بدھ، 23 نومبر، 2022

ڈاکٹر مفتی محمد اللّٰہ خلیلی قاسمی: سوانحی خاکہ

ڈاکٹر مفتی محمد اللّٰہ خلیلی قاسمی: سوانحی خاکہ

محمد روح الامین میُوربھنجی

    بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں، جن کو اللّٰہ تعالیٰ کثیر جہتی شخصیت بناتا ہے، انھیں رنگا رنگ صفات حسنہ سے نوازتا ہے اور مختلف ہنروں میں انھیں ممتاز کرکے ان سے مختلف جہتوں سے کام لیتا ہے، ایسی ہی شخصیت مولانا مفتی محمد اللّٰہ خلیلی قاسمی مد ظلہ العالی کی ہے، جنھوں نے دینی تعلیم سے فراغت کے بعد بھی انگریزی اور عصری تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا؛ بالآخر دار العلوم دیوبند سے منسلک ہوکر سالہا سال سے مختلف جہتوں سے متعدد زبانوں میں علمی، ادبی، قلمی اور تحقیقی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

 ابتدائی و تعلیمی زندگی:

 مولانا 14 اکتوبر 1979ء کو ضلع فیض آباد، اتر پردیش کے قصبہ ہنسور (جو اب ضلع امبیڈکر نگر میں آتا ہے) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد حکیم قاری عبد السلام مضطر ؔ ہنسوری (1924-2022ء) ہیں، جو مشہور نعت گو شاعر، متعدد شعری مجموعوں کے مصنف اور حضرت مولانا عبد الحلیم جون پوری کے خلیفہ و مجاز تھے۔  


   قرآن کی تعلیم اپنے والدین سے گھر پر حاصل کی۔ پھر پرائمری تعلیم کے لیے مدرسہ اشاعت العلوم ہنسور میں داخل ہوئے۔ عربی کی تعلیم مدرسہ انوارالعلوم بھولے پور ہنسور میں ہوئی، جہاں کے خصوصی اساتذہ میں مولانا محمد سرور قاسمی فیض آبادی، مولانا سلطان احمد قاسمی بستوی، مولانا مفتی عبد الرحمن بستوی و مولانا عبد القدوس قاسمی بستوی وغیرہ شامل تھے۔


   1995ء کو دارالعلوم دیوبند میں درجہ ششم عربی میں ان کا داخلہ ہوا اور 1997ء میں انھوں نے امتیازی نمبرات سے دورۂ حدیث کی تکمیل کی۔ 1998ء میں دار العلوم ہی سے تکمیل ادب کیا اور 1999ء میں تکمیلِ افتا کیا۔ دورۂ حدیث میں حضرت مولانا نصیر احمد خان بلند شہری سے بخاری شریف پڑھی، افتاء میں حضرت مفتی نظام الدین اعظمی سے قواعد الفقہ پڑھی اور تکمیل ادب میں حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی سے استفادے کا موقع ملا۔


   2000ء تا 2001ء مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر (ایم ایم ای آر سی) ممبئی و دہلی سے انگریزی زبان و ادب میں ڈپلومہ کیا۔ 2001ء میں ایم ایم ای آر سی ہی میں ریسرچ پروجیکٹ پر کام کیا، جہاں جناب عبد النصیب خان، ڈاکٹر ایوب کشمیری، ڈاکٹر ماجد کشمیری اساتذۂ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور مولانا برہان الدین قاسمی، مولانا افضل قاسمی اور مفتی عبید اللہ قاسمی وغیرہ سے تعلیم حاصل کی۔ مرکز المعارف ممبئی میں قیام کے دوران میں مشہور جرمن ناولسٹ و صحافی جناب الیجا تروجانوف (Ilija Trojanow) سے بھی انگریزی مضمون نگاری و صحافت کی تربیت حاصل کی۔ 2006ء تا 2008ء جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی سے انگریزی و پولیٹیکل  سائنس کے ساتھ عربی زبان میں بی اے کیا، ساتھ ہی میں اسی عرصے میں قومی قونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی سے ڈپلومہ اِن فنکشنل عربی بھی کیا اور 2009ء میں انگریزی تدریس میں ڈپلومہ  کیا۔ 2009ء تا 2010ء جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے ایم اے اسلامیات کیا۔ 2009ء اور 2010ء میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن، نئی دہلی سے دو بار دو مختلف موضوعات میں نیٹ اور جے آر ایف کا امتحان بھی پاس کیا۔ 2010ء میں ہی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد سے صحافت و ماس کمیونیکیشن میں ڈپلومہ کیا۔ 2012ء تا 2013ء مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد سے انگریزی میں ایم اے کی تکمیل کی۔ پھر 2018ء میں جامعہ ہمدرد نئی دہلی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور انگریزی زبان میں ”جدید مسائل میں علمائے دیوبند کی فقہی خدمات“ کے موضوع پر مشہور محقق و مصنف پروفیسر اشتیاق دانش سابق صدر شعبہ اسلامیات کی نگرانی میں اپنا تھیسس جمع کیا۔

     علمی و ادبی سرگرمیاں:

  مولانا کی مقالہ نویسی و مضمون نگاری کا آغاز 1993ء سے ہی ہوچکا تھا، چناں چہ اس زمانے میں ماہنامہ حسن اخلاق دہلی میں ان کے بعض مضامین شائع ہوچکے تھے۔ بعد میں پھر دیوبند کی زمانۂ طالب علمی میں اپنی ضلعی انجمن سے نکلنے والے رسالہ الفیض کی ادارت، اسی طرح دار العلوم دیوبند کی معروف انجمن مدنی دار المطالعہ سے نکلنے والے ماہانہ البلاغ (اردو و عربی) کی مجلس ادارت سے منسلک ہوکر اپنی تحریری جوہر کو جلا بخشتے رہے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد 2003ء تا 2004ء اردو ٹائمز ممبئی کے اتوار و جمعہ ایڈیشن کے کالم نگار، اسی طرح 2008ء تا 2009ء پندرہ روزہ آئینۂ دار العلوم دیوبند کے کالم نگار رہے، نیز 2017ء سے ماہنامہ دار العلوم دیوبند کے کالم نگار اور 2006ء سے ماہنامہ ایسٹرن کریسینٹ ممبئی (انگریزی) کے خصوصی نامہ نگار ہیں۔ سالانہ انگریزی رسالہ ایم ایم آر سی ریسرچ جرنل (2019ء) کے چیف ایڈیٹر رہے تھے۔ نیز انقلاب ممبئی و دہلی، راشٹریہ سہارا دہلی، اردو ٹائمز ممبئی جیسے اخبارات اور حسن اخلاق دہلی، ریاض الجنہ جون پور، ماہنامہ دارالعلوم، ترجمان دارالعلوم دیوبند، ماہنامہ مظاہر علوم سہارن پور، آئینۂ دارالعلوم دیوبند جیسے رسالوں میں ان کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔


     دار العلوم دیوبند، دار الافتاء دار العلوم دیوبند کی آفیشل ویب سائٹ کے ویب ایڈیٹر اور شعبۂ انٹرنیٹ و آن لائن فتاویٰ دارالعلوم دیوبند کے کوآرڈینیٹر ہیں۔ نیز دو لسانی علمی و ادبی ویب سائٹ دیوبند آن لائن (www.deoband.net) کے نام سے بھی چلاتے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند سے وابستگی سے قبل مرکز المعارف ممبئی سے وابستہ ہوئے، جہاں تقریباً تین سال تک انگریزی تدریس، آن لائن فتوی، تحقیق اور انتظام سے متعلق خدمات انجام دیتے رہے۔  

   اردو تصانیف:

  مولانا کی اردو تصانیف میں یہ کتابیں شامل ہیں: (1) دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ [اردو و ہندی]، (2) شمائل النبی ﷺ (اپنے والد حکیم قاری عبد السلام مضطر ؔ ہنسوری کی تصنیف کی ترتیب)۔(3) مجموعۂ اشعار و غزلیات۔

    انگریزی تصانیف: 

(1) Madrasa Education: Its Strength and Weakness  ۔مطبوعہ مانک پبلیکیشنز، نئی دہلی 2005

(2) Islamic Speeches (دو حصے) [دارالسلام اکیڈمی و دارالمعارف دیوبند، 2012ء سے اب تک آٹھ ایڈیشن]

(3) انگریزی پی ایچ ڈی کا مقالہ بہ عنوان ”The Contribution of Deoband School to Hanafi Fiqh: A Study of Its Response to Modern Issues and Challenges“ (فقہ حنفی میں دیوبندی مکتب فکر کا حصہ: جدید مسائل اور تقاضوں پر اس کے ردعمل کا مطالعہ) تقریباً 300 صفحات پر مشتمل ہے، جو فی الحال غیر مطبوعہ ہے۔

(4) Ulama, Post-Madrasa Education, Muslim Youth and Contemporary Challenges 

[انگریزی مقالات کی ترتیب و ایڈیٹنگ، مطبوعہ: مرکز المعارف ممبئی سلور جوبلی سیمینار، 2019ء]

(5) MMERC Mission  - مرکز المعارف کے قیام کا مقصد، غیر مطبوعہ

(6) Ulama and Modern Education  - غیر مطبوعہ

(7) SPECIAL DUAAS For Problems of Day-to-Day Life   - آن لائن شائع شدہ، غیر مطبوعہ


اردو سے انگریزی میں ترجمہ شدہ مطبوعہ و غیر مطبوعہ کتابیں:

(1) Silk Letter Movement (مولانا محمد میاں دیوبندی کی کتاب تحریک ریشمی رومال کا انگریزی ترجمہ) [مطبوعہ: مانک پبلیکیشنز، نئی دہلی و شیخ الہند اکیڈمی، دارالعلوم دیوبند]

(2) Fiqhi Decisions and Resolutions of Idarat al-Mabahith al-Fiqhiya, [مطبوعہ: جمعیۃ علمائے ہند نئی دہلی]

(3) Fatwas For America, Part Two [مطبوعہ: انوار المدارس ٹرسٹ حیدرآباد و عبد السبحان سان فرانسسکو امریکہ]

(4) مولانا ثمیر الدین قاسمی مقیم حال مانچسٹر کی مشہور کتاب ثمرۃ العقائد کا انگریزی اور عربی ترجمہ، جس میں اول الذکر برطانیہ سے شائع ہوا اور عربی ترجمہ 2022ء میں دارالکتب العلمیہ بیروت سے شائع ہوا۔ 

(5) فتاوی علمائے ہند مرتبہ مولانا انیس الرحمن قاسمی کا انگریزی ترجمہ

(6) الہیئۃ العامہ للشؤون الاسلامیۃ والاوقاف، متحدہ عرب امارات کے لیے کئی کتابوں کے ترجمے، مثلاً: (الف) احکام التجوید، (ب) احکام الصیام، (ج) محمد رسول اللہ ﷺ، (د) الہجرۃ النبویۃ، (ر) آداب المساجد، (س) العمرۃ: أحکامہا و آدابہا، (ص) دلیل المحفّظ، (ط) دروس المساجد، (ع) خطب الجمعۃ، 2014ء، (ف) فقہی احکام و مسائل سیٹ۔ 

(7) غیر مطبوعہ ترجمے: (الف) المہند علی المفند، (ب) فضائل زبان عربی، (ج) دستور اساسی دارالعلوم دیوبند، (د) اسلام میں رواداری، (ر)جدید تعلیم اور علماء کا جرم عظیم، (س) اوجز المسالک - مجموعہ مسائل فقہ مالکی۔

(8) مفتی شعیب اللہ مفتاحی کے متعدد فقہی رسائل کے ترجمے۔


اہم مطبوعہ مقالات و مضامین: 

(1) انسانی دنیا پر قرآن کے برپا کردہ انقلابات [مطبوعہ: ریاض الجنہ جون پور]

(2) حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی اور دارالعلوم دیوبند [مطبوعہ: ترجمان دیوبند، روزنامہ راشٹریہ سہارا وغیرہ]

(3) دینی مدارس کی بین الاقوامی تحریک اور ام المدارس دارالعلوم دیوبند [مطبوعہ: فکر انقلاب، دہلی  وغیرہ]

(4) دارالعلوم دیوبند: دینی تعلیمی تحریک کا بین الاقوامی مرکز [مطبوعہ: فکر انقلاب، دہلی  وغیرہ]

(5) حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی: برصغیر میں دینی تعلیمی تحریک کے قائد اعظم [مطبوعہ: فکر انقلاب، دہلی  وغیرہ]

(6) طوالع الانوار شرح الدر المختار: فقہ حنفی کا عظیم الشان انسائیکلوپیڈیا اور گمنام خزینہ [مطبوعہ: ماہنامہ دارالعلوم، دیوبند]

(7) سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی اور جنگ آزادی کی تحریکات [مطبوعہ: مجموعہ مقالات سیمنار، جمعیۃ علمائے ہند ، 2019ء] 

(8) مولانا عبد الباری فرنگی محلی اور ان کے تعلیمی نظریات [مطبوعہ: مجموعہ مقالات سیمنار، جمعیۃ علمائے ہند، 2019ء] 

(9) ایک طالب علم کا مطالعاتی سفر [مطبوعہ: ماہنامہ النخیل مطالعہ نمبر 2020ء]

(10) الفقه الإسلامي والمؤلفات الفقهية في الهند خلال عهود سلاطين دلهي وملوك المغول [مطبوعہ: الہند والعرب: ثقافۃ و حضارۃ، 2021ء، مرکزی پبلیکیشنز، دہلی]

(11) فقہ شافعی ہندوستان میں – انگریزی [مطبوعہ: اسلام اینڈ موڈرن ایج، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی، فروری 2016ء] 

(12) فقہ حنفی عہد مغلیہ میں – انگریزی [مطبوعہ: جرنل آف ابجیکٹیو اسٹڈیز دہلی، 2014ء]

(13) شاہ ولی اللہ کے سماجی و سیاسی نظریات – انگریزی [مطبوعہ: اسلامک لٹریچر ریویو دیوبند، جون 2015ء]

(14) مغلیہ دور کی مطبوعہ و مخطوطہ فقہی مجموعے – انگریزی [پیش کردہ: استنبول یونیورسٹی کانفرنس،ترکی، فروری  2016ء]

(15) ساؤتھ افریقہ میں دیوبندی مکتب فکر کا اثر – انگریزی [پیش شدہ: اوقاف فاؤنڈیشن کانفرنس ڈربن، ساؤتھ افریقہ، 2016ء]

(16) جدید مسائل کے حل میں علمائے ہند کا کردار – انگریزی [پیش کردہ: آئی او ایس دو روزہ قومی سیمینار جودھپور، 2017ء] 

(17) مولانا محمد سالم قاسمی کی علمی وراثت – انگریزی [پیش کردہ: دارالعلوم وقف دیوبند سیمینار، 2018ء] 

(18) مولانا مناظر احسن گیلانی کی دیوبند میں تعلیمی زندگی اور علمی خدمات – انگریزی [پیش کردہ: آئی او ایس سیمینار، پٹنہ، 2018ء و مطبوعہ: مولانا مناظر احسن گیلانی: حیات، خدمات و افکار، مرتبہ: ڈاکٹر فہیم اخیر ندوی، انسٹی ٹیوٹ آف آبجکٹیو اسٹڈیز، دہلی، 2022ء] 

(19) مولانا محمد علی مونگیری کی ہمہ جہت شخصیت اور خدمات – انگریزی [پیش کردہ: رحمانی فاؤنڈیشن سیمینار، مونگیر، 2019ء]

(20) رواداری اور بین المذاہب ہم آہنگی: علمائے دین کی ذمہ داریاں – انگریزی [پیش کردہ: شعبۂ اسلامیات عالیہ یونیورسٹی کلکتہ سیمنار، 2021ء]

(21) فقہی مقالات برائے ادارۃ المباحث الفقہیہ، نئی دہلی (از 2017 تا 2020ء]


     اللّٰہ تعالیٰ مولانا موصوف کی عمر و صحت میں برکت عطا فرمائے اور امت مسلمہ کو ان سے خوب فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

جمعرات، 10 نومبر، 2022

محافظ ختم نبوت مولانا شاہ عالم گورکھپوری: ایک سوانحی خاکہ

محافظ ختم نبوت مولانا شاہ عالم گورکھپوری: ایک سوانحی خاکہ


محمد روح الامین میُوربھنجی

     عالم اسلام میں جن علمائے کرام نے ایک عرصے سے تحفظِ ناموسِ رسالت کے لیے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہے اور عقیدۂ ختم نبوت کا محافظ بن کر باطل کے لیے سد راہ بنے ہوئے ہیں، انھیں میں ایک معروف نام محافظ ختم نبوت مولانا شاہ عالم گورکھپوری مد ظلہ العالی، نائب ناظم کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دار العلوم دیوبند کا ہے، جو تقریباً بتیس سال سے تحفظ ختم نبوت کے لیے زریں اور مقبول خدمات انجام دے رہے ہیں اور عالم اسلام میں جن کا ایک اہم مقام ہے، آج انھیں کا مختصر سوانحی خاکہ قارئین کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔

     ولادت و تعلیم
    مولانا شاہ عالم 21 مارچ 1969ء مطابق 2 یا 3 محرم الحرام 1389ھ کو ضلع گورکھپور، اتر پردیش میں تحصیل مہراج گنج سے 17 کلو میٹر کے فاصلے پر موضع رامپور، بلڈیہا (جو اب ضلع مہراج گنج کا حصہ ہے) میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد ماجد کا نام جناب محمد حدیثؒ ہے۔

     مولانا نے ابتدائی پرائمری کی تعلیم اپنے گاؤں کے مدرسہ نور الاسلام رامپور بلڈیہا (جس کے ناظم خود مولانا کے والد تھے) میں اپنے خاندانی چچا مولانا لیاقت علی مد ظلہ کے پاس حاصل کی۔ اس کے بعد کچھ دنوں کے لیے قصبہ گھوگھلی میں واقع انگلو انگلش اسکول میں نرسری کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد 1978ء تا 1979ء مدرسہ عربیہ اشاعت العلوم بڑہراگنج، ضلع کُشی نگر میں ابتدائی فارسی کی تعلیم حاصل کی، جہاں پر ان کے اساتذہ میں مولانا سعید الزماں صاحب، مولانا مسیح الزماں صاحب اور مولانا محمد نور محمد صاحب شامل تھے۔ پھر 1979ء تا 1982ء جامعہ عربیہ تاج العلوم لچھمی پور، گنگرائی، ضلع مہراج گنج میں عربی سوم تک کی تعلیم حاصل کی، جہاں پر ان کے اساتذہ میں مولانا محمد اقبال فائق قاسمی اور مولانا محمد ارشاد صاحب مفتاحی شامل تھے۔ پھر 1983ء تا 1985ء جامعہ عربیہ مسعودیہ نور العلوم بہرائچ میں عربی پنجم تک کی کتابیں پڑھیں، جہاں پر ان کے اساتذہ میں مولانا سلامت اللّٰہ صاحبؒ صدر المدرسین و مجاہد آزادی، مولانا محمد عابد خانؒ، حافظ حبیب احمد اعمیٰؒ، مولانا محمد عظیم خان بہرائچیؒ، مولانا کلیم اللّٰہ نوریؒ، مولانا حیات اللّٰہ قاسمیؒ اور قاری زبیر احمد صاحب شامل تھے۔ اس کے بعد 1986ء کو دار العلوم دیوبند آکر عربی ششم میں داخلہ لیا اور 1988ء تا 1989ء میں دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے۔ ان کے اساتذۂ دار العلوم دیوبند میں شیخ الحدیث مولانا نصیر احمد خان بلند شہریؒ، فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ، علامہ حسین بہاریؒ، شیخ عبد الحق اعظمیؒ، علامہ قمر الدین گورکھپوری، بحر العلوم مولانا نعمت اللہ اعظمی، مفتی سعید احمد پالن پوریؒ، قاری محمد عثمان منصور پوریؒ اور مولانا عبد الخالق مدراسی شامل رہے ہیں۔ دورۂ حدیث کے بعد 1989ء تا 1990ء شعبۂ تحفظ ختم نبوت میں رہ کر تربیت حاصل کی۔ تحفظ ختم نبوت کے میدان میں مولانا نے مناظر اسلام مولانا محمد اسماعیل کٹکیؒ، سابق صدر جمعیت علمائے اڈیشہ و امیر شریعت اول اڈیشہ اور مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ سابق ناظم عمومی انٹرنیشنل مجلس تحفظ ختم نبوت سے خصوصی استفادہ کیا۔

     تدریسی و علمی خدمات
   1990ء میں تعلیم سے فراغت کے بعد 1991ء میں دار العلوم دیوبند میں بحیثیت مبلغ مولانا کا تقرر ہوا، 1993ء میں مستعفی ہو کر وطن چلے گئے اور دار العلوم الاسلامیہ بستی اور مدرسہ مدینۃ العلوم گنیش پور، ضلع مہراج گنج میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے؛ یہاں تک کہ 1417ھ بہ مطابق 1996ء میں دوبارہ دار العلوم دیوبند میں بحیثیت مدرس تقرر عمل میں آیا اور مجلس شوریٰ کی طرف سے شعبۂ تحفظ ختم نبوت کے اسباق؛ ان کے ساتھ خاص کر دیے گئے اور کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کے نائب ناظم بھی مقرر کیے گئے اور تاحال اس منصب پر رہ کر عالمی پیمانے پر تحفظ ختم نبوت کے لیے زمینی و قلمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

    اعزازات
   اپنی سرگرمیوں کے درمیان میں ہی مولانا نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد سے ایم اے کیا، پھر 2010ء میں چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ سے ”اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں چند گمنام علماء کا مخلصانہ کردار- 1850ء تا 1900ء“ کے عنوان سے ڈاکٹر اسلم جمشید پوری کے زیر نگرانی مقالہ لکھ کر ماسٹر آف فلاسفی (MPhil) کیا، جو ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے شائع ہوکر مقبولِ خاص و عام بھی ہوا اور اسی کتاب کے اعزاز میں مولانا موصوف اتر پردیش اردو اکادمی کی جانب سے سند توصیف سے نوازے گئے۔ نیز 2012ء میں موصوف نے وزارۃ الشؤون الاسلامیۃ والاوقاف والدعوۃ والارشاد کی خصوصی دعوت پر حج کی سعادت حاصل کی اور منیٰ میں وزیر شؤون الاسلامیہ کے ساتھ ایک مجمع سے خصوصی خطاب کیا جو بین اقوامی جرائد اور ٹیلی ویژن پر بھی نشر ہوا تھا۔عرب علماء میں بھی ان کے قدر دانوں کی خاصی تعداد ہے۔ بعض نے دار العلوم دیوبند میں داخلہ لے کر ان سے تحفظ ختم نبوت کے موضوع پر خصوصی طور پر تعلیم بھی حاصل کی ہے۔

      قلمی خدمات
   مولانا موصوف نے علماء و اکابر کی تقریباً ڈیڑھ سو (150) سے زائد کتابوں پر تحقیق و تعلیق اسی طرح ترتیبِ جدید کا کارنامہ انجام دیا ہے، جو ہمیشہ تاریخ کے اوراق میں ثبت رہے گا ان شاء اللّٰہ اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ اسی غرض سے 2006ء میں دیوبند ہی میں مولانا نے ”مرکز التراث الاسلامی“ کے نام سے ایک بے مثال تحقیقی و نشریاتی ادارہ قائم کیا، جہاں سے اکابر علماء کی بہت سی کتابوں پر کام ہوا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے ماشاء اللّٰہ۔ ان کے علاوہ مولانا کی تصانیف میں مندرجۂ ذیل کتابیں شامل ہیں: (1) تفاسیر قرآن اور مرزائی شبہات، (2) مرزائیت اور عدالتی فیصلے، (3) فتنۂ قادیانیت اور اسلامی اصطلاحات، (4) بابیت اور بہائیت: ایک تحلیل و تجزیہ، (5) مدعی مہدویت و مسیحیت شکیل بن حنیف: ایک تعارف و تجزیہ، (6) مدعی مہدویت و مسیحیت شکیل بن حنیف اور اس کے متبعین کا شرعی حکم، (7) روایت ”لا مھدی الا عیسی بن مریم“ سے مدعی مہدویت کا غلط استدلال، (8) اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں چند گمنام علماء کا مخلصانہ کردار- 1850ء تا 1900ء، (9) اسلامی عقائد و معلومات (حصہ اول و دوم؛ یہ کتاب ملک کے بہت سے مدارس میں داخل نصاب ہے اور اردو، ہندی سمیت تقریباً دس زبانوں میں شائع ہوچکی ہے)۔ موصوف کی کئی کتابیں ایک سے زائد زبانوں میں شائع ہوچکی ہیں۔ نیز متعدد کتابیں دار العلوم دیوبند سے بھی شائع ہو چکی ہیں۔

     خصوصی مشاغل
   موصوف کے خصوصی مشاغل میں عقائد اور علم کلام کے موضوع پر ام المدارس دار العلوم دیوبند میں درس و تدریس اور تربیتی کیمپوں کے زریعے افراد سازی ہے، نیز کتاب ”احتساب قادیانیت“ کی ترتیبِ جدید بھی ان کے علمی مشاغل میں شامل ہے۔ تحفظ ختم نبوت کے موضوع پر ایک صدی سے زائد عرصہ میں اب تک جو کتابیں تصنیف پاکر منظر عام پر آئی ہیں ان کے مجموعہ کا نام ”احتساب قادیانیت“ ہے جس کی ساٹھ جلدیں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان سے شائع ہوچکی ہیں، جلد نمبر 61 سے اسی زریں سلسلے کا نام ”محاسبۂ قادیانیت“  ہے جو 78 جلد تک پہونچ چکا ہے، مولانا گورکھپوری اس مجموعہ کو زمانی اور شخصی ترتیب کے ساتھ مزید تحقیق و تصحیح سے مزین کرکے مرکز التراث الاسلامی دیوبند سے شائع کررہے ہیں تاہنوز پندرہ جلدیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔

    اللّٰہ تعالیٰ موصوف کی عمر و صحت میں برکت عطا فرمائے اور تادیر امت مسلمہ پر ان کا سایہ قائم رکھے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین

مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ

مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ محمد روح الامین میوربھنجی       مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی سرزمینِ بہا...