ہفتہ، 27 نومبر، 2021

نظام قدرت ہی سراپا باعثِ خیر ہے

نظام قدرت ہی سراپا باعثِ خیر ہے

                                      محمد روح الامین 

    ہم اپنی زندگی کا اگر جائزہ لیں تو ہمیں خود میں بے شمار کمیاں نظر آئیں گی، ان کمیوں کا حاصل یہ ہے کہ ہم خالقِ حقیقی سے غافل ہو گئے، اس کے حکموں سے منھ پھیر رکھا ہے، اس کی عطا کردہ نعمتوں کا غلط اور بے جا استعمال کر رہے ہیں، اس کے بنائے ہوے نظام و قوانین میں دخل اندازی کر رہے ہیں، اس کی تخلیق کردہ قدرتی فَضا اور ماحول کو؛ آلات، مشینوں اور ٹیکنالوجیز کی آلودگیوں سے متاثر کر رہے ہیں۔

   اگر ہم؛ انسانوں اور دیگر حیوانوں میں موجود؛ نو مولود اور نِت نئی بیماریوں کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ صاف نظر آئے گا کہ یہ سب؛ انسان کے باہر کی اُن صَوتی، سَمعی، آبی اور فَضائی آلودگیوں — جو ظاہری آلودگیوں سے مختلف ہیں — کی وجہ سے ہے، جو دِن بہ دِن رُونما ہونے والی نام نہاد ترقیوں کے سبب پیدا ہوئیں؛ مثلاً: کثیر تعداد میں درختوں کے کاٹے جانے سے، سمندروں میں ”میزائل ٹیسٹنگ“ کرنے سے، ”موبائل نیٹ ورکس“ سے، کمپنیوں کے سسٹم اور گاڑیوں کی انجنوں سے، جو آلودگیاں اور خرابیاں؛ ہوا، پانی اور فَضا میں پیدا ہوئیں، اُن سے نئی نئی بیماریوں نے جنم لیا، ”آکسیجن“ میں خرابی پیدا ہوکر ”ہارٹ اٹیک“ اور قلبی دورے کا مرض عام ہوا، ”ٹیلی ویژن“ اور ”موبائل فونز“ کی روشنی سے ”قُوتِ بَصارت“ متاثر ہوئی، ”ہیڈ فونز“ اور ”بُلوتُوتھس“ سے ”قوتِ سماعت“ پر اثر پڑا، پھلوں اور غذاؤوں میں؛ ”اَدوِیات“ اور "کیمیکلز" کی آمیزش سے صحت میں فساد پیدا ہوا، گاڑی اور مشینی آلات کی صَوتی آلودگیاں؛ ”ڈپریشن“ (ذہنی تناؤ) اور ”فرَسٹریشن“ (مایوسی) کا سبب بنیں؛ اِن مجموعی آلودگیوں کے سبب، ہوا و پانی کا نظم و نسق مجروح ہوا اور نئے امراض کا سامنا کرنا پڑا؛ بالخصوص زہریلی غذاؤوں اور الٹی سیدھی چیزوں کے استعمال سے، جلو وَپبایل انسانی زندگی میں آیا ہے، وہ محتاج بیاں نہیں، جیسے: شراب نوشی اور مُنشِّیات (نشہ آور چیزوں) سے، مختلف اقسام کے ”کینسر“ اور الٹی سیدھی غذاؤوں اور اللہ تعالی کے حرام کردہ جانوروں کے استعمال سے ”فوڈ پوائزننگ“ اور ”کورونا وائرس“ جیسی  مختلف بیماریاں؛ پوری دنیا میں رونما ہوئیں۔

   ان ساری باتوں کا مقصد و خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کے بنائے ہوے نظام اور سسٹم میں کوئی کمی نہیں ہے: ﴿ماترى في خلق الرحمن من تفاوت﴾ ”رحمان کی تخلیق میں تو کوئی اونچ نیچ نہیں دیکھے گا“ (سورة الملك، آیت: 4) یعنی جو چیز جس حالت میں اس نے اپنے بندوں کو دی ہے، اسی میں ان کے لیے حکمت و مصلحت بھی ودیعت کر دی ہے، اُسی کے مُقرّر کردہ اصول (خواہ دینی ہوں؛ یا دنیوی) انسانوں کے لیے مفید اور غیر نُقصان دِہ ہیں، اُس کے بنائے ہوے حدود اور دائروں سے باہر نکل کر، اپنے ہی نقصانات اور بربادیوں کے مواقع ہیں۔

   اب جب کہ ٹیکنالوجیز ہماری زندگیوں میں داخل ہو چکی ہیں اور ان سے بالکلیہ دست بردار بھی نہیں ہوا جا سکتا، تو ان کا بہ قدر ضرورت اور صحیح استعمال، ان کے نقصانات سے بچنے کی درست تدابیر اور غذاؤوں کے انتخاب و استعمال میں بھی قدرت کے مقرر کیے قوانین کا پاس رکھنا بھی بھی نہایت ضروری اور لابدی ہے؛ علاوہ ازیں ذہنی و جسمانی ورزش اور صفائی ستھرائی کا اہتمام بھی انتہائی ضروری ہے۔

  اللہ تعالی اپنے قدرتی نظام میں چھیڑ چھاڑ سے ہمیں دور رکھے، درست اور حلال غذاؤوں کے انتخاب اور صفائی و ستھرائی والی زندگی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ

مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ محمد روح الامین میوربھنجی       مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی سرزمینِ بہا...