جمعرات، 29 ستمبر، 2022

پھوپھا حضرت مولانا محمد شیث صاحب غازی بوکاروی رحمۃ اللّٰہ علیہ (1956ء - 2022ء)

پھوپھا حضرت مولانا محمد شیث صاحب غازی بوکاروی رحمۃ اللّٰہ علیہ (1956ء - 2022ء)



محمد روح الامین میُوربھنجی

    ہر انسان کی زندگی میں کچھ لوگ بہت ہی قریبی ہوتے ہیں اور جن کی یادیں اَنمِٹ نقوش بن کر دلوں میں نقش ہو جاتی ہیں، جن کی یادوں سے آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں اور یادیں آکر غموں کی لہر چھوڑ جاتی ہیں، میرے لیے ایک ایسی ہی ذات تھی پھوپھا حضرت مولانا محمد شیث صاحب غازی بوکاروی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی، بندے سے ان کا بہت ہی دردمندانہ اور مشفقانہ تعلق تھا، میری تعلیم و تربیت کی فکر انھیں بھی تھی، چوں کہ والد صاحب کے پھوپھا زاد بہنوئی تھے تو انھیں پھوپھا کہ کر پکارتا تھا، حالیہ سالوں میں جب وہ میرا کوئی مضمون پڑھتے تو بہت خوش ہوتے تھے، میرے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے تھے اور مجھ سے جب ملاقات یا بات ہوئی تو میری حوصلہ افزائی بھی فرمائی، نیز میری ننھیال اور میرے نانا جان حضرت مولانا سید حسین احمد قاسمی عارف گیاوی رحمۃ اللّٰہ علیہ، سابق امام و خطیب جامع مسجد ساکچی، جمشید پور سے بھی ان کا نیاز مندانہ و عقیدت مندانہ تعلق تھا، والد صاحب کا رشتہ سمجھ لیجیے انھیں کی بدولت اس خانوادۂ نیک نام سے جڑا تھا؛ الغرض جس طرح اپنا کوئی انتہائی قریبی ہوتا ہے، اسی طرح میرا ان کا رشتہ تھا، وہ میرے غمخوار و غم گسار بھی تھے۔ گزشتہ کل مورخہ یکم ربیع الاول 1444ھ بہ مطابق 28 ستمبر 2022ء بہ روز بدھ اپنے علاقے میں ان کا سڑک حادثہ ہوگیا، سر اور ہاتھ، پیر میں شدید چوٹ لگی، بوکارو ہی کے نیلم ہاسپٹل میں ایڈمٹ کروائے گئے، چوٹ کی تاب نہ لا کر چند ہی گھنٹوں میں انتقال کرگئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون

     گزشتہ کل وفات کے دن سے تقریباً ایک مہینہ پہلے 29 اگست 2022ء کو میری ان سے بہ ذریعہ موبائل بات ہوئی، اس وقت میں نے ان کی اجازت سے ان کی حیات و خدمات سے متعلق کچھ سوالات کیے تھے اور کال ریکارڈ کرکے محفوظ کر لیا تھا، ان سے کسی موقع پر قلم بند کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا، اس دن ان کے آخری جملے اس طرح کے تھے کہ  ”دعا کی درخواست ہے بابو! بابو! دعا کرنا بس! ہم کو تو ابھی سب سے زیادہ دعا کی ضرورت ہے، اللّٰہ تعالیٰ میری آخرت کو سنوار دے، اللّٰہ راضی ہو جائے، اس کے علاوہ اور کیا! بس موت کی تیاری کر رہا ہوں“۔

      اسی کال ریکارڈ میں موجود معلومات کی روشنی میں مزید تحقیق کے ساتھ یہ مضمون قلم بند کیا ہے، جو قارئین کی خدمت میں پیش کرکے ان سے دعا کی درخواست کرتا ہوں!!

       

    مختصر سوانح 

     حضرت مولانا کی ولادت 1956ء کو نوڈیہا، ضلع بوکارو، جھارکھنڈ میں ہوئی، اس وقت جھارکھنڈ بہار ہی کا حصہ تھا۔ ابتدائی تعلیم حضرت مولانا محمد اخلاق صاحب قاسمی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ادارہ مدرسہ رفاہ المسلمین، دبڑا، ضلع پرولیا، مغربی بنگال میں ہوئی۔ اس کے بعد مولانا محمد زکاۃ قلزم حیاتی نقشبندی  (1925ء - 2005ء) ابنِ مولانا محمد حیات سنبھلی (1892ء - 1987ء) رحمہما اللّٰہ کے مدرسہ جامعہ عربیہ حیات العلوم، مرادآباد میں ابتدائی عربی فارسی کی تعلیم حاصل کی، اس وقت مفتی دار العلوم دیوبند مفتی حبیب الرحمن خیرآبادی مد ظلہ بھی وہیں پر جلوہ افروز تھے، پھر جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد گئے اور حالات کی زد میں آکر شرحِ جامی کے بعد آگے پڑھنا میسر نہ ہوا۔ 1976ء میں تعلیمی سلسلہ کے اختتام کے بعد ابتدا میں ہُٹ مُڑا، ضلع پرولیا، مغربی بنگال کی کسی مسجد میں امامت کی اور مکتب میں بھی پڑھایا۔ اس کے بعد نیا ٹولی، رانچی میں کچھ دن امام رہے۔ اس کے بعد کھڑپوش، مغربی سنگھ بھوم، بہار (موجودہ جھارکھنڈ) میں تین چار سال امامت و تدریس کے فرائض انجام دیے۔ اس کے بعد کچھ عرصہ سنترا پور، ضلع کیونجھر، اڈیشہ میں رہے، پھر مدرسہ بحر العلوم نوڈیہا، ضلع بوکارو، جھارکھنڈ سے منسلک ہوکر اس ادارے کے لیے تقریباً دس گیارہ سال خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد کچھ عرصہ مدرسہ تعلیم القرآن، ذاکر نگر، مانگو، جمشید پور میں رہے۔ پھر حضرت والدِ محترم حافظ و قاری محمد نور الامین صدیقی دامت برکاتہم العالیہ (بانی و مہتمم مدرسہ دار العلوم حسینیہ، مدنی نگر، چڑئی بھول، ضلع میُوربھنج، اڈیشہ) کے محی الدین پور اور بشن پور، ضلع جگت سنگھ پور کے زمانۂ تدریس میں والد صاحب کے ساتھ منسلک رہے، پھر والد صاحب کے زمانۂ اہتمام جامعہ تجوید القرآن عثمانیہ، بارہ بٹیہ، ضلع جگت سنگھ پور، اڈیشہ میں  والد صاحب اور اس ادارے سے تقریباً دس سال منسلک رہے اور والد صاحب کی خوب رہنمائی بھی فرمائی، انھیں مدرسے کے سلسلے میں پہلی بار ممبئی لے کر گئے، لوگوں سے تعارف کروایا۔ جب والد صاحب نے اپنے وطن چڑئی بھول، ضلع میُوربھنج، اڈیشہ میں دار العلوم حسینیہ قائم کیا اور مدنی نگر بسایا تو بھی حضرت رحمۃ اللّٰہ علیہ کی توجہات رہتی تھیں اور کبھی کبھی ہمارے مدرسہ و گھر بھی تشریف لایا کرتے تھے۔

    نمازِ جنازہ آج بعد نماز ظہر پونے تین بجے مرحوم کے چچا زاد بھائی اور مرحوم قربان قاضی صاحب کے لڑکے حافظ یوسف صاحب کی اقتدا میں ادا کی گئی۔ پسماندگان میں اہلیہ اور دو بیٹیوں کے علاوہ چھ بیٹے بھی ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ پھوپھا مرحوم کی مغفرت فرمائے، ان کی خدمات کو قبول فرمائے، ان کی خطاؤں کو درگذر فرمائے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور پسماندگان و لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ

مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ محمد روح الامین میوربھنجی       مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی سرزمینِ بہا...