ہفتہ، 24 ستمبر، 2022

حضرت مولانا محمد جابر صاحب قاسمی بنجھار پوریؒ (1943–2020ء): مختصر سوانحی خاکہ

حضرت مولانا محمد جابر صاحب قاسمی بنجھار پوریؒ (1943–2020ء): مختصر سوانحی خاکہ


محمد روح الامین میُوربھنجی


    سر زمین اڈیشا کے مایۂ ناز و قابل فخر علمائے دین، جنھوں نے اہلِ اڈیشا کے دین و ایمان کی حفاظت و پاسداری کے لیے بے پایاں قربانیاں دی ہیں، ان میں ایک معروف نام حضرت مولانا محمد جابر صاحب قاسمی بنجھار پوریؒ کا ہے۔ وہ فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ کے خلیفۂ اجل اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ اور فخر المحدثین حضرت مولانا سید فخر الدین احمد مرادآبادیؒ کے تلمیذ رشید تھے۔ آپ تقریباً نصف صدی تک اڈیشا میں دینی، تعلیمی، تربیتی، اصلاحی اور معاشرتی خدمات انجام دیتے رہے۔ تقسیمِ جمعیت کے ماقبل و مابعد؛ ہر دو زمانوں میں انھوں نے جمعیت کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ اخیر عمر میں تقریباً تیرہ سال جمعیۃ علمائے اڈیشا (میم) کے صدر رہے۔ اب ان کا مختصر سوانحی خاکہ قارئین کے حوالے کرتا ہوں، اڈیشا کے معروف ماہنامہ صدائے اڑیسہ کے ماہ دسمبر 2020ء کے شمارے میں مولانا مرحوم پر شائع مضمون سے بندہ نے استفادہ کیا ہے، نیز اپنی دانست و تحقیق کے مطابق بعض مزید چیزوں کا بھی اضافہ کر دیا ہے۔ حضرت مولانا محمد سلمان منصورپوری نے ندائے شاہی میں شائع تعزیتی مضامین کو الگ سے ذکرِ رفتگاں کے نام سے شائع کر دیا ہے، جس کے اب تک 6 حصے منظر عام پر آ چکے ہیں، جس کے حصۂ چہارم سے بھی بندہ نے مولانا مرحوم کے متعلق استفادہ کیا ہے۔

              مختصر سوانحی خاکہ  

       بیعت و خلافت

     مولانا مرحوم کی ولادت 1943ء کو بنجھار پور، ضلع جاجپور، صوبہ اڈیشا (اڑیسہ) میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں ہی میں رہ کر مولانا عرفان صاحبؒ کے پاس حاصل کی، اس کے بعد مولانا امان اللہ بنجھار پوریؒ و مولانا عبد الغفار بنجھار پوریؒ کے مشورے پر مولانا عرفان صاحبؓ کے ہم راہ مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد تشریف لے گئے، جلال آباد میں انھوں نے حفظِ قرآن کا آغاز کیا، اخیر کے دس پارے ہی حفظ کیے تھے کہ طبیعت خراب رہنے لگی.... کمزوری، سینے میں درد اور خون کی قے کی شکایت ہونے لگی تو ان کے استاذ نے انھیں درس نظامی پڑھنے کا مشورہ دیا، پھر مولانا مرحوم حصولِ علم کی غرض سے مظاہر علوم سہارنپور تشریف لے گئے اور وہاں رہ کر عربی پنجم تک کی تعلیم حاصل کی، ان کے اساتذۂ مظاہر علوم میں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ اور سابق ناظم اعلیٰ مظاہر علوم مولانا سید محمد سلمان مظاہریؒ کے والد مفتی محمد یحییٰ سہارنپوریؒ بطور خاص شامل ہیں۔

    مظاہر علوم کے بعد مولانا مرحوم نے دار العلوم دیوبند کا رخ کیا اور وہاں داخلہ لے کر 1366ھ مطابق 1966ء کو دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے، ان کے شرکائے دورۂ حدیث میں سابق صدر جمعیۃ علمائے غازی پور مولانا محمد ابو بکر غازی پوریؒ، شیخ الحدیث دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ مولانا محمد زکریا سنبھلی، مولانا شمیم الحق گیاویؒ، مولانا محمد ابراہیم کٹکی اور مولانا محمد علی یوسف قاسمی دریا پوری شامل ہیں۔ (دار العلوم ڈائری: تلامذہ فخر المحدثینؒ نمبر (2017ء)؛ ندوة العلماء اور دارالعلوم دیوبند کا باہمی ربط از مولانا عبد المالک بلند شہری)

      تدریس و دیگر خدمات

    تعلیم سے فراغت کے بعد مولانا مرحوم بیگو سرائے، صوبہ بہار کے ایک مدرسے میں پانچ سال مدرس رہے، پھر مولانا امان اللہ بنجھار پوریؒ و مولانا عبد الغفار بنجھار پوریؒ کے اصرار پر سینئر مدرسہ، بنجھار پور کی مسند تدریس کو شرف بخشا اور سالہا سال صحیح مسلم کا درس دیا۔ آپ نے مدرسہ مشکوٰۃ العلوم میں بھی بہ حیثیت مدرس خدمات انجام دیں۔

     بیعت و خلافت، ارشاد و اصلاح

     جیسا کہ مضمون کی ابتدا میں یہ بات آ چکی ہے کہ مولانا مرحوم؛ فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ کے خلیفۂ اجل تھے تو اسی ذمہ داری کے پیش نظر قوم و ملت کی اصلاح و تربیت کے واسطے بنجھار پور میں انھوں نے خانقاہ بھی قائم کیا، اس کے علاوہ دیگر مقامات میں بھی ان کی خانقاہیں قائم تھیں۔ مولانا مرحوم کے صاحب زادہ مولانا محمد اکرم تقی صاحب قاسمی کے بیان کے مطابق ایک مرتبہ مولانا مرحوم کی ملاقات؛ ان کے درسی ساتھی سابق شیخ الحدیث مظاہر علوم سہارنپور مولانا محمد یونس جونپوریؒ سے ہوئی تو انھوں نے زمانۂ طالب علمی ہی میں مولانا مرحوم کی تقویٰ و طہارت والی زندگی کی روشنی میں اس طرح کے جملے کہے تھے کہ جس دن مجھے خبر ملی تھی کہ جابر کٹکی کو فدائے ملت سے خلافت ملی ہے تو مجھے یقین ہوگیا تھا کہ وہ تم ہی ہو۔

       مولانا مرحوم اور جمعیت

     مولانا مرحوم نے جمعیۃ علمائے ہند کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، جمعیت کی تقسیم سے پہلے اور بعد؛ دنوں ہی زمانوں میں انھوں نے جمعیت سے منسلک ہوکر گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ 2008ء کے شروع میں وہ باقاعدہ متحدہ جمعیۃ علمائے اڈیشا کے صدر منتخب ہوئے، پھر 6 مارچ 2008 کو مرکزی جمعیۃ علماء کی تقسیم کا حادثہ پیش آیا، جس کے بعد مولانا مرحوم جمعیۃ علمائے اڈیشا (میم) کے صدر بنائے گئے اور تادمِ آخر بہ حیثیت صدر خدمات انجام دیتے رہے، اسی وقت سے تاوفات امارت شرعیہ اڈیشا کے امیر بھی رہے؛ لیکن باقاعدہ ان کی امارت کی توثیق امیر الہند رابع قاری محمد عثمان منصور پوری نے اپنے زمانۂ امارت کے آغاز یعنی سنہ 2010ء میں کی۔ آپ 2008ء سے تا وفات جمعیت علماء کے رکن مجلسِ عاملہ کی حیثیت سے جمعیۃ علماء (میم) کے مدعوئے خصوصی بھی رہے۔

      جمعیۃ علماء کے پلیٹ فارم سے منسلک ہو کر انھوں نے اڈیشا میں بے پایاں ملی، سماجی اور فلاحی خدمات انجام دیں، 1999ء کے مہلک طوفان اور دیگر طوفانوں اور حوادث کے موقع پر بھی وہ بہت سے امدادی کاموں میں سرگرمِ عمل رہے۔ جمعیۃ علمائے ہند کی طرف سے دہشت گردی مخالف مہم کے تحت بھی ان کی خدمات قابل ذکر ہیں، اسی مہم کے تحت مولانا مرحوم کے زیر صدارت اڈیشا کی دارالحکومت بھوبنیشور میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی، جس میں بہ طور مہمانانِ خصوصی: وزیر اعلیٰ اڈیشا نوین پٹنائک، حاجی محمد ایوب، منا خان اور ہندوستان کے دیگر علمائے کرام نے شرکت کی تھی۔ جمعیۃ علمائے ہند سے اتنا گہرا تعلق تھا کہ شدید بیماری اور ضعف کی حالت میں بھی 2 جنوری سنہ 2020ء کو منعقدہ اجلاسِ مجلس عاملہ میں شریک ہونے کے لیے دہلی تشریف لے گئے اور 22 اکتوبر سنہ 2020ء کو منعقد جمعیت علمائے ہند کے اجلاسِ مجلس عاملہ میں بھی بہ ذریعہ ”زوم“ (Zoom) شریک ہوئے۔

       اوصاف و کمالات

     مولانا مرحوم نہایت سادہ لوح، منکسر المزاج، نیک طبیعت، انتظامی صلاحیتیوں کے حامل، دیندار، اوقات کے پابند، پابندِ نماز باجماعت تھے، نیز لوگوں کی اصلاح و تزکیہ میں مشغول و متفکر رہا کرتے تھے۔ مولانا مرحوم کے صاحب زادہ مفتی ارشد ذکی صاحب کے بیان کے مطابق آخری سال رمضان میں انتہائی درد و الم کے عالم میں بھی اخیر کے دس پارے حفظ کر لیے تھے اور مرض الوفات کے اندر ہوش و حواس کی حالت میں نمازِ تہجد تک ترک کرنا گوارا نہ کرتے تھے۔ ایک واقعہ مولانا مرحوم کے صاحب زادہ مولانا محمد اکرم تقی صاحب کے بیان میں سنا کہ ایک مرتبہ مولانا مرحوم دیوبند گئے، سہارنپور بھی جانا ہوا، مظاہر علوم کے اس وقت کے ناظم اعلیٰ مولانا سید محمد سلمان مظاہریؒ نے انھیں بہت سی کتابیں ہدیے میں دیں، جب دیوبند میں کتابیں کھول کر دیکھی گئیں تو اس میں مولانا سید محمد سلمان صاحب نے مولانا مرحوم کو استاذ محترم کے نام سے منسوب کیا تھا یعنی استاذ محترم لکھا تھا، جب کہ مولانا سلمان صاحب بھی اس وقت خاصے ضعیف ہو چکے تھے، دیکھنے والوں نے حیرت زدہ ہو کر دریافت کیا تو مولانا مرحوم نے کچھ یوں جواب دیا کہ جب وہ جلال آباد سے سہارنپور تشریف لے گئے تو مولانا سلمان صاحب کے والد مفتی محمد یحییٰ صاحب سہارنپوریؒ اور حضرت شیخ کے منظورِ نظر ہو گئے تھے، تعلیم میں ان کی محنت و لگن، سبق فہمی وغیرہ دیکھ کر اساتذہ انھیں اپنے قریب بٹھانا چاہتے تھے، اس وقت مفتی محمد یحییٰ صاحب نے اپنے صاحب زادہ مولانا سید محمد سلمان صاحب مظاہریؒ کو مولانا مرحوم سے متعلق کر دیا تھا اور اس وقت مولانا مرحوم کے پاس مولانا سید محمد سلمان صاحب نے بہت سی کتابیں پڑھی تھیں (جب کہ خود مولانا مرحوم کا یہ زمانۂ طالب علمی تھا)۔

      وفات، اظہارِ تعزیت اور پس ماندگان

     مولانا مرحوم 17 نومبر 2020ء مطابق یکم ربیع الثانی 1442ھ بہ روز منگل طویل علالت کے بعد دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کر گئے اور اسی دن بعد نماز عشاء بنجھار پور میں علماء و عوام کی جم غفیر کی موجودگی میں مولانا مرحوم کے صاحب زادہ مولانا مفتی ارشد ذکی صاحب قاسمی کی اقتدا میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی اور وہیں بنجھار پور میں سپردِ خاک کیے گئے۔ ان کی وفات پر سابق صدر جمعیۃ علمائے ہند مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوریؒ اور سابق جنرل سکریٹری و موجودہ صدر جمعیۃ علمائے ہند مولانا سید محمود اسعد مدنی نے قلبی رنج والم کا اظہار کرتے ہوئے اسے جمعیۃ علمائے ہند کے لیے بالخصوص اور دینی وملی حلقے کے لیے بالعموم نقصانِ عظیم قرار دیا۔

   پسماندگان میں تین صاحب زادیوں کے علاوہ سات صاحب زادے ہیں اور ماشاء اللّٰہ سب دینی تعلیم سے آراستہ ہیں: (1) مولانا محمد اختر ذکی قاسمی، مہتمم مدرسہ مشکوۃ العلوم، بنجھار پور، (2) مولانا مفتی محمد ارشد ذکی قاسمی، سابق استاذ حدیث جامعۃ الشیخ حسین احمد المدنی، محلہ خانقاہ، دیوبند، جو فی الحال جامعہ آسام دارالحدیث، جے نگر کے شیخ الحدیث ہیں، (3) مولانا محمد اسعد ذکی قاسمی، جو برہم پوری، دہلی میں مقیم روحانی وجسمانی علاج کے ماہر ہیں، (4) مولانا محمد احمد ذکی قاسمی، سی اے ممبئی، (4) مولانا محمد اکرم تقی قاسمی، ناظم مدرسہ مشکوۃ العلوم و ناظم اعلیٰ جمعیۃ علمائے اڈیشا (میم)، (5) حافظ محمد احسن ذکی، جو اورنگ آباد میں کسی اسکول کے استاد ہیں، (6) حافظ محمد اسجد ذکی؛ جو گجپتی، اڈیشا کے کسی بستی میں امام ہیں۔


   اللّٰہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے، ان کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے اور ہمیں بھی دینی و ملی خدمات کے لیے قبول فرمائے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین
    

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ

مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ محمد روح الامین میوربھنجی       مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی سرزمینِ بہا...