جمعرات، 23 دسمبر، 2021

بد گمانی سے بچیے


  کوئی اگر فون نہ اٹھا پائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ فون کاٹ دے رہا ہے!! ؛ بل کہ یہ سمجھنا چاہیے کہ کسی کام میں بیزی رہ گیا ہو، یا موبائل سائلنٹ رہ گیا ہو!

     ضروری تو نہیں کہ انسان ہمیشہ فون بدن سے چپکائے رکھے اور ضروری تو نہیں کہ فون نہ اٹھانے سے یہی سمجھا جائے کہ سامنے والا فون کاٹ رہا ہے!


     آج کا یہ بھی بڑا المیہ ہے کہ لوگ بہت جلد الٹے سیدھے خیالات باندھ لیتے ہیں اور بہت جلد بدگمان ہوجاتے ہیں؛ حتی کہ قریبی لوگ بھی!!

    کیا قریبی لوگ بھی ایک دوسرے کو اتنا نہیں سمجھتے کہ ذرا سا کال ریسیو نہ کرنے پر ایک دوسرے کے بارے میں بدگمان ہوکر بے بنیاد الزام لگاکر معرکۂ گفتار چھیڑ دیتے ہیں اور سائلنٹ رہنے کی وجہ سے صرف کال ریسیو نہ کرنا بھی جھگڑوں کی بنیاد بن جاتا ہے!!

   کیا موبائل نے آکر لوگوں کی زندگیوں کو تباہ نہیں کیا  اور لوگوں پر بہت سی بے جا اور جبری ذمہ داری عائد نہیں کردی؟


   کیا موبائل کی وجہ سے آدمی نے اپنے اوپر بہت سی  پُر تکلف اور پُر تکلیف چیزیں لاد نہیں لی ہیں؟

   

 کیا ہر انسان پر یہ ضروری ہوگیا کہ وہ ہر نماز کے وقت موبائل سائلنٹ کرکے نماز کے بعد فوراً کھول لے؟

 

اگر غلطی سے کبھی سائلنٹ رہ جائے یعنی کسی کام میں لگ گیا اور "سائلنٹ موڈ" سے "رِنگِنگ موڈ" پر نہ کرپایا تو اُس پر لعن و طعن اور سخت گیر بازپرسی سے کام لیا جاتا ہے!!

    افسوس ہے آج کے اِس دورِ قحط الرجال پر کہ سائنس کے اس نام نہاد ترقی کی بنا پر انسانی زندگی پر کتنا ذہنی دباؤ ڈال دیا گیا ہے!!


حاصلِ کلام یہ کہ انسان کو سکون چاہیے تو اس کو حتی الامکان ہمیشہ اپنی سوچ مثبت (Positive) رکھنی چاہیے؛ ورنہ ممکن ہے کہ جلد مرنا؛ اس کا مقدّر ہوجائے اور اس کی پریشانیوں اور الجھنوں کا حل کبھی نہ نکل پائے


   اسی مضمون کو اللّٰہ تبارک و تعالٰی نے قرآنِ مجید میں اس طرح سے بیان فرمایا ہے:


{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِن بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ} (سورۂ حجرات؛ آیت نمبر: ١٢)

  "اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو! اس لیے کہ بعضے گمان گناہ ہوتے ہیں"

 

عنْ أَبي هُرَيرةَ رضي اللّٰه عنه أنَّ رَسُول اللَّه ﷺ قَالَ: إيَّاكُمْ وَالظَّنَّ، فإنَّ الظَّنَّ أكذَبُ الحَدِيثِ متفقٌ عَلَيْهِ.

   حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا کہ بدگمانی سے بچو؛ کیوں کہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے" (صحیح البخاری و صحیح المسلم)

    حاصلِ کلام یہ کہ کسی بھی طبیعت کے خلاف اور مزاج کے ناموافق موڑ پر ہمیں دل برداشتہ ہوکر منفی (Nagative) سوچ نہیں رکھنی چاہیے؛ بل کہ بلند ہمتی و وسعتِ ظرفی کے ساتھ صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مثبت (Positive) سوچ رکھنی چاہیے، حُسنِ  ظن رکھنا چاہیے!

    ان شاء اللّٰہ یہ ہم سب کو بے پناہ مشکل حالات میں بھی حدودِ شرعیہ سے تجاوز کرنے سے بچالے گا اور ہماری زندگی کو پُر سکون بنادے گا!!

  اللّٰہ تعالٰی ہم تمام مسلمانوں کو ان باتوں سے فائدہ پہنچائے! آمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ

مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ محمد روح الامین میوربھنجی       مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی سرزمینِ بہا...