پیر، 24 جنوری، 2022

صوبہ ”اڈیشہ“ (قدیم و سابق نام: اڑیسہ)

صوبہ ”اڈیشہ“ (قدیم و سابق نام: اڑیسہ)

محمد روح الامین

”اڈیشہ“ موجودہ ہندوستان (بھارت) کی ایک مشرقی ریاست ہے، جو کہ جغرافیائی اعتبار سے شمال میں ”جھارکھنڈ“ اور ”مغربی بنگال“ کے کچھ حصے سے، جنوب میں ”آندھرا پردیش“ سے، مشرق  میں ”خلیج بنگال“ سے اور مغرب میں ”چھتیس گڑھ“ سے ملا ہوا ہے۔ اس کی دار السلطنت ”بھوبنیشور“ ہے، کسی زمانہ میں ”کٹک“ (ضلع کٹک، شہر کٹک سے مختلف ہے) شہر بھی اڈیشہ کی راجدھانی ہوا کرتا تھا، یہاں کی سرکاری اور خاص کر یہاں کے ہندؤوں کی مادری زبان ”اڈیہ“ ہے (کچھ جگہوں پر مسلمانوں کی مادری زبان بھی ”اڈیہ“ ہے)۔ رقبہ کے اعتبار سے ہندوستان کا آٹھواں بڑا علاقہ کہلاتا ہے، معیشت میں سولہویں نمبر پر اور آبادی کے لحاظ سے گیارہویں نمبر آتا ہے، جس کا کُل رقبہ ایک لاکھ، پچپن ہزار، سات سو سات مربع کیلو میٹر پر مُحیط ہے، یہاں ہندو اکثریت میں اور مسلم اقلّیت میں رہتے ہیں، کچھ اور اقلیتیں بھی ہیں، جیسے سکھ، عیسائی وغیرہ۔ سنہ 2011ء کی مردم شماری کے حساب سے اڈیشا کی آبادی ”چار کروڑ، انیس لاکھ، چوہتر ہزار، دو سو اٹھارہ“ (41,974,218) تھی، اور مسلم آبادی دو سے ڈھائی فیصد تھی۔

مردم شماری 2011ء کے اعتبار سے اڈیشا کی آبادی بلحاظ مذاہب:
  ہندومت (93.63%)
  مسیحیت (2.77%)
  اسلام (2.17%)
  سرنا مت (1.14%)
  سکھ مت (0.05%)
  بدھ مت (0.03%)
  جین مت (0.02%)
  دیگر (.19%)"
(بہ حوالہ: ویکیپیڈیا)
  
  یہ صوبہ اس وقت 30 اضلاع پر مشتمل ہے، یہاں بھی چاول کی کاشت زیادہ ہوتی ہے، ساحلی علاقوں میں ناریل بھی بکثرت پایا جاتا ہے، یہاں کی صوبائی پرند میں نیل کَنٹھ، جنگلی جانور میں بارہ سِنگا آتا ہے، شمالی اور مغربی علاقوں کا بیشتر حصہ جنگلات اور پہاڑیوں پر مشتمل ہے، شمالی اور مغربی جنگلی علاقوں میں ہاتھی اور بنگالی باگھ بھی پائے جاتے ہیں، صوبۂ ”اڈیشہ“ میں ہندوستان کا ساتواں سب سے بڑا قومی پارک اور شیروں اور ہاتھیوں کا محفوظ مقام ( ٹائگر اینڈ ایلیفینٹ ریزرو) بھی ہے، جس کا نام ”سِملی پال نیشنل پارک“ ہے، جو دو ہزار، سات سو سات مربع کیلو میٹر زمین کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
  
     ہندوستان کی ایک مشہور بندرگاہ ”پارادیپ بندرگاہ“ (پارادیپ پورٹ) بھی یہیں پر موجود ہے، ساحلی علاقوں میں سیلاب کا سامنا بھی ہوتا رہتا ہے۔

     ”چیلیکا جھیل“ بھی یہیں پر واقع ہے، جو ہندوستان کی دوسری سب سے بڑی جھیل ہے، ”خلیج بنگال“ سے جڑی ہوئی ہے، جو ”گیارہ سو پانچ مربع کیلومیٹر“ پر پھیلی ہوئی ہے۔

    قدیم تاریخ (برطانوی سامراجی دَور) میں انگریزوں نے سنہ 1776ء میں بکسر کی لڑائی کے بعد بہار کو؛ قدیم صوبہ بنگال میں شامل کر لیا تھا اور صوبہ اڑیسہ کو بھی مکمل طور پر سنہ 1803ء میں صوبہ بنگال میں شامل کر لیا تھا، اس وقت اڑیسہ، بنگال اور بہار؛ موجودہ تینوں صوبے ایک ہی ریاست ”صوبۂ بنگال“ (بنگال پریزیڈنسی) میں آتے تھے اور اس بنگال میں موجودہ بنگلہ دیش بھی شامل تھا۔  سنہ 1912ء میں بہار و بنگال کو الگ کرکے ایک الگ ریاست صوبہ بہار و اڑیسہ/صوبہ بہار اڑیسہ  (بہار اینڈ اڑیسہ پروونس) بنا دیا گیا، پھر یکم اپریل سنہ 1936ء میں اڑیسہ کو بہار سے الگ کرکے ایک مستقل ریاست قرار دے کر اڑیسہ کی موجودہ حدود بندی کر دی گئی اور نام ہوگیا ”صوبہ اڑیسہ“ (اڑیسہ پروونس)۔ پھر آزادی کے بعد سے جمہوریہ ہند کی ایک ریاست ہوگئی۔ (آزادی کے بعد 15 نومبر سنہ 2000ء کو بہار کو بھی دو حصوں میں کرکے جنوبی حصہ کا نام ”جھارکھنڈ“ رکھ دیا گیا۔)

   صوبۂ اڈیشہ اپنی قبائلی ثقافتوں اور یہاں کی بہت سی مندروں کی وجہ سے بھی پہچانا جاتا ہے، ہندؤوں کی ایک بڑی تِیرتھ گاہ ”جگن ناتھ مندر“ بھی یہیں واقع ہے، سنہ 2011ء کو اڑیسہ (Orissa) کا نام بدل کر اڈیشہ (Odisha) کر دیا گیا ، اب اردو میں بعض حضرات ”اڈیشہ“ اور بعض حضرات ”اڈیشا“ لکھتے ہیں۔

  اڑیسہ کے قدیم ناموں میں سے یہ ہیں: اُتکَل، کَلِنگ، مَہا کنٹر، اوڈر، اوڈر راشٹر یا اوڈر دیش، اوڈا وِسیا، اوڈیانہ، دکشن کوسالہ، کنوَل منڈل، کنگوڈا، تِری کلنگا، توسالی، چیدی یا چیدی راشٹر، گونڈوانہ۔

     یہاں کے قدیم راجاؤں میں ”اشوک“ معروف ہے، جس کا دور حکومت؛ تقریباً 268 – 232 قبل مسیح کے درمیان ہے۔

   موجودہ اڈیشہ میں مسلمانوں کی مختلف جماعتیں ہیں، جیسے اہل السنۃ و الجماعۃ، اہلِ حدیث، اہلِ بدعت، جماعتِ اسلامی، اسی طرح مسلمانوں کے علاوہ شیعہ اور قادیانی بھی اقلِ قلیل تعداد میں بستے ہیں۔

    موجودہ اڈیشہ دنیوی تعلیم اور طبی سہولیات میں دوسری بہت سی ریاستوں سے آگے ہے؛ لیکن دینی تعلیم بہت ہی کم ہے، وہ بھی اکثر مدرسوں میں ناظرہ و حفظ تک ہی کی تعلیم ہوتی ہے، گنتی کے بس چند ہی ادارے ہیں، جہاں درسِ نظامی کے ابتدائی سالوں کے اسباق ہوتے ہیں، دو ہی مدرسوں میں دورۂ حدیث تک کی تعلیم دی جاتی ہے: (الف) جامعہ مرکز العلوم سونگڑہ، ضلع کٹک، (ب) جامعہ اشرف العلوم محمود آباد، ضلع کیندرا پاڑہ۔ ایک دو اور مدرسوں میں پہلے دورۂ حدیث کی تعلیم ہوا کرتی تھی۔

     ڈھائی فیصد کے نصف سے بھی کچھ کم صحیح العقیدہ لوگ یہاں بستے ہیں، واللّٰہ اعلم

     اللّٰہ تعالٰی اس خطۂ ارضی کی ہدایت طلب بنجر وادیوں میں اسلام کی نورانی بوچھاریں برسائے اور یہاں کے دلوں کو صراطِ مستقیم کی طرف مائل کردے۔ آمین
(آندھرا پردیش کی موجودہ تقسیم سے پہلے کا نقشہ)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ

مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ محمد روح الامین میوربھنجی       مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی سرزمینِ بہا...