پیر، 24 جنوری، 2022

نانا جان رحمۃ اللّٰہ علیہ بہت یاد آئیں گے

نانا جان حضرت مولانا سید حسین احمد قاسمی عارف گیاوی رحمۃ اللّٰہ علیہ، سابق امام جامع مسجد، ساکچی، جمشید پور، جھارکھنڈ

میں نے نانا جان سے بہت کچھ سیکھا ہے، جہاں ان کی ڈانٹ کھائی ہے، وہیں ان کا پیار بھی پایا ہے، سب سے بڑی بات یہ کہ کبھی ان کی طرف سے میرا یا کسی اور کا حوصلہ نہیں ٹوٹا، وہ ہر کسی کی خوبیوں کو دیکھ کر سراہتے، حوصلہ افزائی فرماتے اور بسا اوقات انعامات سے بھی نوازتے تھے، انھوں نے اپنی اولاد کو جو کچھ گراں قدر علمی و اخلاقی چیزیں ورثے میں دی ہیں، وہ ان کی اولاد کی اولاد میں بھی واضح اور نمایاں ہیں، انھوں نے ہمیشہ اپنوں اور پرایوں کی رہنمائی کی ہے، کبھی مشفقانہ اور کبھی مربیانہ، ان کی صحبت میں اور آس پاس رہنے والوں کو اپنی اکثر چیزوں  میں ان کی تربیت و رہنمائی جھلکتی ہوئی دکھائی دے گی، اگر وہ کسی پر اس کی حرکت کی بنا پر سختی سے روک ٹوک کردیتے، تو کچھ ہی دیر بعد اس کا دل خوش کر دیتے اس کی خوبیوں کو بیان کرکے یا اس کو کچھ عطا کرکے، وہ اتنے فراخ دل تھے کہ اس شخص سے بھی فراخ دلی سے پیش آتے تھے جس نے ان کا کچھ نقصان کیا ہو یا انھیں ٹھیس پہنچائی ہو، ان کی وفات سے چھ سات گھنٹے قبل بندہ نے خواب میں کچھ ایسا دیکھا تھا جس میں کسی حادثے کی طرف اشارہ تھا، جس کا پتہ ان کی وفات کے بعد چلا، ایک خوبی ان کی یہ تھی کہ کسی کے اندر کوئی اخلاقی و معاشرتی خرابی دیکھتے تو اسے اس کی حالت کے مطابق متنبہ وآگاہ فرما دیتے تھے، انھوں نے اپنی نصف اور آدھی عمر امامت میں صرف کی، امامت میں وہ وقت کے بڑے پابند تھے، وہ دار العلوم دیوبند کے فارغ اور حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب، مفتی سعید احمد پالن پوری اور قاری عثمان صاحب منصور پوری کے ہم عصر تھے، وہ قرآن واہلِ قرآن، علم و اہلِ علم اور دین و اہلِ دیں کی بہت قدر کرتے تھے، انھوں نے اپنے بیٹوں کو بھی عالمِ دین بنایا، ہمیشہ وہ اپنی زندگی کی یادوں کو ڈائری یا کاغذ پر نقل کرتے رہتے تھے، اخیر عمر تک وہ بازار سے گھر کا سامان خود لایا کرتے تھے، ان سے جو بھی ملتا تھا، وہ ان کا گرویدہ ہو جاتا اور ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا، وہ بڑے خوش مزاح تھے، انھیں شاعری سے غایت درجہ رغبت و لگاؤ تھا، وہ حالات کو اشعار کی لڑیوں میں بھی پرویا کرتے تھے، آخری ایام میں وہ ہندوستان کے حالات پر غم زدہ و فکر مند رہتے تھے، چناں چہ اشعار میں انھوں نے شاہین باغ کی خواتینِ وطن کی بھی حوصلہ افزائی فرمائی ہے؛ الغرض ان کی زندگی ایک کھلی کتاب تھی، جس کا مطالعہ کرنے والا زندگی کے ہر موڑ پر رہنمائی حاصل کرسکتا ہے، وہ اپنوں کے ساتھ ساتھ غیروں کا بھی ہر ممکن مالی اور فکری تعاون کیا کرتے تھے، نیز "أمر بالمعروف و نہی عن المنكر" کا پیکر تھے۔

     یہ چند سطور تھے، اگر ان کی زندگی کو لکھا جائے، تو لوگوں کے لیے اک مشعلِ راہ ثابت ہو!


اللّٰہ ان کو غریقِ رحمت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے.

محمد روح الامین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ

مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ محمد روح الامین میوربھنجی       مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی سرزمینِ بہا...