جمعرات، 1 ستمبر، 2022

کرامت علی کرامت (1936–2022ء): حیات و خدمات

کرامت علی کرامت (1936–2022ء): حیات و خدمات


محمد روح الامین میُوربھنجی

    اگر ہم اڈیشا کے اردو ادب کا مطالعہ کرتے ہیں تو کرامت علی کرامت کا نام نمایاں نظر آتا ہے، انھیں اڈیشا میں اردو ادب کی آبرو تصور کیا جاتا ہے، جب جب اڈیشا میں اردو ادب کی خدمات کا ذکر کیا جائے گا تب تب یقیناً کرامت علی کرامت کی خدمات کا ذکر آئے گا، وہ بیک وقت ایک نظم نگار و غزل گو شاعر تھے تو ذی علم مصنف و ادبی ناقد بھی، تجزیہ نگار تھے تو ترجمہ نگار بھی، ریاضی داں تھے تو عروض شناس بھی، محقق تھے تو سائنس داں بھی، بڑے ہو کر بھی چھوٹوں کی حوصلہ افزائی کرنے والوں اور انھیں تھپکی دے کر آگے بڑھاوا دینے والوں میں سے تھے، انھیں اردو تنقید میں ”اضافی تنقید“ کا بانی کہا جاتا ہے، وہ ”جدیدیت“ کے بجائے ”صالح اور صحت مند جدیدیت“ کے محرک و علمبردار تھے، ان کی شاعرانہ و ادیبانہ حیثیت کا اعتراف فراق گورکھپوری، احتشام حسین، آلِ احمد سُرور، خواجہ احمد فاروقی، جمیل مظہری، گلزار دہلوی، عبد القوی دسنوی، جوگندر پال، کاوش بدری، بیکل اتساہی، ندا فاضلی، مرزا خلیل احمد بیگ، وزیر آغا، بلراج کومل، وارث علوی، قمر رئیس، علیم صبا نویدی، سلیم شہزاد، افتخار امام صدیقی، وہاب اشرفی جیسے شعرا و ادبا نے کیا ہے۔ ادبی تنقید اور شاعری میں ہند و پاک ہر دو جا ان کا شہرہ وچرچا تھا؛ غرضے کہ سرزمین اڈیشا کے اہل ادب کی کلاہ افتخار بھی تھے اور ان کے آفتاب و ماہتاب بھی۔ میری کیا بساط کہ ان پر تبصرہ کروں؛ البتہ ان کی زندگی کے گوشوں سے پردہ کشائی نہیں؛ بلکہ اس کی ادنی جلوہ نمائی کرسکوں تو یہی میرے لیے سعادت و خوش نصیبی کی بات ہوگی، ان کی زندگی پر تحقیقی مقالے بھی لکھے گئے تو ان کی حیات و خدمات پر کتابیں بھی لکھی جا چکیں، میں نے بس اتنی کوشش کی کہ ان کی حیات و خدمات پر مختلف کتابوں میں بکھرے ہوئے مواد سے بعض اہم چیزوں کو یکجا کر دیا۔ کرامت علی کرامت کی حیات و خدمات پر مندرجۂ ذیل کتابوں سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے: (1) کرامت علی کرامت: ایک مطالعہ از افتخار امام صدیقی، مدیر شاعر ممبئی، (2) تاریخ ادب اردو حصہ دوم از ڈاکٹر وہاب اشرفی، (3) اڑیسہ میں اردو از ڈاکٹر حفیظ اللّٰہ نیولپوری، (4) آب خضر (شعرائے اڑیسہ کا انتخابِ کلام مع تذکرہ) از کرامت علی کرامت، (5) مقدمۂ شاخ صنوبر از ڈاکٹر حفیظ اللّٰہ نیولپوری، (6) سوانحی خاکۂ مصنف: گلکدۂ صبح و شام، (7) بیاض رحمت، مرتب: خاور نقیب، (8) اردو ادب کا کوہ نور از ڈاکٹر عزیز الرحمن و عبد المتین جامی، (9) حرف برہنہ از پروفیسر عنوان چشتی، (10) تنقیدی دبستان از ڈاکٹر سلیم اختر۔  بحمد اللّٰہ سب سے پہلے میں نے یہ مضمون لکھ کر خود کرامت صاحب سے ان کی وفات سے تقریباً ایک ہفتہ پہلے نظر ثانی کروائی تھی، مضمون دیکھ کر انھوں نے بہ ذریعہ موبائل بندہ کی بہت حوصلہ افزائی فرمائی تھی، پھر بندہ نے وہ مضمون آن لائن بھی شائع کروایا تھا، نیز ان پر اردو ویکیپیڈیا پر باحوالہ مضمون لکھا تھا۔ 

    ولادت و خاندان
    کرامت علی کرامت 23 ستمبر 1936ء بہ روز چہار شنبہ، اڑیا بازار، کٹک، اڈیشا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد رحمت علی رحمت ماہر ریاضیات، اردو کے صاحب طرز انشاپرداز اور بلند فکر شاعر تھے۔

    تعلیمی لیاقت
   کرامت علی کرامت کی رسم بسم اللّٰہ 11 جنوری 1941ء کو ہوئی تھی۔ انھوں نے قرآن کریم اور اردو کی ابتدائی تعلیم حافظ سید محمد کاظم سونگڑوی سے پڑھی، فارسی اپنے والد رحمت علی رحمت سے پڑھی، اس کے بعد جدومنی رتھ نامی ٹیوٹر کے ذریعے اڑیا زبان و ادب اور علم حساب و علم ہندسہ میں پختگی پیدا کی۔ اپنے والد سے بھی اس سلسلے میں استفادہ کرتے رہے، نیز ان کے والد انھیں بچپن ہی سے مجاہدینِ آزادی اور مشاہیرِ علم و ادب کے سوانحی حالات سنایا کرتے تھے اور راونشا کالجیٹ اسکول میں تعلیم کے زمانے میں ان کے والد رحمت علی رحمت (1891ء–1963ء) اپنے یک سالہ جونیئر ساتھی نیتاجی سبھاش چندر بوس (1897ء–1945ء) کے واقعات جوش و خروش کے ساتھ سنایا کرتے تھے، اڑیا بازار، کٹک سے گزرتے ہوئے انھیں بتاتے کہ یہ نیتاجی کی جائے پیدائش ہے۔ ایک بات قابل ذکر ہے کہ نیتاجی اور ان کے والد (رحمت علی رحمت) اپنے اپنے کلاس میں اول پوزیشن لایا کرتے تھے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہونے کے بعد ان کے والد نے اولاً درجۂ نہم کے لیے کھلی کوٹ کالجیٹ اسکول، برہم پور میں داخلہ کروا دیا، مقامی زبان کے طور پر اڑیا اور کلاسیکی زبان کے طور پر فارسی لے لی، 1952ء میں راونشا کالجیٹ اسکول، کٹک سے اول ڈویژن کے ساتھ میٹرک کیا، جہاں انھوں نے اڑیا اور فارسی کے بجائے اردو اور فارسی کا انتخاب کر لیا تھا، ء میں راونشا کالج (موجودہ راونشا یونیورسٹی)، کٹک سے درجۂ اول کے ساتھ آئی ایس سی (انٹرمیڈیٹ) کا امتحان پاس کیا۔ 1956ء میں راونشا کالج سے بیچلر آف سائنس کیا۔ 1958ء میں راونشا کالج سے ریاضیات میں درجۂ اول کے ساتھ ماسٹر آف سائنس کیا اور درجۂ اول آنے کی بنا پر انھیں طلائی تمغہ حاصل ہوا۔

     ذاتی زندگی
    23 مئی 1959ء کو قصبۂ تلپاٹک کے عبد الرفیق خاں کی دوسری صاحب زادی زبیدہ خاتون سے ان کا نکاح ہوا تھا، جن سے چار اولاد ہوئی۔ ایک فرزند قطب کامران اور تین بیٹیاں صنوبر سلطانہ، در شہوار اور رفیعہ رباب۔ جنوری 2005ء میں کرامت نے اپنی اہلیہ کے ساتھ حج بیت اللہ کا شرف حاصل کیا اور 26 جنوری 2020ء کو ان کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا۔

   تدریسی خدمات
  1958ء میں شری کرشن چندر گج پتی کالج، پارلہ کھمنڈی، ضلع گج پتی، اڈیشا میں شعبۂ ریاضیات کے عارضی لیکچرر رہے۔ 1959ء میں راونشا کالج، کٹک میں شعبۂ ریاضیات کے مستقل لیکچرر مقرر ہوئے۔ 1969ء تا 1979ء سندر گڑھ کالج، سندر گڑھ میں شعبۂ ریاضیات کے ریڈر و صدر رہے۔ 1979ء تا 1980ء کیندرا پاڑہ کالج، کیندرا پاڑہ کے پرنسپل رہے۔ 1980ء تا 1982ء بخشی جگ بندھو بدھیادھر کالج، بھوبنیشور اور شیلابالا ویمنز کالج، کٹک کے صدر شعبۂ ریاضیات رہے۔ 1982ء تا 1984ء راونشا کالج، کٹک کے وائس پرنسپل رہے۔ 1986ء میں کھلّی کوٹ آٹونومس کالج، برہم پور (موجودہ کھلی کوٹ یونیورسٹی) میں ریاضیات کے پروفیسر بنے اور 1990ء تا 1991ء اسی کالج کے پرنسپل رہے۔ 1991ء تا 1995ء سروس سلیکشن بورڈ و ڈپارٹمنٹ آف ہائر ایجوکیشن، بھوبنیشور کے چیئرمین رہے۔ 30 جون 1995ء کو سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔

    ادبی و دستاویزی خدمات
  کرامت علی کرامت کے والد مولوی رحمت علی رحمت ایک ریاضی داں اور شاعر تھے، جس کی وجہ سے کہا جا سکتا ہے کہ ادب و ریاضی کا ذوق انھیں ورثہ میں ملا، ان کے والد بچپن میں ہی انھیں بزم ادب کٹک کے مشاعروں میں شرکت کے لیے لے جایا کرتے تھے، ان کی ادبی زندگی کا آغاز زمانۂ طالب علمی ہی سے ہو چکا تھا، ان کے شعر و سخن کے استاذ ان کے والد رحمت علی رحمت اور امجد نجمی (1899ء - 1974ء) تھے، بقول کرامت علی کرامت؛ امجد نجمی نے انھیں سائنس داں سے اردو کا ایک ادیب بنا دیا۔ عروضی نکات راونشا کالج کے زمانۂ تعلیم میں سید منظر حسن دسنوی (1914ء - 1991ء) سے سیکھے تھے؛ لیکن مظہر امام (1928ء - 2012ء) کے آل انڈیا ریڈیو کے ٹرانس میشن ایگزیکیوٹِو کی حیثیت سے کٹک کے زمانۂ قیام (1958ء تا 1962ء) میں کرامت علی کرامت کو ان کے بصیرت افروز مشوروں سے علم و ادب خصوصاً نثر نگاری میں خوب فائدہ ہوا اور مظہر امام ہی کی تحریک پر کرامت نے 1963ء میں ”آب خضر“ کے نام سے شعرائے اڑیسہ کے انتخاباتِ کلام کو ان کے مختصر تذکرہ کے ساتھ مرتب و جمع کرکے انھیں عالم کے سامنے روشناس کرنے کا کام کیا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ 1972ء میں ”شعاعوں کی صلیب“ کے نام سے شائع ہوا، دوسرا شعری مجموعہ 2006ء میں ”شاخ صنوبر“ کے نام سے اور تیسرا شعری مجموعہ 2016ء میں ”گلکدۂ صبح و شام“ کے نام سے شائع ہوا۔

   دو ماہی شاخسار کا اجرا
   مئی 1965ء میں شب خون کی اشاعت سے سال بھر قبل کرامت علی کرامت نے ”صالح اور صحت مند جدیدیت“ کے ترجمان کے طور پر کٹک سے ”شاخسار“ کے نام سے ایک دو ماہی رسالہ جاری کرکے زمام ادارت اپنے استاذ امجد نجمی کے حوالے کر دیا تھا، جس کا پہلا شمارہ جون - جولائی 1965ء کو اور آخری شمارہ مئی 1973ء کو شائع ہوا تھا۔ اردو ادب میں شاخسار کی خدمات پر ”کنٹربیوشن آف شاخسار ٹو اردو لٹریچر“ کے موضوع پر سلمان راغب نے مقالہ لکھ کر اتکل یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا ہے۔ اس رسالے نے ابتدائی طور پر اپنے مختصر عرصے میں ہی اڈیشا کی ادبی دنیا کو ہند و بیرون ہند کی اردو دنیا سے منسلک و متعارف کرانے میں مرکزی رول ادا کیا ہے۔

    ادبی تنقید
   1969ء تا 1979ء کرامت کی ادبی و تخلیقی سرگرمیوں کا سنہرا دور سمجھا جاتا ہے۔ اس زمانے میں کرامت نے خوب تنقیدی مضامین لکھے اور صبحِ نو پٹنہ، شاعر ممبئی، نگار لکھنؤ، نیا دور، لکھنؤ اور شاخسار، کٹک جیسے کئی مقتدر ادبی رسائل میں موضوعِ بحث بنے رہے۔ ان کا پہلا تنقیدی مضمون بہ عنوان ”مجاز کی غنائیت “ صبحِ نو، پٹنہ کے جنوری 1959ء کے شمارہ میں شائع ہوا تھا۔ 1977ء میں ان کا پہلا تنقیدی مجموعہ ”اضافی تنقید“ کے نام سے شائع ہوا اور دوسرا تنقیدی مجموعہ 2009ء میں ”نئے تنقیدی مسائل اور امکانات“ کے نام سے شائع ہوا۔ کرامت علی کرامت اور شمس الرحمن فاروقی کے درمیان عرصۂ دراز تک شعریات اور بوطیقا سے متعلق ادبی و تنقیدی معرکہ جاری رہا ہے، جو اوراق لاہور سے شروع ہو کر تحریک دہلی کے متعدد شماروں سے ہوکر شاخسار کٹک کے ایک شمارے پر ختم ہوا۔ یہاں ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ باہمی فکری اختلافات کے باوجود کرامت و فاروقی میں تعلقات و مراسم خاصے اچھے تھے اور دونوں ایک دوسرے کی قدر کرتے تھے۔

   کرامت کی اضافی تنقید کا جائزہ
    ان کی تحریروں میں سائنسی علوم، نفسیات، تحلیل نفسی، تقابلی ادبیات و لسانیات، صوتیات، اسلوبیات، شعریات اور رد تشکیل وغیرہ کی تکنیک استعمال ہوتی ہے اور ان کے اخذ کردہ نتائج معروضی ہوتے ہیں، اس وجہ سے وزیر آغا نے ان کی تنقید کو ”امتزاجی تنقید“ کے ذیل میں رکھا، سلام سندیلوی (متوفی: 2000ء) انھیں ”نفسیاتی نقاد“ قرار دیتے تھے اور ابن فرید نے ان کی تنقید کو ”بین علومی مطالعہ“ سے منسوب کیا۔ مگر بقول امجد نجمی کرامت شعری تنقید میں ”نظریۂ اضافیات“ کے بانی ہیں۔ حفیظ اللہ نیولپوری کے مطابق؛ شعریات، تخلیقی عوامل اور ترسیل وابلاغ کے مسائل پر مبنی کرامت کا مضمون ”شعری تنقید میں اضافیات“ اساسی اور کلیدی مضمون کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے ریاضیات، شماریات، سائنس، علم النفس، جدید علم فلسفہ اور فنون لطیفہ کے اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے ادب میں ایک ایسا نظریۂ اضافیات پیش کیا ہے، جس سے فریڈرک البرٹ پوٹل [Frederick Albert Pottle] (متوفی:1897ء) کی کتاب دی اِیڈیَم آف پویٹری (مطبوعہ:1946ء) میں موجود نظریۂ ”ریلیٹو کریٹیسیزم“ کو توسیع ملتی ہے؛ لیکن دونوں کے نظریوں میں فرق یہ ہے کہ پوٹل نے شاعری کو مطلق اور تنقید کو اضافی قرار دیا تھا اور کرامت نے شاعری اور تنقید دونوں کو اضافی قرار دیا ہے۔ سعید رحمانی اردو دنیا کے ستمبر 2021ء کے شمارہ میں فن تنقید پر کرامت کا نظریہ نقل کرتے ہیں: ’’زمانے کے ساتھ ساتھ انسان کے علوم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور ان علوم کا اثر ناقدین کے تنقیدی شعور پر بھی پڑتا ہے۔ جس وقت شاعری اپنے فن کی قبا میں زندگی کے نئے مسائل کو جذب کرلینے کی کوشش کرتی ہے، اس وقت فنِ تنقید کو بھی اپنا پیمانہ بدلنا ضروری ہوجاتا ہے۔ ایک ناقد کا فرض تنقید کو روکنا نہیں؛ بلکہ پرانی قدروں کی جگہ نئی قدروں کو پیش کرنا ہے۔ چونکہ انسان کا ذہن و شعور ارتقا پسند ہے اس لیے کسی بھی تنقیدی اصول کو حرفِ آخر تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
   
    شاعری
   کرامت کی شاعری غزل اور نظم دونوں صنف کو محیط ہے۔ انھوں نے پہلی غزل 15 فروری 1953ء میں اور پہلی نظم 31 دسمبر 1954ء میں کہی تھی۔ پروفیسر عنوان چشتی کے مطابق کرامت نے شاعری کی صالح روایات کی توسیع کی راہ اختیار کی ہے، ان کی ذہنی تربیت اگرچہ روایتی نہج پر ہوتی ہے؛ مگر وہ روایتوں کے اسیر نہیں ہیں، ان کی شاعری میں ”عصری آگہی“ کا رنگ و آہنگ بھی ہے، اور یہ رنگ و آہنگ دو طرح سے ظاہر ہوا ہے، ایک سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو شعور کا حصہ بنا کر پیش کرنے کی صورت میں، دوسرے خوابوں اور حقیقتوں کے تصادم کے اثرات کی شکل میں، نیز انھوں نے سائنس کی فتوحات کا رزمیہ نہیں لکھا ہے، ان پر منظوم بیان بھی نہیں دیا ہے؛ بلکہ انھوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو شعور کا جزو بناکر اس کا تخلیقی اظہار کیا ہے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ 1972ء میں ”شعاعوں کی صلیب“ کے نام سے شائع ہوا، دوسرا شعری مجموعہ 2006ء میں ”شاخ صنوبر“ کے نام سے اور تیسرا شعری مجموعہ 2016ء میں ”گل کدۂ صبح و شام“ کے نام سے شائع ہوا۔ ایس سجاد بخاری کے مطابق؛ کرامت آزاد غزل گو فنکاروں کے پہلے طبقہ سے تعلق رکھتے تھے اور انھوں نے ابتدائی دور میں آزاد غزل کو بھی استحکام بخشا۔ علیم صبا نویدی کے مطابق کرامت نے ہندوستان میں آزاد غزل گوئی کی ایک پوری تحریک چلائی تھی۔ وہاب اشرفی تاریخ ادب اردو جلد دوم صفحہ نمبر 1100 و 1101 میں لکھتے ہیں: ”بحیثیت شاعر اور نقاد کرامت علی کرامت کی ادب میں ایک مخصوص جگہ ہے۔ علم ریاضی سے ان کی وابستگی نے ان کی تنقید کو ایک نیا ڈائمنشن بخشا ہے۔“

    ترجمہ نگاری
    اپنے زمانۂ شباب ہی میں کرامت نے یہ سلسلہ شروع کر دیا تھا کہ مختلف اڑیا مضمون نگاروں اور شاعروں کی اڑیا مضامین یا شاعری کا اردو میں ترجمہ کرکے اردو و اڑیا زبان و ادب کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے اور انھیں باہم قریب لانے کی جدوجہد کی، اسی سلسلے میں انھوں نے سب سے پہلے پروفیسر بِدوبھوشن داس کے مضمون کا اردو ترجمہ کیا، جسے نیاز فتح پوری نے اوائل 1962ء میں نگار، لکھنؤ میں شائع کیا تھا۔ گیان پیٹھ انعام یافتہ اڑیا شاعر سیتا کانت مہاپاتر کی نظموں کا ”لفظوں کا آسمان“ کے نام سے منظوم اردو ترجمہ کیا، جسے 1984ء میں مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی نے مالک رام کے تعارف اور وزیر آغا کے پیش لفظ کے ساتھ شائع کیا، وزیر آغا نے مذکورۂ بالا کتاب پر پیش لفظ لکھتے ہوئے یہ الفاظ رقم کیے ہیں: ”اردو والوں کو ڈاکٹر کرامت علی کرامت کا ممنون ہونا چاہیے کہ انھوں نے سیتا کانت مہاپاتر کی نظموں کو اردو میں منتقل کرکے اردو زبان کو ایک نئے ذائقے سے آشنا کردیا۔“

    سیتا کانت ہی کی اڑیا نظموں کے مجموعہ ”شبدر آکاش“ کا؛ ”لفظوں کا آکاش“ کے نام سے منظوم اردو ترجمہ کیا، جسے ساہتیہ اکیڈمی، نئی دہلی نے 2000ء میں شائع کیا اور اسی کتاب کے لیے ساہتیہ اکیڈمی ہی کی طرف سے 23 اگست 2005ء کو گوپی چند نارنگ کے ہاتھوں حیدرآباد کی ایک تقریب میں ساہتیہ اکادمی ٹرانسلیشن پرائز برائے 2004ء سے نوازا گیا، انھوں نے سیتا کانت مہاپاتر کے علاوہ سچی راؤت رائے، چنتا منی بہرا، رماکانت رتھ، سوریندر باریک، برہموتری مہانتی، پرتیبھا شت پتی، نرنجن پاڑھی، لکشمی نارائن مہاپاتر جیسے شاعروں کی شاعری اور سریندر مہانتی، منوج داس، گوپی ناتھ مہانتی، رام چندر بہرا جیسے بلند پایہ افسانہ نگاروں کے افسانوں کا بھی اردو میں ترجمہ کیا۔ انھوں نے اڑیا زبان و ادب کے موضوع پر ”اڑیا زبان و ادب - ایک مطالعہ“ کے نام سے ایک کتاب لکھی، جسے 2020ء میں اڈیشا اردو اکیڈمی نے شائع کیا۔

      شمس الرحمن فاروقی 20 اپریل 2009ء کو گوپی ناتھ مہانتی میموریل کے زیر انتظام کے بھوبنیشور میں منعقد پروگرام میں اپنے پیش کردہ مقالے [The Eighteenth Gopinath Mohanty Memorial Lecture] میں یہ جملے کہتے ہیں:
“My indefatigable friend Karamat Ali Karamat, in addition to being a fine Urdu poet and critic, is also a tireless translator.”

(ترجمہ: میرے بے حد محنتی دوست کرامت علی کرامت اردو کے بہترین شاعر اور نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انتھک مترجم بھی ہیں۔)

    کرامت کی اردو شاعری کے انگریزی و اڑیا ترجمے
    1990ء میں اے رسل نے خود کرامت کے ساتھ مل کر ”دی اسٹوری آف دی وے اینڈ ادر پویمز “ کے نام سے کرامت کی اردو شاعری کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ جینت مہاپاتر اور دوسروں نے 2012ء میں ”سلیکٹڈ پویمز آف کرامت علی کرامت“ کے نام سے چند اور اردو نظموں کا انگریزی ترجمہ مرتب کیا، جسے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی نے کتابی شکل میں شائع کیا۔ اسی طرح ایلزبتھ کورین مونا نے ”گوڈ پارٹیکل اینڈ ادر پویمز“ کے نام سے کرامت کی اردو شاعری کا انگریزی میں ترجمہ کیا، جو 2021ء میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سے شائع ہوا۔ ان انگریزی ترجموں کو ملک راج آنند، جاوید اقبال ابنِ ڈاکٹر علامہ اقبال، تارا چرن رستوگی، شیو کے کمار، پانس ڈی بارڈس، آزاد گلاٹی، نریندر پال سنگھ، سکریتا پال کمار، یو اَتریا شرما وغیرہ نے بے حد سراہا ہے۔ اسی طرح انور بھدرکی نے ”اِکانت رو سورو“ (تنہائی کی چیخ) کے نام سے ان کی اردو نظموں کا اڑیا ترجمہ کیا ہے، جس کا پیش لفظ گیان پیٹھ اعزاز یافتہ اڑیا فکشن نگار پرتیبھا رائے نے لکھا ہے۔

    کتابوں کی ترتیب و تدوین
    انھوں نے انفرادی یا مشترکہ طور پر بہت سے اردو شعرا کے شعری مجموعوں کو بھی مرتب کیا، جیسے: امجد نجمی کے شعری مجموعوں کو ”طلوع سحر“، ”جوئے کہکشاں“ اور ”کلیاتِ امجد نجمی“ کے نام سے، عبد المتین جامی کے شعری مجموعہ کو ”نشاطِ آگہی“ کے نام سے اور علیم صبا نویدی کی نعتیہ شاعری اور اس پر تجزیاتی مضامین کو ”نعت نبی میں نئی جہتیں“ اور ”علیم صبا نویدی کی نعتیہ شاعری“[نوٹ 1] کے نام سے مرتب کیا۔ نیز خاور نقیب نے ”آوازِ جارا سؤرا“ کے نام سے سیتا کانت مہاپاتر کی فارسی و اردو ترجموں پر مشتمل ایک کتاب مرتب کی، جس میں کرامت علی کرامت کے منظوم ترجمے بھی شامل ہیں۔ ظفر ہاشمی (متوفی: 1999ء) کی غیر مطبوعہ کتاب ”آزاد غزل - ایک تجربہ“ کے ناقابل استفادہ نسخہ کی تصحیح و نظر ثانی کی، جسے 2016ء میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی نے شائع کیا۔

     ان کے علاوہ کرامت علی کرامت کی مزید کئی کتابیں وفات سے قبل زیر طبع تھیں، جن میں ”تنقیدی قوس و دائرہ“، ”مشاہیر کے خطوط کرامت علی کرامت کے نام“ اور  ”نگارشاتِ کرامت علی کرامت “ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

     ادبی تلامذہ
    یوں تو کرامت علی کرامت سے استفادہ کرنے والوں میں اڈیشا و بیرون اڈیشا کے بہت سے شعرا و ادبا شامل ہیں؛ مگر جن تلامذہ سے انھیں مستقبل میں امیدیں وابستہ ہیں، ان میں عبد المتین جامی، خاور نقیب، اولاد رسول قدسی، قطب کامران (ابن کرامت علی کرامت)، قدرت علی قدرت، شمس الحق شمس، عاجز سونگڑوی، ہما رونق، ناصر فراز، مطلوبہ نشاط، نسرین نکہت، مطیع اللہ نازش، منیزہ آفریں، مجیب پرواز، خنجر غازی پوری، جعفر دانش وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں بھی خوب استفادہ کرنے والوں میں عبد المتین جامی و خاور نقیب قابل ذکر ہیں۔

     انعامات و اعزازات
    ان کی کتاب ”لفظوں کا آکاش“ کے لیے انھیں 23 اگست 2005ء کو گوپی چند نارنگ، سابق صدر ساہتیہ اکادمی کے ہاتھوں حیدرآباد کی ایک تقریب میں ساہتیہ اکادمی ٹرانسلیشن پرائز برائے 2004ء سے نوازا گیا اور اسی کتاب کے لیے 2005ء میں بہار اردو اکیڈمی نے بھی انعام سے نوازا۔ 1973ء میں شعاعوں کی صلیب کے لیے، 1978ء میں اضافی تنقید کے لیے اور 2007ء میں شاخ صنوبر کے لیے انھیں یوپی اردو اکادمی اعزاز سے نوازا گیا، 1989ء میں ان کی مجموعی خدمات کے لیے اڈیشا اردو اکادمی اعزاز سے نوازا گیا، نیز 2012ء میں نجمی اکادمی اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ 1985ء میں انھیں آل انڈیا میر اکادمی، لکھنؤ کی طرف سے میر اکادمی اعزاز ”امتیازِ میر“ سے نوازا گیا۔ اڈیشا میں علم ریاضی کی تدریس اور تصنیف و تالیف کے سلسلے میں مجموعی خدمات کے لیے 2009ء میں اڈیشا متھمیٹکل سوسائٹی نے اعزازت سے نوازا۔ ان سب کے علاوہ اردو اور اڑیا کے بہت سے نجی اداروں کی طرف سے انھیں اعزازات سے نوازا گیا۔ ان کا تنقیدی مجموعہ ”اضافی تنقید“ کئی یونیورسٹیوں میں ایم اے (اردو) کے نصاب کے حوالجاتی کتب میں شامل رہا ہے۔

    کرامت پر پی ایچ ڈی یا ان پر لکھی گئی کتابیں 
   رانچی یونیورسٹی کی طرف سے ڈاکٹر وہاب اشرفی (1936ء تا 2012ء) کے زیر نگرانی ”کرامت علی کرامت کا فکر و فن“ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھنے پر ڈاکٹر عزیز الرحمن کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی۔  2012ء میں افتخار امام صدیقی، مدیر شاعر ممبئی نے ”کرامت علی کرامت: ایک مطالعہ“ کے نام سے کرامت علی کرامت کی ”شاعر“ میں شائع تحریروں کے علاوہ صاحبِ تذکرہ کے حالات، ان سے متعلق دیگر مضامین جمع کر دیے، نیز اس کتاب میں صفحہ نمبر 279 تا 288؛ کرامت علی کرامت کے تخلیقی اشاریے بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر عزیز الرحمن اور عبد المتین جامی نے مشترکہ طور پر ”اردو ادب کا کوہ نور، کرامت علی کرامت“ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے، جسے اڈیشا اردو اکادمی، بھوبنیشور نے 2022ء میں شائع کیا ہے۔ شاخسار، کٹک میں لکھے گئے کرامت علی کرامت کے جتنے اداریے اور تبصرے تھے، انھیں انشا پبلیکیشنز، کولکاتا نے ”شاخسار کے اداریے اور تبصرے“ کے نام سے شائع کیا تھا۔

    پی ایچ ڈی اسکالر کی نگرانی
    اتکل یونیورسٹی کی طرف سے اردو اور ریاضی کے شعبوں میں پی ایچ ڈی ڈگری کے لیے ریسرچ اسکالروں کی نگرانی بھی فرماتے تھے، کئی حضرات نے ان کے زیر نگرانی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، ریاضیات میں پی ایچ ڈی کرنے والوں میں ڈاکٹر باسنتی راؤت، ڈاکٹر سلمیٰ خان، ڈاکٹر دانش علی خاں اور آں جہانی ڈاکٹر سنیہہ لتابہورا شامل ہیں۔ اردو ادب میں پی ایچ ڈی حاصل کرنے والوں کے نام اور ان کے موضوعات یہ ہیں: (1) اردو اور اڑیا کے ترقی پسند فکشن کا تقابلی مطالعہ: ڈاکٹر شیخ مبین اللّٰہ، (2) اردو اور اڑیا کی جدید شاعری کا تقابلی مطالعہ (1960ء – 1980ء): ڈاکٹر کشور جہاں، (3) نذیر احمد کے اردو ترجمۂ قرآن کا تجزیاتی مطالعہ: ڈاکٹر نسیمہ آرا نکہت۔ 

    نیز ڈاکٹر حفیظ اللّٰہ نیولپوری نے کرامت علی کرامت کے زیر نگرانی نہ سہی؛ مگر انھیں کی تحریک پر 1984ء میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے ڈاکٹر محمد حسن (متوفی: 2010ء) کے زیر نگرانی ”اڑیسہ میں اردو“ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ پیش کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی، جسے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی نے 2003ء میں کتابی شکل میں شائع کیا۔

   ادارتی وابستگی اور ذمہ داریاں
   اڈیشا اردو اکیڈمی، اردو لائبریری آف اڈیشا اور نجمی اکیڈمی، اڈیشا کے بانی مبانیوں میں سے تھے۔ شاخسار کٹک، نئی شناخت کٹک، ترویج سونگڑہ، نورِ جنوب چنئی اور فروغِ ادب، بھوبنیشور سے ادارتی وابستگی تھی اور اڈیشا میں ابتدائی سطح سے ثانوی سطح کے لیے اردو کی نصابی کتابوں کی تالیفی کمیٹیوں کے رکن تھے۔ اڈیشا متھمیٹکل سوسائٹی کے تاعمر رکن رہے۔ نیز مختلف یونیورسٹیوں، +2 کاؤنسلوں اور سکنڈری بورڈوں کی مختلف کمیٹیوں سے وابستہ تھے۔

    ”رینڈم پولینومیلز“ میں کرامت کے ریاضیاتی تحقیقی نتائج 
    ان کے اس تحقیقی مقالے کو ریاستہائے متحدہ امریکا کے مشہور ریاضی داں پروفیسر البرٹ ٹرنر بھاروچہ ریڈ (1927ء تا 1985ء) نے اس قدر پسند کیا کہ کرامت کے تحقیقی نتائج کو اپنی کتاب ”رینڈم پولینومیلز“ میں شامل کیا، بھاروچہ ریڈ کی وہ کتاب اکیڈمک پریس، نیویارک، ریاستہائے متحدہ امریکا سے شائع ہوئی اور ہند و بیرون ہند یورنیورسٹیوں کے ایم فل کے نصاب میں داخل ہے۔ ریاضی پر لکھی گئی ان کی کئی کتابیں اڈیشا کے ثانوی اور اعلیٰ ثانوی تعلیم کی نصاب کا حصہ رہی ہیں۔

     وفات
     کرامت علی کرامت کا انتقال 5 اگست 2022ء بہ روز جمعہ کٹک میں ہوا اور 6 اگست کو قدم رسول، درگاہ بازار، کٹک میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور وہیں پر تدفین عمل میں آئی۔

   تصانیفِ کرامت ایک نظر میں
  کرامت کی مدون کی ہوئی اور مرتب کردہ کتابوں کے علاوہ مختلف اصناف میں مندرجۂ ذیل کتابیں شامل ہیں: سوانح و تاریخ میں ”آبِ خضر - شعرائے اڑیسہ کا انتخابِ کلام مع تذکرہ“ (1963ء)، ماہرِ اقبالیات: شیخ حبیب اللّٰہ (2019ء) اور ”اڑیا زبان و ادب - ایک مطالعہ“ (2020ء) شامل ہیں۔ تنقیدی و تجزیاتی مجموعوں میں ”اضافی تنقید“ (1977ء)، ”نئے تنقیدی مسائل اور امکانات“ (2009ء) اور ”میرے منتخب پیش لفظ (تنقید و تجزیہ)“ (2021ء) شامل ہیں۔ شعری مجموعوں میں ”شعاعوں کی صلیب“ (1972ء)، ”شاخ صنوبر“ (2006ء) اور ”گل کدۂ صبح و شام“ (2016ء) شامل ہیں۔ منظوم ترجموں میں ”لفظوں کا آسمان“  (1984ء)، ”لفظوں کا آکاش“ (2000ء) اور مشترکہ طور پر ”آوازِ جارا سؤرا“ شامل ہیں۔ کرامت پر لکھی گئی کتابوں میں ”کرامت علی کرامت: ایک مطالعہ“ (2012ء؛ افتخار امام صدیقی) اور ”اردو ادب کا کوہ نور کرامت علی کرامت“ (2022ء؛ عزیز الرحمن عزیز و عبد المتین جامی) شامل ہیں۔ کرامت کی اردو شاعری کے انگریزی ترجموں میں ”دی اسٹوری آف دی وے اینڈ ادر پویمز“ (1990ء؛ مترجم: اے رسل)، ”سلیکٹڈ پویمز آف کرامت علی کرامت“ (2012ء؛ مترجمین: جینت مہاپاتر و دیگر) اور ”گوڈ پارٹیکل اینڈ ادر پویمز“ (2021ء؛ مترجم: ایلزبتھ کورین مونا) شامل ہیں۔ نیز کرامت کی شاعری کا اڑیا ترجمہ انور بھدرکی نے ”اِکانت رو سورو“ (تنہائی کی چیخ) کے نام سے  کیا ہے۔

نوٹ: مزید تحقیق درکار ہو تو اردو ویکیپیڈیا پر بندہ نے باحوالہ معلومات دے رکھی ہیں۔

  اللّٰہ تعالیٰ ہمیں بھی موصوف جیسی صفات عطا فرمائے اور ہمیں بھی علمی و ادبی خدمات کے لیے قبول فرمائے۔ آمین ثم آمین

کتابیات

[الف] صدیقی، افتخار امام (2012). کرامت علی کرامت: ایک مطالعہ (شاعر کا خصوصی گوشہ اور دیگر مضامین) (ایڈیشن پہلا). لال کنواں ،دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس.
[ب] ڈاکٹر عزیز الرحمن و عبد المتین جامی (2022). اردو ادب کا کوہ نور کرامت علی کرامت (ایڈیشن پہلا). بھوبنیشور ،اڈیشا: اڈیشا اردو اکادمی.
[ج] کرامت، کرامت علی (جنوری 2016). "سوانحی خاکہ". گلکدۂ صبح و شام (ایڈیشن پہلا). لال کنواں،دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس. صفحہ 7-10.
[د] کرامت، کرامت علی (اکتوبر 2006). "مقدمہ: حفیظ اللہ نیولپوری". شاخ صنوبر (ایڈیشن پہلا). کٹک: ودیا ساگر پرنٹرز. صفحہ 9-14.
نیولپوری، حفیظ اللہ (2003). اڑیسہ میں اردو (ایڈیشن پہلا). دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان.
[ر] نقیب، خاور (2014). بیاض رحمت (ایڈیشن پہلا). دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس.
کرامت، کرامت علی (اگست 1963). "تذکرہ: کرامت علی کرامت". آب خضر (شعرائے اڑیسہ کا انتخابِ کلام مع تذکرہ) (ایڈیشن پہلا). دیوان بازار، کٹک: اڑیسہ اردو پبلشرز.

دیگر حوالہ جات

[1] راؤ، ایس. بالو (1983ء). Who's Who Of Indian Writers (بزبان انگریزی) (ایڈیشن پہلا). نئی دہلیساہتیہ اکادمی. صفحہ 283.
[2] محمد روح الامین میُوربھنجی (28 جولائی 2022ء). "کرامت علی کرامت: حیات و خدمات". قندیل آن لائن. اخذ شدہ بتاریخ 28 جولائی 2022ء.
[3] گوپی ناتھ مہانتی و دیگر (2002ء). Cultural Heritage of [Orissa] (بزبان انگریزی). بھوبنیشور: State Level Vyasakabi Fakir Mohan Smruti Samsad. صفحہ 32.
[4] ڈاکٹر مجاہد الاسلام (8 ستمبر 2018ء). "اردو تنقید: اکیسویں صدی میں". ovadhnama.com. اخذ شدہ بتاریخ 1 اگست 2022ء.
[5] وزیر آغا (1989ء). "جدید اردو تنقید کا امتزاجی اسلوب". تنقید اور جدید اردو تنقید (ایڈیشن پہلا). کراچی، پاکستان: انجمن ترقی اردو. صفحہ 243.
[6] امجد نجمی (1966ء). "نقش اول". دو ماہی شاخسار (جلد 2 - شمارہ 4)کٹک: بخشی بازار. صفحہ 2.
[7] ڈاکٹر سلیم اختر. "اضافی تنقید (Relative Criticism)". تنقیدی دبستان (ایڈیشن 1997ء). لاہور: سنگ میل پبلیکیشنز. صفحہ 32-33.
[8] ڈاکٹر حفیظ اللہ نیولپوری. "کرامت علی کرامت (تنقید)". اڑیسہ میں اردو (ایڈیشن 2003ء). نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان. صفحہ 300.
[10] کرامت علی کرامت (1977ء). "شعری تنقید میں اضافیات". اضافی تنقید (ایڈیشن پہلا). الہ آباد: اردو رائٹرس گلڈ. صفحہ 7.
[11] پروفیسر عنوان چشتی. "شعاعوں کی صلیب". حرف برہنہ (ایڈیشن مارچ 1989ء). انصاری روڈ، مظفر نگر: رنگ محل پبلیکیشنز. صفحہ 157-156.
[12] ایس سجاد بخاری. ""آزاد غزل کے فنکاروں کا تنوع"، "کرامت علی کرامت"". آزاد غزل کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ (ایڈیشن 2006ء). نئی دہلی 2: ایم آر آفسیٹ پرنٹرز. صفحہ 68 و 78.
[13] پروفیسر علیم صبا نویدی. "آزاد غزل". اردو شاعری میں نئے تجربے (ایڈیشن 2013ء). چینائی: تمل ناڈو اردو پبلیکیشنز. صفحہ 96.
[14] وہاب اشرفی (2007). "کرامت علی کرامت". تاریخ ادب اردو (جلد دوم)دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس. صفحہ 1100-1101.
[15] کرامت علی کرامت. "پیش لفظ از ڈاکٹر وزیر آغا". لفظوں کا آسمان (ایڈیشن 1984ء). جامعہ نگر، نئی دہلی: نئی آواز. صفحہ 32.
[16] شمس الرحمٰن فاروقی"The Truth of Fictions By Shamsur Rehman Farooqi" (PDF). 14 جون 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 30 جولا‎ئی 2022.
[17] احمد، نور الدین (1988ء). The Brightest Heaven (بزبان انگریزی). سوتا ہاٹ، کٹک: حُسنِ جہاں پبلیکیشنز. صفحہ iii.
[18] ہاشمی، ظفر (1993ء). "مقدمہ از کرامت علی کرامت". آزاد غزل- ایک تجربہ (تنقید و تاریخِ ادب) (ایڈیشن پہلا). دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس. صفحہ 9-24.
[19] کرامت، کرامت علی (اکتوبر 2006ء). "مقدمہ از حفیظ اللہ نیولپوری". شاخ صنوبر (ایڈیشن پہلا). کٹک: ودیا ساگر پرنٹرز. صفحہ 10.
[22] نند کشور وکرم (نومبر 2009ء). "ساہتیہ اکادمی کے اردو تراجم پر انعامات کی دستیاب تفصیل". عالمی اردو ادب (جلد 29)دہلی: عالمی اردو ادب. صفحہ 290.
[24] گوپی چند نارنگ و عبد اللطیف اعظمیہندوستان کے اردو مصنفین اور شعرا (ایڈیشن 1996ء). دہلی: اردو اکادمی. صفحہ 433.
[25] "مشہور شاعر و ادبی نقاد کرامت علی کرامت کا انتقال"baseeratonline.com. بصیرت نیوز سروس. 6 اگست 2022ء. اخذ شدہ بتاریخ 6 اگست 2022ء.
[26] "مشہور شاعر، ادیب و ناقد کرامت علی کرامت کا انتقال"qindeelonline.com. قندیل آن لائن. 6 اگست 2022ء. اخذ شدہ بتاریخ 6 اگست 2022ء.
[27] "پروفیسر کرامت علی کرامت کی رحلت سے پورا ادبی حلقہ سوگوار". روزنامہ قومی تنظیم (جلد: 62، شمارہ: 112)پٹنہقومی تنظیم. 8 محرم الحرام 1444ھ م 7 اگست 2022ء بہ روز اتوار. صفحہ 8.
[28] "پروفیسر کرامت علی کرامت کی رحلت سے پورا ادبی حلقہ سوگوار: آج (6 اگست کو) نمناک آنکھوں سے کٹک کے قدم رسول قبرستان میں سپردِ خاک". روزنامہ آگ (جلد: 17، شمارہ: 36)لکھنؤ: روزنامہ آگ. 8 محرم الحرام 1444ھ م 7 اگست 2022ء بہ روز اتوار. صفحہ 8.
[29] "پروفیسر کرامت علی کرامت داغ مفارقت دے گئے". روزنامہ اخبار مشرق (جلد: 43، شمارہ: 213)کلکتہ: اخبارِ مشرق. 7 محرم الحرام 1444ھ م 6 اگست 2022ء بہ روز سنیچر. صفحہ 8.
[30] ـ"ପ୍ରଫେସର କରାମତ୍ ଅଲ୍ଲୀଙ୍କ ପରଲୋକ (پروفیسر کرامت علی کی وفات)". ସମ୍ବାଦ (سمباد) (بزبان اڑیا). بھوبنیشور: سمباد. 6 اگست 2022ء. صفحہ 13.

نوٹ

  1. علیم صبا نویدی کی نعتیہ شاعری نامی کتاب کرامت علی کرامت نے مشترکہ طور پر ترتیب دی تھی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ

مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ محمد روح الامین میوربھنجی       مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی سرزمینِ بہا...