جمعرات، 10 نومبر، 2022

محافظ ختم نبوت مولانا شاہ عالم گورکھپوری: ایک سوانحی خاکہ

محافظ ختم نبوت مولانا شاہ عالم گورکھپوری: ایک سوانحی خاکہ


محمد روح الامین میُوربھنجی

     عالم اسلام میں جن علمائے کرام نے ایک عرصے سے تحفظِ ناموسِ رسالت کے لیے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہے اور عقیدۂ ختم نبوت کا محافظ بن کر باطل کے لیے سد راہ بنے ہوئے ہیں، انھیں میں ایک معروف نام محافظ ختم نبوت مولانا شاہ عالم گورکھپوری مد ظلہ العالی، نائب ناظم کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دار العلوم دیوبند کا ہے، جو تقریباً بتیس سال سے تحفظ ختم نبوت کے لیے زریں اور مقبول خدمات انجام دے رہے ہیں اور عالم اسلام میں جن کا ایک اہم مقام ہے، آج انھیں کا مختصر سوانحی خاکہ قارئین کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔

     ولادت و تعلیم
    مولانا شاہ عالم 21 مارچ 1969ء مطابق 2 یا 3 محرم الحرام 1389ھ کو ضلع گورکھپور، اتر پردیش میں تحصیل مہراج گنج سے 17 کلو میٹر کے فاصلے پر موضع رامپور، بلڈیہا (جو اب ضلع مہراج گنج کا حصہ ہے) میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد ماجد کا نام جناب محمد حدیثؒ ہے۔

     مولانا نے ابتدائی پرائمری کی تعلیم اپنے گاؤں کے مدرسہ نور الاسلام رامپور بلڈیہا (جس کے ناظم خود مولانا کے والد تھے) میں اپنے خاندانی چچا مولانا لیاقت علی مد ظلہ کے پاس حاصل کی۔ اس کے بعد کچھ دنوں کے لیے قصبہ گھوگھلی میں واقع انگلو انگلش اسکول میں نرسری کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد 1978ء تا 1979ء مدرسہ عربیہ اشاعت العلوم بڑہراگنج، ضلع کُشی نگر میں ابتدائی فارسی کی تعلیم حاصل کی، جہاں پر ان کے اساتذہ میں مولانا سعید الزماں صاحب، مولانا مسیح الزماں صاحب اور مولانا محمد نور محمد صاحب شامل تھے۔ پھر 1979ء تا 1982ء جامعہ عربیہ تاج العلوم لچھمی پور، گنگرائی، ضلع مہراج گنج میں عربی سوم تک کی تعلیم حاصل کی، جہاں پر ان کے اساتذہ میں مولانا محمد اقبال فائق قاسمی اور مولانا محمد ارشاد صاحب مفتاحی شامل تھے۔ پھر 1983ء تا 1985ء جامعہ عربیہ مسعودیہ نور العلوم بہرائچ میں عربی پنجم تک کی کتابیں پڑھیں، جہاں پر ان کے اساتذہ میں مولانا سلامت اللّٰہ صاحبؒ صدر المدرسین و مجاہد آزادی، مولانا محمد عابد خانؒ، حافظ حبیب احمد اعمیٰؒ، مولانا محمد عظیم خان بہرائچیؒ، مولانا کلیم اللّٰہ نوریؒ، مولانا حیات اللّٰہ قاسمیؒ اور قاری زبیر احمد صاحب شامل تھے۔ اس کے بعد 1986ء کو دار العلوم دیوبند آکر عربی ششم میں داخلہ لیا اور 1988ء تا 1989ء میں دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے۔ ان کے اساتذۂ دار العلوم دیوبند میں شیخ الحدیث مولانا نصیر احمد خان بلند شہریؒ، فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ، علامہ حسین بہاریؒ، شیخ عبد الحق اعظمیؒ، علامہ قمر الدین گورکھپوری، بحر العلوم مولانا نعمت اللہ اعظمی، مفتی سعید احمد پالن پوریؒ، قاری محمد عثمان منصور پوریؒ اور مولانا عبد الخالق مدراسی شامل رہے ہیں۔ دورۂ حدیث کے بعد 1989ء تا 1990ء شعبۂ تحفظ ختم نبوت میں رہ کر تربیت حاصل کی۔ تحفظ ختم نبوت کے میدان میں مولانا نے مناظر اسلام مولانا محمد اسماعیل کٹکیؒ، سابق صدر جمعیت علمائے اڈیشہ و امیر شریعت اول اڈیشہ اور مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ سابق ناظم عمومی انٹرنیشنل مجلس تحفظ ختم نبوت سے خصوصی استفادہ کیا۔

     تدریسی و علمی خدمات
   1990ء میں تعلیم سے فراغت کے بعد 1991ء میں دار العلوم دیوبند میں بحیثیت مبلغ مولانا کا تقرر ہوا، 1993ء میں مستعفی ہو کر وطن چلے گئے اور دار العلوم الاسلامیہ بستی اور مدرسہ مدینۃ العلوم گنیش پور، ضلع مہراج گنج میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے؛ یہاں تک کہ 1417ھ بہ مطابق 1996ء میں دوبارہ دار العلوم دیوبند میں بحیثیت مدرس تقرر عمل میں آیا اور مجلس شوریٰ کی طرف سے شعبۂ تحفظ ختم نبوت کے اسباق؛ ان کے ساتھ خاص کر دیے گئے اور کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کے نائب ناظم بھی مقرر کیے گئے اور تاحال اس منصب پر رہ کر عالمی پیمانے پر تحفظ ختم نبوت کے لیے زمینی و قلمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

    اعزازات
   اپنی سرگرمیوں کے درمیان میں ہی مولانا نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد سے ایم اے کیا، پھر 2010ء میں چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ سے ”اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں چند گمنام علماء کا مخلصانہ کردار- 1850ء تا 1900ء“ کے عنوان سے ڈاکٹر اسلم جمشید پوری کے زیر نگرانی مقالہ لکھ کر ماسٹر آف فلاسفی (MPhil) کیا، جو ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے شائع ہوکر مقبولِ خاص و عام بھی ہوا اور اسی کتاب کے اعزاز میں مولانا موصوف اتر پردیش اردو اکادمی کی جانب سے سند توصیف سے نوازے گئے۔ نیز 2012ء میں موصوف نے وزارۃ الشؤون الاسلامیۃ والاوقاف والدعوۃ والارشاد کی خصوصی دعوت پر حج کی سعادت حاصل کی اور منیٰ میں وزیر شؤون الاسلامیہ کے ساتھ ایک مجمع سے خصوصی خطاب کیا جو بین اقوامی جرائد اور ٹیلی ویژن پر بھی نشر ہوا تھا۔عرب علماء میں بھی ان کے قدر دانوں کی خاصی تعداد ہے۔ بعض نے دار العلوم دیوبند میں داخلہ لے کر ان سے تحفظ ختم نبوت کے موضوع پر خصوصی طور پر تعلیم بھی حاصل کی ہے۔

      قلمی خدمات
   مولانا موصوف نے علماء و اکابر کی تقریباً ڈیڑھ سو (150) سے زائد کتابوں پر تحقیق و تعلیق اسی طرح ترتیبِ جدید کا کارنامہ انجام دیا ہے، جو ہمیشہ تاریخ کے اوراق میں ثبت رہے گا ان شاء اللّٰہ اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ اسی غرض سے 2006ء میں دیوبند ہی میں مولانا نے ”مرکز التراث الاسلامی“ کے نام سے ایک بے مثال تحقیقی و نشریاتی ادارہ قائم کیا، جہاں سے اکابر علماء کی بہت سی کتابوں پر کام ہوا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے ماشاء اللّٰہ۔ ان کے علاوہ مولانا کی تصانیف میں مندرجۂ ذیل کتابیں شامل ہیں: (1) تفاسیر قرآن اور مرزائی شبہات، (2) مرزائیت اور عدالتی فیصلے، (3) فتنۂ قادیانیت اور اسلامی اصطلاحات، (4) بابیت اور بہائیت: ایک تحلیل و تجزیہ، (5) مدعی مہدویت و مسیحیت شکیل بن حنیف: ایک تعارف و تجزیہ، (6) مدعی مہدویت و مسیحیت شکیل بن حنیف اور اس کے متبعین کا شرعی حکم، (7) روایت ”لا مھدی الا عیسی بن مریم“ سے مدعی مہدویت کا غلط استدلال، (8) اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں چند گمنام علماء کا مخلصانہ کردار- 1850ء تا 1900ء، (9) اسلامی عقائد و معلومات (حصہ اول و دوم؛ یہ کتاب ملک کے بہت سے مدارس میں داخل نصاب ہے اور اردو، ہندی سمیت تقریباً دس زبانوں میں شائع ہوچکی ہے)۔ موصوف کی کئی کتابیں ایک سے زائد زبانوں میں شائع ہوچکی ہیں۔ نیز متعدد کتابیں دار العلوم دیوبند سے بھی شائع ہو چکی ہیں۔

     خصوصی مشاغل
   موصوف کے خصوصی مشاغل میں عقائد اور علم کلام کے موضوع پر ام المدارس دار العلوم دیوبند میں درس و تدریس اور تربیتی کیمپوں کے زریعے افراد سازی ہے، نیز کتاب ”احتساب قادیانیت“ کی ترتیبِ جدید بھی ان کے علمی مشاغل میں شامل ہے۔ تحفظ ختم نبوت کے موضوع پر ایک صدی سے زائد عرصہ میں اب تک جو کتابیں تصنیف پاکر منظر عام پر آئی ہیں ان کے مجموعہ کا نام ”احتساب قادیانیت“ ہے جس کی ساٹھ جلدیں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان سے شائع ہوچکی ہیں، جلد نمبر 61 سے اسی زریں سلسلے کا نام ”محاسبۂ قادیانیت“  ہے جو 78 جلد تک پہونچ چکا ہے، مولانا گورکھپوری اس مجموعہ کو زمانی اور شخصی ترتیب کے ساتھ مزید تحقیق و تصحیح سے مزین کرکے مرکز التراث الاسلامی دیوبند سے شائع کررہے ہیں تاہنوز پندرہ جلدیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔

    اللّٰہ تعالیٰ موصوف کی عمر و صحت میں برکت عطا فرمائے اور تادیر امت مسلمہ پر ان کا سایہ قائم رکھے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ

مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ محمد روح الامین میوربھنجی       مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی سرزمینِ بہا...