بدھ، 7 جون، 2023

بس کا ایک یادگار اور طویل تاریخی سفر

 بس کا ایک یادگار اور طویل تاریخی سفر

📝 محمد روح الامین میوربھنجی

تاریخِ تحریر: 2 شوال المکرم 1441ھ م 2 مئی 2020ء بہ روز سنیچر

نظرِ ثانی: 29 رجب المرجب 1442ھ م 14 مارچ 2021ء بہ روز اتوار

تصحیح: 17 ذی قعدہ 1444ھ بہ مطابق 7 جون 2023ء بہ روز بدھ

(ماخذِ تصویر: دی اکانومک ٹائمز)

     جب ہندوستان میں بھی پوری دنیا کی طرح یکایک "لاک ڈاؤن" کا اعلان کر دیا گیا تو دوسرے مدارس کی طرح مادرِ علمی دار العلوم دیوبند میں طلبہ کو جلد تعطیل نہیں دی گئی؛ بلکہ انھیں یہ بتلایا گیا کہ "لاک ڈاؤن" کے ختم ہوتے ہوتے ہی بصورتِ تخفیف اُن کا امتحان لے کر انھیں رخصت دے دی جائے گی (اُس وقت ابتداءً چند دنوں کے لیے حکومت کی طرف سے "لاک ڈاؤن" کا اعلان آیا تھا)؛ لیکن جوں جوں دن بڑھتے گئے! حالات؛ نازک سے نازک تر ہوتے گئے؛ یہاں تک کہ حکومت کی دباؤ اور آرڈر کی بنا پر اربابِ دار العلوم نے امتحانِ سالانہ کے بعد عید الفطر مؤخر کیے جانے کا اعلان کیا (بعد میں وہ بھی منسوخ ہوگیا)۔ اب مسئلہ تھا طلبہ کے گھر جانے کا تو بعض اربابِ جمعیت علمائے سہارنپور (میم) کی کاوشوں سے قُرب و جوار کے طلبہ کو ان کے وطنِ عزیز روانہ کیا جانے لگا، اسی طرح سے اتر پردیش و اطراف کے تقریباً تین ہزار (3000) طلبہ اپنے گھروں تک پہنچ گئے، کبھی کوئی بغیر کسی دقت و پریشانی کے گھر پہنچتا تو کسی کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا۔ تقریباً دو ہزار (2000) دُور کے طلبہ جیسے ہندوستان کے مختلف صوبوں، ریاستوں اور بیرون ممالک کے طلبہ اپنے وطن نہ جا سکے اور دار العلوم کے اربابِ انتظام نے تقریباً دو مہینے یعنی رمضان المبارک کے اختتام تک ان کا بہت خیال رکھا (اور طلبۂ دار العلوم دیوبند کے علاوہ دیگر طلبہ کا جمعیت علمائے دیوبند (میم) نے بہت خیال رکھا) بس اتنا تھا کہ "کووِڈ-19" کی احتیاطی تدابیر کے پیشِ نظر؛ احاطۂ دار العلوم میں بھی بہت سی انتظامی و معاشرتی تبدیلیاں نظر آنے لگیں جیسے احاطے سے باہر نہ جانا، بھیڑ اکھٹے نہ کرنا اور دیگر بہت سی پابندیاں بھی طلبہ پر عائد کی گئیں، انھیں پابندیوں کے ساتھ ماہِ رمضان بھی گزرنے لگا، طلبہ اپنے حجروں میں؛ میدانوں میں؛ چھتوں پر کچھ افراد کے ساتھ تراویح میں قرآن سننے سنانے یا تنِ تنہا پڑھنے لگے۔

   بندے نے بھی کچھ دن ایک کشمیری ساتھی کے ساتھ پھر اکیلے ہی تراویح میں قرآن ختم کیا۔ بالآخر "لاک ڈاؤن" کے تیسرے دَور میں دُور کے طلبہ کو بھی اپنے گھروں تک جانے کے آثار نظر آنے لگے کہ مختلف صوبوں کے اربابِ حکومت نے یہ اعلان کیا کہ حکومتی اجازت حاصل کرنے کے بعد؛ کوئی بھی اپنے وطن روانہ ہوسکتا ہے؛ البتہ اسے چند ایام (14 یا 21 یا 28 دن حسبِ فرمان) قرنطینے میں (معاشرہ سے الگ تھلگ) گزارنے ہوں گے، تبھی دیگر صوبوں؛ جیسے: تمل ناڈو، کرناٹک، مہاراشٹر، تلنگانہ، آندھرا پردیش، پنجاب، راجستھان، میگھالیہ، آسام اور بہار وغیرہ کی طرح؛ اڈیشا کے طلبہ کا بھی وطن روانہ ہونا طے پایا اور یکے بعد دیگرے دو بسیں؛ الگ الگ لوگوں کی محنتوں اور کاوشوں سے صوبہ اڈیشا کے لیے روانہ ہوئیں، پہلی بس کے انتظام میں پیش پیش مولانا محمد فہیم بنجھار پوری نظر آئے؛ جب کہ دوسری بس کے نظم میں مولانا محمد صدیق جاجپوری و مفتی محمد عباس صاحب آگے آگے نظر آئے۔ پہلی بس 26 رمضان المبارک 1441ء بہ مطابق 20 مئی 2020ء کو روانہ کر 29 رمضان بہ مطابق 23 مئی کو اڈیشا کی دار الحکومت "بھوبنیشور" پہنچی۔

    دوسری بس اڈیشا سے پٹنہ، بہار آئی ہوئی تھی، اڈیشا سرکار سے 20 مئی کو 21 مئی کا پرمیشن (اجازت) ملتے ہی وہ بس؛ رات بارہ بجے کے بعد اتر پردیش کی سرحد پار کر گئی اور دن بھر چل کر بنارس ہوتے ہوئے؛ مرادآباد سے دو رفیقوں کو ساتھ لے کر اگلی رات تقریباً ڈھائی بجے دیوبند: دار العلوم کے احاطے میں (اعظمی میدان) پہنچ گئی اور اس بس کے مسافروں میں بندے کا نام بھی درج تھا۔

(ماخذِ تصویر: 91 ٹرکس)

     28 رمضان (1441ء) مطابق 22 مئی (2020ء) بہ وقتِ فجر؛ بس دیوبند سے روانہ ہوئی اور مظفر نگر، میرٹھ ہوکر آگرہ پہنچی اور آگرہ سے "آگرہ – لکھنؤ ایکسپریس" شاہراہ کے ذریعے؛ لکھنؤ کے لیے چل پڑی، لکھنؤ کے "ٹول گیٹ" (ٹول ناکہ) پر لکھنؤ کے معروف "واحد بریانی" والوں نے (اس شاہراہ سے آنے والے) مسافروں کے لیے افطار کا بہترین انتظام کر رکھا تھا، وہاں پر رفیقانِ سفر کو بھی افطار کے لیے مدعو کیا گیا اور سحری کے لیے بھی خاصا سامان ہمارے ساتھ کر دیا گیا؛ بالآخر بس روانہ ہوئی، لکھنؤ میں داخل ہوتے ہی دار العلوم ندوۃ العلماء میں زیرِ تعلیم اڈیشا کے ایک طالب علم کو ہم راہِ سفر کیا گیا، پھر بس؛ سلطان پور، گورکھپور ہوتے ہوئے بہار کی سرحد میں داخل ہوئی؛ یہاں تک کہ نالندہ، کوڈرما، ہزاری باغ، رانچی سے گزرکر آگے بڑھے۔ رات کے کھانے کے لیے کوئی ہوٹل یا ڈھابہ بھی نہیں مل رہا تھا، جب ہم اڈیشا کی بارڈر یعنی سرحد میں داخل ہونے کے لیے ضلع رانچی، جھارکھنڈ ”سُودے“ نامی گاؤں  سے گذرے تو بڑبل، ضلع کیونجھر، اڈیشا کے ایک ساتھی مولانا محمد صادقین صاحب کے چاہنے والوں نے وہاں پر کھانے کا انتظام کر رکھا تھا، جب ہم اس گاؤں سے گزرے تو بس جناب خطیب صاحب کے مکان پر رُکی اور ہمارا والہانہ استقبال کیا گیا، نماز سے فارغ ہوئے، پھر سادے کھانے کا بہترین انتظام تھا، کھانے کے بعد دعا ہوئی، اس کے بعد ہم لوگ راورکیلا کے لیے روانہ ہوئے، وہاں یعنی راورکیلا میں (اسی رات) راورکیلا اور جھارسگوڈا کے بعض رفقا اتر گئے (بڑبل کے دو ساتھیوں: مولانا محمد صادقین اور مفتی محمد زاہد قاسمی کے چھوٹے بھائی مولانا محمد سالم قاسمی نے بھی خیر باد کہا) اور وہاں بھی سحری کے لیے ہمارے ہمراہ سامان دے دیا گیا اور پھر ہم پالاہڑا، بارکوٹ اور ڈھینکا نال کے راستے سے؛ 54 گھنٹے میں "منگولی چوک، کٹک" پہنچے، وہاں پر بعض اصحاب اتر گئے، جن میں بندہ بھی تھا، ایک بات لکھنا بھول گیا کہ جب ہم راستے میں تھے تو پہلی بس والوں (جو ہم سے قبل روانہ ہوکر ہم سے پہلے پہنچ چکے تھے) سے یہ اطلاع ملی کہ بہتر یہ ہے کہ طلبہ اپنے اپنے علاقوں میں (جن کا علاقہ راستہ میں پڑے) یا (اگر راستہ میں اپنا علاقہ نہ ہو تو) کم از کم بھوبنیشور سے پہلے ہی جو جہاں اتر سکے، اتر جائے اور سیدھے اپنے علاقے میں چلا جائے؛ کیوں کہ سب کو اپنے اپنے علاقوں میں "کورنٹائن" کیا جا رہا ہے (اور پہلے اطلاع ملی تھی کہ پہلے طلبہ بھوبنیشور پہنچیں گے، پھر وہاں سے چیک اَپ وغیرہ کے بعد اپنے علاقوں تک پہنچیں گے)، تبھی طلبہ اپنے اپنے علاقوں میں (اگر بس وہاں سے گزرتی) یا اپنے علاقوں کے قریب اترتے گئے، اس طرح بس؛ تقریباً 56 گھنٹے میں دیوبند سے کٹک ہوتے ہوئے بھوبنیشور پہنچی تھی۔


   طلبہ اپنے اپنے علاقوں میں پہنچ کر "ہوم کورنٹائن" کر دیے گئے، بعض اپنے علاقے کے اسکولوں یا مدرسوں میں کورنٹائن کر دیے گئے، بندہ بھی کٹک شہر کے قریب؛ "منگولی چوک" میں دوندو شریف، ضلع میوربھنج کے ایک رفیق یعنی مولوی محمد سجاد قاسمی کے ساتھ؛ بس سے اترا اور بالو بیسی والے مولانا حکیم الاسلام قاسمی کے ماموں؛ حافظ سراج الاسلام اور (نعت گو شاعر) قاری عبد الرحمن صاحبان وہاں اپنی کار لیے موجود تھے (جو کہ کورونا جیسی وباء کے دور میں بھی تقریباً ڈھائی سو کیلومیٹر سفر کے لیے تیار ہوگئے تھے؛ اگرچہ اجارے پر ہی ان سے بات کی گئی تھی؛ مگر ان کی رضا مندی والد صاحب سے تعلقِ کے سبب سے تھا)، ہم جلد ہی وہاں سے اپنے علاقے کے لیے روانہ ہوگئے، راستے میں مولانا حکیم الاسلام قاسمی اور ان کے برادر حافظ امین الاسلام سے بھی دور سے یعنی دروازے کے آر پار سے ملاقات ہوئی (جو بہ ذریعہ پہلی بس؛ ہم سے پہلے پہنچ کر خود ایک اسکول میں کورنٹائن تھے)، پھر ہم آگے چل پڑے، مولوی محمد سجاد تو "کرنجیا" (جو کہ ہمارے گاؤں ”چڑئی بھول“ سے تقریباً 18 کیلومیٹر پہلے ایک چھوٹا سا شہر ہے) میں اتر گئے اور ہم لوگ میرے قریہ "چڑئی بھول" روانہ ہوگئے، وہاں پر سب سے پہلے مجھے اُس اسکول میں لے جایا گیا جہاں پر مسافروں کو قرنطینے میں رکھا جا رہا تھا، پھر وہاں سے مجھے تھوڑی دیر دُور ایک اسکول میں حاضری لکھوانے اور کچھ کار روائی کے لیے بھیجا گیا، وہاں کا ذمہ دار؛ پڑھا لکھا آدمی تھا، تھوڑی سی بات چیت کے بعد اسے سمجھ آگیا (کہ کس طرح احتیاط سے ہمیں دار العلوم دیوبند میں رکھا گیا اور کس احتیاط سے ہم گھر پہنچے اور یہ کہ میں دیوبند میں کووڈ کی جانچ کروا چکا ہوں) اور اس نے مجھے اپنے گاؤں کے اسکول میں بھیج دیا، پھر ہمارے گاؤں کے پردھان کی اجازت سے فوراً ہی مجھے اپنے گھر میں "ہوم کورنٹائن" کر دیا گیا، اور اس طرح الحمد للّٰہ بندہ 54 گھنٹہ بس، پھر ساڑھے چار گھنٹہ کار میں سفر کرکے تھوڑی دقت کے بعد اپنے گھر میں موجود تھا، بندہ نے شکرانہ ادا کیا اور اس کے بعد اپنے حجرے میں قرنطینے کے اوقات گزارتے ہوئے یہ تحریر لکھی تھی، گاؤں والوں کے لعن طعن کے ڈر سے (اور ان کی تحفظ کی خاطر) بندہ بھی اپنے کمرہ میں ایک طرح سے محبوس ہی تھا................ قرنطینے میں بندہ یہ محسوس کر رہا تھا کہ کس طرح مسلم برادران؛ جیلوں میں بند ہیں اور کتنی پریشانیاں انھیں جھیلنی پڑتی ہیں۔ اللّٰہ تعالٰی جیلوں میں محبوس تمام مسلم بھائیوں کی دست گیری فرمائے اور انھیں جلد آزاد فرمائے اور انھیں عزت و آبرو کی زندگی عطا فرمائے اور اس کے لیے محنت کرنے والوں کی بھی نصرت و اعانت فرمائے۔ آمین ثم آمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ

مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ محمد روح الامین میوربھنجی       مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی سرزمینِ بہا...