔ میرے نانا جان حضرت مولانا سید حسین احمد عارف گیاویؒ (متوفی: 2020ء؛ سابق امام و خطیب جامع مسجد، ساکچی، جمشید پور، جھارکھنڈ) کو دار العلوم دیوبند کے زمانۂ طالب علمی میں ان کی معاصرت کا شرف حاصل رہا تھا، انھوں نے کئی دفعہ بندے کے سامنے اپنے اس عزیز رفیق کو یاد کیا اور ان کا ذکر خیر کیا۔ سنہ 2016ء میں ایک نکاح کے موقع پر نانا جان، جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم سونگڑہ تشریف لے گئے تھے؛ اس وقت نانا جان اور استاذِ محترم حضرت مولانا سید نقیب الامین صاحب کا تعلق خاطر دیدنی تھا۔ اسم با مسمی حضرت مولانا سید خلیق الامین صاحب قاسمیؒ (متوفی: 17 فروری 2017ء) بھی اس وقت باحیات تھے اور وہ نانا جان کے لیے نہایت احترام اور فکر مندی کا اظہار کر رہے تھے؛ یہ سب بلبل اڈیشا کی نسبت سے تھا۔

    اللّٰہ تعالیٰ حضرت کی مغفرت فرمائے، ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور بندے اور نئی نسل میں ان جیسی خوبیاں پیدا فرما دے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین

بدھ، 7 جون، 2023

بس کا ایک یادگار اور طویل تاریخی سفر

 بس کا ایک یادگار اور طویل تاریخی سفر

📝 محمد روح الامین میوربھنجی

تاریخِ تحریر: 2 شوال المکرم 1441ھ م 2 مئی 2020ء بہ روز سنیچر

نظرِ ثانی: 29 رجب المرجب 1442ھ م 14 مارچ 2021ء بہ روز اتوار

تصحیح: 17 ذی قعدہ 1444ھ بہ مطابق 7 جون 2023ء بہ روز بدھ

(ماخذِ تصویر: دی اکانومک ٹائمز)

     جب ہندوستان میں بھی پوری دنیا کی طرح یکایک "لاک ڈاؤن" کا اعلان کر دیا گیا تو دوسرے مدارس کی طرح مادرِ علمی دار العلوم دیوبند میں طلبہ کو جلد تعطیل نہیں دی گئی؛ بلکہ انھیں یہ بتلایا گیا کہ "لاک ڈاؤن" کے ختم ہوتے ہوتے ہی بصورتِ تخفیف اُن کا امتحان لے کر انھیں رخصت دے دی جائے گی (اُس وقت ابتداءً چند دنوں کے لیے حکومت کی طرف سے "لاک ڈاؤن" کا اعلان آیا تھا)؛ لیکن جوں جوں دن بڑھتے گئے! حالات؛ نازک سے نازک تر ہوتے گئے؛ یہاں تک کہ حکومت کی دباؤ اور آرڈر کی بنا پر اربابِ دار العلوم نے امتحانِ سالانہ کے بعد عید الفطر مؤخر کیے جانے کا اعلان کیا (بعد میں وہ بھی منسوخ ہوگیا)۔ اب مسئلہ تھا طلبہ کے گھر جانے کا تو بعض اربابِ جمعیت علمائے سہارنپور (میم) کی کاوشوں سے قُرب و جوار کے طلبہ کو ان کے وطنِ عزیز روانہ کیا جانے لگا، اسی طرح سے اتر پردیش و اطراف کے تقریباً تین ہزار (3000) طلبہ اپنے گھروں تک پہنچ گئے، کبھی کوئی بغیر کسی دقت و پریشانی کے گھر پہنچتا تو کسی کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا۔ تقریباً دو ہزار (2000) دُور کے طلبہ جیسے ہندوستان کے مختلف صوبوں، ریاستوں اور بیرون ممالک کے طلبہ اپنے وطن نہ جا سکے اور دار العلوم کے اربابِ انتظام نے تقریباً دو مہینے یعنی رمضان المبارک کے اختتام تک ان کا بہت خیال رکھا (اور طلبۂ دار العلوم دیوبند کے علاوہ دیگر طلبہ کا جمعیت علمائے دیوبند (میم) نے بہت خیال رکھا) بس اتنا تھا کہ "کووِڈ-19" کی احتیاطی تدابیر کے پیشِ نظر؛ احاطۂ دار العلوم میں بھی بہت سی انتظامی و معاشرتی تبدیلیاں نظر آنے لگیں جیسے احاطے سے باہر نہ جانا، بھیڑ اکھٹے نہ کرنا اور دیگر بہت سی پابندیاں بھی طلبہ پر عائد کی گئیں، انھیں پابندیوں کے ساتھ ماہِ رمضان بھی گزرنے لگا، طلبہ اپنے حجروں میں؛ میدانوں میں؛ چھتوں پر کچھ افراد کے ساتھ تراویح میں قرآن سننے سنانے یا تنِ تنہا پڑھنے لگے۔

   بندے نے بھی کچھ دن ایک کشمیری ساتھی کے ساتھ پھر اکیلے ہی تراویح میں قرآن ختم کیا۔ بالآخر "لاک ڈاؤن" کے تیسرے دَور میں دُور کے طلبہ کو بھی اپنے گھروں تک جانے کے آثار نظر آنے لگے کہ مختلف صوبوں کے اربابِ حکومت نے یہ اعلان کیا کہ حکومتی اجازت حاصل کرنے کے بعد؛ کوئی بھی اپنے وطن روانہ ہوسکتا ہے؛ البتہ اسے چند ایام (14 یا 21 یا 28 دن حسبِ فرمان) قرنطینے میں (معاشرہ سے الگ تھلگ) گزارنے ہوں گے، تبھی دیگر صوبوں؛ جیسے: تمل ناڈو، کرناٹک، مہاراشٹر، تلنگانہ، آندھرا پردیش، پنجاب، راجستھان، میگھالیہ، آسام اور بہار وغیرہ کی طرح؛ اڈیشا کے طلبہ کا بھی وطن روانہ ہونا طے پایا اور یکے بعد دیگرے دو بسیں؛ الگ الگ لوگوں کی محنتوں اور کاوشوں سے صوبہ اڈیشا کے لیے روانہ ہوئیں، پہلی بس کے انتظام میں پیش پیش مولانا محمد فہیم بنجھار پوری نظر آئے؛ جب کہ دوسری بس کے نظم میں مولانا محمد صدیق جاجپوری و مفتی محمد عباس صاحب آگے آگے نظر آئے۔ پہلی بس 26 رمضان المبارک 1441ء بہ مطابق 20 مئی 2020ء کو روانہ کر 29 رمضان بہ مطابق 23 مئی کو اڈیشا کی دار الحکومت "بھوبنیشور" پہنچی۔

    دوسری بس اڈیشا سے پٹنہ، بہار آئی ہوئی تھی، اڈیشا سرکار سے 20 مئی کو 21 مئی کا پرمیشن (اجازت) ملتے ہی وہ بس؛ رات بارہ بجے کے بعد اتر پردیش کی سرحد پار کر گئی اور دن بھر چل کر بنارس ہوتے ہوئے؛ مرادآباد سے دو رفیقوں کو ساتھ لے کر اگلی رات تقریباً ڈھائی بجے دیوبند: دار العلوم کے احاطے میں (اعظمی میدان) پہنچ گئی اور اس بس کے مسافروں میں بندے کا نام بھی درج تھا۔

(ماخذِ تصویر: 91 ٹرکس)

     28 رمضان (1441ء) مطابق 22 مئی (2020ء) بہ وقتِ فجر؛ بس دیوبند سے روانہ ہوئی اور مظفر نگر، میرٹھ ہوکر آگرہ پہنچی اور آگرہ سے "آگرہ – لکھنؤ ایکسپریس" شاہراہ کے ذریعے؛ لکھنؤ کے لیے چل پڑی، لکھنؤ کے "ٹول گیٹ" (ٹول ناکہ) پر لکھنؤ کے معروف "واحد بریانی" والوں نے (اس شاہراہ سے آنے والے) مسافروں کے لیے افطار کا بہترین انتظام کر رکھا تھا، وہاں پر رفیقانِ سفر کو بھی افطار کے لیے مدعو کیا گیا اور سحری کے لیے بھی خاصا سامان ہمارے ساتھ کر دیا گیا؛ بالآخر بس روانہ ہوئی، لکھنؤ میں داخل ہوتے ہی دار العلوم ندوۃ العلماء میں زیرِ تعلیم اڈیشا کے ایک طالب علم کو ہم راہِ سفر کیا گیا، پھر بس؛ سلطان پور، گورکھپور ہوتے ہوئے بہار کی سرحد میں داخل ہوئی؛ یہاں تک کہ نالندہ، کوڈرما، ہزاری باغ، رانچی سے گزرکر آگے بڑھے۔ رات کے کھانے کے لیے کوئی ہوٹل یا ڈھابہ بھی نہیں مل رہا تھا، جب ہم اڈیشا کی بارڈر یعنی سرحد میں داخل ہونے کے لیے ضلع رانچی، جھارکھنڈ ”سُودے“ نامی گاؤں  سے گذرے تو بڑبل، ضلع کیونجھر، اڈیشا کے ایک ساتھی مولانا محمد صادقین صاحب کے چاہنے والوں نے وہاں پر کھانے کا انتظام کر رکھا تھا، جب ہم اس گاؤں سے گزرے تو بس جناب خطیب صاحب کے مکان پر رُکی اور ہمارا والہانہ استقبال کیا گیا، نماز سے فارغ ہوئے، پھر سادے کھانے کا بہترین انتظام تھا، کھانے کے بعد دعا ہوئی، اس کے بعد ہم لوگ راورکیلا کے لیے روانہ ہوئے، وہاں یعنی راورکیلا میں (اسی رات) راورکیلا اور جھارسگوڈا کے بعض رفقا اتر گئے (بڑبل کے دو ساتھیوں: مولانا محمد صادقین اور مفتی محمد زاہد قاسمی کے چھوٹے بھائی مولانا محمد سالم قاسمی نے بھی خیر باد کہا) اور وہاں بھی سحری کے لیے ہمارے ہمراہ سامان دے دیا گیا اور پھر ہم پالاہڑا، بارکوٹ اور ڈھینکا نال کے راستے سے؛ 54 گھنٹے میں "منگولی چوک، کٹک" پہنچے، وہاں پر بعض اصحاب اتر گئے، جن میں بندہ بھی تھا، ایک بات لکھنا بھول گیا کہ جب ہم راستے میں تھے تو پہلی بس والوں (جو ہم سے قبل روانہ ہوکر ہم سے پہلے پہنچ چکے تھے) سے یہ اطلاع ملی کہ بہتر یہ ہے کہ طلبہ اپنے اپنے علاقوں میں (جن کا علاقہ راستہ میں پڑے) یا (اگر راستہ میں اپنا علاقہ نہ ہو تو) کم از کم بھوبنیشور سے پہلے ہی جو جہاں اتر سکے، اتر جائے اور سیدھے اپنے علاقے میں چلا جائے؛ کیوں کہ سب کو اپنے اپنے علاقوں میں "کورنٹائن" کیا جا رہا ہے (اور پہلے اطلاع ملی تھی کہ پہلے طلبہ بھوبنیشور پہنچیں گے، پھر وہاں سے چیک اَپ وغیرہ کے بعد اپنے علاقوں تک پہنچیں گے)، تبھی طلبہ اپنے اپنے علاقوں میں (اگر بس وہاں سے گزرتی) یا اپنے علاقوں کے قریب اترتے گئے، اس طرح بس؛ تقریباً 56 گھنٹے میں دیوبند سے کٹک ہوتے ہوئے بھوبنیشور پہنچی تھی۔


   طلبہ اپنے اپنے علاقوں میں پہنچ کر "ہوم کورنٹائن" کر دیے گئے، بعض اپنے علاقے کے اسکولوں یا مدرسوں میں کورنٹائن کر دیے گئے، بندہ بھی کٹک شہر کے قریب؛ "منگولی چوک" میں دوندو شریف، ضلع میوربھنج کے ایک رفیق یعنی مولوی محمد سجاد قاسمی کے ساتھ؛ بس سے اترا اور بالو بیسی والے مولانا حکیم الاسلام قاسمی کے ماموں؛ حافظ سراج الاسلام اور (نعت گو شاعر) قاری عبد الرحمن صاحبان وہاں اپنی کار لیے موجود تھے (جو کہ کورونا جیسی وباء کے دور میں بھی تقریباً ڈھائی سو کیلومیٹر سفر کے لیے تیار ہوگئے تھے؛ اگرچہ اجارے پر ہی ان سے بات کی گئی تھی؛ مگر ان کی رضا مندی والد صاحب سے تعلقِ کے سبب سے تھا)، ہم جلد ہی وہاں سے اپنے علاقے کے لیے روانہ ہوگئے، راستے میں مولانا حکیم الاسلام قاسمی اور ان کے برادر حافظ امین الاسلام سے بھی دور سے یعنی دروازے کے آر پار سے ملاقات ہوئی (جو بہ ذریعہ پہلی بس؛ ہم سے پہلے پہنچ کر خود ایک اسکول میں کورنٹائن تھے)، پھر ہم آگے چل پڑے، مولوی محمد سجاد تو "کرنجیا" (جو کہ ہمارے گاؤں ”چڑئی بھول“ سے تقریباً 18 کیلومیٹر پہلے ایک چھوٹا سا شہر ہے) میں اتر گئے اور ہم لوگ میرے قریہ "چڑئی بھول" روانہ ہوگئے، وہاں پر سب سے پہلے مجھے اُس اسکول میں لے جایا گیا جہاں پر مسافروں کو قرنطینے میں رکھا جا رہا تھا، پھر وہاں سے مجھے تھوڑی دیر دُور ایک اسکول میں حاضری لکھوانے اور کچھ کار روائی کے لیے بھیجا گیا، وہاں کا ذمہ دار؛ پڑھا لکھا آدمی تھا، تھوڑی سی بات چیت کے بعد اسے سمجھ آگیا (کہ کس طرح احتیاط سے ہمیں دار العلوم دیوبند میں رکھا گیا اور کس احتیاط سے ہم گھر پہنچے اور یہ کہ میں دیوبند میں کووڈ کی جانچ کروا چکا ہوں) اور اس نے مجھے اپنے گاؤں کے اسکول میں بھیج دیا، پھر ہمارے گاؤں کے پردھان کی اجازت سے فوراً ہی مجھے اپنے گھر میں "ہوم کورنٹائن" کر دیا گیا، اور اس طرح الحمد للّٰہ بندہ 54 گھنٹہ بس، پھر ساڑھے چار گھنٹہ کار میں سفر کرکے تھوڑی دقت کے بعد اپنے گھر میں موجود تھا، بندہ نے شکرانہ ادا کیا اور اس کے بعد اپنے حجرے میں قرنطینے کے اوقات گزارتے ہوئے یہ تحریر لکھی تھی، گاؤں والوں کے لعن طعن کے ڈر سے (اور ان کی تحفظ کی خاطر) بندہ بھی اپنے کمرہ میں ایک طرح سے محبوس ہی تھا................ قرنطینے میں بندہ یہ محسوس کر رہا تھا کہ کس طرح مسلم برادران؛ جیلوں میں بند ہیں اور کتنی پریشانیاں انھیں جھیلنی پڑتی ہیں۔ اللّٰہ تعالٰی جیلوں میں محبوس تمام مسلم بھائیوں کی دست گیری فرمائے اور انھیں جلد آزاد فرمائے اور انھیں عزت و آبرو کی زندگی عطا فرمائے اور اس کے لیے محنت کرنے والوں کی بھی نصرت و اعانت فرمائے۔ آمین ثم آمین

پیر، 10 اپریل، 2023

مولانا مفتی عبد اللہ معروفی: مختصر سوانحی خاکہ

مولانا مفتی عبد اللہ معروفی: مختصر سوانحی خاکہ

محمد روح الامین میُوربھنجی


     برصغیر پاک و ہند میں علوم حدیث کے تعلق سے تقریباً نصف صدی سے جو حضرات بے لوث خدمات انجام دے رہے ہیں، ان میں ایک نام مولانا مفتی عبد اللّٰہ معروفی حفظہ اللّٰہ کا ہے، جو تقریباً تیئس سال سے ایشیا کی عظیم درس گاہ دار العلوم دیوبند میں شعبۂ تخصص فی الحدیث کے استاذ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں اور گزشتہ ایک عرصے سے اس شعبے کے نگراں و صدر بھی ہیں اور دیگر فنون کے ساتھ ساتھ علم حدیث اور فن اسماء الرجال پر جن کو غیر معمولی دسترس اور گیرائی حاصل ہے (ماشاء اللّٰہ)۔ آج قارئین کے سامنے ان کا مختصر سوانحی خاکہ پیش کرتا ہوں۔


      ابتدائی و تعلیمی زندگی

    مولانا مفتی عبد اللہ بن عمر بن بشیر معروفی 1386ھ (بہ مطابق 1967ء) شمالی ہند کے صوبہ اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے قصبہ پورہ معروف (جو اب ضلع مئو میں آتا ہے) میں پیدا ہوئے۔


     ان کی ابتدائی تعلیم کا مرحلہ مدرسہ اشاعت العلوم پورہ معروف میں طے ہوا، پھر انھوں نے 1978 تا 1982ء (بہ مطابق 1398 تا 1402ء) اپنے عم بزرگوار مولانا زین العابدین اعظمیؒ کے ایما پر مدرسۃ الاصلاح سرائے میر، اعظم گڑھ میں عربی اول تا چہارم کی تعلیم حاصل کی۔


پھر ان ہی کے حکم و مشورے سے دار العلوم دیوبند آگئے اور سنہ 1406ھ بہ مطابق 1986ء میں دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے اور اگلے سال 1987ء میں دار العلوم ہی سے افتا کیا۔


شعبان 1406ھ میں دورۂ حدیث سے فراغت کے بعد جب گھر گئے تو اپنے عم بزرگوار مولانا زین العابدین اعظمیؒ سے حجۃ اللّٰہ البالغۃ کے شروع کا بعض حصہ پڑھا۔


        دورۂ حدیث شریف کے اساتذہ

     ان کے اساتذۂ دورۂ حدیث کے نام مع اسمائے کتب درج ذیل ہیں:

صحیح بخاری (نصف اول): شیخ الحدیث مولانا نصیر احمد خان بلند شہریؒ

صحیح بخاری (نصف ثانی): مولانا عبد الحق اعظمیؒ

صحیح مسلم (نصف اول): مولانا نعمت اللّٰہ اعظمی

صحیح مسلم (نصف ثانی): علامہ قمر الدین احمد گورکھپوری

جامع ترمذی (نصف اول): مفتی سعید احمد پالن پوریؒ

جامع ترمذی (نصف ثانی کا اکثر حصہ): مولانا سید ارشد مدنی

جامع ترمذی (نصف ثانی کا بعض حصہ): مولانا معراج الحق دیوبندیؒ

سنن ابو داؤد (ایک معتد بہ حصہ): مولانا محمد حسین بہاریؒ

سنن نسائی (کتاب الطہارۃ، کتاب الصلاۃ): مولانا زبیر احمد دیوبندیؒ

موطأ امام مالک (نصاب میں داخل حصہ): مولانا محمد حسین بہاریؒ

موطأ امام محمد (نصاب میں داخل حصہ): مولانا نعمت اللّٰہ اعظمی

شمائل ترمذی: مولانا عبد الخالق مدراسی

سنن ابن ماجہ (مقدمہ، کتاب الطہارۃ): مولانا ریاست علی ظفر بجنوریؒ

شرح معانی الآثار (کتاب الطہارۃ، کتاب الصلاۃ): مفتی سعید احمد پالن پوریؒ


       دیگر اسانیدِ حدیث

    اساتذۂ دورۂ حدیث کے علاوہ انھیں مولانا محمد یونس جونپوریؒ کی طرف سے رسائلِ ثلاث یعنی ”الفضل المبین فی المسلسل من حدیث النبی الامین“، ”الدر الثمین فی مبشرات النبی الامین“ اور ”النوادر من احادیث سید الاوائل و الاواخر“ کی اجازت حاصل تھی۔


   مولانا عاشق الٰہی بلند شہری/برنیؒ نے انھیں اپنی اُن تمام مسموعات اور مُجازاتِ احادیث کی اجازت دی جن کی تفصیل مولانا برنی نے ”العناقید الغالیہ“ میں تحریر فرمائی ہے۔


     انھیں حکیم مولانا احمد حسن خاں ٹونکی نے بھی اپنی تمام مسموعات اور مجازات کے روایت کرنے کی اجازت عطا فرمائی ہے، جن میں ایک سند وہ بھی ہے جس میں وہ مولانا حیدر حسن خاں ٹونکیؒ، پھر میاں نذیر حسین دہلویؒ کے واسطے سے سیدھے شاہ اسحاق دہلویؒ تک پہنچ جاتے ہیں۔


    اسی طرح انھیں ان کے عم بزرگوار مولانا زین العابدین معروفی/اعظمیؒ نے رسالۃ الاوائل لمحمد سعید بن سنبلؒ کی اجازت عطا فرمائی تھی۔


        تدریسی و عملی زندگی

    افتا سے فراغت کے بعد 1407ھ میں مدرسہ مطلع العلوم رامپور میں بحیثیت مدرس ان کا تقرر ہوا، پھر شوال 1408ھ بہ مطابق 1988ء میں جامعہ اسلامیہ ریوڑھی تالاب، بنارس میں بحیثیت مدرس ان کا تقرر ہوا اور انھوں نے تقریباً آٹھ سال وہاں پر تدریسی خدمات انجام دیں۔


     پھر جب 1415ھ بہ مطابق 1995ء کو مظاہر علوم جدید سہارنپور میں شعبۂ تخصص فی الحدیث کا قیام عمل میں آیا تو پہلے سال تو مولانا زین العابدین اعظمیؒ نے اس شعبے میں تنہا تدریسی خدمات انجام دیں اور اگلے سال مفتی عبد اللہ معروفی مظاہر علوم سہارنپور کے شعبۂ تخصص فی الحدیث کے لیے بحیثیت مدرس و معاون منتخب کیے گئے اور اس وقت سے 1421ھ (بہ مطابق 2000ء) تک تقریباً پانچ سال اپنے عم محترم کے زیر سایہ رہ کر مظاہر علوم میں علم حدیث کی تدریسی خدمات انجام دیں اور اس وقت انھیں اپنے عم بزرگوار سے خوب استفادہ کا موقع ملا۔


1421ھ (بہ مطابق 2000ء) میں انھیں دار العلوم دیوبند کے شعبۂ تخصص فی الحدیث کے استاذ کی حیثیت سے مدعو کیا گیا اور 1440ھ میں درجۂ علیا میں ان کی ترقی ہوئی۔


    مظاہر علوم جدید کے زمانۂ تدریس میں ”معرفۃ انواع علم الحدیث“ معروف بَہ ”مقدمۃ ابن الصلاح“ کی شرح و تحقیق ”تدریب الراوی“ ان کے زیر درس رہی، پھر ایک دو سال قبل تک دار العلوم دیوبند کے شعبۂ تخصص فی الحدیث میں اصل مقدمۂ ابن صلاح بھی بیس – پچیس سال ان کے زیر درس رہ چکی ہے۔


    فی الحال (1444ھ بہ 2023ء میں) شعبۂ تخصص فی الحدیث کے دونوں سال کے طلبہ کی تدریس و تربیت کے ساتھ مقدمۂ شیخ عبد الحق، نزھۃ النظر شرح نخبۃ الفکر اور مشکاۃ المصابیح جیسی علم حدیث اور اصولِ حدیث کی کتابوں کے اسباق بھی ان سے متعلق ہیں۔ شعبۂ تخصص فی الحدیث کی نگرانی کے علاوہ اس شعبے کی ”الرفع و التکمیل فی الجرح و التعدیل“ اور دراسۃ المتون کے اسباق بھی ان سے منسلک ہیں۔ ہر موضوع؛ خصوصاً ”الحکم علی الحدیث“ کے تعلق سے شعبے کے طلبہ کی رہنمائی فرماتے اور ان کی مشق کرواتے ہیں۔ اسی طرح بحر العلوم مولانا نعمت اللہ اعظمی مد ظلہ العالی کی ”مدارس الرواة ومشاهير اساتذتها“ بھی ان کے زیر درس ہے۔


        بیعت و خلافت 

    مدرسہ مطلع العلوم، رامپور، اتر پردیش کے قیام کے زمانے میں انھوں نے مرادآباد ہی میں مقیم مولانا عبد الجبار اعظمیؒ (1907–1989ء) خلیفہ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کے دست مبارک پر بیعت کر لیا تھا اور موصوف جب بنارس میں مدرس تھے تو 1409ھ (بہ مطابق 1988ء) میں مولانا عبد الجبار اعظمیؒ کا انتقال ہوگیا، ان کے انتقال کے بعد 1411ھ (بہ مطابق 1990ء) میں انھیں کے خلیفہ مولانا زین العابدین اعظمیؒ (1933–2013ء) سے مفتی صاحب نے تعلقِ سلوک و بیعت قائم کر لیا؛ مگر مفتی صاحب ان کی زندگی ہی میں اپنے عم محترم اور مولانا پیر محمد طلحہ کاندھلویؒ، جانشین مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کے باہمی مشورے سے پیر صاحب کی تربیت میں آ گئے اور پیر صاحب کی حیات تک ان کی توجہات سے مستفید ہوتے رہے۔


   1421ھ میں مفتی صاحب جب دار العلوم دیوبند تشریف لے آئے تو اس کے ایک سال بعد یعنی 1422ھ میں پیر صاحب نے مفتی صاحب کو اجازتِ بیعت اور خلافت سے نوازا۔


    خلوص و للہیت اور علم حدیث سے خاص شغف

   مظاہر علوم جدید سہارنپور میں جب شعبۂ تخصص فی الحدیث کا قیام عمل میں آیا اور مولانا زین العابدین اعظمیؒ تنہا تدریس کا کام انجام دے رہے تھے تو معاون مدرس کے لیے مظاہر علوم جدید کے ناظم اعلیٰ مولانا محمد سلمان مظاہریؒ کی نظرِ انتخاب مفتی عبد اللہ معروفی پر پڑی، جو پہلے ہی سے علم حدیث سے خاص شغف رکھتے تھے اور آٹھ ہزار روپے کے مشاہرے کے ساتھ جامعہ اسلامیہ، بنارس میں استاذِ حدیث تھے۔ چناں چہ جب مولانا سلمان صاحب نے مفتی عبد اللہ معروفی صاحب کا نام لے کر کہا کہ انھیں بلایا لیا جائے تو مولانا زین العابدین اعظمیؒ نے مظاہر علوم جدید میں تنخواہ کی قلت کی بنا پر خود ہی سے شرم کی بنا پر معذرت کر لی کہ اپنے بھتیجے کو اعلیٰ تنخواہ کو چھوڑ کر ادنی تنخواہ کے لیے کیسے کہ سکتا ہوں؛ مگر کسی طرح اس واقعے کی خبر مفتی عبد اللہ معروفی صاحب کو پہنچ گئی اور انھوں نے اپنے عم بزرگوار (بڑے ابا) کو خط میں یہ لکھا: ”بڑے ابا جان کو معلوم ہو کہ ہم نے علم دین پیسہ حاصل کرنے کے لیے نہیں سیکھا ہے؛ بلکہ صرف دین کی خدمت کے لیے یہ علم حاصل کیا ہے اس لیے مولانا سلمان صاحب کی رائے کو تسلیم کر لینا چاہیے تھا، روپیہ پیسہ کا مالک اللہ ہے جس کو چاہے دے دے اور جس سے چاہے لے لے۔“ (دیکھیے: مجلہ سراج الاسلام، سراج نگر، چھپرہ، ضلع مئو کا ”مولانا زین العابدین معروفیؒ نمبر“)


     یہ جواب سن کر مولانا زین العابدین صاحب کو اپنے عمل پر پشیمانی ہوئی اور اس کے بعد مفتی عبد اللہ صاحب کو شعبۂ تخصص فی الحدیث کے لیے مظاہر علوم بلا لیا گیا اور مفتی صاحب نے وہاں پر پانچ سال خدمات انجام دیں، پھر کیا تھا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے دار العلوم دیوبند کے شعبۂ تخصص فی الحدیث کے لیے قبول فرما لیا اور تقریباً پانچ سال مظاہر میں رہ کر 1421ھ میں وہ دار العلوم دیوبند بلا لیے گئے اور اس وقت سے آج تک تقریباً تئیس سال سے دار العلوم دیوبند میں علوم حدیث پر تدریسی، تحقیقی اور تصنیفی خدمات انجام دے رہے ہیں، جس کا اندازہ ان کی تصانیف اور ان کے تلامذہ سے لگایا جا سکتا ہے۔


      قلمی و تصنیفی خدمات

    انھوں نے اپنے تیس سالہ تدریسی عرصے کے درمیان علوم حدیث پر ایسی قلمی خدمات انجام دی ہیں، جو قابل رشک ہیں، نیز دیگر موضاعات پر کتابیں اور ان کے زیر نگرانی منظر عام پر آنے والے رسائل، کتب اور ہزاروں صفحات پر مشتمل ڈھیرں سارے مقالات مستقل ہیں۔


 قلمی کارناموں میں مندرجۂ ذیل کتابیں شامل ہیں:

(1) العَرف الذکی شرح جامع ترمذی: جس کی پانچ جلدیں شائع ہو کر منظر عام پر آ چکی ہیں اور سترہ جلدوں کا کام ہو چکا ہے، ابواب التفسیر مکمل ہونے کو ہے، اس کے بعد صرف ابواب الدعوات اور ابواب المناقب باقی رہ جاتے ہیں اور اس طرح یہ عظیم الشان کام پایۂ تکمیل کو پہنچنے والا ہے۔ جس میں علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے افادات کی تسہیل و تحقیق، نیز حدیث پر ترمذی کے احکام کی تطبیق کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔

(2) تہذیب الدر المنضَّد فی شرح الادب المفرد – چار جلدوں میں یہ امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ کی ”کتاب الادب المفرد“ کی عربی شرح ہے۔

(3) مقدمۃ الدر المنضَّد – یہ ایک مستقل کتاب ہے، جس میں سندِ حدیث پر حکم لگانے میں لوگوں کی بے راہ روی کا تذکرہ کیا گیا اور احادیث پر حکم لگانے کا آسان، محفوظ اور معتدل طریقہ بیان کیا گیا ہے۔

(4) حدیث اور فہم حدیث – یہ ایک ایسی کتاب ہے، جس میں علم حدیث کی نہایت قیمتی اور گُر کی باتوں کو آسان اور مرتب انداز میں بیان کر دیا گیا ہے۔

(5) فضائل اعمال پر اعتراضات: ایک اصولی جائزہ (اردو؛ جس کے عربی، انگریزی اور بنگلہ میں بھی ترجمے کیے جا چکے ہیں۔)

(6) غیر مقلدیت: اسباب و تدارک

(6) جواب الرسالۃ – جس میں انھوں نے اپنی کتاب مقدمۃ الدر المنضّد میں "بیان کیے گئے احادیث پر حکم لگانے کے معتدل منہج" پر معروف عالم دین شیخ محمد عوامہ حفظہ اللّٰہ کے نقد و جرح کا تفصیلی جائزہ لیا ہے، جو تقریباً ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل ہے۔

(7) العَرف الفیّاح فی شرح مقدمۃ ابن الصلاح – ان کے دروسِ مقدمۃ ابن الصلاح کو مولانا مشاہد الاسلام امروہی، فاضل شعبۂ تخصص فی الحدیث دار العلوم دیوبند نے جمع فرمایا تھا، جس کو مفتی صاحب نے تنقیح و مراجعت اور حذف و اضافہ جیسے امور کے بعد شائع فرمایا، جو 600 سے زائد صفحات پر مشتمل ایک جلد میں دستیاب ہے۔


ان کے علاوہ ان کے زیر نگرانی انجام پانے والی علمی و تحقیقی کارناموں میں مندرجۂ ذیل کتب شامل ہیں:

(1) الحديث الحسن فی جامع الترمذی (دراسۃ و تطبیق؛ 700 صفحات پر مشتمل ایک جلد)

(2) حسن صحيح فی جامع الترمذی (دراسۃ و تطبیق، تین جلدیں)

(3) حسن غريب فی جامع الترمذی (دراسۃ و تطبیق، دو جلدیں)

(4) حدیث غريب فی جامع الترمذی (دراسۃ و تطبیق، 700 صفحات پر مشتمل ایک جلد)


   ان کی بعض کتابیں تو ہندوستان کے علاوہ بیرون ملک جیسے پاکستان سے بھی شائع ہو چکی ہیں۔ بندہ کے علم کے مطابق مولانا مفتی عبد الرؤف غزنوی (خلیفہ فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ و استاذ حدیث جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن، کراچی، پاکستان) نے مولانا موصوف کی دو کتابیں ”حدیث اور فہم حدیث “ اور ”العرف الفیاح فی شرح مقدمۃ ابن الصلاح“ کو اپنے کتب خانہ مکتبہ غزنوی، کراچی سے شائع فرمائی ہیں۔


    اللّٰہ تعالی موصوف کی عمر و صحت میں خوب برکت عطا فرمائے اور ہمیں اور امت مسلمہ کو ان کے علوم سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین

پیر، 16 جنوری، 2023

علم الصیغہ کا عربی ترجمہ

علم الصیغہ کا عربی ترجمہ

مترجم: مفتی محمد کلیم الدین قاسمی کٹکی، استاذ دار العلوم دیوبند
صفحات: 164، قیمت: 70 روپے
پہلا ایڈیشن: 2006ء
آٹھواں ایڈیشن: 2021ء
ناشر: مکتبہ الفاروق دیوبند
9548915358

تبصرہ نگار: محمد روح الامین

   ’’درس نظامی‘‘ کے تحت چلنے والے مدارس میں ابتدائی استعداد ساز کتابوں کی فہرست میں جنگ آزادی – 1857ء کے ایک عظیم مجاہد مفتی عنایت احمد کاکورویؒ (1813ء – 1863ء) کی علمِ صرف پر لکھی گئی جامع ترین کتاب ’’علم الصیغہ‘‘ غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے، مصنف نے جزیرہ انڈمان کے جیل میں رہ کر ہی محض اپنی یاد داشت سے اتنی جامع کتاب لکھی تھی، جو حضرت مفتی محمد شفیع عثمانیؒ کی تحریر کے مطابق مصنف کی ایک طرح کی کرامت ہی سمجھی جا سکتی ہے۔

   یہ کتاب فارسی میں لکھی گئی تھی، اس کے اردو شروحات کے ساتھ اردو ترجمے بھی کیے گئے، جن میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانیؒ کا اردو ترجمہ (1978ء) زیادہ مقبول ہے، جب کہ ایک بریلوی عالم غلام نصیر الدین چشتی کا اردو ترجمہ (1992ء) بھی دستیاب ہے۔

علاوہ ازیں اس کتاب کے دو عربی ترجمے بندہ کے سامنے ہیں: (1) ڈاكٹر ولی خان مظفر سواتی (متولد: 1971ء) کا عربی ترجمہ، جس کا تمرینات سے اضافہ شدہ پہلا ایڈیشن 2010ء میں شائع ہوا، (2) جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل کے سابق استاذ مولانا مفتی محمد کلیم الدین قاسمی کٹکی، استاذ دار العلوم دیوبند کا ترجمہ، جس کا پہلا ایڈیشن 2006ء میں شائع ہوا تھا اور آٹھواں ایڈیشن 2021ء میں شائع ہوا، جس کے آغاز میں بحر العلوم مولانا نعمت اللہ اعظمی (متولد: 1936ء) کے حوصلہ افزا کلمات اور موجودہ ترانۂ دار العلوم دیوبند لکھنے والے شاعر مولانا ریاست علی ظفر بجنوریؒ (1940ء – 2017ء) اور دار العلوم دیوبند کے موجودہ صدر المدرسین مولانا سید ارشد مدنی (متولد: 1941ء)، صدر جمعیت علمائے ہند کی مشترکہ تقریظ شامل ہے۔ 

  زیر نظر عربی ترجمہ کے مترجم مولانا مفتی محمد کلیم الدین قاسمی کٹکی حفظہ اللّٰہ نے دار العلوم دیوبند کے زمانۂ معین مدرسی (2001–2ء) میں علم الصیغہ کی تدریس کے ساتھ اس کتاب کو عربی جامہ پہنانے کا فیصلہ کیا، ڈابھیل کے زمانۂ تدریس میں یہ ترجمہ پایۂ تکمیل کو پہنچا اور پہلی بار 1427ھ بہ 2006ء میں زیور طبع سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آیا۔ ایک سال بعد 1428ھ بہ مطابق 2007ء میں مترجم موصوف کا تقرر ازہر ہند دار العلوم دیوبند میں ہوا، 1440ھ بہ مطابق 2021ء میں درجۂ وسطیٰ ب میں ان کی ترقی ہوئی اور اب 1444-45ھ (م 2022–23ء) میں درجات متوسطہ کی کتابوں کا درس بھی ان سے متعلق ہے۔

    زیر نظر عربی ترجمہ اپنی آٹھویں ایڈیشن کے ساتھ مندرجۂ ذیل خصوصیات کا حامل ہے: (1) ابتدا میں مؤلف کتاب مفتی عنایت اللہ کاکوریؒ کا مختصر و مدلل سوانحی خاکہ عربی میں قلم بند کیا گیا ہے، (2) عربی ترجمہ کے ساتھ ساتھ مختصر عربی تعلیق بھی شامل ہے، (3) حسب ضرورت عناوین کا بھی اضافہ کیا گیا ہے، (4) مثالوں میں آنے والی آیتوں کی تخریج بھی کی گئی ہے یعنی پارہ، آیت نمبر وغیرہ کی وضاحت کی گئی ہے، (5) ثلاثی مجرد کے چھٹے باب، باب ’’حسِب یحسِب‘‘ کو چھوڑ کر کہ اس سے فعلِ صحیح صرف ایک آتا ہے، کتابوں کی مثالوں کے علاوہ مشق و تمرین میں آسانی کے لیے اچھے خاصے مثالوں سے کتاب کو مزین کیا گیا ہے، (6) کتاب کے اخیر میں ’’ملحق‘‘ اور ’’أوزان الجمع‘‘ کے نام سے دو حصے ملحق اور شامل کیے گئے ہیں، جو خاصیاتِ ابواب اور اوزانِ جمع کے سلسلے میں مفید و معاون اور مثالوں سے لیس ہیں، (7) گاہے گاہے تعلیق کے تحت معلمین و متعلمین کے لیے ہدایات و رہنمائی بھی لکھی گئی ہیں، (8) مثالوں، مفردات اور الفاظ میں حسبِ ضرورت اعراب حِکائی بھی لگائی ہے، (9) اخیر میں فہرست مراجع و مصادر شامل ہے، (10) عناوین و مشمولات کی فہرست اخیر میں معلق کی گئی ہے۔

    موجودہ زمانے میں فارسی سے عدم دلچسپی یا کم دلچسپی کی وجہ سے فارسی کا چلن اٹھتا چلا جا رہا ہے تو عام دلچسپی کے پیشِ نظر فارسی کتابوں کے متبادل کے طور پر اردو یا عربی کتابیں شامل نصاب کی جا رہی ہیں، اور چوں کہ عربی دوم میں نحو، منطق وغیرہ کی عربی کتابیں داخل نصاب ہیں تو دیگر فنون کی طرح عربی اول میں صرف کی اردو کتاب پڑھانے کے بعد عربی دوم میں فارسی یا اردو علم الصیغہ کے متبادل کے طور پر یہ عربی علم الصیغہ پڑھایا جانا زیادہ موزوں اور مناسب ثابت ہو سکتا ہے، چناں چہ اسی کے پیش نظر یہ ترجمہ کیرالا، گجرات، اتر پردیش، حیدرآباد، مغربی بنگال اور اڈیشا کے مختلف مدارس میں داخل نصاب ہے، نیز دیگر مدارس کے نصاب میں بھی شامل کیا جانا چاہیے؛ کیوں کہ جو چیز مشقت کے بعد حاصل ہو، پائدار ہوتی ہے اور جو چیز جلد آسانی سے حاصل ہو جاتی ہے، دیر پا نہیں ہوتی، جیسا کہ فارسی کا مقولہ ہے: ’’ہر چہ زُود آید دیر نہ پاید‘‘۔

 اللّٰہ تعالیٰ مترجم کتاب کو اجر جزیل عطا فرمائے اور اساتذہ و طلبہ کو زیادہ سے زیادہ اس عربی ترجمہ سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین

جمعہ، 16 دسمبر، 2022

اسلام کا تصور سیاست اور عصر حاضر میں اس کی معنویت

اسلام کا تصور سیاست اور عصر حاضر میں اس کی معنویت

معاذ حیدر، کولکاتا، متعلم عربی پنجم دار العلوم دیوبند

      اجتماعی زندگی میں نظم و نسق قائم کرنے، اور ملکی نظام کو استوار کرنے کی سعی کرنے کو ”سیاست“ کہتے ہیں، اسلام میں اس کی بڑی اہمیت ہے، اور کیوں نہ ہو جب کہ یہ ایک کامل و مکمل نظام حیات ہے، زندگی کا کوئی گوشہ اور شوشہ ایسا نہیں ہے جس میں اس کی رہنمائی نہ ہو، اس میں ایک طرف عبادت و روحانیت ہے تو دوسری طرف حکومت و سیاست بھی ہے، اور اس کے سیاسی نظام کے سامنے تمام مذاہب کا نظام کوئی حیثیت نہیں رکھتا، اس کا نظریہ دیگر نظریوں کے مقابلے میں اعلی و ارفع ہے، فطرت سلیمہ کے عین موافق ہے۔

     الحاصل اسلام کا سیاسی نظام ایک کامل و مکمل نظام ہے، اس بارے میں شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ (661 - 728ھ) فرماتے ہیں: ”إن ما وافق الشرع هو المعقول الصريح، وهو الذوق الصحيح، وهو السياسة الكاملة، وإن ما خالف ذلك هو من أمور أهل الجهل والظلم“ (شریعت کے موافق نظریہ اور عمل ہی سیاسی کاملہ ہے، اور شریعت کے مخالف نظریہ ظلم اور جہل ہے۔) [درأ تعارض العقل والنقل، الوجه التاسع، ٣١٩/٥ ، بحوالہ دارالعلوم دیوبند اور سیاست، ص 85-86]

      چناں چہ سیاست کو شریعت کے منافی اور شریعت کو سیاست کے مخالف سمجھنا درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس طرح کے نظریے سے اسلام کو دیگر ادیان باطلہ کا محتاج قرار دینا لازم آتا ہے جو کہ غلط ہے، اس تصور کے حامل شخص پر علامہ ابن قیمؒ (691 -751ھ) نے بڑے استعجاب کا اظہار فرمایا ہے، اور اسے کم فہم کہا ہے، فرماتے ہیں: ”فکیف یظن أن شريعته الكاملة التي ما طرق العالم شريعة أكمل منها ناقصة تحتاج إلى سياسة خارجة عنها تكملها، ومن ظن ذلك فهو كمن ظن أن بالناس بالناس حاجة إلى رسول آخر بعده، وسبب هذا كله خفاء ما جاء به على من ظن ذلك وقلة نصيبه من الفهم“ [أعلام الموقعين، العمل‌ بالسیاسة، 2/286، بحوالہ دارالعلوم دیوبند اور سیاست ص: 86]

       جب یہ بات واضح ہوگئی کہ شریعت مطہرہ میں سیاست منقحہ بھی شامل ہے، اور تمام بلاواسطہ اور بالواسطہ عبادتوں کی ادائیگی کو آسان بنانے؛ بلکہ ان کے دائرۂ عمل کو وسیع تر بنانے کا عمدہ ذریعہ ہے، تو اب اس کے تصورات و نظریات کو سمجھنا ضروری ہے۔

          اسلام کا تصور حاکمیت

     اسلامی سیاست کے تصور کی سب سے اہم بنیاد یہ ہے کہ اس کائنات میں اصل حاکمیت کا درجہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو حاصل ہے، یعنی اقتدار وحکومت، جاہ و منصب اور قانون سازی کا اختیار صرف اور صرف انھیں کو ہے، یہ سب خدائی کام ہیں، ان امور میں دخل اندازی منصب انسانی کے منافی ہے، قرآن کریم میں اس مفہوم کو متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے، جیسے:
(1) ”ألا له الخلق والأمر“ (یاد رکھو! تخلیق بھی اسی کی ہے اور ملک بھی اسی کا ہے۔) [الأعراف: 54]
(2) ”ألا له الحكم“ (ياد ر کھو! حاکمیت صرف اسی کو حاصل ہے) [الأنعام: 62]
(3) ”ولله ملك السماوات والأرض“ (اور اللہ کے لیے آسمان اور زمین کی بادشاہت ہے) [آل عمران: 189]
(4) ”قل اللهم مالك الملك تؤتى الملك من تشاء“ (کہو کہ یا اللہ! اے سلطنت کے مالک! تو جس کو چاہتا ہے سلطنت بخشتا ہے) [آل عمران: 26]
     یہ تمام کی تمام آیتیں اس حقیقت کو واشگاف کر رہی ہیں کہ حاکمیت اس کائنات میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے، اور حاکمیت کا مفہوم یہ ہے کہ ”دوسرے کے پابند ہوئے بغیر حکم جاری کرنے اور فیصلے کرنے کا کلی حق ہونا“ (اسلام اور سیاسی نظریات ص: 174) اور ظاہر ہے کہ یہ حق اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کو حاصل نہیں ہے، کسی اور کو اس معنی میں حاکم‌ قرار دینا گویا ربِ کائنات کے ساتھ اس کو شریک کرنا ہے، جوکہ گناہ کبیرہ ہے اور جرم عظیم ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے ”إن الشرك لظلم عظيم“ (لقمان: 13)

       لہذا احکام الٰہیہ ہی اسلامی سیاست کے بنیادی ماخذ ہیں جن میں صبحِ قیامت تک تغیر و تبدل کی گنجائش نہیں ہے؛ الغرض رب العالمین کا اقرار ہی وہ بنیاد ہے جو سیاست اسلامیہ کو دیگر مذاہب سے ممتاز کرتی ہے، جمہوریت و سیکولر ازم سے اس کو جدا کرتی ہے؛ اس لیے کہ ان میں حاکمیت کا تصور اللہ کے بجائے غیر اللہ کے لیے ثابت ہے، ان میں سے بعض نظریوں میں حاکمیت کا درجہ مذہبی پیشواؤں کو دیا گیا ہے جن کی مذمت قرآن‌ میں کی گئی ہے: ”اتخذوا أحبارهم ورهبانهم أربابا من دون الله“ (ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو پرودگار بنالیا ہے۔) [توبہ: 31]

       بعض نظریات میں پارلیمنٹ کو یہ درجہ دیا ہوا ہے جس سے اس کے ممبران جو چاہتے ہیں بِل پاس کرتے ہیں، جس دفعہ میں چاہتے ہیں ترمیم کرتے ہیں جس سے نظام بجائے منظم‌ ہونے کے مزید مختل ہوتا جارہا ہے، ظلم و استبداد کا خاتمہ تو دُور اس میں اور تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، نیز حقوق انسانی کا ضیاع، عصمت دری کا عموم اور غارت گری کی کثرت اس پر مستزاد۔

       لہذا صفحۂ ہستی سے ان برائیوں کو ختم کرنے، اس چمن میں پھر سے بہار لانے اور ظلمت کدہ کو رحمت کا گہوارہ بنانے کے لیے احکام الہٰی کا نفاذ بہت ضروری ہے، اور اس کی سب سے بنیادی شرط ”اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا اقرار“ ہے۔

       خلافت در اصل نیابت الہٰی ہے

    جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہی اصل حکم ہے اور ان کا قانون ہی اصل ہے تو خلیفہ رب العالمین کا نائب ہوگا اور امرِ خلافت میں اس کے تابع ہوگا، قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ: ”يا داؤد! إنا جعلناك خليفة في الأرض“ (اے داؤد! ہم نے روئے زمین پر تمھیں اپنا نائب بنایا ہے۔) [ص: 26]

       علامہ ابن خلدونؒ (732 - 808ھ) نے خلافت کی جو تعریف ذکر کی ہے اس سے اس کا مقصدِ اصلی پوری طرح نمایاں ہوتا ہے: ”حمل الكافة على مقتضى النظر الشرعي في مصالحهم الأخروية والدنيوية الراجعة إليها“ [مقدمة ابن خلدون، الباب الثالث، الفصل الخامس والعشرون، ص: 189؛ بحوالہ اسلام اور سیاسی نظریات ص: 180] (لوگوں کو شرعی طرزِ فکر کے مطابق چلانا جس‌ سے ان کی آخرت کی مصلحتیں بھی پوری ہوں، اور وہ دنیوی مصلحتیں بھی جن‌ کا نتیجہ آخرکار آخرت ہی کی بہتری ہوتی ہے۔)

       بہر کیف! امیر کا اللہ تعالیٰ کی نیابت میں امور سلطنت کو انجام دینا اسلام کے بنیادی تصورات میں سے ہے، جو دیگر نظاموں میں معدوم ہے؛ بلکہ ان نظاموں میں امور سلطنت بادشاہ کی جاگیر ہوتی ہے، وہ اس میں جیسے چاہتا ہے تصرف کرتا ہے، جس کے سبب سے “حقوق“ تلف ہوجاتے ہیں، ”حریت“ غلامیت سے بدل جاتی ہے، جب کہ اسلام میں معاملہ ایسا نہیں ہے؛ بلکہ اس میں تو خلیفہ تنفیذِ احکام اور تصرفِ امورِ مملکت میں پابند ہوتا ہے، مطلق العَنان نہیں ہوتا۔

        اسلامی سیاست کے اہداف

     شریعت کا کوئی پہلو بھی مقاصدِ حسنہ سے خالی نہیں ہے، چناں چہ اس کی سیاست بھی عمدہ مقاصد اور عظیم اہداف سے پُر ہے، مثلاً: اچھائیوں کا عموم، برائیوں کا سدِّ باب اور رعایا کی اصلاح و تربیت وغیرہ۔ جب کہ دیگر نظاموں میں ان باتوں کا تصور محض ایک اضافی اصطلاح کے طور پر ہے، زیادہ سے زیادہ ان کا مقصد خوشی فراہم کرنا، اور چیزوں کو مہیا کرنا ہے۔

       اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے یہاں ”خیر و شر“ کا کوئی معیار مقرر نہیں ہے، ایک ہی چیز ایک زمانہ میں بھلی اور دوسرے زمانہ میں بری معلوم ہونے لگتی ہے، ان کے پاس ”خیرِ مطلق اور شرِّ مطلق کا کوئی تصور ہی موجود نہیں ہے۔“ (اسلام اور سیاسی نظریات، ص: 181)
       جب کہ اسلام میں ”خیر و شر“ کا معیار موجود ہے، اس کا اولین مقصد ہی اچھائیوں کا عموم ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: ”الذين إن مكناهم في الأرض أقاموا الصلاة، وآتووا الزكاة، وأمروا بالمعروف، ونهوا عن المنكر، ولله عاقبة الأمور“ (يہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انھیں زمین میں اقتدار عطا کریں تو یہ نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں، نیکی کا حکم کریں اور برائی سے روکیں، اور تمام معاملات کا انجام اللہ ہی کے قبضہ میں ہے۔) [حج: 41]
       یہی وہ عمدہ مقاصد ہیں جن پر سیاستِ اسلامیہ کی بنیاد ہے، ان میں سے ہر ایک بڑی اہمیت کا حامل ہے، اپنے مقصود کو شامل ہے، نظامِ اسلامی کی برتری کو ثابت کرنے میں عامل ہے، آنے والے صفحات میں اس کی کچھ تفصیل لکھی جارہی ہے۔

      اقامتِ صلاة: اسلامی سیاست میں

   اسلامی سیاست کا بنیادی ستون نماز کا قیام ہے؛ چوں کہ سیاست کا مقصد تربیت ہے، اور اس میں ”ذہنی تربیت“ اصل ہے اور نماز اس سلسلہ میں بڑی مؤثر ہے؛ اس لیے اس کا قیام ”امورِ سیاست“ کے استحکام کے لیے ضروری ہے، چوں کہ رعایا کی اطاعت ہی استحکام کے لیے بنیادی شرط ہے اور بغیر تربیت کے اطاعت کا کمال حاصل نہیں ہوا کرتا، اسی وجہ سے ”نماز“ کی تاکید کی گئی ہے؛ تاکہ ذہنی تربیت کے ساتھ ساتھ پورے اعضاء و جوارح کی تربیت ہوجائے، جس کے اثرات کا مشاہدہ  مخالف ماحول میں ہوا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”إن الصلاة تنهى عن الفحشاء والمنكر“ (یقین جانو کہ نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔) [العنکبوت: 45]

       نیز دور صحابہ میں بھی اس کا خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا اور تربیت میں اس کو مقدم رکھا جاتا تھا، اور اما‌رت کے ساتھ امامت کی ذمہ داری بھی سنبھالی جاتی تھی، چناں چہ امام مالکؒ (متوفی: 179ھ) نے اس حوالے سے اپنی مؤطا میں یہ روایت نقل فرمائی ہے: ”عن نافع مولى عبدالله بن عمر أن عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- كتب إلى عماله أن أهم أمركم عندي الصلاة، فمن حفظها وحافظ عليها حفظ دينه، ومن ضيعها فهو لما سواها أضيع“ (حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اپنے گورنروں کو یہ خط لکھا کہ میرے نزدیک تمھارے تمام کاموں میں سب سے اہم چیز نماز ہے؛ لہذا جو کوئی اس کی حفاظت کرے گا اور اس کی پابندی کرے گا، وہ اپنے دین‌ کی حفاظت کرے گا، اور جو کوئی نماز کو برباد کرے گا، اس کے دوسرے کام زیادہ برباد ہوں گے۔) [مؤطا امام مالک، وقوت الصلاة، ص: 6، ج: 1؛ بحوالہ اسلام اور سیاسی نظریات، ص: 182]

      زکاۃ کی ادائیگی خوش حالی کی ضامن

    حکومت اسلامیہ سے کسی خاص طبقہ کا‌ مفاد مقصود نہیں ہے؛ بلکہ اس کا مقصد کمزوروں کی داد رسی کرنا، غریبوں کا خیال رکھنا، خوش حالی کو عام کرنا اور زبوں حالی کا خاتم کرنا ہے؛ ان امور کی تکمیل کے لیے ”زکاۃ“ ایک شاندار طریقہ اور بہترین ذریعہ ہے، جب کہ دیگر مروجہ نظام میں ان چیزوں کا تصور کبھی حاشیۂ خیال میں بھی نہیں آیا کرتا؛ بلکہ اس میں خستہ حالی کو زائل کرنے کی تدبیروں کو سوچنے کے بجائے خستہ حال لوگوں کی نسل کُشی اور بیخ کَنی کرنے کی پالیسیاں بنائی جارہی ہیں۔

       لہٰذا اسلام میں زکوٰۃ کی بڑی تاکید کی گئی ہے اور نماز کے ساتھ اس کو بیان کیا گیا ہے، آج اگر دنیا بھر کے اقتصادی نظام کا جائزہ لیا جائے تو چہار جانب ”ارزانی و پریشانی“ کا شور و غُل ہے، اس کو دُور کرنے کے لیے وہی کرنا ہوگا جو اسلام نے بتایا ہے، ایک ”سودی نظام کا اختتام“ اور دوسرا ”زکوٰۃ کی اداۓ گی کا اہتمام“ ان چیزوں کی رعایت ہمارے اقتصادی نظام کو اَوجِ کمال پر پہنچانے کی ضامن ہے، فلیعمل العاملون۔

        امر بالمعروف و نہی عن المنکر ایک اہم فریضہ

     اسلام میں خیر و شر کا معیار متعین ہے اور حکومت کے قیام کا بنیادی مقصد بھی ”اچھائیوں کو فروغ دینا، اور برائیوں کا خاتمہ کرنا“ ہے؛ لہذا اس کے اعلیٰ معیار (امر بالید و تغییر بالید) کا مکلف حکومت کو بنایا گیا ہے، جیساکہ فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے: ”و یقال: الأمر بالمعروف باليد على الأمر، وباللسان على العلماء، وبالقلب لعوام الناس، وهو إختيار الزندويستي، كذا في الظهيرة“ [الفتاوى العالمكيرية، كتاب الكراهة، باب: 17، 5/353؛ بحوالہ اسلام اور سیاسی نظریات ص: 187]

       اس کے مقابلے میں وہ نظام جو خیر وشر کا مطلق تصور نہیں رکھتا، نیز اس کے نصب العین میں خوبیوں کو فروغ دینا شامل نہیں ہے تو بھلا ان کے ہم نواؤں کو حکومت کرنے کا کیوں کر حق ہو؟ والأمر إليك فانظر!

       حكومت سے مقصود عدل و انصاف کا قیام

      اسلامی حکومت کا بنیادی مقصد ”قیامِ عدل“ ہے،‌‌ اس کے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد‌ علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ”یا داؤد! إن جعلناك خليفة في الأرض، فاحكم بين الناس بالحق، ولا تتبع الهوى فيضلك عن سبيل الله“ (اے داؤد! ہم نےروۓ زمین پر تمہیں اپنا خلیفہ بنایا ہے، تو تم لوگوں کے درمیان انصاف سے فیصلہ کرو، اور خواہش کی پیروی مت کرو پھر تو وہ تمہیں اللہ کے راستہ سے ہٹا دے گی) [ص: 27] اس میں عدالتی فیصلے اور انتظامی و اجتماعی امور کا حق پر مبنی ہونا بھی داخل ہے؛ البتہ وہ معیار مقصود ہے جس کو اللہ اور اس کے رسول نے‌‌ مقرر کیا ہے،  لہذا وہ فیصلہ جو اس معیار کے موافق نہ ہو وہ عدل نہیں ہے؛ بلکہ ظلم‌ ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ”ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الظالمون“ (اور جو شخص اُس بات كا حكم نہ کرے جو اللہ تعالیٰ نے اتاری ہے تو وہ لوگ ظالم ہوں گے) [مائدۃ: 45]

    اس لیے جب آپ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو ایسی مثالیں ملیں گی جو ”اسلامی سیاست“ کے عدل و انصاف کے روشن باب کو اجاگر کرتی ہیں کہ قاضیوں نے سربراہوں کے خلاف نہ صرف مقدمہ چلایا؛ بلکہ ان کے خلاف فیصلہ بھی سنایا ہے، جیسا کہ مشہور ہے کہ قاضی شریحؒ نے امیر المؤمنین حضرت علیؓ کے خلاف فیصلہ دیا، جب کہ ان کا فریقِ مخالف ایک یہودی تھا؛ مگر آج کے جمہوری نظامِ حکومت میں سربراہوں کے خلاف فیصلہ سنانا تو درکَنار؛ مزید ان کو اس حد تک اختیار دیا ہوتا ہے کہ وہ جس مجرم کی چاہیں سزا معاف کروا دیں؛ خواہ نچلی عدالت سے عدالتِ عظمیٰ تک اس کی سزا یابی پر اتفاق کیا گیا ہو، جس کے سبب سے جرائم کی شرح میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اس کے علاوہ اسلام اپنی حکومت میں ہر مذہب والے کو یہ آزادی دیتا ہے کہ وہ نکاح و طلاق اور میراث و وصیت میں اپنے مذہب پر عمل کرے۔ چناں چہ فرمایا گیا ہے: ”اتركوهم و ما يدينون“ (ان کو اپنے مذہب پر عمل کرنے دو) [التقریر و التحریر، فصل فی شرائط الراوی، مسئلۃ تخصیص السنۃ بالسنۃ، ج: 2، ص: 310، بحوالہ اسلام اور سیاسی نظریات، ص: 195]

     اس کے علاوہ دیگر نظام میں آزادی کا دعویٰ تو ہے؛ لیکن در حقیقت آزادی دی نہیں جاتی ہے؛ بلکہ اُن امور میں جن کا تعلق عقیدے سے ہے، ملکی قوانین کے مطابق عمل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، جیسا کہ ہم اپنے دیار میں اس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

        اسلام میں تأھیلِ امارت کا ایک معیاری تصور
    ان مقاصد حسنہ کو بروئے کار لانے کے لیے ایک نظام کا ہونا اور اس کا ایک منتظم ہونا ضروری ہے، اور اس کے لیے اس کے اندر اہلیت کا ہونا ایک لازمی امر ہے، اسلام نے اس کا عمدہ معیار مقرر کیا ہے جس کو ذیل میں درج کیا جاتا ہے:
(1) عاقل و بالغ ہونا: عاقلین و مکلفین کے سربراہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ بھی احکام شرعیہ کا مکلف ہو؛ اس لیے کہ غیر مکلف، مکلف سے کم درجہ کا ہوتا ہے اور عاقل، غیر عاقل سے اعلیٰ اور اونچے مرتبت والا ہوتا ہے، لہذا امارت کے لیے عقل و بلوغت دونوں کی شرط لگائی گئی ہے۔
(2) مسلمان ہونا: مقاصد اسلامیہ کی تنفیذ کے لیے حاکم کا خود مطیع و منقاد ہونا ضروری ہے؛ اس لیے کہ اطاعت کا نہ ہونا ”سفاہت“ ہے، جب کہ اسلامی احکام مبنی بر عدل ہیں، چناں چہ ”سفیہ“ عادل نہیں ہو سکتا، اور سفاہت کے ساتھ عدالت متصور نہیں ہو سکتی اور اس کو قرآن نے بھی ظلم کہا ہے ”إن الشرك لظلم عظيم“ (سورہ لقمان: 13)، لہٰذا ظلم سے ظلمت عام ہوگی نہ کہ نورانیت، جب کہ اسلام آیا ہی ہے لوگوں کو ظلمت کدہ سے نکالنے کے لیے ”يخرجهم من الظلمات إلى النور“ (البقرۃ: 257)۔
(3) مرد ہونا: اسلام میں حکومت کے لیے رجولیت ضروری ہے، اس لیے کہ امارت اور امامت دونوں کی ذمہ داری حاکم پر ہوتی ہے، اور امارت کو ”امامتِ کبریٰ“ اور نماز کی امامت کو ”امامتِ صغریٰ“ کہا گیا ہے، جب ”نسوانیت“ بالاتفاق امامتِ صغریٰ کے لیے مانع ہے تو بدرجۂ اولی امامتِ کبریٰ کے لیے بھی مانع ہوگی اور روایت میں بھی اس کو ”مانع“ قرار دیا گیا ہے، اللّٰہ کے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لن يفلح قوم ولّوا أمرهم إمراة“ (وہ قوم ہرگز فلاح نہیں پائے گی جس نے اپنے اوپر کسی عورت کو حاکم بنا لیا ہو) [صحیح البخاری، باب کتاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم الى کسری و قیصر، حدیث 4425 بحوالہ اسلام اور سیاسی نظریات ص: 210] اور ایک موقع پر فرمایا: ”إذا كانت أمراؤكم خياركم، وأغنيائكم سمحائكم، وأموركم شورى بينكم فظهر الأرض خير لكم من بطنها،  وإذا كانت أمراؤكم شراركم وأغنياؤكم بخلائكم وأموركم إلى نسائكم فبطن الأرض خير لكم من ظهرها“ (جب تمھارے امیر تم میں سے بہترین لوگ ہوں، تمھارے مال دار لوگ سخی ہوں اور تمھارے معاملات، باہمی مشورے سے طے پاتے ہوں تو زمین کی پشت تمھارے لیے اس کے پیٹ سے بہتر ہے، اور جب تمھارے امیر لوگ تم میں سے بد ترین لوگ ہوں، تمھارے مال دار لوگ تم میں سے بخیل لوگ ہوں اور تمھارے معاملات، تمھاری عورتوں کے حوالے ہو جائیں تو زمین کا پیٹ تمھارے لیے زمین کی پشت سے بہتر ہے۔) [جامع الترمذی باب 78، حدیث 2266 بحوالۂ سابق]
(4) قریشی ہونا: اللّٰہ کے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لا يزال هذا الأمر في قريش ما بقى منهم اثنان“ (یہ معاملہ (خلافت) قریش میں رہے گا، جب تک ان میں دو انسان باقی ہوں۔) [صحیح بخاری، باب مناقب قریش، حدیث 251، بحوالۂ سابق] اور ایک دوسری جگہ فرمایا: ”إن هذا الأمر في قريش، لا يعاديهم أحد إلا كبّه الله على وجهه ما أقاموا الدين“ (یہ معاملہ قریش میں رہے گا، ان میں سے جو کوئی دشمنی کرے گا، اللّٰہ اس کو اوندھے منہ گرا دے گا) [صحیح بخاری، باب مناقب قریش، حدیث 3500، بحوالۂ سابق] اس باب میں تفصیل ہے، جس کا یہ مقالہ متحمل نہیں ہے۔
(5) علم: احکام اسلامیہ کی نوعیت و کیفیت سے آشنائی، اس کی مصلحتوں اور نزاکتوں سے ہمنوائی، حاکم کے لیے ضروری ہے اور یہ امر علوم اسلامیہ میں تعمق (گہرائی) کے بغیر حاصل نہیں ہوتا، اس لیے حاکم و امیر کے لیے انتظام و انصرام کی صلاحیت کے ساتھ علمی لیاقت بھی ضروری ہے؛ کیوں کہ اس مہتم بالشان کام کو ”جَہالت“ کے ساتھ کرنا ممکن نہیں ہے۔
(6) عادل ہونا: فیصلوں کا عدل پر مبنی ہونا فیصل کی عدالت پر موقوف ہے؛ اس لیے کہ ظالم کے ہاتھوں عدل و انصاف کا قیام نہیں ہوا کرتا اور عدل کا معیار اطاعت الہٰی ہے اور حکومت اسلامیہ سے مقصود عدل کا قیام ہے، جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”وإذا حكمتم بين الناس أن تحكموا بالعدل، فاحكم بين الناس بالحق.“ [سورۂ ص: 26]

      اسلامی سیاست کے انتخاب کا طریقہ

   جب سے شمعِ رسالت غروب ہوئی ہے، تب سے ہی امیر کے انتخاب کی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہو گئی ہے؛ اس لیے آقائے مولیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس بابت کسی کی نامزدگی نہیں فرمائی؛ بلکہ اس معاملے کو مسلمانوں پر چھوڑ دیا، چناں چہ انتخاب، اہلِ رائے کے باہمی مشورے سے ہوگا (وأمرهم شورى بينهم [سورۂ شوری: 38])؛ لہٰذا بغیر مشاورت کے انتخاب کا اعتبار نہیں ہوگا اور رائے دہندگی کا اختیار، اہلِ شوریٰ کو ہوگا، اس میں ہر کس و ناکس، شمولیت کا مجاز نہیں ہوگا، جیسا کہ جمہوری طرزِ حکومت میں یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ اس میں ہر طرح کے اشخاص کی رائے شمار کی جاتی ہے اور بالغ رائے دہی سے انتخاب ہوتا ہے، یہ طریقہ درست نہیں ہے، درست طریقہ وہی ہے جو دورِ خلافت میں جاری تھا۔

         مجلسِ شوریٰ کی رکنیت

    مجلسِ شوریٰ میں رکنیت کے مجاز وہی لوگ ہوں گے، جنھیں سیاسی بصیرت حاصل ہو اور جن کے اندر دیانت ہو؛ البتہ اس میں انتخاب، بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوگا، اور جب اہل بصائر کو اپنے ملک کے سیاسی و تعلیمی شعور کے موافق اس سلسلے میں کوئی مناسب صورت سمجھ میں آ جائے تو اس کے مطابق انتخاب کیا جائے گا۔

        خلافت ایک عظیم ذمہ داری ہے

    خلافت و امارت ایک بڑی ذمہ داری ہے، نہ تو یہ کسی کی جاگیر ہے اور نہ ہی یہ کسی کا حق ہے، اسلام میں اس کی طمع کرنے سے ممانعت کی گئی ہے، ایک موقع پر حضرت ابوذر غفاریؓ نے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے اس کی خواہش ظاہر کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”يا أبا ذر! إنك ضعيف، وإنها أمانة، ويوم القيامة خزي وندامة؛ إلا من أخذها بحقها وأدّى الذي عليه فيها“ (اے ابوذر! تم کمزور ہو، اور یہ (حکومت) ایک امانت ہے، اور قیامت کے دن رسوائی اور پشیمانی؛ الّا یہ کہ کوئی شخص برحق طریقے سے یہ امانت لے، اور اُس پر اُس کے جو حقوق عائد ہوتے ہیں، انھیں ٹھیک ادا کرے) [مسلم، باب کراہۃ الامامۃ بغیر ضرورۃ، حدیث 4683، بحوالہ اسلام اور سیاسی نظریات ص: 196]

     یہ اسلام کا وہ پاکیزہ نظریہ ہے، جو بہت ساری خوبیوں کو نیست و نابود کرنے کا ذریعہ ہے، جب کہ موجودہ تصورِ جمہوریت میں سب سے بڑا نَقص یہی ہے کہ نمائندگی کے لیے خود کو پیش کرتے ہیں، جس سے معاشرے کا نقصانِ عظیم ہوتا ہے، مثلاً ”فرقہ وارانہ تصادم و تنازعات، مستقل پولیٹیکل جنگ کا لامتناہی سلسلہ، دو فریقوں میں انتخابی کشمکش، فتنہ و فساد، مال و زار کا اتلاف اور ضیاع، نہایت بے دردی کے ساتھ ایک فریق کا دوسرے فریق کو ہدفِ ملامت بنانا، نہایت ذلیل حملے کرنا، سیم و زر کی تھیلیاں کھول دینا اور اس میں بعض دفعہ قتل و خوں ریزی تک پہنچ جانا“؛ یہ اور انھیں جیسے اسباب کی وجہ سے اسلام میں کسی شخص کا دعوائے حکومت کو لے کر اٹھنا بہت مستبعد امر ہے؛ چہ جائے کہ اس میں ترغیب و تحریص کے ہزار ہتھکنڈے اور پروپیگنڈے اختیار کیے جائیں، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے اربعہ اور خلیفۂ ارشد حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا دور، اسلامی حکومت کے لیے رہنما اور آئیڈیل ہے، اس پورے عہد میں ایک بھی ایسی مثال نہیں دکھائی جا سکتی کہ کسی خلیفہ یا حکمراں کو ان کی خواہش کی بنیاد پر حکومت سونپ دی گئی ہو۔ (ماہنامہ دار العلوم، شمارہ: 10-11، جلد: 89، رمضان - شوال 1426ھ بمطابق اکتوبر - نومبر 2005ء)

     لہٰذا ہم پر یہ بات واضح ہو گئی کہ اسلامی نظام کی دنیا کو ہر حال میں ضرورت ہے؛ تاکہ زندگی کے تمام شعبے مختل ہونے سے محفوظ رہیں اور جس کی وجہ سے روئے زمین جنت نظیر بنے اور وہ مثبت نتائج حاصل ہوں جو اسلامی نظام کا نصب العین ہے۔ و اللّٰہ اعلم بالصواب و علمہ اتمّ و احکم۔

مآخذ و مراجع:
(1) اسلام اور سیاسی نظریات از مفتی محمد تقی عثمانی، ناشر: کتب خانہ نعیمیہ دیوبند، اپریل 2011ء۔
(2) دار العلوم دیوبند اور سیاست از مولانا محمد اسحاق باجوڑی، مکتبہ عمر فاروق کراچی، 2018ء۔
(3) اسلامی نظریۂ سیاست از مولانا حیدر زماں صدیقی، مکتبہ دین و دانش، مکنھیاں کنواں، بانکی پور، پٹنہ، 1947ء۔
(4) ماہنامہ دار العلوم دیوبند، اکتوبر - نومبر 2005ء۔

مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ

مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ محمد روح الامین میوربھنجی       مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی سرزمینِ بہا...