بدھ، 16 اگست، 2023

بلبل اڈیشا مناظر اسلام حضرت مولانا سید سراج الساجدین صاحب کٹکی قاسمیؒ (1939–2006ء): مختصر تذکرہ و سوانحی خاکہ

بلبل اڈیشا مناظر اسلام حضرت مولانا سید سراج الساجدین صاحب کٹکی قاسمیؒ (1939–2006ء): مختصر تذکرہ و سوانحی خاکہ

محمد روح الامین میُوربھنجی

     حضرت مولانا سید سراج الساجدین صاحب کٹکی رحمۃ اللّٰہ علیہ جید عالم دین، خوش الحان قاری، کامیاب مناظر، مشفق معلم، شیریں بیاں واعظ و خطیب، انشا پرداز ادیب اور نعت گو شاعر تھے۔ حسن اخلاق، حسن انتظام، مہمان نوازی، نظافت و نفاست اور خطابت و شیریں بیانی میں اپنی مثال آپ تھے۔ ان کے استاذ و مربی مناظر اسلام حضرت مولانا سید محمد اسماعیل کٹکیؒ نے اپنی زندگی میں ہی انھیں اپنا جانشین منتخب کر لیا تھا؛ 11 محرم 1426ھ مطابق 20 فروری 2005ء کو اپنے استاذ محترم کے انتقال کے بعد جمعیۃ علماء اور امارت شرعیہ صوبہ اڈیشا کے بالترتیب صدر و امیر شریعت منتخب کیے گئے تھے؛ مگر افسوس کہ اپنے استاذ کے رحلت فرما جانے کے محض ڈیڑھ سال بعد یعنی 27 رمضان المبارک 1427ھ مطابق 21 اکتوبر 2006ء کو خود بھی اس دار فنا سے دار بقا کی طرف کوچ کر گئے (انا للّٰہ وانا الیہ راجعون)۔

        ولادت اور تعلیم و تربیت
     آپؒ کی پیدائش سنہ 1939ء کو دریاپور، سونگڑہ، ضلع کٹک میں ہوئی۔ فارسی اور عربی کے ابتدائی درجات کی تعلیم جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم سونگڑہ میں حضرت مولانا سید محمد اسماعیل کٹکیؒ، مولوی سید عبد القدوس کٹکیؒ، مولانا شاہ عبد الغفار منی ناتھ پوریؒ، مفتی محمد اسحاق دریاپوریؒ، مولانا محمد اسماعیل پٹنویؒ وغیرہم کے پاس حاصل کی۔ پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے آپ دار العلوم دیوبند تشریف لے گئے، جہاں سے سنہ 79–1380ھ (مطابق 1960–61ء) میں دورۂ حدیث پڑھ کر فارغ التحصیل ہوئے۔

     مولانا مرحوم کے سونگڑہ کے زمانۂ طالب علمی کے معاصرین میں مولانا سید عبد الحفیظ صاحب کٹکی مظاہری (مہتمم جامعہ رشیدیہ ریاض العلوم، گوہالی پور، سونگڑہ)، مولانا محمد منظور احمد صاحب کٹکی قاسمیؒ (سابق چیئرمین اڈیشا اردو اکادمی، بھوبنیشور و مدیر سہ ماہی فروغ ادب، بھوبنیشور) اور مولانا ہاشم مرحوم وغیرہ شامل ہیں۔ (مجلس شوریٰ جامعہ رشیدیہ ریاض العلوم، گوہالی پور، سونگڑہ [منعقدہ: 8 جمادی الاولی 1425ھ مطابق 27 جون 2004ء] میں پیش کی گئی حضرت مولانا سید عبد الحفیظ صاحب کٹکی کی پیش کی گئی رپورٹ)

اسی طرح سونگڑہ کے زمانے کے ساتھیوں میں مولانا محمد اسحاق پٹنوی مرحوم بھی شامل تھے، جن سے مولانا مرحوم کے گہرے مراسم بھی تھے، نیز وہ جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم میں مدرس بھی رہے ہیں۔ (حضرت مولانا سید کفیل احمد قاسمی، مقیم علی گڑھ کی رہنمائی کے مطابق)

     شرکائے دورۂ حدیث میں سابق مفتی دار العلوم دیوبند مفتی کفیل الرحمن نشاط عثمانیؒ بھی شامل تھے۔ بہ قول مولانا نور عالم خلیل امینیؒ؛ مفتی کفیل الرحمن نشاط صاحبؒ کے اساتذۂ کرام میں فخر المحدثین مولانا سید فخر الدین احمد مرادآبادی (سابق شیخ الحدیث دار العلوم دیوبند)، امام المعقول والمنقول علامہ محمد ابراہیم بلیاوی، حضرت مولانا فخر الحسن مرادآبادی، حضرت مولانا بشیر احمد خاں بلند شہری، حضرت مولانا ظہور احمد دیوبندی، حضرت مولانا سید حسن دیوبندی اور سابق مہتمم دار العلوم دیوبند حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہم اللّٰہ شامل تھے۔ (پسِ مَرگ زندہ، پہلا ایڈیشن: مئی 2010ء، صفحہ: 787 و 788)

      تدریسی و عملی زندگی
    فراغت کے بعد مولانا مرحوم نے اسکول کی ملازمت اختیار کر لی تھی، پھر فخر المحدثین مولانا سید فخر الدین احمد مرادآبادیؒ اور اپنے والد ماجد ڈاکٹر زین العابدین کٹکیؒ کے ایما و حکم سے انھوں نے مرکز العلوم سے تدریس کا آغاز کیا، پھر کیا تھا؛ انھوں اپنی پوری زندگی مرکز العلوم کی آبیاری کے لیے وقف کر دی۔ پہلے استاذ رہے؛ پھر مولانا سید محمد اسماعیل کٹکیؒ کی وفات تک انچارج یا نائب مہتمم رہے؛ مگر نائب مہتمم ہونے کے باوجود نوے کی دہائی میں علماء کانفرنس کے موقع پر مولانا سید محمد اسماعیل کٹکیؒ نے اڈیشا کے علما اور عوام کی موجودگی میں مولانا مرحوم کو مدرسے کی پوری ذمے داری سونپ دی تھی۔ (حضرت مولانا محمد علی صاحب قاسمی کٹکی اور حضرت مولانا زعیم الاسلام صاحب قاسمی کے بیانوں کا مجموعی خلاصہ)

     حضرت مولانا علی اشرف قاسمی دریاپوری (استاذ حدیث مرکز العلوم سونگڑہ) کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کے اس سوال: ”آپ کے شاگردوں میں کوئی ایسے بھی شاگرد ہیں، جو آپ کے ان فکروں کو اور اس کارواں کو لے کر آگے بڑھ سکیں؟ آپ کی امیدیں کن سے وابستہ ہیں؟“ کا جواب دیتے ہوئے مولانا سید محمد اسماعیل کٹکیؒ نے فرمایا تھا: ”میرے کئی شاگرد ہیں، ان میں سے میں نے مولانا سید سراج الساجدین کو چن لیا ہے اور مجھے اطمینان ہے کہ وہ ان فکروں کو اپنے سر لیں گے اور اس کارواں کو آگے بڑھائیں گے۔“ (آئینۂ دار العلوم دیوبند، جلد: 12، شمارہ: 1، اشاعت: 28 صفر 1417ھ مطابق 15 جولائی 1996ء)

    دار العلوم دیوبند سے فراغت کے بعد اسکول کی عارضی ملازمت سے لے کر مرکز العلوم سے وابستگی تک کے بارے میں مولانا مرحوم ہی کے لائق و فائق شاگرد حضرت مولانا محمد علی صاحب قاسمی (سات بٹیہ، کٹک والے) نے کچھ یوں ارشاد فرمایا تھا کہ حضرت مولانا مرحوم نے دار العلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد اسکول کی ملازمت اختیار کر لی تھی، ان کے والد ماجدؒ کو یہ بات انتہائی ناگوار گزری، جب مولانا مرحوم نے اپنی پہلی تنخواہ (تین سو بیس روپے) اپنے والد کے ہاتھوں میں لاکر دی، تو انھوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اتنی ہی تنخواہ تم مجھ سے لے لو؛ مگر مدرسے میں پڑھاؤ۔ مولانا مرحوم کا کہنا تھا کہ میں اسکول میں پڑھاؤں گا اور الگ سے ذاتی طور پر ایک طالب علم کی کفالت کے ساتھ اس کی دینی تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دوں گا۔ یہ بات ان کے والد کو گوارا نہ تھی، ان کے والد نے اس وقت کے شیخ الحدیث دار العلوم دیوبند اور مولانا مرحوم کے استاذ محترم مولانا سید فخر الدین احمد مرادآبادیؒ کو صورت حال سے آگاہ کیا؛ تو انھوں نے مولانا مرحوم کو مخاطَب کرکے اس طرح کا جملہ ارقام فرمایا تھا کہ ”میں نے تمھیں سرکار مدینہ کی غلامی کے لیے تیار کیا ہے؛ سرکار اڑیسہ کی غلامی کے لیے نہیں!!“ اپنے استاذ کے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے آپ نے چالیس روپے ماہانہ تنخواہ پر مرکز العلوم سونگڑہ میں تدریسی خدمت انجام دینے لگے اور تادمِ آخر یہیں کے ہو رہے۔

   28 صفر  1407ھ مطابق 2 نومبر 1986ء میں امارت شرعیہ ہند کے قیام کے بعد (حیات ابو المآثر [جلد اول؛ سنہ اشاعت: 2011ء]، مؤلفہ: ڈاکٹر مسعود احمد الاعظمی) 1987ء میں اڈیشا میں امارت کانفرنس کے موقع پر انھیں مولانا سید اسماعیل صاحبؒ نے نائب امیر شریعت اڑیسہ منتخب کر لیا تھا (بہ قول مولانا زعیم الاسلام صاحب؛ غالباً 1992 یا 1993ء میں انھیں باضابطہ نائب امیر شریعت منتخب کیا گیا تھا)، ان کی حیات ہی میں مولانا مرحوم کو نائب صدر جمعیۃ علمائے اڑیسہ چن لیا گیا تھا اور صدر مجلس تحفظ ختم نبوت اڈیشا  بنا دیا گیا تھا، پھر مولانا اسماعیل صاحبؒ کی نماز جنازہ سے پہلے؛ 11 محرم 1426ھ مطابق 21 فروری 2005ء کو مولانا عبد الصمد صاحب نعمانی مد ظلہ (خلیفہ فدائے ملت مولانا سید اسعد صاحب مدنیؒ)، مولانا محمد جابر خان صاحب بنجھار پوریؒ (خلیفہ فدائے ملتؒ)، مولانا نور اللہ صاحب جدو پوریؒ (خلیفہ فدائے ملتؒ)، مولانا محمد جلال صاحب قاسمیؒ، مولانا محمد فاروق صاحب مدظلہ (خلیفہ حضرت قاری امیر حسن صاحبؒ) اور مولانا محمد جسیم الدین قاسمی دربھنگوی وغیرہم کی موجودگی میں مولانا مرحوم کو امیر شریعت ثانی اڈیشا منتخب کیا گیا تھا۔ (ماقبل والے پیراگراف کی بہت سی باتیں؛ خود مولانا مرحوم کی تقریر سے مستفاد ہیں) اسی طرح مولانا مرحوم اپنے استاذ محترم کے بعد جمعیۃ علمائے اڈیشا اور کل ہند رابطۂ مدارس اسلامیہ عربیہ، دار العلوم دیوبند کی صوبائی شاخ ”رابطۂ مدارسِ اسلامیہ عربیہ، صوبہ اڈیشا“ کے صدر بھی نامزد کیے گئے تھے۔ ان سارے عہدوں پر اپنی وفات تک فائز رہے۔

   حضرت مولانا سید شمس تبریز قاسمی، سفیر دار العلوم دیوبند نے حضرت مفتی خورشید انور صاحب گیاوی مد ظلہ، استاذ حدیث دار العلوم دیوبند کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ حضرت مولانا سید سراج الساجدین کٹکیؒ کے رکن مجلس شوریٰ دار العلوم دیوبند بنانے کی بات بھی چلی تھی؛ مگر جلد ہی ان کی وفات کا سانحہ پیش آ گیا۔ حضرت مولانا مفتی محمد کلیم الدین صاحب کٹکی (استاذِ دار العلوم دیوبند) نے کچھ یوں فرمایا کہ اگر وہ جلد رحلت نہ فرماتے؛ تو ممکن تھا کہ مجلس شوریٰ کے رکن نامزد کیے جاتے۔

        فرق باطلہ کا رد و تعاقب
     اللہ تعالیٰ نے مولانا مرحوم کو علمی تبحر بھی وافر حصے میں عنایت فرمایا تھا، بہترین یادداشت اور اعلیٰ ذہانت و فطانت کی دولت سے بھی بہرہ ور کیا تھا۔ انھوں نے صوبہ اڈیشا میں تحفظ ختم نبوت اور تحفظ سنت کے باب میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ مولانا زعیم الاسلام صاحب فرماتے ہیں کہ مولانا سید اسماعیل صاحبؒ نے صوبہ اڑیسہ سے قادیانیت کی بَی٘خ کَنی کی ہے، تو دیگر فرق باطلہ ضالہ کی کمر مولانا سید سراج الساجدین صاحبؒ نے توڑی ہے۔

     آپ مناظروں میں اپنے استاذ محترم حضرت مولانا سید محمد اسماعیل کٹکیؒ کی معاونت فرمایا کرتے اور بہ نفس نفیس بھی باطل کا مقابلہ کیا کرتے تھے۔ مولانا مرحوم نے اپنی زندگی میں قادیانیوں، غیر مقلدین، جماعت اسلامی والوں، بریلیوں اور قادیانیوں کی بگڑی ہوئی شکل ”دیندار انجمن“ (جس کا بانی حیدرآباد، دکن کا ”صدیق دیندار چَن بَسویشور“ تھا) کے لوگوں سے تقریباً بارہ مناظرے و مباحثے کیے، جن میں سے بعض مناظرے قابل ذکر ہیں، جیسے:
(1) 1963ء کا ”مناظرۂ یادگیر“؛ جو صوبہ کرناٹک کے مقام ”یادگیر“ میں ہوا تھا اور جس کی رپورٹ یادگار یادگیر کے نام سے آج بھی موجود ہے، جس میں حضرت مولانا سید احمد النبی صاحبؒ اور مولانا مرحوم نے حضرت مولانا سید محمد اسماعیل کٹکیؒ کی بھرپور معاونت کی تھی۔
(2) سات بٹیہ، کٹک سے شروع ہونے والے مسئلے کے بعد پدم پور میں ہونے والا مناظرہ، جسے ”مناظرۂ پدم پور“ یا سات بٹیہ کا مناظرہ کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ مناظرہ ”مناظرۂ پدم پور“ کے نام سے کتابی شکل میں شائع بھی ہوا تھا۔
(3) تحفظ سنت اور شرک و بدعت کے رد میں سنہ 1399ھ مطابق 1979ء کو ”کٹک بارہ بٹی اسٹیڈیم“ میں ہونے والا سہ روزہ مناظرہ؛ جس میں اہل حق کے مناظرین میں مولانا ارشاد احمد فیض آبادیؒ (متوفی: 1989ء؛ مبلغ دار العلوم دیوبند)، مناظر اسلام مولانا سید محمد اسماعیل کٹکیؒ (متوفی: 2005ء)، مولانا مرحوم اور مولانا مناظر اسلام مولانا سید طاہر حسین گیاویؒ تھے اور فریق مخالف کی طرف سے بریلویوں کے مجاہد ملت مولانا حبیب الرحمن دھام نگری اشرفی (متوفی: 1981ء) اور ان کے مشہور عالم دین مولانا ارشد القادری (متوفی: 2002ء) موجود تھے، جس میں فریق مخالف کو بری طرح شکست بھی ہوئی تھی۔ مولانا سید محمد اسماعیل صاحبؒ، مولانا مرحوم اور تیسرے دن مولانا سید طاہر گیاوی صاحبؒ اور مولانا ارشاد صاحبؒ، مبلغ دار العلوم دیوبند؛ اہل حق کی طرف سے اس مناظرے کے کلیدی کردار تھے۔ اس مناظرے کے حوالے سے حضرت مولانا سید طاہر حسین صاحب گیاویؒ کا تاثر یہ تھا کہ ”اس مناظرے (مناظرۂ بارہ بٹی اسٹیڈیم، کٹک) میں حضرت مولانا سید سراج الساجدین صاحب نے ارشد القادری کو مار ہی دیا تھا، میں نے آکر اس کی چمڑی ادھیڑ دی۔“

   ان کے علاوہ اڈیشا اور بیرون اڈیشا بدعات و خرافات اور فرق ضالہ کے خلاف مولانا مرحوم کے اصلاحی و تربیتی بیانات ہوتے رہتے تھے۔

   مناظر اسلام مولانا سید طاہر حسین گیاویؒ کا واقعہ
    مولانا مرحوم کی وفات کے بعد مناظر اسلام حضرت مولانا سید طاہر حسین گیاویؒ (متوفی: 2023ء) تعزیت کے لیے سونگڑہ تشریف لائے تھے اور تقریباً آدھ پون گھنٹے تک مولانا مرحوم کی قبر کے پاس بیٹھ کر روتے رہے، پھر وہاں سے ہٹ کر فرمایا تھا کہ ہماری برادری کا ایک ایسا آدمی رخصت ہو گیا، جس کا کوئی ثانی نہیں، اور یہ بھی فرمایا تھا کہ مولانا سید سراج الساجدین صاحب نے مناظرے کا ایک نیا طریقہ ایجاد کیا تھا کہ جواب تو مختصراً دیتے تھے؛ مناظرے کے اندر جواب دہی کے دوران اپنے جواب کے وقت کو تین حصوں میں تقسیم کرکے پہلے حصے میں مد مقابل کے اعتراض کا معمولی جواب دیتے، دوسرے حصے میں مد مقابل پر ہی اعتراضات کے انبار لگا دیتے اور تیسرے حصے میں مخالفین کو انھیں کی باتوں سے الجھا کر غصہ دلا دیتے کہ وہ غصے سے تلملا جاتے اور جب ان کے جواب کا وقت آتا تو تلملاہٹ کی وجہ سے الجھ جاتے تھے۔ (استاذ محترم حضرت مولانا زعیم الاسلام صاحب قاسمی اس تعزیتی مجلس میں وہاں موجود تھے)


         مشہور و معروف تلامذہ
     آپ کے مشہور و ممتاز تلامذہ میں مولانا عبد السبحان صاحب قاسمی نیا گڑھیؒ، مولانا نظام الدین قاسمی سونگڑویؒ، مولانا محمد داؤد صاحب سونگڑوی، مولانا میر مسعود صاحب قاسمی، مولانا مشیر الدین صاحب کٹکیؒ (سابق استاذ مرکز العلوم)، مولانا ابرار عالم صاحبؒ (سابق استاذ مرکز العلوم)، مولانا اختر بیگ صاحب قاسمیؒ (سابق استاذ مرکز العلوم)، مولانا سعید الاسلام صاحب (اولابر، آل، کیندرا پاڑہ)، مولانا عبد الستار صاحب کاکٹ پوری، مولانا محمد علی صاحب قاسمی (سات بٹیہ، کٹک)، مولانا محمد ابو سفیان قاسمی (بالوبیسی)، مولانا محمد فاروق صاحب قاسمی (امیر شریعت رابع اڈیشا و رئیس الجامعہ جامعہ اسلامیہ اشرف العلوم، محمود آباد، کیندرا پاڑہ، اڈیشا)، مولانا عبد الحمید صاحب مرکزیؒ (سابق ناظم و صدر مہتمم جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم سونگڑہ و از خواص مولانا مرحوم)، مولانا محمد ارشد صاحب قاسمی (موجودہ صدر جمعیۃ علمائے اڈیشا [الف])، مولانا محمد غفران صاحب قاسمی (بالو بیسی)، مفتی محمد اشرف علی قاسمی (مہتمم جامعہ قاسم العلوم، بشن پور، بالوبیسی)، مولانا عنایت اللہ صاحب ندوی (استاذ تفسیر و ادب دار العلوم ندوۃ العلماء)، مولانا محمد افضل صاحب قاسمی (رائی سواں، کیونجھر)، مولانا سید انظر نقی صاحب قاسمی (استاذ حدیث جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم)، مولانا نور اللہ صاحب قاسمی جدوپوریؒ (متوفی: 2022ء؛ خلیفہ فدائے ملت)، مولانا سید خلیق الامین صاحب قاسمیؒ (سابق استاذ حدیث مرکز العلوم سونگڑہ)، والد محترم قاری محمد نور الامین صدیقی (بانی و مہتمم دار العلوم حسینیہ، مدنی نگر، چڑئی بھول، ضلع میُوربھنج)، مولانا اصغر صاحب قاسمی (استاذ حدیث مرکز العلوم سونگڑہ)، مفتی سید نقیب الامین صاحب برقی قاسمی، مولانا زعیم الاسلام قاسمی (استاذ حدیث مرکز العلوم سونگڑہ) وغیرہم شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی ان کے تلامذہ میں اڈیشا کے علما و غیر مکمل حضرات (جو کسی وجہ سے تعلیم پور نہ کر سکے ہوں) کی ایک کثیر تعداد ہے۔ 

       سیاسی اثر و رسوخ
  مولانا مرحوم نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز؛ ”اڈیشا کمیونسٹ پارٹی“ سے کیا تھا۔ نیز وہ اڈیشا کمیونسٹ پارٹی کے نائب صدر بھی رہے۔ ازہر صاحب نے یہ بھی بتایا تھا کہ کوئی مولانا اسحاق سنبھلی تھے، جو کمیونسٹ پارٹی اور جمعیۃ علما کے فعال رکن تھے، ان سے متاثر ہو کر اور انھیں کے اصرار پر مولانا مرحوم اڈیشا کمیونسٹ پارٹی سے منسلک ہوئے تھے۔ (یہ باتیں مولانا زعیم الاسلام صاحب نے اڈیشا کمیونسٹ پارٹی کے نیتا ازہر صاحب کے حوالے سے بتلائیں۔ مولانا محمد اسحاق سنبھلی (1921–1999ء) فاضل دار العلوم نے جمعیۃ علما اور کانگریس کے پلیٹ فارم سے خدمات انجام دیں، بعد میں کانگریس چھوڑ کر کیمونسٹ پارٹی سے وابستہ ہوئے، 1958ء میں اسی پارٹی کی ٹکٹ پر یوپی اسمبلی کے ایم ایل سی یعنی رکنِ مجلسِ قانون ساز منتخب ہوئے اور اس کے بعد بھی جمعیۃ سے وابستگی برقرار رکھی تھی اور جمعیۃ علما یوپی کے نائب صدر رہے تھے۔ [ذکر رفتگاں، جلد اول، مفتی محمد سلمان منصورپوری، طبع دوم: اپریل 2020ء، ص: 464])

   اس کے بعد اسّی کی دہائی میں ”اڈیشا پردیش کانگریس کمیٹی“ (او پی سی سی) سے منسلک سابق وزیر اعلیٰ اڈیشا ”جانکی ولبھ پٹنائک“ (متوفی: 2015ء) نے مولانا سید اسماعیل صاحبؒ سے درخواست کی تھی کہ کسی بھی طرح مجھے مولوی سراج الساجدین دے دیجیے؛ مولانا اسماعیل صاحبؒ کے اصرار پر مولانا مرحوم ”او پی سی سی“ سے منسلک ہو گئے اور تا دمِ حیات اس کے رکن رہے۔

      نوّے کی دہائی میں جے بی پٹنائک دوبارہ اڈیشا کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے؛ تو انھوں نے مولانا مرحوم کو اڈیشا راجیہ سبھا کا رکن بنانا چاہا؛ مگر مولانا مرحوم نے راجیہ سبھا کی رکنیت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں راجیہ سبھا کی ممبری کے لیے سیاست میں نہیں ہوں اور ادھر عوام میں یہ وجہ بیان فرمائی کہ جس دن میں نے اس پیشکش کو قبول کر لیا، اس دن سے میری حیثیت کانگریس میں کم ہو جائے گی، آج وزیر اعلیٰ مجھے دیکھ کر کھڑا ہوتا ہے، کل مجھے اسے دیکھ کر کھڑا ہونا پڑے گا۔ جے بی پٹنائک نے بہ ذریعہ ٹیلی گرام فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی صاحبؒ سے بھی سفارش کروائی تھی کہ اس پیشکش کو قبول کر لیں؛ فدائے ملت نے مولانا مرحوم سے کہا کہ پارلیمنٹ میں، میری آواز کے ساتھ اگر تمھاری آواز بھی شامل ہو جائے گی، تو مجھے قوت پہنچے گی؛ لہذا تم اس پیشکش کو قبول کر لو! مولانا مرحوم نے جواب میں لکھا کہ اڈیشا کے مسلمانوں کی دینی و اسلامی خدمات کے لیے کوئی نمائندہ متعین فرما دیجیے، میں آپ کی حکم کے مطابق حاضر ہو جاؤں گا، فدائے ملت نے اس جواب کے بعد فرمایا کہ پھر تو تم وہیں پر اپنی قوم کی نمائندگی کرو۔

    سنہ 1999ء میں اڈیشا کی ہلاکت خیز طوفان کے بعد مشہور کشمیری سیاست داں غلام نبی آزاد اڈیشا تشریف لائے، ”سی ڈی اے، کٹک“ (نیو کٹک) کے ایک پروگرام میں مولانا مرحوم کی تقریر کے بعد غلام نبی صاحب نے مولانا سے کہا تھا کہ آپ مرکزی سیاست میں حصہ لیجیے، آپ جیسے لوگوں کو وہاں اوپر آنا چاہیے۔
     مولانا مرحوم تادم حیات مذکورۂ بالا پارٹی کے رکن رہے، پارٹی میں ان کی رائے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، کئی مسئلوں میں ان کی رائے قول فیصل مانا گیا؛ الغرض پارٹی میں ان کا اس قدر اثر و رسوخ تھا کہ بسا اوقات پارٹی کے ارکان مشورے کے لیے جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم  بھی حاضر ہوا کرتے تھے۔

نوٹ:- سیاسی زندگی سے متعلق یہ ساری معلومات مولانا زعیم الاسلام صاحب کے بیان کا خلاصہ ہے۔

       شیریں بیانی و نعت گوئی
    آپ صوبہ اڈیشا کی شان تھے، انھیں ”بلبلِ اڑیسہ“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ بے مثال اور شیریں بیاں مقرر تھے، تقریر کے درمیان اپنی اور دوسروں کی نعتیں اور اصلاحی نظمیں ترنم کے ساتھ سنایا کرتے تھے۔ جب تقریر کرتے، تو لوگوں میں التفات و توجہ کا عجیب سَماں بندھ جاتا، جب وہ نعت نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم گنگناتے، تو لوگوں کے قلوب میں عشقِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی لہریں دوڑ جاتیں اور لوگ ان کے گرویدہ ہو جاتے تھے۔ تقریر کے اختتام پر اپنے معمول کے مطابق جب وہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر، ترنم کے ساتھ؛ یہ مناجات: ”یارب! تباہ کاروں کا تُو کارساز ہے..... بندے کو ناز ہے کہ تُو بندہ نواز ہے.....“ پڑھا کرتے؛ تو پتھر دل بھی موم ہو جاتے اور اہل باطل بھی حق جل و علا کے سامنے سرنگوں ہو جاتے تھے۔ ان کی لکھی ہوئی نعتیں آج بھی خود گنگناتا یا ان کے فرزند ارجمند (استاذ محترم حضرت مولانا مفتی سید نقیب الامین برقی قاسمی، مہتمم و شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم، تبلیغ نگر، سونگڑہ، ضلع کٹک، اڈیشا) یا کسی اور کی زبانی سنتا ہوں، تو ایک کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور خیالوں میں عہد طفلی کی یادیں گردش کرنے لگتی ہیں۔ ان کے مشہور نعتوں میں ”باعثِ کُن فَکاں، مونسِ اِنس و جاں“، ”کھڑے ہیں سردارِ ہر دو عالم، قطارِ پیغمبراں کے آگے“، ”گرجتا ہے بادل چمکتی ہے بجلی، سَمائے رسالت کی برسات ہوگی“ وغیرہ اور نظموں میں ”اس دیش کی نگری نگری میں توحید کا نغمہ گائیں گے“، ”مسلمانوں خودی کو اور خدا کو کیوں بھلا بیٹھے“ وغیرہ شامل ہیں۔ 

 
     علمی لیاقت اور ذہانت
  ابتدائی کتابیں؛ خاص طور پر نحو کی کتابیں انھیں عبارت سمیت یاد تھیں، حضرت مولانا زعیم الاسلام صاحب اپنے زمانۂ طالب کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ مولانا مرحوم، زبانی ”ہدایۃ النحو“ کے دس بارہ صفحات پڑھا کر کتاب کسی اور کے حوالے کر دیا کرتے تھے، ان کے سال ایسا کیا؛ تو ان کے ساتھیوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ شاید مولانا کو کتاب اتنی ہی یاد ہے، اس بات کی خبر مولانا مرحوم کو لگ گئی، تو انھوں نے اگلے دن بلا کر کتاب زبانی اخیر سے الٹی پڑھنی شروع کر دی، ایک ڈیڑھ صفحات پڑھے تھے کہ ساتھیوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ شاید مولانا تک ہماری بات پہنچ چکی ہے؛ چناں چہ انھوں نے مولانا سے معافی مانگی، مولانا نے غصے سے کہا کہ میں نے بھوسہ کھا کر نہیں پڑھا ہے، کتاب کہیں سے پوچھ لیجیے، میں فوراً بتلا دوں گا۔
 
     مولانا مرحوم باقاعدہ حافظ قرآن نہیں تھے؛ البتہ انھیں قرآن کا بیشتر حصہ یاد تھا، کسی موضوع پر گفتگو ہوتی، تو فوراً اس موضوع سے متعلق قرآنی آیت بتلا دیتے تھے۔ مولانا زعیم الاسلام صاحب؛ مولانا محمد فاروق صاحب (رئیس الجامعہ اشرف العلوم، کیندرا پاڑہ) کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ مولانا مرحوم انھیں (مولانا محمد فاروق صاحب کو) بلاتے اور ایک صفحہ قرآن کا ایک دفعہ مطالعہ جیسا دیکھتے اور سنا دیتے تھے۔

     مولانا مرحوم ہی کی تقریر سے ماخوذ بہ طریق خلاصہ قابلِ ذکر باتیں اور بعض واقعات پیش خدمت ہیں، اس سے مولانا مرحوم کی علمی لیاقت اور ذہانت کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے: 1963ء ”مناظرۂ یادگیر“ کے موقع سے مولانا مرحوم کی رد قادیانیت پر تقریباً پچیس تقریریں ہوئی تھیں، ایک مجلس میں حضرت مولانا سید اسماعیل صاحبؒ نے بیس پچیس منٹ اپنے لوگوں کے سوالات کا جواب دینے کے بعد کہا کہ اب میں جاتا ہوں، سراج الساجدین میری جگہ ہے، وہاں پر تقریباً ساڑھے تین گھنٹے تک مزید مولانا مرحوم اور حاضرینِ مجلس کے درمیان سوال و جواب کا سلسلہ چلا۔ اس درمیان ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ مدرسہ الباقیات الصالحات، ویلور، تمل ناڈو کے اس وقت کے شیخ الحدیث نے اس مجلس میں کھڑے ہو کر ”فمن يملك من الله شيئا إن أراد أن يهلك المسيح ابن مريم و أمه و من في الأرض جميعًا“ (المائدۃ، آیت: 17) پڑھ کر ترجمہ کیا کہ ”اگر میں عیسیٰ کو مار دوں تو کون روک سکتا ہے، اگر میں اس کی ماں کو مار دوں تو کون روک سکتا ہے اور زمین پر جتنے ہیں، سب کو مار دوں تو کون روک سکتا ہے“ اور کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی انتقال کرگئے؛ کیوں کہ ان کی ماں مر چکی ہیں؛ تو بھلا عیسیٰ کیوں نہیں مر سکتے؟

      مولانا مرحوم نے کہا کہ ترجمہ یہ ہے: ”اگر ہم عیسی کو مار ڈالیں، عیسیٰ کا ٹھکانہ؛ جو آسمان ہے، اس کو بھی ختم اور ہلاک کر دیں اور تمام دنیا والوں کو بھی ختم کر دیں، تو کون ہمیں روک سکتا ہے؟“  یہ سن کر ان شیخ الحدیث صاحب نے کہا کہ آپ نے ٹھکانے کا ترجمہ کہاں سے کیا؟ مولانا مرحوم نے کہا کہ قرآن میں ہے: ”فأمه هاوية“ (القارعۃ، آیت: 9) ”اس کا ٹھکانہ جو ہے؛ جہنم ہے“، یہاں ”ام“ سے مراد ٹھکانہ ہے کہ نہیں! تو ویسے یہاں بھی ٹھکانے کے معنی میں ہے۔ دوسرا جواب یہ دیا کہ آیت کے اندر ”من فی الارض“ میں ہم لوگ بھی شامل ہیں، پھر ہم زندہ ہیں کہ نہیں؟ تو عیسیٰ کی موت اس آیت سے کیسے ثابت ہو گئی؟ اس جواب کے بعد ان شیخ الحدیث صاحب نے خوش ہو کر مولانا مرحوم کو گود میں اٹھا لیا (شاید ان شیخ الحدیث صاحب نے مولانا مرحوم کا جائزہ لینے کے لیے پوچھا ہو؛ کیوں کہ 1963ء میں مولانا مرحوم کی عمر کوئی چوبیس پچیس سال کی تھی۔ یہ واقعہ مولانا مرحوم کے اپنے بیان کے مضمون کا خلاصہ ہے)۔

     مہمان نوازی و میزبانی
    آپ کی مہمان نوازی اور میزبانی کا عالم یہ تھا کہ خود تالاب سے مچھلی پکڑتے اور خود ہی ذائقہ دار کھانا پکاکر مہمان نوازی کرتے؛ گویا مہمانوں پر جان چھڑکتے تھے۔ علمائے اڈیشا میں ان کی مہمان نوازی کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ انھوں نے اپنے مدرسے میں مہمانوں کے لیے باقاعدہ انتظام کر رکھا تھا، جس کا کچھ نمونہ اب بھی ان کے صاحبزادگان: مولانا مفتی سید نقیب الامین برقی قاسمی، مولوی سید خطیب الامین شبلی اور حافظ سید بلیغ الامین عینی صاحبان یا ان کے تربیت یافتہ لوگوں کے یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔

      نظافت و نفاست
    نظافت اور صفائی ستھرائی میں اعلی معیار کے حامل تھے؛ سفید صاف شفاف کلی دار کرتا پائجامہ، عمدہ دو پلی ٹوپی اور صدری زیب تن فرمایا کرتے تھے؛ گویا وہ نفیس الطبع اور نستعلیق مزاج واقع ہوئے تھے۔ ان کی یہ خصلت ان کے فرزند و جانشین مولانا سید نقیب الامین برقی قاسمی اور مولانا مرحوم کے بہت سے تلامذہ و خدام میں نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔

       حضرت کی خورد نوازی
     والد محترم (حضرت قاری محمد نوالامین صدیقی، بانی و مہتمم دار العلوم حسینیہ، مدنی نگر، چڑئی بھول، ضلع میُوربھنج، صوبہ اڈیشا) چوں کہ انھیں کے مدرسے کے خوشہ چیں اور ان کے تربیت یافتہ ہیں، تو والد صاحب کے جامعہ تجوید القرآن عثمانیہ، بارہ بٹیہ، تیرن، ضلع جگت سنگھ پور، اڈیشا کے زمانۂ قیام و اہتمام میں حضرت مولانا مرحوم کی بارہا ”بارہ بٹیہ، تیرن“ تشریف آوری ہوتی تھی۔ بندے سے حضرت مزاح بھی فرماتے اور محبت و شفقت کا معاملہ فرماتے تھے۔ غالباً سنہ 2006ء یا 2005ء کی بات ہے کہ سونگڑہ میں حضرت مولانا مرحوم سے ملاقات ہوئی، تو حضرت نے بیس روپے بطور ہدیہ عنایت فرمائے اور مزاحاً فرمایا کہ تم روح الامین، میں جبرئیل امین؛ ان کی یہ بات ہمیشہ یاد آتی ہے۔ میرے نانا جان حضرت مولانا سید حسین احمد عارف گیاویؒ (متوفی: 2020ء؛ سابق امام و خطیب جامع مسجد، ساکچی، جمشید پور، جھارکھنڈ) کو دار العلوم دیوبند کے زمانۂ طالب علمی میں ان کی معاصرت کا شرف حاصل رہا تھا، انھوں نے کئی دفعہ بندے کے سامنے اپنے اس عزیز رفیق کو یاد کیا اور ان کا ذکر خیر کیا۔ سنہ 2016ء میں ایک نکاح کے موقع پر نانا جان، جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم سونگڑہ تشریف لے گئے تھے؛ اس وقت نانا جان اور استاذِ محترم حضرت مولانا سید نقیب الامین صاحب کا تعلق خاطر دیدنی تھا۔ اسم با مسمی حضرت مولانا سید خلیق الامین صاحب قاسمیؒ (متوفی: 17 فروری 2017ء) بھی اس وقت باحیات تھے اور وہ نانا جان کے لیے نہایت احترام اور فکر مندی کا اظہار کر رہے تھے؛ یہ سب بلبل اڈیشا کی نسبت سے تھا۔

    اللّٰہ تعالیٰ حضرت کی مغفرت فرمائے، ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور بندے اور نئی نسل میں ان جیسی خوبیاں پیدا فرما دے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین

مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ

مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ محمد روح الامین میوربھنجی       مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی سرزمینِ بہا...