بدھ، 7 ستمبر، 2022

حضرت مولانا محمد جلال صاحب قاسمی (1940–2021ء): مختصر سوانحی خاکہ

حضرت مولانا محمد جلال صاحب قاسمی (1940–2021ء): مختصر سوانحی خاکہ

محمد روح الامین میُوربھنجی

       سرزمین اڈیشا کے ایک معروف جید عالم دین، مشہور قائد و رہنما، استاذ الاساتذہ، شیریں بیاں خطیب، صدر جمعیت علمائے اڈیشا (الف) اور امیر شریعت ثالث اڈیشا حضرت مولانا محمد جلال صاحب قاسمیؒ کی حیات و خدمات کا خاکہ قارئین کے پیش خدمت کرتا ہوں، بندہ کو رفیق محترم قاری رفیق احمد، فاضلِ تجوید و قرات دار العلوم دیوبند و سابق استاذ المعھد الخیری لتعلیم القرآن والسنۃ، پیر بازار، بھان پور، کٹک کے توسط سے حضرت کے صاحبزادہ قائد گلشن جلال مولانا مفتی محمد جمال قاسمی نائب مہتمم جامعہ اسلامیہ ارشد العلوم اسریسر چودہ محلہ سبلنگ کنی پاڑہ، امام و خطیب مسجد خانۂ خدا منچیشور بھوبنیشور و مہتمم المعہد الخیری لتعلیم القرآن والسنۃ کے ایماء پر مفتی سید محمد آصف نقش پوری، ناظم تعلیمات المعھد الخیری لتعلیم القرآن والسنۃ کی ترتیب کردہ کتاب تذکرۃ الجلال سے خاطر خواہ فائدہ حاصل ہوا، فجزاھم اللّٰہ خیرا۔ نیز چوں کہ چوں کہ دار العلوم دیوبند میں مولانا مرحوم کے شریکِ دورۂ حدیث ابنِ حجر ثانی حضرت مولانا حبیب الرحمن قاسمی اعظمیؒ تھے تو مولانا اعظمیؒ کے اساتذۂ دورۂ حدیث کی تفصیل مولانا مرحوم کے حالات میں شامل کر دیے۔ جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم حضرت مولانا مرحوم سے ایک سال پہلے دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے اور بلبل اڈیشا حضرت مولانا سید سراج الساجدین صاحب کٹکی رحمۃ اللّٰہ علیہ چار سال قبل دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے تھے۔

   ولادت اور تعلیم و تربیت
   مولانا مرحوم 8 ذی الحجہ 1358ھ بہ مطابق 17 جنوری 1940ء کو بدھ کے دن سبلنگ کنی پاڑہ، ضلع کٹک، اڑیسہ، برطانوی ہند (موجودہ ہندوستان) میں جناب خدا بخش مرحوم کے یہاں پیدا ہوئے۔ اصل نام محمد جلال خان تھا؛ مگر خان کے لاحقہ کے بغیر مولانا محمد جلال سے معروف ہوئے۔ مرحوم چھ سال کی عمر میں سایۂ پدری اور نو سال کی عمر میں سایۂ مادری سے محروم ہو گئے تھے، اس کے بعد آپ کی کفالت و پرورش آپ کے برادران جناب عبد المنان و جناب عبد الحنان صاحبان رحمہما اللّٰہ کے زیر سایہ ہوئی۔

    مولانا مرحوم نے اپنے گاؤں سے قریب اسریسر کے ایک سرکاری اسکول میں دسویں جماعت تک کی ابتدائی تعلیم حاصل کی، پھر مناظر اسلام حضرت مولانا محمد اسماعیل کٹکیؒ کے زیر نگرانی اپنی خداداد ذہانت و فطانت کی بنا پر صرف دو سال چار ماہ کے قلیل عرصے میں اردو کی تیسری سے شرح جامی تک کی تعلیم حاصل کر لی۔ پھر آگے کی تعلیم کے حصول کے لیے دار العلوم دیوبند پہنچے اور 1384ھ (بہ مطابق 1964ء) میں دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے، آپ نے بخاری (مکمل) فخر المحدثین حضرت مولانا سید فخر الدین احمد مرادآبادیؒ سے، ترمذی (جلد اول) حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ سے، صحیح مسلم و سنن ابنِ ماجہ حضرت مولانا بشیر احمد خان بلند شہریؒ سے، سنن ابی داؤد (مکمل) و ترمذی (جلد ثانی) حضرت مولانا سید فخر الحسن مرادآبادیؒ سے، سنن ابنِ ماجہ حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمیؒ سے، شرح معانی الآثار حضرت مولانا اسلام الحق اعظمیؒ سے، سنن نسائی حضرت مولانا شریف حسن دیوبندیؒ سے اور مؤطین (مؤطا امام مالک و مؤطا امام محمد) حضرت مولانا عبد الاحد دیوبندیؒ سے پڑھی تھیں۔

    تدریس و دیگر خدمات
  فراغت کے بعد اپنے علاقے کے لوگوں میں بدعات و رسومات کی اصلاح و تربیت اور ان کے عقائد کی درستی میں مشغول ہو گئے اور اس غرض سے اپنے ہی قریہ سبلنگ، کنی پاڑہ ہی میں جناب عبد الصمد، جناب عبد الواحد، جناب عبد سلیم صاحب رحمہم اللّٰہ اور دیگر بزرگان و دانشوران کے ہمراہ 1965ء میں مدرسہ اسلامیہ دینیہ (موجودہ نام: مدرسہ ارشد العلوم) اسریسر، چودہ محلہ، سبلنگ کا سنگِ بنیاد رکھا۔ ساتھ ہی اطراف کے گاؤں میں دینی شعور کی بیداری کے لیے سبَلکَنا ہائی اسکول، مہنگا بلاک، ضلع کٹک میں 30 سال تک اردو و فارسی کے ساتھ ابتدائی ضروری مسائل کی تعلیم میں مصروف رہے۔ اسی اثناء میں انھوں نے تحفظِ دین کی خاطر گیارہ مقدمات لڑے۔ شکر پاڑہ، اعظم محلہ میں مودودیت جڑ پکڑ رہی تھی تو اس کا قلع قمع کیا، اسی طرح مختلف سماجی و ملی خدمات میں مشغول رہے۔ اپنے استاذ مناظر اسلام مولانا محمد اسماعیل کٹکی و اکابر و معاصر علماء کے ساتھ مل کر مختلف مناظروں میں شرکت و معاونت کی۔ 2008ء میں جمعیت کی تقسیم کے بعد سے مولانا مرحوم اپنی وفات یعنی 12 فروری 2021ء تک تقریباً تیرہ سال جمعیت علمائے اڈیشا (الف) کے صدر رہ کر اڈیشا میں قوم و ملت کے تئیں دینی، سیاسی، معاشرتی اور ملی خدمات انجام دیتے رہے۔

    وفات و پس ماندگان
  30 جمادی الثانی 1442ھ بہ مطابق 12 فروری 2021ء کو سنیچر کے دن گمانڈیہ، کٹک میں اپنے منجھلے صاحب زادہ الحاج محمد کمال صاحب کے مکان میں مولانا مرحوم کا اس دارِ فانی سے دارِ بقا کی طرف انتقال ہوا اور اگلے دن اپنے ادارہ مدرسہ ارشد العلوم اسریسر، چودہ محلہ، سبلنگ کے قریب وسیع و عریض میدان میں ہزاروں کی جماعت میں مولانا کے بڑے صاحب زادہ مولانا محمد بلال صاحب قاسمی کی اقتدا میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔

  پسماندگان میں چار صاحب زادے: (1) مولانا محمد بلال صاحب قاسمی، مہتمم مدرسہ اسلامیہ ارشد العلوم، اسریسر، چودہ محلہ، (2) الحاج محمد کمال صاحب، (3) مفتی محمد جمال صاحب قاسمی، نائب مہتمم مدرسہ اسلامیہ ارشد العلوم اسریسر، امام و خطیب مسجد خانۂ خدا منچیشور، بھوبنیشور و مہتمم المعھد الخیری لتعلیم القرآن والسنۃ، پیر بازار، بھان پور، کٹک، (4) جناب محمد نوال صاحب۔ نیز چار صاحب زادیاں ہیں۔

   اللّٰہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے، ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور ہمیں بھی مرحوم کی سی خدمات انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ

مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی: مختصر سوانحی خاکہ محمد روح الامین میوربھنجی       مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی سرزمینِ بہا...