اتوار، 10 دسمبر، 2023

مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ

مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ


محمد روح الامین میوربھنجی

      مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی سرزمینِ بہار کے ضلع دربھنگہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ایک عالم دین و مفتی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین نقاد، سوانح نگار، تذکرہ نویس، خاکہ نگار، مقالہ نگار اور مصنف بھی ہیں اور 1999ء سے کتب درس نظامی کی تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں، گریڈ کے لحاظ سے وسطی ب کے مدرس ہیں، عربی زبان اور بلاغت کے علاوہ ہدایہ ثانی، ترجمہ قرآن مجید اور حدیث کی کتاب الفیۃ الحدیث کا درس بھی دیتے ہیں۔ ذیل میں ان کا سوانحی خاکہ قارئین کے پیش خدمت ہے۔

      ولادت
    مولانا کی پیدائش؛ ان کے نانیہال جھمٹا ضلع سہرسہ بہار میں ہوئی۔ دستاویز کے مطابق تاریخ ولادت 7 جنوری 1978ء ہے؛ لیکن خاندان کی بزرگ خواتین کی صراحت کے مطابق مارچ سنہ 1974ء میں ان کی پیدائش ہوئی۔ والد صاحب کا نام انوار احمد اور گھرانہ شیخ صدیقی ہے۔ آبائی گاؤں جھگڑُوا، کرت پور بلاک، ضلع دربھنگہ، بہار ہے۔

     تعلیم و تربیت 
   انھوں نے ابتدائی تعلیم؛ اپنے والدین کے پاس پھر جناب ماسٹر عالم گیر صاحب کے پاس مکتب میں جماعت بندی کے بغیر دینیات، اردو، ہندی اور ابتدائی فارسی (فارسی کی پہلی) کی تعلیم حاصل کی۔

    پھر 1983ء تا 1986ء مدرسہ معارف العلوم جھگڑوا میں مولانا عمر فاروق شمسی، مولانا محمد طیب قاسمی اور ماسٹر شبیر احمد وغیرہ کے پاس فارسی کی دوسری، آمد نامہ، منہاج العربیہ اور سال کی قید و بند کے بغیر آزادانہ طور پر اسکول کی چھٹی جماعت تک کی کتابیں پڑھیں۔

   پھر 1986ء تا 1988ء مدرسہ فلاح المسلمین، بکرم، پٹنہ میں مولانا محمد سہیل احمد قاسمی، مولانا غیاث الدین احمد قاسمی، مولانا اظہار عالم قاسمی، حافظ محمود، مولانا ابو اللیث اور مولانا عبد القدوس وغیرہ کے پاس؛ فارسی، ہدایۃ النحو کا کچھ حصہ اور بہار بورڈ کی تحتانیہ و سلطانیہ چہارم تک کی تعلیم حاصل کی۔

    پھر 1989ء تا 1991ء مدرسہ قاسم العلوم، منگراواں، ضلع اعظم گڑھ (یو، پی) میں مفتی عبد القادر بستوی، مولانا سہیل احمد قاسمی مبارک پوری، مولانا قمر الزماں قاسمی مبارک پوری اور مولانا محمد عارف ولید پوری وغیرہ کے پاس؛ اول، دوم اور سوم عربی پڑھی اور الٰہ آباد بورڈ سے مولوی کا امتحان دیا۔

    پھر 1992ء تا 1995ء مدرسہ ریاض العلوم، گورینی، ضلع جونپور (یو، پی) میں حضرت مولانا عبد الحلیم جونپوری، مولانا محمد ارشاد بھاگلپوری، مولانا محمد جمیل، مولانا عبد اللّٰہ بستوی، مولانا اکرام اللّٰہ، مولانا عبد العظیم ندوی، مولانا سعادت علی الٰہ آبادی اور مفتی محمد حنیف جیسے اساتذہ کے پاس؛ چہارم، پنجم، ششم (موقوف علیہ)  تک کی تعلیم حاصل کی اور قاری محمد شمیم صاحب سے اوقات درس میں قراءتِ حفص اور خارج میں قراءت سبعہ کی شاطبیہ پڑھی اور سبعہ میں اجراء بھی کیا، نیز مولانا عبد الحلیم صاحب سے قصیدۂ بردہ اور ہدایت الاذکیاء پڑھی۔

     تعلیم سے فراغت
   1996ء میں دار العلوم دیوبند سے دورۂ حدیث سے سوم پوزیشن کے ساتھ فارغ ہوئے، 1997ء میں وہیں سے افتاء، 1998ء تا 1999ء میں دو سال تدریبِ افتاء کیا اور اسی دوران خارج اوقات میں مسلم فنڈ دیوبند، اندرا اکیڈمی دیوبند، پھر دار العلوم کے شعبۂ کمپیوٹر میں اولین طلبہ کے درمیان؛ اردو، عربی و انگریزی کی ٹائپ رائٹنگ بھی سیکھی۔

    دار العلوم دیوبند میں ان کے اساتذہ
 مولانا نے شیخ نصیر احمد خان بلند شہری سے صحیح بخاری جلد اول، شیخ عبد الحق اعظمی سے صحیح بخاری جلد ثانی، مولانا نعمت اللّٰہ اعظمی سے صحیح مسلم جلد اول و سنن ابی داؤد جلد ثانی، مولانا قمر الدین احمد گورکھپوری سے صحیح مسلم جلد ثانی و سنن ابی داؤد جلد اول، اپنے خاص مربی حضرت مفتی سعید احمد پالن پوری سے جامع ترمذی جلد اول و طحاوی شریف، مولانا سید محمد ارشد مدنی سے جامع ترمذی جلد ثانی، مولانا عبد الخالق مدراسی سے شمائلِ ترمذی اور مولانا ریاست علی ظفر بجنوری سے سنن ابن ماجہ پڑھی۔ اپنے پیر و مرشد مفتی محمود حسن گنگوہی سے بخاری شریف کتاب الایمان تبرکاً اور سنن نسائی مستقلاً پڑھی، اگلے سال شرح عقود رسم المفتی پڑھی اور ان کے پاس تمرین فتاویٰ بھی کی۔ نیز مولانا حبیب الرحمٰن قاسمی اعظمی سے موطا امام محمد، مولانا قاری عثمان منصور پوری سے موطا امام مالک، مفتی نظام الدین اعظمی سے قواعد الفقہ پڑھی۔ مفتی حبیب الرحمن خیر آبادی سے سراجی، الدر المختار (مقدمہ، کتاب الوقف) پڑھنے کے علاوہ تدریب فی الافتاء کے دونوں سال ان سے تمرین فتاویٰ بھی لی۔ مفتی ظفیر الدین احمد مفتاحی سے الدر المختار (کتاب النکاح، کتاب الطلاق) پڑھی، ان کے پاس افتاء کی تمرین کی اور ان سے فتویٰ نویسی کے اصول و ضوابط بھی سیکھے۔ اس کے علاوہ مفتی محمود حسن بلند شہری کے پاس باضابطہ فتویٰ نویسی کی تمرین کی اور موجودہ صدر مفتی و استاذ حدیث مظاہر علوم سہارنپور مفتی محمد طاہر قاسمی غازی آبادی سے الاشباہ و النظائر پڑھی۔

    بیعت و ارشاد کا تعلق
   افتاء ہی کے سال رسم المفتی کا نصاب مکمل ہونے کے بعد مولانا موصوف مفتی محمود حسن گنگوہی سے بیعت ہوئے تھے، پھر حضرت گنگوہی کی وفات کے بعد مولانا مفتی نظام الدین اعظمی سے مناسبت پاکر انھیں مناسبت کے بارے میں بتایا تو انھوں نے کہا کہ اپنے حالات لکھ کر بتایا کرو؛ مگر چند دنوں بعد ہی ان کا انتقال ہوگیا، پھر مولانا موصوف نے بیعت و ارشاد کا تعلق مولانا مفتی مظفر حسین اجراڑوی کے خلیفہ مفتی سعید احمد پالن پوری صاحب سے کر لیا اور حضرت پالن پوری کی وفات تک انھیں سے منسلک رہے۔ حضرت پالن پوری کے بعد خلیفۂ فقیہ الامت مفتی محمد طاہر قاسمی غازی آبادی صدر مفتی مظاہر علوم سہارنپور کی طرف رجوع کر لیا۔

   دار العلوم دیوبند میں معین مدرسی
  1999ء تا 2000ء دار العلوم دیوبند میں معین مدرس رہے اور اول دوم عربی کی ساری کتابیں یعنی قدوری و کافیہ بحث فعل و حرف تک کی کتابیں ان سے متعلق تھیں۔

    دار العلوم حیدر آباد میں
  انھوں نے 2000ء تا 2008ء دار العلوم حیدر آباد میں مدرس و نائب مفتی کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، جس درمیان اعدادیہ سے ہفتم عربی تک مختصر المعانی، تفسیر جلالین، مشکوٰۃ المصابیح اور افتاء میں الاشباہ و النظائر، رسم المفتی اور سراجی جیسی کتابیں ان سے متعلق تھیں۔

     دار العلوم دیوبند میں تقرر
   1430ھ مطابق 2008ء میں دار العلوم دیوبند میں ان کا تقرر ہوا اور اس وقت سے اب (2023ء) تک اول عربی سے  ششم عربی تک؛ مفتاح العربیہ، ہدایۃ النحو، نور الایضاح، مرقاۃ، قدوری، آسان منطق، کافیہ، شرح تہذیب، قطبی، القراءۃ الواضحۃ حصہ سوم، تعلیم المتعلم، نفحۃ العرب، مشکوٰۃ الآثار، الفیۃ الحدیث، ترجمۂ قرآن (شروع سے سورۃ الحجرات تک)، نور الانوار، ہدایہ اولین، قطبی، دروس البلاغہ، اصول الشاشی اور تسہیل الاصول، مختلف مراحل میں ان کے زیر درس رہی ہیں اور بعض کے اسباق اب بھی ان سے متعلق ہیں۔

       قلمی سرگرمیاں
   مولانا کی قلمی سرگرمیوں میں طرازی شرح اردو سراجی، خاصیاتِ فصولِ اکبری پر تحقیق و تعلیق، مختصر خاصیاتِ ابواب (اردو)، مولانا بستوی کا ذکر جمیل، زیب و زینت کے احکام، کلیاتِ کاشف کی ترتیب، مالا بد منہ کا اردو ترجمہ، مولانا سعید احمد اکبر آبادی کا ذکر جمیل اور تقریباً پانچ غیر مطبوعہ تصانیف بھی شامل ہیں۔ ان کی کتاب طرازی شرح اردو سراجی کا فارسی، پشتو اور بنگلہ ترجمہ میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے۔ نیز سالوں سے وہ ترجمۂ قرآن پر کام کر رہے تھے جو اب زیر طباعت ہے، جس کی چند خصوصیات درج ذیل ہیں: (1) ترجمہ آسان ترین اور جدید اسلوب میں ہے، جسے ادنیٰ اردو پڑھنے والا طبقہ بھی سمجھ سکتا ہے، (2) قدیم ترجموں میں عربی و فارسی کے الفاظ مستعمل ہوتے تھے، ان سے احتراز کیا گیا ہے اور ان کی جگہ آسان ترین متبادل استعمال کیا گیا ہے، (3) اجنبی و علاقائی الفاظ کے استعمال سے گریز کیا گیا ہے، (4) اٹھارہ قابلِ اعتماد اردو ترجموں کو سامنے رکھ کر حرفاً حرفاً ان کا تقابل کر کے آسان ترین الفاظ منتخب کیے گئے ہیں؛ تاکہ ترجمہ اکابر مترجمین کے مطابق رہے یعنی اس طرح ترجمہ کیا گیا ہے کہ ترجمہ ان قدیم ترجموں کے دائرے سے آزاد نہ ہونے پائے، (5) ترجمہ قابل اعتماد آٹھ عربی تفاسیر سے مراجعت اور اطمینان کے بعد کیا گیا ہے۔

      مقالات و مضامین
   رونامہ منصف حیدرآباد، روزنامہ اعتماد حیدرآباد، ماہنامہ حسامی حیدرآباد، ماہنامہ دار العلوم دیوبند، ماہنامہ ترجمانِ دیوبند، آئینۂ دار العلوم دیوبند، فکر و تحریر کلکتہ، سہ ماہی بحث و نظر حیدرآباد، ہماری زبان انجمن ترقی اردو، روزنامہ سہارا انڈیا، المفتاح حیدرآباد، ماہنامہ حضرت عائشہ حیدرآباد، ماہنامہ السعید پرنام بٹ (تمل ناڈو) وغیرہ میں مولانا کے تین سو سے زائد مقالات و مضامین شائع ہو چکے ہیں۔

بعض مشہور و اہم مقالات کا ذکر:
مفتی اعظم مفتی عزیز الرحمن عثمانی - حیات و خدمات
ترانۂ دار العلوم دیوبند کا فنی، فکری اور ادبی مطالعہ
صحابۂ کرام کے سلسلہ میں علمائے دیوبند کا معتدل موقف
حضرت مولانا محمد عثمان معروفی اور فن تاریخ گوئی
کاتبین پیغمبر اعظم صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ایک تعارف
تدوین قرآن مجید - ایک تحقیقی جائزہ
عربی تفسیروں کے اردو ترجمے- تعارف و تجزیہ
نیٹ ورک مارکیٹنگ - اقتصادی اور اسلامی نقطۂ نظر
حضرت مفتی کفیل الرحمن نشاط عثمانی کی غزلیہ شاعری - معاصر ادباء کی نظر میں
اسلام كا نظام سلام و مصافحہ
انقلابِ ماہیت - اسلامی نقطۂ نظر
مدارس میں زکوٰة کی فراہمی اور طریقۂ استعمال

      تحقیقی کارنامے
   آپ نے حیدرآباد کے زمانۂ تدریس ہی میں 2007ء میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (حیدرآباد) سے ایم اے (اردو) کیا، پھر اردو ہی میں 2008 تا 2009ء وہیں سے ایم فِل کیا۔ مقالۂ ایم فِل کا عنوان ”چند منتخب علمائے دیوبند کی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ“ تھا، جو سابق مہتمم دار العلوم دیوبند حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب، سابق مفتی دار العلوم دیوبند مولانا کفیل الرحمن نشاط عثمانی اور استاذ حدیث دار العلوم دیوبند مولانا ریاست علی ظفر بجنوری رحمہم اللّٰہ کی مطبوعہ شاعری کے تجزیاتی مطالعہ پر مشتمل تھا۔

     2012ء میں ڈاکٹر شمس الہدیٰ دریابادی کے زیر نگرانی ”علمائے دیوبند کی سوانح عمریوں کا تنقیدی تجزیہ (آزادی سے قبل)“ کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھنا شروع کیا، 2018ء میں جمع کروایا اور 20 فروری 2020ء میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے سندِ ڈاکٹریٹ ان کے حوالے کی گئی۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لیے جمع کیے گئے ان کے یہ مقالے شائع ہو جائیں تو دو ضخیم کتابیں منظر عام پر آ جائیں۔

    اللّٰہ تعالیٰ صحت و عافیت کے ساتھ مولانا موصوف کی عمر میں برکت عطا فرمائے اور امت مسلمہ کو ان سے خوب مستفید فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین

جمعہ، 1 دسمبر، 2023

استاذ الاساتذہ حضرت مولانا محمد سلمان بجنوری نقشبندی: مختصر سوانحی خاکہ

استاذ الاساتذہ مولانا محمد سلمان بجنوری نقشبندی: مختصر سوانحی خاکہ


محمد روح الامین میُوربھنجی


        دار العلوم دیوبند کے مایۂ ناز استاذ اور اپنے نور و معرفت سے ایک عالَم کو فیضیاب کرنے والے عالم مولانا محمد سلمان بجنوری نقشبندی مدظلہ العالی سے ہر صاحبِ علم و کمال واقف ہوگا، حضرت مولانا تیس سال سے دار العلوم دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں اور 1440ھ سے درجۂ علیا کے استاذ کی حیثیت سے خدمت انجام دے ہیں۔ اسی طرح ربیع الاول 1438ھ مطابق دسمبر 2016ء سے ماہنامہ دار العلوم دیوبند کے مدیر ہیں اور مئی 2022ء سے جمعیۃ علماء ہند (میم) کے نائب صدر ہیں۔ اب مولانا موصوف کا مختصر سوانحی خاکہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔   

         ابتدائی و تعلیمی زندگی

    مولانا موصوف 14 اپریل 1969ء کو قصبۂ سہسپور، ضلع بجنور، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ماجد مولانا سعید احمد قاسمی سہسپوریؒ، امام و خطیب جامع مسجد و عیدگاہ سہسپور و صدر مدرس مدرسہ باب العلوم سہسپور؛ شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کے فیض یافتہ تھے۔

     مولانا موصوف کی تعلیم و تربیت میں ان کے والدِ بزرگوار کے علاوہ ان کی والدۂ ماجدہ کا بھی کردار رہا ہے، اسی کا نتیجہ تھا کہ موصوف محض سات سال اور تین ماہ کی کم عمری میں 14 جولائی 1976ء کو حفظِ قرآن کی دولت سے بہرہ ور ہو چکے تھے۔

     انھوں نے قاعدۂ بغدادی و نورانی قاعدہ، ناظرہ و حفظِ قرآن سے لے کر سالِ اول و دوم عربی کی تمام نصابی کتابوں کی تعلیم اپنے والد محترم کے پاس حاصل کی۔ اس کے بعد سنہ 1401ھ میں ان کے والد نے ان کا داخلہ جامعہ اشرف العلوم رشیدی، گنگوہ میں کروا دیا، ابھی موصوف عربی ششم ہی میں زیر تعلیم تھے کہ 16 شعبان 1405ھ مطابق 7 مئی 1985ء کو سایۂ پدری سے محروم ہو گئے اور اپنے برادر کبیر مولانا محمد سفیان غانم قاسمی سہسپوری مدظلہ، امام و خطیب جامع مسجد و عیدگاہ سہسپور (جو اُسی سال دار العلوم دیوبند سے دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے تھے) کے زیر سرپرستی آ گئے۔ بہر حال موصوف نے جامعہ اشرف العلوم رشیدی میں سالِ سوم عربی سے دورۂ حدیث تک کی تعلیم حاصل کی اور 1407ھ بہ مطابق 1987ء کو دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے۔ ان کے اساتذۂ اشرف العلوم رشیدی میں مولانا قاری شریف احمد گنگوہیؒ (متوفی: 4 مئی 2005ء) بانی و سابق مہتمم جامعہ اشرف العلوم رشیدی، مولانا رئیس الدین بجنوریؒ (متوفی: 4 مارچ 2011ء)، سابق شیخ الحدیث جامعہ اشرف العلوم رشیدی مولانا وسیم احمد سنسارپوریؒ (متوفی: 11 اپریل 2020ء)، صاحبِ ”الحل المرضی“ مولانا محمد انور گنگوہی مدظلہ موجودہ شیخ الحدیث دار العلوم رشیدیہ گنگوہ اور مولانا محمد سلمان گنگوہی مدظلہ استاذ حدیث جامعہ اشرف العلوم رشیدی و مجازِ فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ شامل تھے۔

       گنگوہ کے بعد مولانا موصوف ”نسبت قاسمیہ“ سے منسلک ہونے کے لیے دار العلوم دیوبند تشریف لائے اور وہاں داخلہ لے کر سنہ 1408ھ مطابق 1988ء میں دوبارہ دورۂ حدیث کے اساتذہ سے اکتسابِ فیض کیا اور امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی۔

  ان کے دار العلوم دیوبند کے اساتذۂ دورۂ حدیث کے نام مع اسماۓ کتب درج ذیل ہیں:

صحیح بخاری (جلد اول): شیخ الحدیث مولانا نصیر احمد خان بلند شہریؒ

صحیح بخاری (جلد ثانی): مولانا عبد الحق اعظمیؒ

صحیح مسلم (جلد اول)، سنن ابو داؤد (جلد ثانی)، موطأ امام محمد: بحر العلوم مولانا نعمت اللّٰہ اعظمی

صحیح مسلم (جلد ثانی): علامہ قمر الدین احمد گورکھپوری

سنن ابو داؤد (جلد ثانی)، موطأ امام مالک: مولانا محمد حسین بہاریؒ

جامع ترمذی (جلد اول)، شرح معانی الآثار: مفتی سعید احمد پالن پوریؒ

جامع ترمذی (جلد ثانی): مولانا سید ارشد مدنی

سنن ابن ماجہ: مولانا ریاست علی ظفر بجنوریؒ

سنن نسائی: مولانا زبیر احمد دیوبندیؒ

شمائل ترمذی: مولانا عبد الخالق مدراسی

    دار العلوم دیوبند سے دورۂ حدیث کے بعد شوال 1408ھ کو دار العلوم ہی کے تکمیلِ ادب عربی کے شعبہ میں داخلہ لیا اور دونوں امتحانات میں اول پوزیشن سے کامیابی حاصل کی۔ ان کے تکمیلِ ادب کے اساتذہ میں مولانا معراج الحق دیوبندیؒ، معلمِ عبقری مولانا وحید الزماں کیرانویؒ، مولانا قاری محمد عثمان منصور پوریؒ اور ادیبِ عصر مولانا نور عالم خلیل امینیؒ شامل تھے۔

     مولانا موصوف نے ابتداءً اپنے والد سے، پھر حکیم ننھو میاں سے بہت کچھ سیکھا، پھر دیوبند کے زمانۂ طالب علمی میں حضرت مولانا ریاست علی ظفر بجنوریؒ سے ان کا تقریباً تیس سالہ تعلق رہا، جس درمیان انھوں نے مولانا ریاست علی صاحب سے خوب استفادہ کیا اور ان کے فکر و علم کا اثر مولانا کی شخصیت پر بھی پڑا۔ دیگر وہ شخصیات؛ جن سے مولانا قلبی یا فکری طور پر متاثر ہوئے؛ ان میں فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ، مولانا وحید الزماں کیرانویؒ، فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنیؒ، مولانا محمد منظور نعمانیؒ اور مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ شامل ہیں۔

          تدریسی و عملی زندگی

      دار العلوم دیوبند سے تکمیل ادب عربی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ذی قعدہ 1409ھ مطابق اواخر جون یا اوائل جولائی 1989ء کو دار العلوم ہی میں معین مدرس مقرر ہوئے اور دو سال معین مدرس رہنے کے بعد شوال 1411ھ تا شعبان 1412ھ (مطابق مئی 1991 تا فروری 1992ء) ایک سال مدرسہ فیضِ ہدایت رحیمی، رائے پور میں مدرس رہے۔ پھر شعبان 1412ھ میں مولانا موصوف کا تقرر جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد میں ہوگیا، جہاں انھوں نے شوال 1412ھ تا شعبان 1414ھ (مطابق جون 1992 تا جنوری 1994ء) دو سال تدریسی فرائض انجام دیے۔ اس وقت مدرسہ شاہی میں بَہ طورِ خاص تکمیلِ ادب عربی کا شعبہ ان سے منسلک رہا، ان کی تحریک پر مدرسہ شاہی میں عربی انجمن ”النادی الادبی“ کا قیام عمل میں آیا اور النادی سے نکلنے والے پندرہ روزہ جداریہ ”البلاغ“ کے نگراں بھی تھے۔

      شعبان 1414ھ مطابق فروری 1994ء کو درجۂ علیا کے استاذ کی حیثیت سے دار العلوم دیوبند میں مولانا موصوف کا تقرر عمل میں آیا اور اس وقت سے اب تک تقریباً انتیس سال سے وہاں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں اور فی الحال سنن ابنِ ماجہ، مشکوۃ المصابیح، دیوانِ حماسہ اور سبعہ معلقہ جیسی کتابوں کے اسباق ان سے متعلق ہیں۔

      مئی 2022ء کو مولانا موصوف جمعیت علمائے ہند (میم) کے نائب صدر منتخب ہوئے۔

       ”ماہنامہ دار العلوم“ کی ادارت

      ربیع الاول 1438ھ مطابق دسمبر 2016ء سے مولانا موصوف ماہنامہ دار العلوم دیوبند کے مدیر ہیں اور اس وقت سے بحسن و خوبی یہ ذمے داری انجام دے رہے ہیں۔ ان سے پہلے ماہنامہ دار العلوم کے مدیر ابنِ حجر ثانی مولانا حبیب الرحمن قاسمی اعظمیؒ تھے۔

    ”دار العلوم دیوبند: حالات، خدمات، منصوبے“ کی ترتیب کے علاوہ ذیل میں ان کے زیر ادارت شائع ہونے والے ماہنامہ دار العلوم کے بعض خصوصی نمبر؛ یا ان شماروں کی تفصیلات ہیں، جس میں کسی شخصیت پر ایک سے زائد مضامین موجود ہیں:

• گوشۂ شیخ عبد الحق اعظمی (جلد: 101، شمارہ: 1–2، فروری 2017ء)

• گوشۂ مولانا کفیل احمد علوی (جلد: 101، شمارہ: 4، اپریل 2017ء)

• مولانا ریاست علی ظفر بجنوری نمبر (جلد: 101، شمارہ: 8–9، اگست – ستمبر 2017ء)

• گوشۂ مولانا محمد مصطفیٰ اعظمی (جلد: 102، شمارہ: 2، فروری 2018ء)

• گوشۂ خطیب الاسلام مولانا محمد سالم قاسمی (جلد: 102، شمارہ: 4، اپریل 2018ء)

• مقام و عظمت صحابہ نمبر (جلد: 102، شمارہ: 11–12، نومبر – دسمبر 2018ء)

• گوشۂ شارح ہدایہ مولانا جمیل احمد سکروڈی (جلد: 103، شمارہ: 5–6، مئی – جون 2019ء)

• گوشۂ پیر طریقت مولانا محمد طلحہ کاندھلوی (جلد: 103، شمارہ: 9، ستمبر 2019ء)

• گوشۂ شارح جلالین مولانا محمد جمال میرٹھی (جلد: 103، شمارہ: 10، اکتوبر 2019ء)

• گوشۂ مولانا برہان الدین سنبھلی (جلد: 104، شمارہ: 2 – 3، فروری – مارچ 2020ء)

• گوشۂ مولانا برہان الدین سنبھلی (جلد: 104، شمارہ: 2 – 3، فروری – مارچ 2020ء)

• ذکرِ سعید [مفتی سعید احمد پالن پوری نمبر] (جلد: 104، شمارہ: 6 – 7، جون – جولائی 2020ء)

• ذکرِ سعید [مفتی سعید احمد پالن پوری نمبر] (جلد: 104، شمارہ: 8 – 9، اگست – ستمبر 2020ء)

• مولانا نور عالم خلیل امینی نمبر (جلد: 105، شمارہ: 6 – 7، جون – جولائی 2021ء)

• مولانا حبیب الرحمن ثانی اعظمی نمبر (جلد: 105، شمارہ: 8، اگست 2021ء)

• مولانا حبیب الرحمن ثانی اعظمی نمبر (جلد: 105، شمارہ: 8، اگست 2021ء)

• امیر الہند رابع [قاری محمد عثمان منصور پوری] نمبر (جلد: 105، شمارہ: 9، ستمبر 2021ء)

• گوشہ ہاۓ مولانا عبد الخالق سنبھلی، قاری سید محمد عثمان منصور پوری، مولانا حبیب الرحمن اعظمی، مولانا نور عالم خلیل امینی (جلد: 105، شمارہ: 10، اکتوبر 2021ء)

         بیعت و خلافت

      گنگوہ کے زمانۂ تعلیم میں مولانا موصوف کو نبیرۂ حضرت گنگوہیؒ مولانا حکیم عبد الرشید محمود گنگوہیؒ (معروف بَہ حکیم ننھو میاں) سے خصوصی تعلق اور ان کا بھرپور اعتماد حاصل رہا تھا۔ نیز حکیم صاحب کی علمی مجالس کے حاضر باش بھی رہا کرتے تھے۔ بعد میں اپریل 2011ء کو جب مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی مدظلہ العالی دیوبند تشریف لائے، تو اس وقت ان کا قلبی رجحان پیر صاحب کی طرف ہوا اور وہ پیر صاحب سے منسوب ہوگئے اور ان سے سلوک کے منازل طے کرتے رہے؛ یہاں تک کہ اواخرِ رمضان 1434ھ مطابق اوائلِ اگست 2013ء کو زامبیا میں اعتکاف کے موقع پر مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی نے مولانا موصوف کو اجازتِ بیعت و خلافت سے نوازا۔ ماشاء اللّٰہ!! اِس وقت ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مولانا موصوف کے منتسبین و اہلِ ارادت موجود ہیں۔

    اللّٰہ تعالیٰ مولانا موصوف کی عمر و صحت میں برکت عطا فرمائے اور ہمیں اور امت مسلمہ کو ان سے زیادہ سے زیادہ استفادے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین

مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ

مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ محمد روح الامین میوربھنجی       مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی سرزمینِ بہا...