پیر، 29 نومبر، 2021

حضرت مولانا عبد الوحید صاحب قاسمی چٹراوی

حضرت مولانا عبد الوحید صاحب قاسمی چٹراوی

📝 محمد روح الامین میوربھنجی

ولادت: 10 دسمبر 1966ء میں آپ کی ولادت ہوئی۔
تعلیم: انھوں نے ابتدائی نورانی قاعدہ وغیرہ کی تعلیم؛ حضرت مولانا ابراہیم صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ سے حاصل کی، پھر ابتدائی عربی فارسی  کی تعلیم؛ مدرسہ اسلامیہ مدینۃ العلوم خوشمنڈل میں ہوئی، وہاں ان کے اساتذہ میں حضرت مولانا نظام الدین قاسمی و حضرت مولانا صابر علی قاسمی صاحبان شامل تھے۔ پھر سال عربی سوم میں جمشید پور، جھارکھنڈ کے ہندو مسلم تنازعات کی وجہ سے دیر سے بعد عید الاضحیٰ دار العلوم دیوبند پہنچے، جس وقت داخلہ بند ہوچکا تھا، جس کی وجہ سے چھ مہینہ سروٹ میں پڑھائی کی، پھر اگلے سال؛ دار العلوم دیوبند میں عربی چہارم میں داخلہ ہوا۔
دار العلوم دیوبند سے فراغت: 1985ء میں دار العلوم دیوبند میں دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے۔ پھر 1986ء میں وہیں پر ایک سال رہ کر تفسیر کی تعلیم حاصل کی۔
ان کے دار العلوم دیوبند کے اساتذہ:
حضرت مولانا نصیر احمد خان رحمۃ اللّٰہ علیہ؛ جن سے انھوں نے صحیح البخاری پڑھی۔
حضرت مفتی سعید احمد پالن پوری رحمۃ اللّٰہ علیہ
حضرت مولانا ریاست علی بجنوری رحمۃ اللّٰہ علیہ
حضرت مولانا شیخ عبد الحق محدث اعظمی رحمۃ اللّٰہ علیہ
حضرت مولانا جمیل احمد سکروڈوی رحمۃ اللّٰہ علیہ
حضرت مولانا عبد الخالق مدراسی دامت برکاتہم
حضرت مولانا نعمت اللّٰہ صاحب اعظمی دامت برکاتہم
حضرت علامہ قمر الدین احمد گورکھپوری دامت برکاتہم
خدماتی زندگی: فراغت کے بعد اپنے مادر علمی مدرسہ اسلامیہ مدینۃ العلوم خوشمنڈل میں سات سال تک قرآن کی و ابتدائی تعلیم دیتے رہے اور ہدایۃ النحو، کافیہ و قدوری تک کی کتابیں پڑھائی، اس کے بعد ان کی ہائی اسکول میں سرکاری ملازمت لگ گئی، اس دوران مدرسہ میں تدریس بھی جاری تھی، اس کے بعد جب ان کا اپنے وطن ٹینڈاکوڑہ میں ٹرانسفر ہو گیا تو اپریل 1992ء سے باقاعدہ مدرسہ کے نظام سے سبکدوش ہو کر اسکولی تدریس سے جڑ گئے۔ 2021ء  سے سات سال قبل انھوں نے اپنے گاؤں چٹرا، ضلع کیندراپاڑہ میں ایک مدرسہ؛ مدرسہ احیاء العلوم کے نام سے قائم کیا تھا، اس وقت ان کے بڑے صاحب زادے مولانا محمد ارشد ذکی قاسمی اس مدرسہ کا نظام سنبھالے ہوئے ہیں، جس میں مقامی تیس مقامی طلبہ زیر تعلیم ہیں۔

اتوار، 28 نومبر، 2021

حضرت مولانا آصف اقبال صاحب قاسمی بھاگلپوری

حضرت مولانا آصف اقبال صاحب قاسمی بھاگلپوری

📝 محمد روح الامین میوربھنجی

  استاذ محترم حضرت مولانا محمد آصف اقبال صاحب قاسمی بھاگلپوری دامت برکاتہم العالیہ سے میں نے فارسی کے سال جامعۃ الشیخ حسین احمد المدنی، محلہ خانقاہ دیوبند میں 2013-2014ء میں علومِ فارسی نامی کتاب پڑھی تھی، پھر 2015ء میں  آغاز سال میں تعلیم شروع ہونے کے بعد عید الاضحیٰ کی تعطیل تک جو کچھ پڑھا تھا، اس وقت بیمار پڑ گیا تھا تو والد صاحب نے مناسب سمجھا کہ عربی دوم کی تکمیل اڈیشا ہی میں کر لوں؛ اس سال میں نے عربی دوم جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم سونگڑہ، کٹک میں پوری کی، پھر اگلے سال کسی سبب سے دار العلوم میں داخلہ نہ ہو ہونے کے بعد دوبارہ جامعۃ الشیخ میں داخلہ لے لیا اور عید الاضحیٰ سے قبل والے امتحان میں اول پوزیشن، ششماہی امتحان میں سوم پوزیشن اور سالانہ امتحان میں اول پوزیشن حاصل کی اور اس کے بعد دار العلوم دیوبند اور دار العلوم وقف دیوبند؛ دونوں ہی جگہ داخلہ ہوگیا۔ ایک دفعہ میں نے استاذ محترم سے ملاقات کی اور ان کی زندگی سے متعلق کچھ سوالات کرکے گفتگو کو اجازت کے ساتھ ریکارڈ کر لیا اور بعد میں اپنے انداز میں اسے ترتیب دے دیا۔

ولادت: آپ کی ولادت کاغذات کے مطابق 1977ء میں ہوئی تھی۔

خاندان: ماشاء اللّٰہ آپ کا خاندان بڑا ہی علمی ہے؛ گویا قاسمی خاندان ہے کہ پر دادا، دادا اور دو چچا دار العلوم دیوبند کے فاضل تھے۔ آپ کے پر دادا حافظ دیانت رحمۃ اللّٰہ علیہ اپنے علاقہ کے مشہور بزرگ تھے۔ انھوں نے بھاگلپور ریلوے اسٹیشن کے قریب "مدنی مسافر خانہ" کے نام سے ایک مسافر خانہ قائم کیا تھا، جو چالیس کمروں پر مشتمل ہے، جہاں مسافرین بہت ہی کم کرایہ پر قیام کرتے ہیں اور بھاگلپور کے ایک علاقہ سمریا میں واقع ایک مدرسہ کے بانی تھے۔ حضرت مولانا حسین احمد مدنی علیہ الرحمہ بھی ان کے گھر تشریف لے گئے تھے اور ان کے دادا کو اپنے مبارک ہاتھوں سے لقمہ دیا تھا۔ خاندان میں بڑا دینی ماحول ہے، شرعی لباس والے ہیں؛ کرتا، پائجامہ، داڑھی ٹوپی والے ہیں۔

ابتدائی تعلیم: اپنے نانیہال میں مکتب سے پڑھائی شروع کی، اس کے بعد بھاگلپور کے ایک قصبہ؛ گروتیا میں واقع ایک مدرسہ میں عربی اول و دوم کی تعلیم حاصل کی، وہاں پر ان کے خاص اساتذہ میں مولانا شفاعت حسین صاحب، مولانا شمس الضحیٰ صاحب سابق استاذ مدرسہ شاہی مرادآباد تھے۔ 

دار العلوم دیوبند میں: عربی دوم کی تعلیم کے بعد آپ 1993ء میں عید الاضحیٰ کے بعد دار العلوم دیوبند آگئے اور آپ نے وہاں عربی دوم ہی میں سماعت کی، جس وقت آپ کے خاص و مشفق استاذ حضرت مولانا مزمل علی آسامی (سابق استاذ دار العلوم دیوبند و مہتمم جامعۃ الشیخ حسین احمد المدنی، دیوبند) صاحب تھے،  ان سے علم الصیغہ پڑھی اور وہ پابندی سے مولانا موصوف کا سبق سنتے تھے، سوالات کرتے تھے، 1994ء میں عربی سوم میں داخلہ ہوا اور 1999ء میں دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کی۔ آپ نے بخاری شریف شیخ نصیر احمد خان صاحب بلند شہری سے پڑھی۔




آپ کے شرکائے دورۂ حدیث:

مفتی محمد عفان مرادآبادی

​مفتی محمد کلیم الدین کٹکی

​مولانا محمد جرار صاحب قاسمی

​مفتی محمد اشرف عباس قاسمی

​مفتی محمد افضل بستوی

تدریسی و خدماتی زندگی:

​فراغت کے بعد ایک سال اپنے گاؤں ہی کے ایک مدرسہ میں مدرس رہے۔

​2001ء میں اپنے استاذ محترم حضرت مولانا مزمل علی آسامی صاحب نے محلہ خانقاہ، دیوبند میں ایک ادارہ؛ "جامعۃ الشیخ حسین احمد المدنی" کے نام سے قائم کیا اور مولانا موصوف کو بھی وہیں پر بحیثیت استاذ بلالیا۔

​2004ء سے 2021ء تک جامعہ کے ناظمِ تعلیمات بھی رہے۔

اس کے بعد جامعہ کے نائب مہتمم بنائے گئے اور اب بھی یہ فرائض انجام دے رہے ہیں۔

​جامعہ میں ابتدا یعنی فارسی و عربی اول سے دورۂ حدیث تک کی کتابیں آپ سے وابستہ رہیں۔ صحیح مسلم کے اسباق بھی آپ سے متعلق ہیں۔

تصانیف: علم الصیغہ بھی کئی سال تک آپ سے متعلق رہی، جس کی ایک شرح آپ کے زیرِ تالیف ہے۔

حضرت مولانا محمد اکرام صاحب نین پوری

حضرت مولانا محمد اکرام صاحب نین پوری

📝 محمد روح الامین میوربھنجی

ولادت:  آپ کی ولادت سن 1973ء میں ہوئی۔

تعلیم: ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں نین پور، ٹینڈاکوڑہ، ضلع کیندرا پاڑہ میں ہوئی۔ اس کے بعد مدرسہ مدینۃ العلوم، خوشمنڈل میں عربی فارسی کی کافیہ و قدوری تک کی تعلیم حاصل کی۔ مکمل تعلیم کے لیے مدرسہ بنجھارپور میں 1995ء میں شیخ الاسلام حضرت مدنی کے شاگرد اور بنجھارپور گورمنٹ کالج کے پرنسپل شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد الغفار قاسمی رحمہ اللّٰہ سے بخاری تک کی کتابیں پڑھ کر فاضل حدیث مکمل کیا، حضرت مولانا محمد جابر صاحب قاسمی سے مشکوٰۃ پڑھی تھی، مفتی محمد غفران صاحب کٹکی اور مولانا امان اللہ صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ بھی موصوف کے اساتذہ میں ہیں۔ 1996ء میں فاضل اردو کی تکمیل کی اور انگریزی میں گریجویشن مکمل کیا، پھر گھر واپس آگئے۔

فراغت: فارغ التحصیل ہونے کے دو سال بعد گاؤں کے اسکول میں سرکاری ملازمت لگ گئی، فی الحال (2021ء کے مطابق) "فضل حق ہائی اسکول، ٹینڈاکوڑہ " میں فارسی کی استاذ کی حیثیت سے 21 سال سے تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اپنے محلہ میں موجود تقریباً ستر طلبہ پر مشتمل ایک مکتب کے نگراں بھی ہیں۔ بہت سے علاقائی مدرسوں کی مجلس شورٰی کے رکن بھی ہیں۔

ہفتہ، 27 نومبر، 2021

نظام قدرت ہی سراپا باعثِ خیر ہے

نظام قدرت ہی سراپا باعثِ خیر ہے

                                      محمد روح الامین 

    ہم اپنی زندگی کا اگر جائزہ لیں تو ہمیں خود میں بے شمار کمیاں نظر آئیں گی، ان کمیوں کا حاصل یہ ہے کہ ہم خالقِ حقیقی سے غافل ہو گئے، اس کے حکموں سے منھ پھیر رکھا ہے، اس کی عطا کردہ نعمتوں کا غلط اور بے جا استعمال کر رہے ہیں، اس کے بنائے ہوے نظام و قوانین میں دخل اندازی کر رہے ہیں، اس کی تخلیق کردہ قدرتی فَضا اور ماحول کو؛ آلات، مشینوں اور ٹیکنالوجیز کی آلودگیوں سے متاثر کر رہے ہیں۔

   اگر ہم؛ انسانوں اور دیگر حیوانوں میں موجود؛ نو مولود اور نِت نئی بیماریوں کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ صاف نظر آئے گا کہ یہ سب؛ انسان کے باہر کی اُن صَوتی، سَمعی، آبی اور فَضائی آلودگیوں — جو ظاہری آلودگیوں سے مختلف ہیں — کی وجہ سے ہے، جو دِن بہ دِن رُونما ہونے والی نام نہاد ترقیوں کے سبب پیدا ہوئیں؛ مثلاً: کثیر تعداد میں درختوں کے کاٹے جانے سے، سمندروں میں ”میزائل ٹیسٹنگ“ کرنے سے، ”موبائل نیٹ ورکس“ سے، کمپنیوں کے سسٹم اور گاڑیوں کی انجنوں سے، جو آلودگیاں اور خرابیاں؛ ہوا، پانی اور فَضا میں پیدا ہوئیں، اُن سے نئی نئی بیماریوں نے جنم لیا، ”آکسیجن“ میں خرابی پیدا ہوکر ”ہارٹ اٹیک“ اور قلبی دورے کا مرض عام ہوا، ”ٹیلی ویژن“ اور ”موبائل فونز“ کی روشنی سے ”قُوتِ بَصارت“ متاثر ہوئی، ”ہیڈ فونز“ اور ”بُلوتُوتھس“ سے ”قوتِ سماعت“ پر اثر پڑا، پھلوں اور غذاؤوں میں؛ ”اَدوِیات“ اور "کیمیکلز" کی آمیزش سے صحت میں فساد پیدا ہوا، گاڑی اور مشینی آلات کی صَوتی آلودگیاں؛ ”ڈپریشن“ (ذہنی تناؤ) اور ”فرَسٹریشن“ (مایوسی) کا سبب بنیں؛ اِن مجموعی آلودگیوں کے سبب، ہوا و پانی کا نظم و نسق مجروح ہوا اور نئے امراض کا سامنا کرنا پڑا؛ بالخصوص زہریلی غذاؤوں اور الٹی سیدھی چیزوں کے استعمال سے، جلو وَپبایل انسانی زندگی میں آیا ہے، وہ محتاج بیاں نہیں، جیسے: شراب نوشی اور مُنشِّیات (نشہ آور چیزوں) سے، مختلف اقسام کے ”کینسر“ اور الٹی سیدھی غذاؤوں اور اللہ تعالی کے حرام کردہ جانوروں کے استعمال سے ”فوڈ پوائزننگ“ اور ”کورونا وائرس“ جیسی  مختلف بیماریاں؛ پوری دنیا میں رونما ہوئیں۔

   ان ساری باتوں کا مقصد و خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کے بنائے ہوے نظام اور سسٹم میں کوئی کمی نہیں ہے: ﴿ماترى في خلق الرحمن من تفاوت﴾ ”رحمان کی تخلیق میں تو کوئی اونچ نیچ نہیں دیکھے گا“ (سورة الملك، آیت: 4) یعنی جو چیز جس حالت میں اس نے اپنے بندوں کو دی ہے، اسی میں ان کے لیے حکمت و مصلحت بھی ودیعت کر دی ہے، اُسی کے مُقرّر کردہ اصول (خواہ دینی ہوں؛ یا دنیوی) انسانوں کے لیے مفید اور غیر نُقصان دِہ ہیں، اُس کے بنائے ہوے حدود اور دائروں سے باہر نکل کر، اپنے ہی نقصانات اور بربادیوں کے مواقع ہیں۔

   اب جب کہ ٹیکنالوجیز ہماری زندگیوں میں داخل ہو چکی ہیں اور ان سے بالکلیہ دست بردار بھی نہیں ہوا جا سکتا، تو ان کا بہ قدر ضرورت اور صحیح استعمال، ان کے نقصانات سے بچنے کی درست تدابیر اور غذاؤوں کے انتخاب و استعمال میں بھی قدرت کے مقرر کیے قوانین کا پاس رکھنا بھی بھی نہایت ضروری اور لابدی ہے؛ علاوہ ازیں ذہنی و جسمانی ورزش اور صفائی ستھرائی کا اہتمام بھی انتہائی ضروری ہے۔

  اللہ تعالی اپنے قدرتی نظام میں چھیڑ چھاڑ سے ہمیں دور رکھے، درست اور حلال غذاؤوں کے انتخاب اور صفائی و ستھرائی والی زندگی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین


حضرت مولانا اختر صاحب قاسمی: ٹینڈاکوڑہ، اڈیشا کی معروف شخصیت

حضرت مولانا اختر صاحب قاسمی: ٹینڈاکوڑہ، اڈیشا کی معروف شخصیت

📝 محمد روح الامین میوربھنجی

   حضرت مولانا محمد اختر صاحب قاسمی ٹینڈاکوڑہ، ضلع کیندراپاڑہ، اڈیشا کے معروف عالم دین اور مقرر ہیں، اڈیشا کے معروف علماء میں ان کا شمار ہوتا ہے، بچپن سے جن علمائے اڈیشا کے بارے میں سنا تھا، ان میں مولانا موصوف کا نام بھی ہے۔

ولادت: آپ سن 1972ء کو ٹینڈاکوڑہ، ضلع کیندراپاڑہ، اڈیشا میں پیدا ہوئے تھے۔

تعلیم و تربیت: ابتدائی عربی فارسی کی تعلیم؛ مدرسہ اسلامیہ دینیہ، سبلنگ، کنی پاڑہ (موجودہ جامعہ ارشد العلوم، سبلنگ) میں ہوئی۔ حضرت مولانا جلال الدین کٹکی قاسمی رحمہ اللّٰہ آپ کے استاذ تھے۔ پھر 1986ء میں دار العلوم دیوبند میں آپ کا داخلہ ہوا اور 1990ء میں وہاں سے ان کی فراغت ہوئی۔

دار العلوم دیوبند میں آپ کے اساتذہ:

مولانا نصیر احمد خان صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ؛ ان سے بخاری شریف پڑھی۔

​مفتی سعید احمد پالنپوری رحمہ اللّٰہ

​علامہ قمر الدین احمد گورکھپوری مد ظلہ العالی

​مفتی محمد یوسف تاؤلوی مد ظلہ العالی

مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم

تدریسی زندگی:

فراغت کے بعد اولا مدرسہ اسلامیہ دینیہ، تلدہ میں چھ مہینہ تدریسی فرائض انجام دیے، پھر اپنے قریہ کی مسجد میں 9 سال امامت کے فرائض انجام دیے، پھر اپنے گاؤں ہی میں ایک مدرسہ قائم کیا اور 2021ء تک 20 سال سے اس کے مہتمم ہیں۔ 2021ء کے مطابق 15 سال سے گاؤں کے قریب ایک اسکول کے اردو ٹیچر بھی ہیں۔






حضرت مولانا محمد سلطان عالم صاحب سبلنگی

حضرت مولانا محمد سلطان عالم صاحب سبلنگی

📝 محمد روح الامین میوربھنجی

ولادت: آپ 17 مارچ 1969ء کو سبلنگ، کنی پاڑہ، ضلع کٹک، اڈیشا میں پیدا ہوئے تھے۔ 
تعلیم: ابتدائی دینی تعلیم متوسط درجات تک مدرسہ اسلامیہ دینیہ (موجودہ نام: مدرسہ ارشد العلوم) کنی پاڑہ، سبلنگ میں ہوئی۔ اخیر میں بغرض داخلہ 1982ء میں دار العلوم دیوبند آئے اور ابھی داخلہ نہیں ہوپایا تھا؛ انتہائی غربت کی بنا پر (غربت کا عالم یہ تھا کہ اس وقت ماہانہ تیس روپے برداشت کرنا بھی مشکل ہوتا تھا) گھر واپس جانا پڑا اور اسی وقت ان کے والد محترم کا انتقال بھی ہوگیا تھا، پھر وہیں رہ کر ذاتی طور پر ایک عالم مولانا عبد القدوس صاحب قاسمی سے بخاری شریف تک کی کتابیں پڑھ کر 1988ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔
عملی زندگی: تعلیم سے فراغت کے بعد آپ مدرسہ اسلامیہ دینیہ، سبلنگ میں مدرس رہے۔ 1999ء میں حضرت مولانا جابر صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ؛ نے مولانا محمد جلال صاحب قاسمی سابق امیر شریعت اڈیشا سے طلب کرکے مولانا موصوف کو بنجھارپور، ضلع جاجپور لے گئے، وہاں پر آپ نے مکتب کا منظم نظام شروع کیا جو پہلے نہیں تھا اور اب تک قائم ہے۔ رفاہی کاموں میں بھی جڑے ہوئے ہیں، متحدہ جمعیت علماء کے وقت ہی سے وہ جمعیت علماء سے جڑے ہوئے ہیں، 1999ء کا "اڑیسہ سوپر سائیکلون" محتاج تعارف نہیں ہے، جس نے ہزاروں گھروں کو اجاڑ دیا، ہزاروں معصوموں کو یتیم کردیا، جس کی تحقیق انگریزی ویکیپیڈیا پر باحوالہ موجود ہے اور ریکارڈ میں بھی موجود ہے، اڈیشا میں آئے اس طوفان کے بعد جمعیت علمائے اڈیشا کی طرف سے علماء نے بھی ریلیف و امداد کے لیے سیلاب زدہ علاقوں کا جائزہ لیا تھا اور وہاں کے لوگوں کا حسب بساط تعاون بھی کیا تھا، اس میں مولانا موصوف بھی شامل تھے، مولانا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہیں کہ لاشوں کو پانی میں تیرتا ہوا دیکھا تھا اور ان سے بدبو تک آنے لگی تھی، جس سے جانا بھی مشکل ہو، پر موصوف مولانا محمد جابر صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے۔ حضرت مولانا محمد جلال قاسمی صاحب کی ایما پر چودہ محلہ، اسریسر کی مسجد میں 7 سال تک امامت بھی کی، پھر کچھ دنوں پہراج پور میں دینی خدمات کے لیے بھیجے گئے تھے، جہاں مکتب کا نظام شروع کیا اور دینی تعلیم عام کی؛ ورنہ وہاں کی مسلم عوام؛ درخت تک کی پوجا کیا کرتے تھے، تعزیہ داری اور رسوم و بدعات میں مبتلا تھی، اس عالم میں مولانا موصوف وہاں بھی تقریباً سات سال رہ کر خدمات انجام دیں۔ پھر مولانا محمد جلال صاحب نے انھیں اپنے مدرسہ میں بلا لیا، مولانا کے انتقال کے بعد وہ مدرسہ ارشد العلوم کو خیر باد کہہ کر اپنے گاؤں میں مکتب و ٹیوشن کے ذریعہ قرآن و دینیات کی تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اور عملیات وغیرہ کا کام بھی انجام دیتے ہیں۔ الغرض 1988ء سے اب تک امامت یا تدریسی خدمات سے جڑے ہوئے ہیں، جمعیت علمائے اڈیشا (میم) سے بھی جڑے ہوئے ہیں اور اس کے مجلس عاملہ کے رکن بھی ہیں۔ شرعی حدود میں رہ کر عملیات کا کام بھی کرتے ہیں۔ تبلیغی جماعت کا بھی تعاون کرتے رہتے ہیں۔ تین مرتبہ عمرہ بھی کرچکے ہیں ماشاء اللّٰہ۔
بیعت و اجازت: ان کی بیعت و ارشاد کا تعلق؛ اولا فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے رہا، پھر مجازِ فدائے ملت حضرت مولانا محمد جابر خان صاحب قاسمی رحمہ اللّٰہ سابق صدر جمعیت علمائے اڈیشا (میم) سے تھا، ان کے بعد فدائے ملت کے دوسرے خلیفہ حضرت مولانا محمد نور اللّٰہ صاحب قاسمی جدّو پوری رحمۃ اللّٰہ علیہ (متوفی: 19 جولائی 2022ء) نے انھیں اجازتِ بیعت سے نوازا۔

حضرت مولانا ابو سفیان صاحب قاسمی: مختصر سوانحی خاکہ

حضرت مولانا ابو سفیان صاحب قاسمی: مختصر سوانحی خاکہ
تصویر: مطیع اللہ بھائی کیسٹ والے (MT Media)

📝 محمد روح الامین میوربھنجی

 حضرت مولانا محمد ابو سفیان صاحب قاسمی اڈیشا کے ایک مشہور عالم دین، شیریں بیاں خطیب اور مایۂ ناز فاضلِ دار العلوم دیوبند ہیں، جو 2008ء سے جمعیت علمائے اڈیشا (الف) کے نائب صدر ہیں۔ ذیل میں ان کا سوانحی خاکہ پیش خدمت ہے۔


مختصر سوانحی خاکہ

     ولادت و تعلیم

        18 جون 1964ء کو آخن محلہ، بالوبیسی، ضلع جگت سنگھ پور، اڈیشا میں پیدا ہوئے۔


       ابتدائی عربی فارسی کی تعلیم؛ جامعہ مرکز العلوم، قاضی ہاٹ، سونگڑہ، کٹک، اوڈیشا سے ہوئی۔ آپ کے مرکز العلوم سونگڑہ کے اساتذہ میں مناظر اسلام حضرت مولانا سید محمد اسماعیل کٹکی قاسمی، حضرت مولانا مفتی سید سراج الساجدین کٹکی قاسمی اور حضرت مولانا ذبیح اللہ قاسمی دربھنگویؒ سفیر دار العلوم دیوبند شامل تھے۔ دار العلوم دیوبند سے آپ  کی فراغت 1983ء بہ مطابق 1403ھ  میں ہوئی۔

     آپ کے اساتذۂ دار العلوم دیوبند میں حضرت مولانا جمیل احمد سکروڈوی، حضرت مولانا مفتی شکیل احمد صاحب سیتاپوری، حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالنپوری، حضرت مولانا زبیر صاحب، حضرت مولانا معراج الحق دیوبندی، حضرت مولانا حسین صاحب بہاری، حضرت مولانا قمر الدین گورکھپوری اور شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیر خان بلند شہری رحمہم اللّٰہ شامل ہیں۔

      دار العلوم دیوبند میں آپ کے قابل ذکر شرکائے درس میں حضرت مولانا مفتی راشد صاحب اعظمی، حضرت مولانا مفتی خورشید انور صاحب گیاوی اور مولانا طلحہ نقشبندی فتح پوری شامل ہیں۔

         تدریس و دیگر خدمات

      آپ نے مدرسہ فرقانیہ، بالوبیسی اور مدرسہ عظمتیہ، کٹک میں تدریسی خدمات انجام دی ہیں۔ سی آئی تالچیر میں امام بھی رہے ہیں۔ تقریباً 1996ء سے اپنے علاقہ کے ایک اسکول میں ٹیچر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔

      سنہ 2008ء سے جمعیت علمائے اڈیشا (الف) کے نائب صدر ہیں۔ 2021ء سے امارتِ شرعیہ اڈیشا کے نائب صدر ہیں۔ نیز جامعہ نور العلوم نین پور، ٹینڈاکوڑہ، کٹک کے نائب مہتمم ہیں۔


         بندے کی حوصلہ افزائی افزائی

 لوگوں کی قدر شناسی اور ان کی حوصلہ افزائی فرمانا ان کا خاصہ ہے؛ یہاں تک کہ چھوٹوں پر بھی خورد نوازی کرتے ہیں۔ مولانا کی ہمارے گھر تشریف آوری بندہ اپنے عہد طفلی سے ہی دیکھ رہا ہے۔ مولانا بندے کی چھوٹی چھوٹی بات پر بھی خوب حوصلہ افزائی فرماتے ہیں۔ مولانا ان لوگوں میں سے ہیں، جو چھوٹوں کی حوصلہ افزائی کرکے انھیں ترقی کی راہ دکھاتے ہیں۔


حضرت مولانا سید محمد اسماعیل کٹکیؒ: حیات و خدمات

مولانا سید محمد اسماعیل کٹکیؒ: حیات و خدمات


محمد روح الامین میُوربھنجی

       مناظرِ اسلام مولانا سید محمد اسماعیل کٹکی رحمۃ اللہ علیہ سر زمین اڈیشا (اڑیسہ) کی وہ شخصیت تھی، جن کے اہل اڈیشا پر دینی و ایمانی احسانات ہیں، جنھوں نے اڈیشا سے فتنۂ قادیانیت کی جڑیں اکھیڑ کر رکھ دیں؛ یہاں تک کہ برطانیہ میں بیٹھے مرزائے کاذب کے جانشینوں کو بھی حواس باختہ کر کے رکھ دیا، آپ صوبہ اڑیسہ (موجودہ نام: اڈیشا) کے اولین فضلائے دار العلوم دیوبند میں سے تھے۔

    ان پر باقاعدہ کوئی کتاب نہیں آئی ہے۔ مختلف تحریریں؛ مختلف کتابوں یا رسالوں میں شائع ہوئیں، جن تک رسائی بڑی تحقیق و تلاش کے بعد ہوئی۔ ان کی وفات پر مولانا نور عالم خلیل امینیؒ نے مجلہ الداعی کے ربیع الاول–ربیع الثانی 1426ھ (بہ مطابق اپریل–مئی 2005ء) کے شمارے میں سوانحی مقالہ لکھا تھا۔ مرکزی دفتر کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت، دار العلوم دیوبند سے شائع شدہ مولانا مرحوم کے مجموعۂ مضامین ”ذرا غور کریں“ کے 2005ء اور 2012ء کے دو الگ الگ ایڈیشنوں میں، قاری سید محمد عثمان منصور پوریؒ کی طرف منسوب بہ طور حالات مصنف؛ مولانا مرحوم پر الگ الگ پیرایے میں دو مضامین موجود ہیں۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، ملتان، پاکستان سے شائع ہونے والی کتاب ”احتساب قادیانیت“ کی چالیسویں جلد میں مولانا مرحوم کی تین کتابیں شائع کرنے کے ساتھ ساتھ مشہور پاکستانی عالم مولانا اللّٰہ وسایا صاحب نے مولانا مرحوم کا کچھ سوانحی خاکہ پیش کرتے ہوئے، اپنے بعض مشاہدات بھی پیش کیے ہیں۔ مولانا سید علی اشرف کٹکی قاسمی، استاذ جامعہ مرکز العلوم سونگڑہ، کٹک نے اپنے دار العلوم دیوبند کے زمانۂ طالب علمی میں مولانا مرحوم سے انٹرویو لیا تھا، جو آئینۂ دار العلوم کے 28 صفر 1417ھ مطابق 15 جولائی 1996ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ مفتی سید محمد سلمان منصورپوری کی ندائے شاہی میں شائع ایک تحریر؛ اُنھیں کے مجموعۂ مضامین ”ذکر رفتگاں“ جلد دوم میں بھی چَھپی ہے۔

     یکم رمضان 1412ھ بہ مطابق 6 مارچ 1992ء کو اخبار الجمعیۃ، دہلی میں مولانا مرحوم پر معروف صحافی عادل صدیقی (متوفی: 2021ء) کا مضمون شائع ہوا تھا۔ اسی طرح 2009ء میں ہفت روزہ الجمعیۃ میں سلسلہ وار تین قسطوں میں اڈیشا کے معروف صاحب قلم اور سخن گو عالم دین مولانا مطیع اللہ نازش کٹکی کے تفصیلی مضامین شائع ہوئے تھے، نیز انھیں کا ایک مضمون 2007ء کو اڈیشا کی جانب سے شائع کردہ چھٹی جماعت میں داخل نصاب کتاب ”دلکش اردو “ میں شائع ہوا تھا۔ اسی طرح انھیں کی کتاب ”اڈیشا کے مجاہدین آزادی“ میں بھی مولانا مرحوم پر مضمون موجود ہے۔ اِن کے علاوہ بھی مختلف تحریروں تک رسائی ہوئی یا ان کے بارے میں علم ہوا؛ ان مختلف جگہوں پر بکھری ہوئی باتوں کو یکجا کرتے ہوئے اور مزید تحقیق کے ساتھ بندہ مولانا مرحوم پر کچھ لکھنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔

       ولادت

     مولانا مرحوم 6 جنوری سنہ 1914ء کو رسول پور، سونگڑہ، ضلع کٹک، صوبہ بہار اڑیسہ میں پیدا ہوئے تھے۔ (آئینہ دار العلوم، 28 صفر 1417ھ مطابق 15 جولائی 1996ء؛ اڈیشا کے مجاہدین آزادی، ص: 263) ”تحفظ ختم نبوت کی صد سالہ تاریخ“ مصنَّفہ: مولانا مشتاق احمد چینوٹیؒ، مطبوعہ: 2008ء میں مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ اور مولانا سید محمد اسماعیل کٹکیؒ کا ننھیال ایک لکھا ہوا ہے۔

      تعلیم و تربیت

     انھوں نے اردو، فارسی اور ابتدائی دیگر کتابیں اپنے وطن مالوف میں اپنی پھوپھی سیدن بی بی (سیدہ خاتونؒ) سے پڑھیں۔ ہدایۃ النحو تک کی تعلیم؛ مدرسہ شاہی کے ایک فاضل مولانا محمد عمر کٹکیؒ کے قائم کردہ مدرسہ؛ ”مدرسہ اسلامیہ، سونگڑہ“ میں حاصل کی، پھر آگے کی تعلیم کے لیے آپ مدرسہ قاسمیہ شاہی مرادآباد پہنچے اور وہاں شرح وقایہ تک کی تعلیم حاصل کی، جہاں پر ان کے اساتذہ میں مؤرخ اسلام مولانا سید محمد میاں دیوبندیؒ، مولانا محمد اسماعیل سنبھلیؒ، مولانا عبد الحق مدنیؒ اور مولانا قدرت اللّٰہ قدرتؒ شامل تھے۔ (ذکر رفتگاں، ج: 2، ص: 16–17)

    مرادآباد کے بعد آپ نے دار العلوم دیوبند کا رخ کیا، جہاں پر آپ نے اس وقت کے جبالِ علم اور متبحر اساتذہ سے تحصیل علم کے منازل طے کیے، جن میں شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، علامہ محمد ابرہیم بلیاویؒ، حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ، مولانا رسول خان ہزارویؒ، مفتی محمد شفیع دیوبندیؒ، مولانا میاں سید اصغر حسین دیوبندیؒ، شیخ الادب و الفقہ مولانا اعزاز علی امروہویؒ، مولانا مرتضی حسن چاندپوریؒ، مولانا عبد السمیع دیوبندیؒ اور مولانا نبیہ حسن دیوبندیؒ شامل ہیں۔ (قاری محمد عثمان منصور پوریؒ و مولانا نور عالم خلیل امینیؒ کی تحریروں کے مطابق)

      فراغت

   سنہ 1353ھ مطابق سنہ 1934ء میں آپ نے دار العلوم دیوبند سے درس نظامی کی تکمیل کی۔ (محافظ خانہ دار العلوم دیوبند سے حاصل کردہ ریکارڈ کے مطابق؛ مولانا مرحوم کا سنہ فراغت 1353ھ ہے، جس کا مطابق سنہ عیسوی 1934 نکل کر آتا ہے؛ جب کہ خود مولانا نے اپنے انٹرویو میں اپنا سنہ فراغت 1932ء بتلایا ہے، اس سلسلے میں بندے نے دار العلوم دیوبند کی ریکارڈ کو ترجیح دی ہے)۔

   محافظ خانہ دار العلوم دیوبند سے حاصل کردہ ریکارڈ کے مطابق انھوں نے ”صحیح بخاری“ و ”جامع ترمذی“ شیخ الاسلام مولانا مدنیؒ سے، ”صحیح مسلم“ و ”شرح معانی الآثار“ علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ سے، ”سنن نسائی“ اور ”شمائل ترمذی“ شیخ الادب و الفقہ مولانا محمد اعزاز علی امروہویؒ سے پڑھیں، بقیہ کتابوں کی ریکارڈ حاصل نہ ہو سکی۔

     میدان مناظرہ میں

    دار العلوم دیوبند کے زمانۂ طالب علمی میں آپ نے مولانا سید مرتضی حسن چاندپوریؒ کے پاس مناظرہ کی مشق و تمرین کی اور زمانۂ طالب علمی ہی میں آپ ایک کامیاب مناظر بن چکے تھے اور اسی زمانہ میں کالی چرن اور رام چندر جیسے آریہ سماج پنڈتوں کو لاجواب اور مبہوت کیا تھا اور دیوبند شوگر میل کے ایک رافضی مینیجر کو بحث و مناظرہ کے ذریعے؛ دولت اسلام سے مالا مال کیا تھا، جس نے مناظرہ کے بعد قاری محمد طیب قاسمیؒ کے دست مبارک پر اسلام قبول کر لیا تھا۔ قادیانیوں کے مشہور مناظرین مفتی صادق، سرور شاہ، محمد حنیف کشمیری، غلام احمد مجاہد، محمد سلیم، مولوی غلام رسول راجکی، مولوی ظہور الحسن اور مولوی امینی وغیرہ سے مناظروں میں آپ نے نمایاں کامیابی حاصل کی۔ (ذرا غور کریں، بار اول: 2005ء، بار دوم: 2012ء؛ شبستان، اکتوبر 1974ء)

     اردو ڈائجسٹ ”شبستان“ کے اکتوبر 1974ء کے شمارے میں شائع مولانا مرحوم کی ایک تحریر کے مطابق، زمانۂ طالب علمی سے انھیں رد قادیانیت سے خاص دلچسپی تھی، اس کے لیے تمرین اور عملی مشق ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ زمانۂ طالب علمی ہی سے انھیں ملک میں ہونے والے مناظروں میں شرکت کے مواقع بھی ملتے رہے، سب سے پہلا مناظرہ، جس میں انھیں شرکت کا موقع ملا تھا، وہ مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کے زیر صدارت منعقد ہونے والا پِنڈی بہاؤ الدین (ضلع مَنڈی بہاؤ الدین، پنجاب، پاکستان) کا مناظرہ تھا، جس وقت مولانا مرحوم کی عمر محض پندرہ سال کی تھی اور انھیں کم عمر ہونے کی وجہ سے فریق مخالف کی طرف سے چپ کرکے دبانے کی کوشش بھی کی جا رہی تھی؛ مگر وہ مرعوب نہ ہوئے؛ بلکہ انھوں نے بے باکانہ اپنی بات قوی اور مدلل انداز میں رکھی۔

      میدان عمل میں

    مولانا مرحوم، شیخ الاسلام مولانا مدنیؒ کے خاص تلامذہ میں تھے، تعلیم سے فراغت کے بعد آپ اولاً راونشا کالجیٹ اسکول، کٹک میں سیکنڈ مولوی کی حیثیت سے فارسی و اردو کے استاذ مقرر ہوئے۔ پھر جے پور ہائی اسکول، کوراپٹ، اڈیشا میں 1947ء تک اسکول کی سرکاری ملازمت میں مشغول رہے۔(صریرِ خامہ از خاور نقیب، ص: 2008ء) بہ قول مولانا سید عبد الحفیظ کٹکی مد ظلہ، 1946ء میں مولانا مرحوم، اسکول سے ایک سال کی رخصت لے کر انجمن تبلیغ الاسلام کے کاموں میں مصروف رہے اور اگلے سال تک سرکاری طور پر اسکول کے مدرس ہی رہے (یہ اس اشکال کا جواب ہے کہ مولانا مرحوم 1946ء میں انجمن تبلیغ الاسلام سے منسلک ہوئے تھے تو آئینہ دار العلوم میں شائع خود ان کے انٹرویو میں یہ بات کیسے موجود ہے کہ 1947ء تک ان کی اسکولی زندگی رہی)۔

     29 دسمبر 1946ء میں آپ حضرت شیخ الاسلام کے ایما پر انجمن تبلیغ الاسلام (جس کا قیام؛ 1945ء میں سونگڑہ کے اہلِ فکر حضرات کے ذریعے عمل میں آیا تھا) سے منسلک ہوکر بہ حیثیت مبلغ؛ رد قادیانیت اور تحفظ ختم نبوت کے لیے سرگرم عمل ہوگئے تھے۔ زمانۂ طالب سے لے کر نوے کی دہائی تک آپ نے تقریباً 75 تحریری و تقریری مناظرے کیے، جن میں سے باقاعدہ 20–25 بڑے مناظرے ہوئے۔ آٹھ سو سے زائد افراد آپ کے ہاتھ پر مشرف با اسلام ہوئے اور آپ کی وعظ و تقریر اور اظہارِ حق و ابطالِ باطل سے لاتعداد مسلمانوں کا ایمان؛ مضبوط و مستحکم ہوا۔ (مولانا قاری محمد عثمان منصور پوریؒ کی تحریر کے مطابق)

     ماہنامہ شبستان کے اکتوبر 1974ء کے شمارے میں شائع مولانا مرحوم کی تحریر (جو ”میں نے آٹھ ہزار قادیانیوں کو مسلمان کیا “ کے عنوان کے ساتھ شائع کیا تھا) کے مطابق؛ جب ”مناظرۂ بھدرک“ اور ”یادگار یادگیر“ کے نام سے بھدرک اور یادگیر کے مناظروں کی رپورٹیں مجمع عام میں سنائی گئیں، تو بے شمار قادیانیوں نے قادیانیت سے توبہ کی اور مسلمان ہو گئے، جن کی تعداد آٹھ ہزار تھی۔

    آپ نے کئی مناظرے کیے، جن میں سے بعض مناظروں کا ذکر درج ذیل ہے:

(1) سات بٹیہ، ضلع کٹک میں ہونے والا مناظرہ (مولانا محمد علی کٹکی صاحب کے بیان کے مطابق)۔

(2) مناظرۂ یادگیر؛ جو نومبر 1963ء کو؛ یادگیر، کرناٹک میں قادیانیوں سے ہوا تھا، معاونین میں مولانا سید احمد النبیؒ اور مولانا سید سراج الساجدین کٹکیؒ بھی شامل تھے، اس مناظرے کی رپورٹ ”یادگارِ یادگیر“ کے نام سے شائع بھی ہوئی تھی اور جنوری 2012ء میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، ملتان، پاکستان سے شائع ہونے والی کتاب ”احتساب قادیانیت“ کی چالیسویں جلد میں مولانا موصوف کی یہ کتاب مزید دو کتابوں کے ساتھ شائع کی گئی ہے، جو اب انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے۔

(3) ایک مناظرہ غالباً 1988ء میں کُتّہ گوڑم (کوتھاگودیم) تلنگانہ میں ہوا تھا۔ (مولانا محمد علی کٹکی کے بیان کے مطابق)۔

(4) 1958ء کو بھدرک، اڈیشا میں ہونے والا مناظرہ بھی یادگار مناظرہ تھا، جس میں مشہور بریلوی عالم مولانا حبیب الرحمن دھام نگری کی دعوت پر اہل سنت و الجماعت کی طرف سے بہ حیثیت مناظر، مولانا مرحوم تشریف لے گئے تھے، حضرت مولانا احمد النبیؒ بھی ہمراہ تھے۔ فریق مخالف کی طرف سے مولانا شریف احمد امینی تھے، جس میں قادیانیوں کو شکست فاش ہوئی تھی۔ آپ کے ساتھ مناظروں میں کبھی کبھی مولانا احمد النبی بھی ہوا کرتے تھے۔ (مولانا مرحوم کی ایک آڈیو تقریر، جو یوٹیوب پر بھی دستیاب ہے، اس کے مطابق 1944ء کو یہ مناظرہ ہوا تھا اور فریق مخالف میں قادیانی عالم غلام احمد مجاہد تھا۔ فریق مخالف کو عبرت ناک شکست ہوئی تھی، جس میں بہ بقول مولانا کٹکی، غلام احمد مجاہد بے ہوش ہو گیا تھا اور متواتر بائیس روز تک بے ہوش رہا تھا۔)

(5) 15 اکتوبر 1992ء کو خامنی، متھرا میں ہونے والا مناظرہ، جس میں مولانا عبد العلیم فاروقی، مفتی محمود حسن بلند شہری اور مولانا شاہ عالم گورکھپوری وغیرہم شریک تھے۔ (کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت، دار العلوم دیوبند کی پچیس سالہ خدمات: مختصر رپورٹ (1986—2011ء)، محمد عثمان منصور پوریؒ، ص: 68)

     رد بریلویت پر آپ کی خدمات

     آپ نے اڈیشا میں رد بریلویت پر بھی کام کیا؛ بالخصوص آپ نے اپنے تلامذہ مولانا سید سراج الساجدین کٹکیؒ، مولانا محمد جلال الدین صاحب کٹکیؒ، مولانا امین الدین صاحب میُوربھنجیؒ (دوندو شریف والے)، مولانا اختر بیگ قاسمیؒ، مولانا محمد علی کٹکی وغیرہم سے اس سلسلے میں کام لیا۔

  اس سلسلہ میں کئی مناظرے ہوئے، جن میں بارہ بٹی اسٹڈیم، کٹک میں ہونے والا مناظرہ 1399ھ بہ مطابق 1979ء کو ہوا تھا (مولانا محمد علی کٹکی کے بیان کے مطابق)، اہل حق کی طرف سے صدر مناظرہ مولانا ارشاد احمد فیض آبادی (متوفی: 1989ء)، مبلغ دار العلوم دیوبند تھے؛ جب کہ فریق مخالف کی طرف سے صدر مولانا حبیب الرحمن دھام نگری (معروف بہ مجاہد ملت؛ متوفی: 1981ء) تھے اور ان کی طرف سے مشہور زمانہ بریلوی عالم مولانا ارشد القادری (متوفی: 2002ء) بھی مدعو اور شریکِ مناظرہ تھے، جس میں فریق مخالف کو بری طرح شکست بھی ہوئی تھی۔

     سیاسی پارٹی اور تحریک آزادی

     وہ کانگریس کے حامی تھے اور اخیر عمر تک اسی سے منسلک رہے اور تحریک آزادی میں بھی سرگرم رہے۔ مولانا سید علی اشرف قاسمی صاحب کو انٹرویو دیتے ہوئے مولانا مرحوم نے فرمایا تھا: ”میرا تعلق شروع سے لے کر اب تک کانگریس سے رہا ہے اور کانگریس ہی سے رہے گا، میں نے تا زندگی کھدر پہنا اور پہنتا رہوں گا۔ میں کانگریس کی ہزار خرابیوں کے باوجود؛ (اسے) دوسری پارٹیوں سے بہتر اور اچھا سمجھتا ہوں۔ سنہ 1947ء تک تو میری اسکولی زندگی رہی (آپ اس وقت اسکول ٹیچر تھے)، جنگ آزادی کے لیے انڈر گراؤنڈ کام کرتا رہا، اکثر خفیہ امور مجھ سے متعلق رہے اور میں بڑی احتیاط سے اسے انجام دیتا رہا، جس کی وجہ سے ہمیشہ گرفتاری سے محفوظ رہا۔“ ( آئینۂ دار العلوم دیوبند، شمارہ: 28 صفر 1417ھ بہ مطابق 15 جولائی 1996ء)

     جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم کا قیام

    جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم سونگڑہ کی مجلسِ شوریٰ (منعقدہ: یکم محرم الحرام 1444ھ مطابق 31 جولائی 2022ء) میں پیش کی گئی ”آئینِ جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم سونگڑہ “ کے مطابق؛ مدرسے کی ابتدا دراصل ایک مکتب کی شکل میں ہوئی تھی، پھر 1945ء میں جب ”انجمن تبلیغ اسلام“ کا قیام عمل میں آیا، تو وہ مکتب انجمن کے زیر نگرانی آ گیا، اور انجمن نے اس مکتب کو عربی مدرسے میں تبدیل کرکے اس کا نام ”مدرسہ عربیہ اسلامیہ سونگڑہ“ رکھا۔ پھر 29 دسمبر 1946ء کو مولانا مرحوم انجمن کے مبلغ اور اس مدرسے کے صدر مدرس منتخب کیے گئے اور 7 مئی 1951ء کو انجمن کی جانب سے مولانا مرحوم کو مستقل مہتمم مقرر کیا گیا۔

     1987ء میں امارت کانفرنس کے موقع پر مولانا سید سراج الساجدین کٹکیؒ نے ”مدرسہ عربیہ اسلامیہ سونگڑہ“ سے منتقل کرکے مدرسے کا نام؛ ”مرکز العلوم مدرسہ عربیہ اسلامیہ سونگڑہ“ کر دیا، پھر انھیں کے ہی دور میں ”الجامعۃ الاسلامیۃ مرکز العلوم سونگڑہ“ نام ہوا اور اب یہ ادارہ ”جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم سونگڑہ“ کے نام سے رجسٹرڈ ہے۔ (آئینِ جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم سونگڑہ)

    روز اول سے ہی شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ اس مدرسے کے سرپرست رہے، پھر فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنیؒ تا وفات اس کے سرپرست رہے اور موجودہ سرپرست جانشین شیخ الاسلام مولانا سید ارشد مدنی مد ظلہ ہیں۔

      جمعیۃ علماء اڑیسہ کی صدارت

     صوبہ اڑیسہ بہت پہلے ہی سے حدود کے اختلاف کے ساتھ مستقل صوبہ رہا ہے، سنہ 1803ء میں اسے متحدہ بنگال میں شامل کر لیا گیا تھا، اس سے قبل ہی بہار بھی متحدہ بنگال میں شامل کیا جا چکا تھا، پھر سنہ 1912ء میں انگریزوں نے ہی صوبجات بہار و اڑیسہ کو الگ کر کے ایک مستقل صوبہ بنا دیا، اس کے بعد یکم اپریل 1936ء میں انگریزوں ہی کے ذریعے؛ صوبہ اڑیسہ کو لسانی بنیاد پر صوبہ بہار سے الگ کرکے مستقل ریاست بنا دیا گیا۔ (Some Aspects of British Administration in Orissa [1912–1936]، بَندیتا دیوی، سنہ اشاعت: 1992ء، صفحہ: 14–15) دونوں صوبوں کے سارے سرکاری دفاتر الگ الگ ہوگئے تھے، اسی کے پیش نظر 1932ء میں (بہ قول: مولانا سید عبد الحفیظ کٹکی) یا 25 دسمبر 2021ء کو جمعیت علمائے اڈیشا (الف) کی مجلس عاملہ میں پیش کی گئی سکریٹری رپورٹ اکتوبر یا نومبر 1936ء میں اور بہ قول: مولانا سید سراج الساجدین کٹکیؒ؛ 1938ء میں اڑیسہ کی ایک مستقل ریاستی جمعیت قائم ہوئی، جس کا صدر مولانا سید فضل الرحمن قاسمی سونگڑویؒ، ایڈیٹر مسلم گزٹ، کٹک کو اور مولانا سید برکت اللہ برکت (متوفی: 1979ء) کو نائب صدر منتخب کیا گیا، پھر مولانا سید فضل الرحمان صاحب کے انتقال کے بعد مولانا سید برکت اللہ صاحب کو صدر مقرر کیا گیا، پھر ان کی زندگی ہی میں مولانا محمد اسماعیل کٹکی کو صدر مقرر کیا گیا (سیکریٹری رپورٹ بہ موقع اجلاس منتظمہ جمعیت علمائے اڈیشا، مورخہ 20 جمادی الاولی 1443ھ مطابق 25 دسمبر 2021ء، از مفتی سید نقیب الامین صاحب برقی قاسمی) مولانا سید اسماعیل کٹکیؒ کس سنہ میں جمعیۃ علماء اڑیسہ کے صدر بنائے گئے تھے، اس کی تحقیق تادم تحریر نہ ہو سکی؛ البتہ 1964ء سے قبل ہی یقینی طور پر آپ صدر بنائے جا چکے تھے؛ جیسا کئی قرائن سے معلوم ہوا، وقف ایڈمنسٹریٹشن بورڈ کے 1965–66ء کے شائع کیے گئے تجزیاتی رپورٹ میں مولانا مرحوم کو جمعیۃ علماء اڑیسہ کا صدر لکھا گیا ہے۔

نوٹ:- آغاز جمعیۃ علماء اڑیسہ کے سلسلے میں اختلاف اقوال کی تطبیق یوں ممکن ہے کہ 1932ء میں جمعیت علماء کی تحریک اڑیسہ میں پہنچی ہو، 1936ء کے اواخر میں صوبہ بہار سے صوبہ اڑیسہ کی علیحدگی کے بعد صوبائی جمعیۃ بنانے کی تحریک شروع ہوئی ہو؛ جیساکہ مسلم گزٹ، کٹک میں 1936ء کے آس پاس جمعیۃ علماء اڑیسہ کی خبروں کی اشاعت سے اس کی تائید ہوتی ہے اور چوں کہ 1938ء میں مرکزی جمعیۃ علماء کی طرف سے شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ، سحبان الہند مولانا سعید احمد دہلویؒ اور مؤرخ اسلام مولانا سید محمد میاں دیوبندیؒ وغیرہ جیسے اکابرین جمعیت علماء کی سونگڑہ، اڑیسہ میں آمد ہوئی تھی، اسی وقت سے جمعیۃ علماء اڑیسہ کے آغاز کا شبہ ہو گیا ہو، اسی اجلاس کے موقع پر مولانا مرحوم کا نکاح مسنون ہوا تھا۔ (اپنی توجیہ اور بعض باتیں، مجلس شوریٰ جامعہ رشیدیہ ریاض العلوم سونگڑہ [منعقدہ: 8 جمادی الاولی 1425ھ مطابق 27 جون 2004ء] کے موقع پر، مولانا سید عبد الحفیظ کٹکی مد ظلہ کے ٹیپ شدہ تقریر کے شائع شدہ رسالے سے مستفاد ہیں۔)

    بہ حیثیت امیر شریعت اڑیسہ
    سنہ 1964ء میں مولانا مرحوم کو امارت شرعیہ اڑیسہ کا امیر مقرر کیا گیا تھا، پھر اس کے بعد امیر الہند اول (امارت شرعیہ ہند کے امیر اول) حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب محدث اعظمیؒ 1988ء میں امارت شرعیہ ہند کے قیام کے بعد؛ امارت شرعیہ ہند کی طرف سے اڈیشا کے دورے پر تشریف لائے تھے اور انھوں نے مولانا مرحوم کی امارت کی توثیق بھی کی تھی اور اس کی بقا کا اعلان بھی کیا تھا۔ (مولانا سید سراج الساجدین کٹکیؒ کے بیان کے مطابق) 1964ء سے تا وفات یعنی 2005ء تک آپ امیر شریعت اڑیسہ رہے اور سالہا سال جمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ کے رکن بھی رہے، اور آپ کی وفات تک آپ کے شاگرد رشید مولانا سید سراج الساجدین کٹکیؒ نائب امیرِ شریعت و نائب صدر جمعیت اڈیشا رہے، پھر اپنے استاذِ محترم کی وفات کے بعد صدر جمعیۃ علماء اڑیسہ اور امیر شریعت اڑیسہ بنائے گئے۔

    کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دار العلوم دیوبند کے لیے آپ کی خدمات

    سنہ 1984ء میں جب جنرل ضیاء الحق شہید نے امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کیا، جس کے نتیجہ میں مرزا طاہر بھاگ کر برطانیہ میں پناہ گُزیں ہوا اور قادیانیوں نے دوبارہ اپنی سرگرمیوں کا رخ ہندوستان کی طرف پھیر لیا تو اس وقت فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنیؒ نے مسلمانوں میں اس سلسلے میں بیداری اور معاملہ کی گہرائی کا احساس پیدا کرنے کے لیے 29 تا 30 اکتوبر 1986ء کو دار العلوم دیوبند میں ایک سہ روزہ اجلاس منعقد کروایا، اسی اجلاس کے موقع پر دار العلوم دیوبند کے سایے تلے ”کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت“ کا قیام عمل میں آیا، جس کا صدر؛ مہتمم دار العلوم دیوبند مولانا مرغوب الرحمن بجنوریؒ، نائب صدر مولانا سید محمد اسماعیل کٹکیؒ، ناظم اعلی؛ مفتی سعید احمد پالن پوریؒ اور ناظم؛ قاری سید محمد عثمان منصور پوریؒ کو بنایا گیا تھا، ملک بھر کی مؤقر شخصیات پر مشتمل 23 حضرات کی مجلسِ عاملہ تشکیل دی گئی تھی۔ اس کے بعد فتنۂ قادیانیت کی سرکوبی کی تربیت و ٹریننگ کے لیے سنہ 1988ء میں جو سب سے پہلا دس روزہ تربیتی کیمپ دار العلوم دیوبند میں منعقد ہوا تھا، اس کا انعقاد مولانا مرحوم کے زیر سرپرستی ہوا تھا۔ اس کے بعد بھی کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر نگرانی ملک بھر میں رد قادیانیت پر تربیتی کیمپ اور کانفرنسیں منعقد ہوئیں تو بہت سے مقامات پر مولانا مرحوم نے شرکت فرما کر طلبہ و علماء اور شرکاء کو رد قادیانیت کے خاص گر سکھائے۔ اسی طرح سنہ 1992ء تا وفات آپ تقریباً چودہ سال مجلس شورٰی دار العلوم دیوبند کے رکن رہے۔ (دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ از ڈاکٹر مفتی محمد اللّٰہ خلیلی قاسمی، ایڈیشن: اکتوبر 2020ء، مطبوعہ: شیخ الہند اکیڈمی، دار العلوم دیوبند، صفحہ: 322 ،323 ،758؛ کتاب ”ذرا غور کریں“ [دوسرا ایڈیشن: 2012ء] میں شائع بہ طور عرضِ ناشر، قاری سید محمد عثمان منصور پوریؒ کی تحریر)

    دیگر مناصب یا اعزازات

    وہ رابطۂ مدارس اسلامیہ عربیہ دار العلوم دیوبند کی طرف سے اڈیشا شاخ کے صوبائی صدر بھی رہے۔ (رابطۂ مدارس اسلامیہ عربیہ دار العلوم دیوبند کی تیرہ سالہ خدمات از مولانا شوکت علی قاسمی بستوی، مئی 2007، ص: 106–107) نیز جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کے رکن بھی رہے ہیں۔

   مشہور پاکستانی مناظرین مولانا لال حسین اخترؒ (متوفی: 1973ء) اور مولانا محمد حیاتؒ (متوفی: 1980) سے ان کے دوستانہ مراسم تھے، نیز 6 اپریل 1999ء کو مدرسہ صولتیہ، مکہ مکرمہ میں مولانا محمد طلحہ کاندھلویؒ (متوفی: 2019ء) کی مہمان نوازی کے موقع پر مولانا مرحوم نے مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ (متوفی: 2004ء) کی مجاہدانہ خدمات سے خوش ہوکر ان کی دستار بندی فرمائی تھی۔ (تحفظ ختم نبوت کی صد سالہ تاریخ، مطبوعہ: 2008ء)

     تلامذہ

    آپ کے تلامذہ میں یہ حضرات بھی شامل تھے:

• مولانا سید سراج الساجدین کٹکیؒ (متوفی: 21 اکتوبر 2006ء؛ مولانا مرحوم کو اپنے تلامذہ میں سب سے زیادہ انھیں پر اعتماد تھا، جیساکہ مولانا سید اشرف علی کٹکی قاسمی کے لیے ہوئے انٹرویو میں مذکور ہے)، امیر شریعت ثانی اڈیشا و اور صدر جمعیۃ علماء اڈیشا رابع

• مولانا عبد الحفیظ کٹکی مظاہری، مہتمم جامعہ رشیدیہ ریاض العلوم، گوہالی پور، سونگڑہ

• مولانا محمد جلال الدین کٹکی قاسمیؒ (متوفی: 15 فروری 2021ء)، جمعیۃ علماء اڈیشا (الف) کے پہلے صدر، امارت شرعیہ اڈیشا کے تیسرے امیر اور بانی و مہتمم جامعہ اسلامیہ دینیہ (ارشد العلوم)، کنی پاڑہ، سبلنگ، کٹک

• مولانا محمد منظور احمد کٹکیؒ، سابق چیئرمین اڈیشا اردو اکادمی، بھوبنیشور، اڈیشا

• مولانا سید کفیل احمد قاسمی، سابق چیئرمین شعبۂ عربی و ڈین فیکلٹی آف آرٹس، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی

• مولانا محمد علی صاحب کٹکی، مہتمم جامعہ سراج العلوم عرفانیہ، سات بٹیہ، کٹک و نائب صدر جمعیت علمائے اڈیشا (الف)

• مولانا عبد السبحان صاحب قاسمی نیاگڑھی، اڈیشا کے اڈیا بولے جانے والے علاقوں میں ان کی بے بہا دینی خدمات ہیں۔

• مولانا عبد الستار صاحب کاکٹ پوریؒ، سابق مہتمم مدرسہ احمد العلوم، فقیر ساہی، کاکٹ پور، پوری

• مولانا عبد المنان صاحب قاسمی، سابق رکن مجلسِ عاملہ جمعیت علمائے اڈیشا (الف)

• مولانا محمد فاروق صاحب قاسمی، امیر شریعت رابع صوبہ اڈیشا، مہتمم جامعہ اشرف العلوم کیندرا پاڑہ

• مولانا محمد سفیان صاحب قاسمی، نائب صدر جمعیت علمائے اڈیشا (الف)

• مولانا عنایت اللہ صاحب ندوی، استاذ دار العلوم ندوة العلماء لکھنو و مصنفِ ”بین الاقوامی معلومات“

• مولانا محمد غفران صاحب قاسمی، بالو بیسی، سابق عبوری صدر جمعیت علمائے اڈیشا (الف) و مہتمم مدرسہ فرقانیہ، بالوبیسی

• مولانا سید انظر نقی صاحب قاسمی، استاذ حدیث جامعہ مرکز العلوم، سونگڑہ، اڈیشا

• مولانا محمد ارشد صاحب قاسمی (راور کیلا)، جمعیت علماء اڈیشا (الف) کے دوسرے صدر

• مفتی اشرف علی صاحب قاسمی، مہتمم مدرسہ قاسم العلوم، بشن پور، ضلع جگت سنگھ پور و سابق جنرل سیکریٹری جمعیت علمائے اڈیشا (میم)

• مولانا نور اللہ صاحب قاسمی جدو پوریؒ (متوفی: 19 جولائی 2022ء)، خلیفہ فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ

• مولانا سید شمس تبریز قاسمی، سفیر دار العلوم دیوبند

• مولانا مفتی سید نقیب الامین صاحب برقی قاسمی، مہتمم و شیخ الحدیث جامعہ مرکز العلوم، سونگڑہ، کٹک و جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء اڈیشا (الف)

• قاری محمد نور الامین صاحب صدیقی، مہتمم دار العلوم حسینیہ، مدنی نگر چڑئی بھول، ضلع میوربھنج (تجوید کی بعض کتابیں پڑھی تھیں)

• مولانا شاہ عالم گورکھپوری، نائب ناظم کل ہند مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت (انھوں نے بھی مولانا سے مجالِ تحفظ ختم نبوت میں بھرپور استفادہ کیا ہے)

     ان کے علاوہ بھی ان کے تلامذہ کی ایک کثیر تعداد ہے۔

         تصانیف

      تلاش بسیار کے بعد آپ کی ان سات تصانیف کا علم ہوسکا: (1) یادگارِ یادگیر [مطبوعہ: 1965ء]، (2) اسلامِ قادیانی، (3) مناظرۂ بھدرک، (4) قرآن قادیانی [جو قادیانی قرآن کے نام سے بھی معروف ہے، طبع اول: 24 فروری 1946ء، طبع ثانی: فروری 2020ء؛ جسے دوبارہ مولانا شاہ عالم گورکھپوری نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، پاکستان سے مولانا اللہ وسایا صاحب کے زیر نگرانی شائع ہونے والی کتاب محاسبۂ قادیانیت کے ساتھ بطور رسالہ شاملِ اشاعت کروایا۔] (5) اڈیہ زبان میں قادیانی کاہیں کی مسلمان ناہانتی؟ یعنی قادیانی کیوں مسلمان نہیں؟۔ غالباً یہ کتاب مولانا محمد منظور نعمانیؒ کی کتاب ”قادیانی کیوں مسلمان نہیں؟“ کا ترجمہ ہے، (6) مناظرۂ بھدرک، (7) ذرا غور کریں [یہ کتاب مولانا محمد اسماعیل کٹکی رحمہ اللّٰہ کی مختلف تحریروں پر مشتمل ہے، جو شاہ عالم گورکھپوری، نائب ناظم کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت، دار العلوم دیوبند کی ترتیب دی ہوئی ہے۔] ان کے علاوہ کسی تصنیف کا علم نہ ہو سکا۔

       وفات

    10 محرم 1426ھ کا دن گزار کر 11 محرم کے شروع ہونے کے بعد اور 20 فروری 2005ء کے ختم ہونے سے قبل مولانا مرحوم 91 یا 92 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ (الداعی، نور عالم خلیل امینی، ربیع الاول–ربیع الثانی 1426ھ م اپریل–مئی 2005ء و ذکر رفتگاں از مفتی سید سلمان منصور پوری، ج: 2، ص: 16)

     ان کی وفات پر دار العلوم دیوبند کی مجلس عاملہ کی میٹنگ (منعقدہ 18 جمادی الاخری 1426ھ بہ مطابق 25 جولائی 2005ء بہ روز پیر) میں افسوس کا اظہار کیا گیا تھا۔ ان کی وفات کے موقع پر دار العلوم دیوبند کی دار الحدیث تحتانی میں ایک دعائیہ نشست کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں سابق مہتمم دار العلوم دیوبند اور موصوف کے شریکِ درس مولانا مرغوب الرحمن بجنوری، نائب مہتمم قاری عثمان منصورپوری، نائب مہتمم مولانا عبد الخالق مدراسی اور دیگر اساتذہ و طلبۂ دار العلوم دیوبند نے شریک ہوکر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے ان کے لیے ایصال ثواب کیا۔ (ماہنامہ دار العلوم، رجب‏، شعبان 1426ھ بہ مطابق ستمبر 2005ء، مضمون: دارالعلوم دیوبند میں مجلس عاملہ رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کا اہم اجلاس)

       جب تک اڈیشا میں صحیح العقیدہ لوگ رہیں گے تب تک لوگ مولانا موصوف و مرحوم کے احسان مند رہیں گے۔

       اللّٰہ تعالٰی مولانا کی مغفرت فرما کر جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور بعد کے لوگوں میں بھی ان سا جذبۂ دینی حمیت پیدا فرمائے۔ آمین

مصادر و مراجع
(1) نازش، مولانا مطیع اللہ (2023ء). اڈیشا کے مجاہدین آزادی. مطبوعہ: اڈیشا اردو اکادمی سنسکروتی بھون، بی جے بی نگر، بھونیشور. صفحات: 263–266۔
(2) برقی قاسمی، مولانا مفتی سید نقیب الامین، "سیکریٹری رپورٹ بہ موقع اجلاس منتظمہ جمعیت علمائے اڈیشا (الف)"، اشاعت: جمادی الاولی 1443ھ بہ مطابق 25 دسمبر 2021ء، ناشر: جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم، تبلیغ نگر، ڈاکخانہ کود، ضلع کٹک، صفحہ: 3۔
(3) نیولپوری، حفیظ اللہ، "مولوی سید برکت اللہ برکت"، اڑیسہ میں اردو (ایڈیشن: اکتوبر یا دسمبر 2001ء). ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (نئی دہلی)، صفحہ: 223، 446۔
(4) علوی، کفیل احمد، (ایڈیشن: 28 صفر 1417ھ بہ مطابق 15 جولائی 1996ء)، "مناظر اسلام حضرت مولانا سید محمد اسماعیل صاحب کٹکی، رکن شوری سے مولانا انٹرویو" از مولانا سید علی اشرف کٹکی (استاذ حدیث جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم سونگڑہ)، رسالہ: آئینہ دار العلوم دیوبند، جلد: 12، شمارہ: 1۔
(5) چنیوٹی، مولانا مشتاق احمد (ایڈیشن: 2008ء)، تحفظ خاتم نبوت کی صد سالہ تاریخ، ناشر: انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ، پاکستان، صفحہ: 514۔
(6) امینی، مولانا نور عالم خلیل، (ربيع الاول – ربيع الثانی 1426ھ بہ مطابق اپریل تا جولائی 2005ء). "الشيخ السيد محمد إسماعيل الكتكي رحمه الله 1332–1426هـ = 1914–2005م، عربی مجلہ: الداعی، ناشر: دار العلوم دیوبند، ضلع سہارنپور، اتر پردیش، جلد: 29، شمارہ: 3 و 4۔
(7) منصور پوری، مفتی سید محمد سلمان (ایڈیشن: اپریل 2020ء)، "حضرت مولانا سید محمد اسماعیل صاحب کٹکی". ذکرِ رفتگاں، جلد: دوم، ناشر: المرکز العلمی للنشر و التحقیق، لال باغ، مرادآباد، صفحات: 16–17۔
(8) کٹکی، مولانا سید محمد اسماعیل (2005ء؛ پہلا ایڈیشن)، "قاطع قادیانیت مناظر اسلام سید محمد اسماعیل صاحب کٹکی امیر شریعت اڑیسہ"، نام کتاب: ذرا غور کریں، ناشر: مرکزی دفتر کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت، دارالعلوم دیوبند، صفحہ: 2–3۔
(9) ہردوئی، مولانا محمد طیب قاسمی (ایڈیشن: 2015ء). دارالعلوم ڈائری (لیل و نہار): فیضانِ شیخ الاسلام نمبر، ناشر: ادارہ پیغام محمود دیوبند۔
(10) حاصل کردہ ریکارڈ (تاریخِ منظوری برائے سپردگی: 30 ذی الحجہ 1445ھ بہ مطابق 19 جولائی 2023ء) از محافظ خانہ دار العلوم دیوبند۔
(11) علوی، مولانا کفیل احمد، (10 جنوری 1989ء). "مناظر اسلام سید محمد اسماعیل صاحب کٹکی، امیر شریعت اڑیسہ" آئینہ دار العلوم دیوبند، جلد: 4، شمارہ: 11، صفحہ: 6۔
(12) بیگ، عماد القراء جناب مرزا بسم اللہ (1970ء). "قاری مولانا محمد اسماعیل". تذکرہ قاریان ہند (جلد سوم)، ناشر: میر محمد کتب خانہ، آرام باغ (کراچی)، صفحہ:111۔
(13) کٹکی، مولانا سید عبد الحفیظ (8 جمادی الاولی 1425ھ بہ مطابق 27 جون 2004ء)، مجلس شوریٰ جامعہ رشیدیہ ریاض العلوم سونگڑہ، ناشر: شعبۂ نشر و اشاعت جامعہ رشیدیہ ریاض العلوم سونگڑہ، صفحات: 7، 12–18۔
(14) نقیب، سید خاور (جنوری 2008ء؛ پہلا ایڈیشن). "مولانا سید محمد اسماعیل"، نام کتاب: صریرِ خامہ، مطبع: بندنا پرنٹرز، کٹک، صفحہ: 121۔
(15) اسحاق، محمد قمر (1996ء)، ہندوستان کے اہم مدارس (جلد اول)، ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز، نئی دہلی، صفحہ: 313۔
(16) دہلوی، یونس؛ دہلوی، ادریس؛ دہلوی، الیاس، (اکتوبر 1974ء)، "میں نے آٹھ ہزار قادیانیوں کو مسلمان کیا از مولانا محمد اسماعیل"، رسالہ: اردو ڈائجسٹ ”شبستان“، ناشر: شمع (یونانی اینڈ آیورویدک) لیبارٹریز، لال کنوان، دہلی، جلد: 8، شمارہ: 10، صفحات: 13–14۔
(17) قاسمی، مفتی محمد عبید اللہ اسعدی (ذی الحجہ 1420ھ بہ مطابق مارچ 2000ء؛ پہلا ایڈیشن)، "أعضاء المجلس الإستشاري لدار العلوم". دار العلوم ديوبند: مدرسة فكرية توجيهية حركة إصلاحية دعوية، مؤسسة تعليمية تربوية (عربی)، ناشر: شیخ الہند اکیڈمی، دار العلوم دیوبند، صفحہ: 104۔
(18) بہاولپوری، مولانا اللہ وسایا (جنوری 2012ء)، "عرض مرتب"، "تاریخ مناظرہ یادگیر"، احتساب قادیانیت (چالیسویں جلد)، ناشر: عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، ملتان، پاکستان، صفحات: 4–7، 68۔
(19) کٹکی، مولانا سید محمد اسماعیل (2012ء؛ دوسرا ایڈیشن)، "عرض ناشر از قاری سید محمد عثمان منصور پوریؒ"، نام کتاب: ذرا غور کریں، کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دار العلوم دیوبند، صفحات: 3–4۔
(20) علوی، مولانا کفیل احمد، (یکم تا 15 مارچ 2005ء)، "مناظر اسلام شیر کٹک قاطع مرزائیت حضرت مولانا سید محمد اسماعیل صاحب نور اللہ مرقدہ، امیر شریعت اڑیسہ: حالات و خدمات، تاثرات از مفتی ریاست علی رامپوری". پندرہ روزہ: آئینہ دار العلوم، جلد: 20، شمارہ: 15، ناشر: شیخ الہند اکیڈمی، دار العلوم دیوبند، صفحات: 11–13۔
(21) مبارک پوری، مولانا محمد عارف جمیل (2021ء؛ پہلا ایڈیشن)، موسوعة علماء ديوبند (عربی)، ناشر: شیخ الہند اکیڈمی دار العلوم دیوبند، صفحہ: 327۔
(22) ریویو آف وقف ایڈمنسٹریشن (1965–66ء)، ناشر: وقف سیکشن، وزارت قانون (محکمہ قانون سازی)، حکومت ہند، صفحہ: 16۔
(23) گورکھپوری، مولانا شاہ عالم، تفاسیر قرآن مجید اور مرزائی شبہات (جلد اول)، ایڈیشن: نومبر 2005؛ دوسرا ایڈیشن: نومبر 2022ء، ناشر: شاہی کتب خانہ، دیوبند، صفحہ: 23۔
(24) خلیلی قاسمی، مفتی محمد اللّٰہ، "قادیانیت کی ہندوستان واپسی اور دار العلوم دیوبند کی خدمات" – "اراکین مجلس شوریٰ دار العلوم دیوبند"، دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ، (ایڈیشن: اکتوبر 2020ء)، ناشر: شیخ الہند اکیڈمی، دار العلوم دیوبند، صفحات: 322–323، 758۔
(25) بستوی، مولانا شوکت علی قاسمی، رابطۂ مدارس اسلامیہ عربیہ دار العلوم دیوبند کی تیرہ سالہ خدمات، سنہ اشاعت: مئی 2007ء، ناشر: دفتر کل ہند رابطۂ مدارس اسلامیہ عربیہ دار العلوم دیوبند، صفحات: 106–107۔
(26) نقیب، سید خاور، "متن کی بازیافت"، نام کتاب: بیاضِ رحمت، سنہ اشاعت: 2014ء، ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، لال کنواں، دہلی، صفحہ:11۔
(27) بہاولپوری، مولانا اللہ وسایا (اپریل 2016ء؛ پہلا ایڈیشن)، "اسماعیل کٹکی، مولانا محمد"، نام کتاب: چمنستان ختم نبوت کے گلہائے رنگا رنگ (جلد دوم)، ناشر: عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، ملتان، پاکستان، صفحات: 645–647۔
(28) بہاولپوری، مولانا اللہ وسایا (مارچ 2022ء؛ پہلا ایڈیشن)، "قرآن قادیانی"، نام کتاب: محاسبۂ قادیانیت، ناشر: عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، ملتان، پاکستان، صفحات: 6–7۔
(29) قاسمی، مفتی ثناء الہدیٰ (جولائی 2017ء). یادوں کے چراغ (جلد دوم) ناشر: ارم پبلشنگ ہاؤس، دریاپور، پٹنہ، صفحات: 115–116۔
(30) قاسمی اعظمی، مولانا حبیب الرحمن، (رجب‏، شعبان 1426ھ بہ مطابق ستمبر 2005ء)، "دارالعلوم دیوبند میں مجلس عاملہ رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کا اہم اجلاس"، ماہنامہ دار العلوم، ناشر: دار العلوم دیوبند، ضلع سہارنپور، اتر پردیش. جلد: 89، شمارہ: 9۔
(31) القادری، مولانا ارشد (اگست 2005ء؛ پہلا ایڈیشن)، "کٹک کے تاریخی مناظرے میں اعلیٰ حضرت کے لفظ پر بحث"، نام کتاب: تجلیاتِ رضا، ناشر: دار الکتاب، مٹیا محل، جامع مسجد، دہلی، صفحہ: 170۔
(32) دیوی، بَندیتا، Some Aspects of British Administration in Orissa [1912-1936]، سنہ اشاعت: 1992، ناشر: اکیڈمک فاؤنڈیشن، نئی دہلی، صفحہ: 14–15۔
(33) جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم سونگڑہ کی مجلسِ شوریٰ (منعقدہ: یکم محرم الحرام 1444ھ بہ مطابق 31 جولائی 2022ء) میں پیش کی گئی ”آئینِ جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم سونگڑہ“۔

وہ مضامین جن تک رسائی نہیں ہو پائی؛ مگر ان میں مولانا مرحوم پر مضامین ہیں اور بندے کے علم میں ہیں:
(1) ہفت روزہ الجمعیۃ کے 2009ء کے تین شماروں میں اڈیشا کے معروف صحافی مولانا مطیع اللّٰہ نازش کٹکی کے قسط وار تین مضامین شائع ہوئے تھے۔
(2) مولانا مطیع اللہ نازش کٹکی ہی کا ایک مضمون 2007ء کو اڈیشا کی جانب سے شائع کردہ چھٹی جماعت میں داخل نصاب کتاب ”دلکش اردو “ میں شائع کیا گیا تھا۔
(3) جناب عادل صدیقی (متوفی:2021ء) کا مضمون، جو یکم رمضان 1412ھ بہ مطابق 6 مارچ 1996ء کو روزنامہ الجمعیۃ کے پانچویں جلد اور دسویں شمارے کے صفحہ نمبر دو اور گیارہ میں شائع ہوا تھا۔

مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ

مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ محمد روح الامین میوربھنجی       مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی سرزمینِ بہا...